Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں |
حسنِ ادب
اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں

مذہبی نظریہ۔
ARI Id

1688708340819_56116278

Access

Open/Free Access

مذہبی نظریہ

                مذہبی نظریے کے حوالے سے وہ مذہب کو لے کر ڈٹ جانے والے انسان ہیں ان کی شاعری میں مذہبی رنگ نمایاں نظر آتاہے۔خصوصاً غزلوں میں ان کے بیشمار اشعار مذہبی تناظر میں دیکھے جاسکتے ہیں۔وہ تلمیحات کو استعمال کرتے ہیں،مذہبی عنصر کو تشبیہات اور استعارات کی مدد سے نمایاں کرتے ہیں،ان کی ذاتی زندگی ہو ،معاشرتی زندگی ہویاپھر زندگی کا کوئی بھی پہلو ہو، وہ مذہب کو اہمیت دیتے ہوئے نظرآتے ہیں۔کہیں وہ مذہب پر طنز کرتے نظر آتے ہیں تو کہیں مذہب کی تاریخ بتاتے نظر آتے ہیں اور کہیں واقعہ کی صورت میں مذہبی داستان سنانے کی جسارت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔مسلمانوں کے تاریخی مذہبی عقائدوواقعات کو بھی ناطق نے اپنی غزلوں میں پیش کیاہے۔آب زم زم کا چشمہ پھوٹنے کا پورا واقعہ انہوں نے اپنی غزلوں میں مذہبی عقائد کی نمائندگی کرتے ہوئے سنایا ہے۔ انہوں نے اپنی نظموں میں بھی مذہبی عنصر کو عروج پہ رکھا ہے۔ان کی نظمیں، جن میںمذہبی رنگ نمایاں نظرآتا ہے،درج ذیل ہیں:’’عصابیچنے والا،سفیر لیلیٰ، کلیسا، مدفن، مدینے کا قصہ،سلام وغیرہ وغیرہ ان تمام نظموں  میں مذہبی رنگ نمایاں پایا جاتاہے۔ناطق کی نظم مدینے کا قصہ سے کچھ حصہ ملاحظہ کیجیئے:

’’علی بن محمد تمہیں یاد ہو گا مدینے کا قصہ

یہی وہ مدینہ ،جسے اس کے بانی نے شہر محبت کہا تھا

یہاں اک شریفوں کا گھر

ہل اتیٰ ان کا ورثہ

شریفوں کا گھر تھا خدا کی طرف سے زمانے پہ آیت‘‘(23)

                اس نظم میں وہ مذہب کی نمائندگی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔مدینے کا قصہ سنا رہے ہیں اور نبی پاکﷺکے گھرانے کی بات کررہے ہیں۔مذہبی نظریہ کی بات کریں تو انہوں نے اپنے ناول نولکھی کوٹھی میں اس کا صحیح رنگ دکھایا ہے۔’’مولوی کرامت‘‘کے کردار کی مددسے معاشرے میں ایسا مولوی طبقہ بھی ہے،جو مذہبی پیشواؤں کو نشانہ بناتے ہیں اور اپنی ترقی کی خاطر  انگریز حکومت کے تلوے چاٹتے ہیں،اس سے پہلے تک وہ اپنے عہدے کو سمجھ ہی نہ پائے تھے۔ انہوں نے افسانوں میں بھی تابوت،کمی بھائی ، زیارت کا کمرہ اور حاجی ابراہیم میں مذہب کو موضوع بنایا ہے۔ان کے مطابق دینی پیشوا اور مولوی مذاہب کا غلط استعمال کرتے ہیں اور عوام کو گمراہ کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے۔راقمہ نے ادبی پہچان کے حوالے سے جب ناطق سے سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے ابتدا شاعری سے کی تھی اور شاعری ہی میری اصل پہچان ہے۔اگر کوئی مجھے شاعری اور نثر میں کسی ایک کو چھوڑنے کو کہے تو میں شاعری کو کبھی بھی ترک نہیں کروں گا۔موجودہ شاعری اور نثر کے حوالے سے انہوں نے اپنی رائے کا اظہار کچھ یوں کیا ہے کہ موجودہ شاعری اور نثر کے حوالے سے وہ شاعری میں زیادہ عروج دیکھتے ہیں اور اس حوالے سے انھیں اطمینان بھی ہے یعنی وہ نثر کی نسبت شاعری میں زیادہ شاعروں کو کامیاب دیکھتے ہیں۔

ناطق کے حوالے سے مختلف ادیبوں کی رائے:

                ناطق نے عصری ادب میں بہت ہی کم وقت میں شہرت کے زینوں کو پار کیا ہے۔اس بات کے بارے میں کوئی شک نہیں ہے کہ انھو ں نے عصری ادب میں صرف ایک صنف یا جہت میں نہیںبلکہ شاعری،افسانہ،ناول،مرقع نگاری،کالم نگاریاور تنقیدہر میدان میں اپنا ہنر آزمایا ہے۔بڑے بڑے نقاد اور ادیب  ناطق کے بارے میں لکھ رہے ہیں۔

                منظرنقوی تنقید کے میدان کے شہسوار ہیں۔اسلوبیات ان کا پسندیدہ موضوع ہیں لیکن وہ غضب کا شعری ذوق رکھتے ہیں۔منظر نقوی کا قلمی سرمایہ بہت وسیع ہے۔ انہوں نے نثر اور نظم دونوں  کے میدان میں  کام کیا ہے۔منظر نقوی لکھتے ہیں کہ:

’’ نو لکھی کوٹھی‘‘علی اکبر ناطق کا پہلا ناول ہے۔اس ناول نے ثابت کیا ہے کہ کلاسیک ادب کیسے لکھا جاتا ہے۔’نولکھی کوٹھی ‘‘نے آنے والے وقتوں کیلئے نہ صرف ادب کے معیار کو طے کیا ہے بلکہ ہندوستان میں انگریز راج اور پنجاب کے کلچر کو مکمل طور پر ایک نئے،مختلف اور روایتی انداز سے ہٹ کر پیش کیا ہے۔اس ناول نے ادب میں ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے۔‘‘(24)

                منظر نقوی کی یہ رائے ناطق کا ناول پڑھنے کے بعد بالکل درست ثابت ہوتی ہے  کیونکہ ناطق نے کلاسیک ادب کے معیار کو ناول میں برقرار رکھا ہے اور نولکھی کوٹھی کے ذریعے انھوں نے ادب کے معیار کی ایک نئی رائے قائم کی ہے۔

                مستنصر حسین تارڑ پاکستان کے مشہور سفر نگار،ڈرامہ نگار اور ناول نگار ہیں۔ان کی وجہ شہرت ان کے سفر نامے اور ناول ہیں۔ادیب ہونے کے علاوہ وہ  فن اداکاری سے بھی وابستہ رہے اور پاکستان کے ان ادیبو ں میں سے ہیں جنہیں سب سے زیادہ پڑھا جاتا ہے۔ناطق کے افسانوی مجموعے پر ان کی رائے کچھ یوں ہے:

’’علی اکبر ناطق ایک عجیب سالاابالی نوجوان ہے جس پر اعتبار نہیں کیا جاسکتاکہ وہ اگلے لمحے آپ کا دشمن ہو جائے یا فوراً ہی آپ کو گلے لگالے لیکن یہ طے ہے کہ افسانے،ناول یاشاعری میں اس کی صلاحیتیں بلاخیز ہیں۔اس کا افسانوی مجموعہ ’’شاہ محمد کا ٹانگہ‘‘ایسا ہے کہ اردو ادب کا ایک سراسر نیا روپ اس میں سواری کرتا نظر آتا ہے‘‘(25)

                مستنصر کی رائے کے مطابق ناطق کے فن میں واقعی ایسے ہی عناصر پائے جاتے ہیں کہ وہ ہر پل ایک نئی اڑان بھرتے نظر آتے ہیں۔وہ کب ،کہاں اور کس وقت ایک نئی فتح حاصل کر لیں کوئی نہیں جانتا۔

                فہمیدہ ریاض پاکستان کی نامور ادیبہ ،شاعرہ اور حقوق انسانی اور حوحق نسواں کیلئے کام  کرنے والی سرگرم رکن ہیں۔وہ لکھتی ہیں کہ :

’’بہت کم وقت میں ادب کا یہ نووارداہر واہل ذوق کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔دیکھیے گا کہ آپ کو نظر نہ لگے،دوسروں کی بھی اور اپنی بھی۔دوسروں کی اس لیے کہ ایسی پذیرائی دوسروں کو کہیں برسوں میں جاکر نصیب ہوتی ہے اور اپنی بھی اس لیے۔۔ہم جیسے تھکے ہارے مسافروں سے پوچھو؛قلم کا سفر کاغذ پر طویل ہوتا ہے اور کسی بھی موڑ پر یہ محسوس ہوتا رہتاہے کہ منزل تو ابھی بہت دور ہے۔(26)

                ناطق کو نظر نہ لگنے کی رائے اس لئے دے رہی ہیں کہ یہ خود ان میں سے ہیں جن کو مختلف انداز بیان پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔اردو ادب میں اپنی الگ پہچان رکھنے والے عرفان جاوید نے نہایت مختصر عرصے میں یہ مقام حاصل کیا۔ آپ کو یہ پہچان صف اول کا خاکہ نگار ہونے کی حیثیت سے ملی۔ عرفان جاوید ناطق کی ذات کو طوفان سے تشبیہ دیتے ہیں جو ہاتھ پہ ہاتھ دھر کے نہیں بیٹھ سکتا۔عرفان جاویدکہتے ہیں :

’’اگر اس کی ذات کی زرخیزی اور وفور کو ادب کی راہ نہ ملتی تو نہ جانے یہ طوفان  بلا کدھر کا رخ کرتا،تخریب کرتا یا تعمیر کرتا،کرتا ضرور کہ وہ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا نہ رہتا۔اگر اس سے پوچھا جائے کہ وہ کیا پسند کرے گاکہ آنے والے اسے کیسے یاد رکھیں، بطور ادیب یاشاعر،تو اغلب امکان ہے کہ وہ بول اٹھے گا۔۔ ’’غلام علی‘‘یہ ہمہ صفر،متلون مزاج ،سیمابی،پارہ نماآدمی اس دور میں اپنی طرز کا واحد آدمی ہے،ایک انوکھا شخص!‘‘(27)

                ناطق نے اپنے تخلیقی سفر میں دو ناول ،دو افسانہ نگاری کے مجموعے،تین نظموں اوردو غزلوں پر مشتمل کتب،ایک مجموعہ کلیات جس میں تمام نظموں کی کتب اپنے دیباچے کے ساتھ شامل ہیں۔اس کے علاوہ حال ہی میں ان کی ایک کتاب شائع ہوئی’’سفیر لیلیٰ‘‘ کے نام سے جس میں غزلیں اور نظمیں دونوں شامل ہیں۔ایک کتاب تنقید مرقع سازیاور ایک درعدالت علے کے نام سے منقبت لکھی آپ نے بے شمار کہانیاں اردو انڈپینڈینٹ سائٹ پر بھی لکھی۔اپنی اس ادبی تخلیقات سے آپ نے نہایت کم عرصے میں مقبولیت سمیٹی۔لوگوں کے دلوں میں گھر کیا،کمی کوتاہی اور زندگی کے مشکل ترین دنوں کو فن میں ڈھال کر لکھاہر صنف میں قسمت کو آزمایا۔یہ تخلیق کار کی بڑی کامیابی ہوتی ہے کہ اسے کامیابی ملتی جائے اور ان کو اپنے پہلے ہی افسانوی مجموعے پر یو بی ایل ایوارڈ بھی ملا جو ان کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

                ناطق کے چرچے غیر ملکی اخباروں میں بھی رہے۔بڑے بڑے افسانہ نگار نے کالم نگاروں نے ان کے فن پر تبصرے کیے اور اپنی رائے کا اظہار کیا۔جس کاانہوں نے خوش دلی سے استقبال کیااور اپنے فن مزید کو نکھارا۔گرانٹا جیسے بڑے ادارے میں ان کے پہلے ناول ’’نو لکھی کوٹھی‘‘ کا ترجمہ ہوا،اس کے علاوہ مزید دوسری زبانوںمیں ان کے افسانوں اورناولوں کے تراجم ہوتے رہے اور شائع بھی ہوتے رہے ہیں۔پینگوئن سے ان کی کتاب کاانگریزی ترجمہ بھی ہوچکا ہے۔ ملکی و غیر ملکی سفر کے دوران کئی ادبی پروگرامز میں حصہ لے چکے ہیں۔ وہ’’ پختہ‘‘،’’فیض میلہ‘‘ اور اس کے علاوہ ’’غالب انسٹیٹیوٹ پروگرامز ‘‘میں بھی حصہ لے چکے ہیں۔نیو یارک یونیورسٹی  میں اردو شاعری کے حوالے سے پروگرام میں شرکت کی اور انڈین پروگرامز کی صدارت بھی کر چکے ہیں۔’’مارک کانفرنس‘‘کے پروگرام میں وہ بطور چیف گیسٹ شامل رہے،وسکالسٹن یونیورسٹی میں انہوں نے ادب پر لیکچر دیے،افسانے پر بات کی اور ادب کی زندگی میں اہمیت پر روشنی ڈالی۔انہوں  نے ہر دو اصناف میں اپنی مہارت دکھائی ہے ناطق دور حاضر کے ایک مشہور ومعروف ادیب ہیں۔

                انہوں نے نہ صرف شاعری ، بلکہ نثر نگاری میں بھی شہرت حاصل کی۔وہ سماج میں موجود حقائق اور مسائل کو سامنے لے کر آتے ہیں اور اہم موضوعات پر قلم اٹھا کر نہایت دلیری سے سادہ اور عام فہم انداز میں حقائق پیش کرتے ہیں۔ وہ ایک منفرد اور سادہ انداز نگارش رکھنے والے  قلم کار ہیں۔ہرطبقے سے جڑے ہوئے مسائل و معاملات کاگہرا فہم رکھتے ہیں۔ ان کے موضوعات میں تنوع پایا جاتا ہے۔

                وہ خاندانی روایات کی پاسدای، اخلاقی اقدار، اعلیٰ طبقے کے مسائل ، متوسط طبقے کی خستہ حالی، دولت کے حرص و لالچ، الغرض تمام سیاسی، سماجی معاشرتی اور مذہبی مسائل پر قلم اٹھا کر اس کا حق ادا کرتے ہیں۔ اردو ادب میں جو چیز ناول کو داستان سے الگ کرتی ہے، اس میں حقیقت کا بیان، کرداروں کی اہمیت اور ایک مقصد کی گہرائیہے کیونکہ ناول کا تعلق حقیقت سے ہے اور اس میں ہمیں اپنی زندگی کی جھلکیاں نظر آتی ہیں اور ناطق کے ناولوں میں قاری اپنی زندگی  سے جڑے تمام مسائل کو رواں نثر کی صورت میں پڑھتا ہے اور خود کو کہانی کا حصہ سمجھتا ہے۔

٭٭٭٭٭٭٭

 

حوالہ جات

1۔            حیدر تصنیف برقی انٹرویو بازگشت .کام 2020 ء سماعت 57  :3 

۔            حیدر تصنیف برقی انٹرویو بازگشت.کام 2020 ء سماعت 4:00

3۔            ناطق ،علی اکبر،بے یقین بستیوں میں ،سٹی پریس بک شاپ،کراچی،2010ص 25

4۔            ریاض فہمیدہ ،بے یقین بستیوں میں، دیباچہ،سٹی پریس بک شاپ ،کراچی، ئ2019

5۔            ناطق، علی اکبر،یاقوت کے ورق،سٹی پریس بک شاپ،کراچی،2019ئ،ص39

6۔            سید،زیف،سرمنڈل کا  راجہ ،پیش لفظ،سانجھ پبلی کیشنز،لاہور،2014 ئ،ص10

7۔            ریاض فہمیدہ،دیباچہ،بے یقین بستیوں میں،سٹی پریس بک شاپ ،کراچی،2010 ء

8۔            فاروقی شمس الرحمن دیباچہ،سبز بستیوں کے غزال،سانجھ پبلی کیشنز،لاہور،2018 ء

9۔            ناطق،علی اکبر،سبز بستیوںکے غزال،پیش لفظ ،سانجھ پبلی کیشنز،لاہور2018 ص 11

10۔          ناطق،علی اکبر،سبز بستیوں کے غزال،سانجھ پبلی کیشنز،لاہور 2018 ئ￿ ص29

11۔          راٹھور،ارسلان احمد مضمون،سبز بستیوں کے غزال،سانجھ پبلی کیشنز،لاہور،2018 ئ،ص 81،82

12۔          ناطق ،علی اکبر،سفیر لیلی کلیات،جہلم بک کارنر،جہلم،2022ء ،ص403

13۔          اقبال ظفر ، روزنامہ دنیا ،دال دلیہ ،تاریخ اشاعت 27۔11۔2017 ء

14۔          ناطق،علی اکبر،قائم دین (افسانے) پیش لفظ ،سانجھ پبلی کیشنز ،لاہور،2018 ئ،ص5

15۔          نقوی شہناز،(26 جون 2019 ء ) مضمون ،علی اکبر ناطق

16۔          منہاس،امجد سلیم ،نولکھی کو ٹھی ،سانجھ پبلی کیشنز ،جہلم ،2019ئ(بیک فلیپ)

17۔          جاوید،عرفان،کماری والا، جہلم بک کارنر،لاہور،2020ئ(بیک فلیپ)

18۔          نیّر ، ناصرعباس ،ہیت شعر،اُسوہ کالج اسلام آباد ،ص(بیک فلیپ)

19۔          عابدی،اطہر علی،در عدالت علے،پیش لفظ،عکس پبلی کیشنز،لاہور2020ء

20۔          ناطق،علی اکبر ،در عدالت علے،عکس پبلی کیشنز،لاہور ،2020ئ، ص 22

21۔          ناطق ،علی اکبر،یاقوت کے ورق،سٹی پریس بک شاپ،کراچی ،2013ئ،ص14

22۔          ناطق،علی اکبر ،شاہ محمد کا ٹانگہ،سانجھ پبلی کیشنز ،لاہور ،2017 ء

23۔          ناطق ،علی اکبر ،یاقوت کے ورق ،سٹی پریس بک شاپ ،کراچی ،2013 ء ص 60

24۔          تقوی منظر ،نو لکھی کوٹھی ،جہلم بک کارنر،جہلم ،2020(بیک فلیپ)

25۔          تارڑ،مستنصر حسین ،نو لکھی کو ٹھی،جہلم بک کارنر،جہلم ،2020(بیک فلیپ)

26۔          ریاض فہمیدہ،یاقوت کے ورق ،دیباچہ ،سٹی پریس بک شاپ ،کراچی ،2013ئ￿ 

27۔          جاوید ،عرفان ،کماری والا ،جہلم بک کارنر ،جہلم ،2020ئ￿ (بیک فلیپ)

٭٭٭٭٭٭٭

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...