Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں |
حسنِ ادب
اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں

ناول کے عناصرِ ترکیبی
ARI Id

1688708340819_56116280

Access

Open/Free Access

ناول کے عناصر ترکیبی:

                ناول ادب کی ایک صنف ہے۔ناول اور داستان میں نمایاں فرق ہے ایسی مخصوص خصوصیات جو ناول کو داستان سے ممتاز کرتی ہیں وہ حقیقت نگاری ،فلسفیانہ گہرائی اور کردار کی اہمیت ہے۔جہاں تک حقیقت نگاری کی بات ہے تو حقیقت نگاری داستان میں بھی پائی جاتی ہے اور اسی طرح ناول بھی تخیل سے محفوظ نہیں ہے اس میں بھی تخیلاتی تصورات پائے جاتے ہیں۔ جس طرح داستان میں طویل قصے اور بے شمار کردار پائے جاتے ہیں اسی طرح ناول میں مختصر واقعات کے ساتھ ساتھ کرداروں کی بھرمار سیکنارہ کیا جاتاہے۔ داستان میں کہانی کا صرف ایک رخ سامنے آتا ہے اس کے برعکس ناول سوچ و تصور کی باز یافت یا ممکن حد تک ترتیب وتشکیل کے فرائض انجام دیتا ہے۔جہاں داستان میں مافوق الفطرت کردار پائے جاتے ہیں خارجی رشتوں جبکہ ناول میں خارجی کے ساتھ ساتھ باطنی حقیقتوں کا بھی گہرائی سے فلسفیانہ تکنیک کو مد نظر رکھتے ہوئے مطالعہ کیا جاتا ہے۔ناول میں کچھ خاص عناصر مقرر کیے جاتے ہیں جن پر ایک ناول اپنی بنیاد رکھتا ہے اس میں کہانی کے ساتھ’پلاٹ‘‘جو کہ نہایت مضبوط ہوناچاہیے۔اسی پہ ہی تمام کہانی کا دارومدارہوتاہے پھر’’حالات وواقعات‘‘جن کو بنیاد بناکر کہانی لکھی جاتی ہے۔کردار جو کہ معاشرے کے حقیقی کرداروں سے قریب تر ہوتے ہیں۔جن میں حقیقی زندگی کاعنصر موجود ہوتا ہے۔’’زمان ومکاں‘‘جو کہ کہانی کو ایک نیا موڑ دیتے ہیں۔پھر جو بہت ضروری عنصر جس پہ ناول کو اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے وہ اس کا’’اسلوب‘‘ہوتاہے۔اسلوب بیان جو دل میں اتر جاتا ہے اور دماغ میں ایک دیرپا تاثر چھوڑجاتا ہے۔اسلوب کے بعد ’’نقطہ نظر‘‘ کی باری آتی ہے۔مصنف نے ناول میں جس بات کو مدنظر رکھ کراور جس نقطہ نظرسے لکھا ہوتا ہے اسے اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ڈاکٹر احسن فاروقی ناول کے عناصر ترکیبی کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’پلاٹ میں قصہ نہایت سلیقہ کے ساتھ ڈھلا ہوا ہونا چاہیے۔ ضرورت سے زیادہ واقعات یا حرکات جو نفس قصہ سے کم تعلق رکھتے ہیں یک لخت چھانٹ دینا چاہیے۔پلاٹ بنانا ویسا ہی ہے جیسے کوئی بت تراش کچھ خاص فنی قاعدوں کے موافق پتھر کی سل کو تراش کر ایک خوشنما بت بنائے مگر خوبی یہ ہے کہ اس میں بناوٹ کا اثر ظاہر نہ ہو۔‘‘(2)

                اگر طویل نگاری ،حالات وواقعات کو بیان کرنا،منظر نگاری اور مکالمہ نگاری کو مناسب  طور پر پیش کرناناول نگاری کہلاتا ہے۔تو ایسے بے شمار ناول منظر عام پر آچکے ہیں۔اگر ناول کا مقصد صرف لوگوں میں ناول سازی،کرداروں کے حوالے سے مثبت ومنفی رجحان دینا ہے،سب سے بڑھ کر یہ کہ انسان اور معاشرے کے حوالے سے لکھنا ہے تو بھی بے شمار ناول مل جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں اردو ادب میں بہترین ناولوں کی کمی ہے بلکہ یہ کہاجائے کہ افسوسناک حد تک کمی ہے تو غلط نہ ہوگا۔اس لیے عروج وزوال کے باوجود بھی ناول اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے اور جدید ناول کی طرف گامزن ہے۔مگر بات یہ ہے کہ جس طرح اردو کی باقی اصناف کو ترقی ملی ہے۔ اسی طرح ناول کو بھی ترقی ملنا ازحد ضروری ہے۔ناولوں میں پس ماندگی کے عناصر بے شمار نظر آتے ہیں کسی میں مذہبی سیاسی،ثقافتی اور معاشی پس ماندگیوں  کاذکر ہے تو کہیں تو ناول خود ہی اپنے اصل سے دور نظر آتا ہے۔ڈاکٹر سلیم الرحمٰن اردو ناول کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’ہمارے ناول میں کہانی بھی ملتی ہے اور کردار بھی،مناظر بھی ہوتے ہیں اور جذباتی مکالمے بھی لیکن ان سب کے امتزاج سے وہ کیٹالسٹ نہیں بنتا جو وہ قاری میں ترفع پیدا کرنے کا موجب بنتا ہے۔‘‘(3)

                ناول نگار اپنے قلم سے ثقافتی ورثے کی حفاظت،موجودہ معاشرے کے مزاج اورکلچر کی  تصویر کشی کرتا ہے۔اس کا لکھا دستاویز کی شکل میں محفوظ ہو جاتا ہے۔پیوستہ اور موجودہ ثقافت کی وضاحت کرنے کے ساتھ ساتھ اس دور کی سیاسی و سماجی صورت حال کی منظر نگاری کرتا ہے۔ معاشرے کی ترقی اور تنزلی کی نشاندہی کرتا ہیاور تنزلی کی طرف جاتے ہوئے معاشرے کی تمام برائیوں مثلاًتعلیم کا فقدان،چوری،ڈاکہ زنی،بے ایمانی،جنسی تشدد،جنسی بے راہ روی، ملاوٹ اور دھوکہ دہی سے نہ صرف پردہ اٹھا تا ہے بلکہ لمحہ فکر یہ بھی پیدا کرتا ہیکہ ان سے کیسے چھٹکارا ممکن ہوسکتا ہے۔موجودہ دور میں اردو ناول ایک نئی راہ اختیار کرگیاہے یہ تبدیل شدہ عصریت کی نشاندہی ہے یعنی اب ہمارے ناول میں ان وجوہات کو سامنے نہیں لایا جاتا جو ترقی وتنزلی کا باعث ہیں۔ اب ہم افسوس تو کرتے ہیں کہ ہم عام زندگی میں ملکی سطح پرجنگ وجدل،تعلیم کے فقدان،عوم الناس کی ذہنی پس ماندگی،انفرادی واجتماعی جسمانی جبر وتشدد،زبان و تہذیب کی زوال پذیری، اقدار کی پامالی پر اختیارات کے محدود دائرہ کار کی وجہ سے احساس ہونے کے باوجود اس پس ماندگی اور پامالی سے پردہ نہیں اٹھاتے وہ ہاتھ جوہماری جڑوں کو کاٹنے کا سبب بنتے ہیں وہ ہمارے قلم کی پہنچ سے دور ہی رہتے ہیں۔

                اردو ناول میں نئے رجحانات کا فقدان پایا جاتاہے علاقائیت اور ثقافت کے مسائل کو اہمیت ہی نہیں دی جاتی جبکہ ان کو ہی ناول کا حصہ مانا جاتا ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ترقی یافتہ ممالک کی الگ ترجیحات ہوتی ہیں۔اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے پس ماندگی کے اسباب اور وجوہات پر نثر ثانی کرنا اور جائزہ پیش کرنا ناول نگاری کی اپنے قلم پر گرفت اور حالات حاضرہ یعنی موجودہ دور میں کیا حالات درپیش ہیں۔اس سے باخبری کو واضح کرتا ہے یہی وقت کی ضرورت ہے اسی طرح آگہی اور بصیرت کے چراغ روشن ہوتے ہیں۔حالات حاضرہ پر مکمل گرفت سے آنے والے ادیبوں کے لیے ایک نئی راہ کھل جاتی ہے اور حاصل شدہ آگہی سے آئندہ دور کے لیے لائحہ عمل تیار طے کیا جاسکتاہے اورتاریک راہیں اور گوشے جو پس ماندگی کاسبب ہیں ان کو منور کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

                اکثر پس ماندگی کی جو وجہ سامنے آتی ہے وہ ادیب کا محدود وفن قاری کی فکر کوبھی محدود کردیتا ہے۔ناولوں میں ہمارے پسندیدہ موضوعات میں زیادہ تر ماضی میں اونچے مرتبے پر فخر اور پھر زوال پذیری کے نوحے،وطن بدر کے دکھ،اپنوں کے ظلم وستم ہیں جو ادب کی نئی راہوں پر چلنے کیلئے تیار ہے۔ایسے بہت سے نئے اور پرانے موضوعات ہیں جو ادیب کے قلم کی سیاہی بن کر صفحہ قرطاس پر بکھرنے کے لیے تیار ہیں۔لیکن اپنی تحریر کو ایک ہی انداز کے سانچے میں ڈھالنے کی بجائے ان کوآفاقی طرزتحریر میں ڈھالنا ہوگا۔اس کے لیے نئی ترجیحات و رجحانات سے استفادہ ضروری ہے۔ ادب کو ہر عہد میں اتار چڑھاؤ کا سامنا رہا ہے لیکن ہرعہد میں ہی ادیبوں نے ادب کو نئی راہ سے ہم کنار کیا ہے اور اپنی محنت سے ادب کو مختلف اصناف سے متعارف کروایا ہے۔اردو ادب میں ناول بھی بطور صنف اسی محنت کا ثمر ہے۔

                اردو ناول کو ایک الگ مقام حاصل ہے ناول نگار ایک نئی دنیا سے متعارف کرواتا ہے قاری کو پڑھتے ہوئے یہ احساس شدت سے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے کہ ناول نگار نے اپنے قلم کے ذریعے ہمارے ہی مسائل کو اپناموضوع بنایاہے۔جس میں دکھ،سکھ،جنگ صلح، زمیندار، مزدور، بادشاہ اور غلام بھی زیر بحث ہوتے ہیں اور اس بحث کی بنیاد روزمرہ کی زندگی ہوتی ہے ان کو صرف تخیل کی پرواز کہنا غلط ہوگا۔یہاں یہ بات قابل غور ہے اور اہم بھی کہ جب ہم اردو ناول کے ارتقا کا جائزہ لیتے ہیں تو ذہن میں سب سے پہلے مولوی نذیر احمد صاحب کا نقش ابھرتا ہے۔

                ان کے ناول مسلم سماج کی بہتری واصلاح کی طرف ہماری توجہ مبذول کرتے ہیں۔ مگر کچھ نقادوں کے نزدیک مولوی ڈپٹی نذیر احمد صاحب کا شمار ناول نگاروں میں نہیں ہوتا کیونکہ ان کے مطابق مولوی صاحب کے ناول جدید ناول کے مطالبات کو پورا کرتے ہوئے نظر نہیں آتے۔

                نقادوں کا ماننا ہے کہ مولوی صاحب کے ناول صرف تبلیغی ناول کہلاتے ہیں جوپندو نصائح کا رنگ پکڑتے ہیں اور کسی حد تک یہ بات سچ بھی ہے کیونکہ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ انھوں نے یہ ناول اپنی بیٹیوں کی اصلاح کے لیے لکھے تھے لیکن ناولوں میں عام انسانی زندگی کی حقیقتیں ان کے ناولوں میں نمایاں ہیں۔ناولوں کی داغ بیل انھوں نے ’’بنات النعش‘‘ ، ’’توبۃ النصوح‘‘ اور ’’مراۃ العروس‘‘ لکھ کرڈالی ہے جو ناول کا خشت اول کہلاتے ہیں۔رام بابو سکینہ سر سید احمد خاں اور ان کے رفقائے کار کے حوالے سے یوں رقمطراز ہیں:

’’سرسید مرحوم کے رفقاء کار نے جن کو زبان اردو کانورتن سمجھنا چاہیے۔زبان اور ادب اردو کے ساتھ احسان عظیم کیے اور بیش بہا خدمات انجام دیں۔مولانا حالی کی قومی نظمیں اور تنقیدی مضامین علامہ شبلی اور مولانا ذکاء اللہ کی تاریخی تصانیف،مولوی چراغ علی اور نواب محسن الملک کے اخلاقی اورپولیٹیکل مضامین ولیکچرار مولانا نذیر احمد کے اخلاقی ناول اور دیگر تصانیف جن میں ادب آموزی کے ساتھ ایک لطیف ظرافت کا بھی رنگ ہے۔ان سب سے نہ صرف لائق مصنفین کے اہل قوم ومذہب ہی کو فائدہ پہنچا بلکہ وہ تمام ملک کے واسطے یکساں طور پر مفید ثابت ہوئے۔‘‘(4)

                ڈپٹی نذیر احمد نے جس طرح آغاز کیا انھوں نے معاشرتی زندگی کی اصطلاح اور ناول نگاری میں ایک نیا رشتہ قائم کیا۔جس طرح وہ لکھتے ہوئے فصاحت وبلاغت سے کام لیتے ہیں، پڑھنے والے کو اپنے اوپر ایک سحر طاری ہوتا محسوس ہوتا ہے اس میں ان کے اصلاحی مزاج اور منطقی فکر کو خاصہ دخل حاصل ہے۔

                آج ناول اور فکشن کی دنیا کافی بدل چکی ہے المیہ یہ ہے کہ ہمارے نقاد اپنے اپنے تخیل کے مطابق ایک نئی تشریح ایک نیا مفہوم پیش کررہے ہیں۔اگر ہم ناول کی تاریخ میں جائیں یعنی غور کریں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ اس صنف کا وجود ہی نثر میں کچھ نیا کرنے کی غرض سے ہوا۔آج جب دنیا ترقی کی منازل طے کر رہی ہے اور انسان کا میابی کی سیڑھیاں چڑھتا جارہاہے۔وہ  کیسے اس مقام تک پہنچا اور اس کو کن مسائل سے گزرنا پڑا؟ ان مسائل کو ناول میں اب ایک نئی جہت کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔انسان اب اس دور میں جی رہا ہے، جہاں حقیقتوں کو اخلاقیات کے پردوں کے پیچھے نہیں دبایا جاسکتا ہے۔

                آج کے دورمیں انسان کو کامیابی کی سیڑھیاں چڑھنے کیلیے جو مسائل لاحق ہیں اگر ان کو چھپا لیا جائے تو یہ اردو ادب کے ساتھ انصاف نہیں ہوگا۔آج کی نئی نسل کو اس حقیقت سے آنکھیں ملانے کی لیے پس پردہ حقیقتوں سے پردہ ہٹا نا ہوگا۔فرسودہ اخلاقی ضابطوںسے گریز کرتے ہوئے ادب کو ایک نئی راہ دکھانی ہوگی اور ادب سے انصاف کرنا ہوگا لیکن بات یہاں اخلاق اور ادب کی آتی ہے۔ہمیں ادب کو ایک نئی جہت سے متعارف کروانے کیلئے اخلاقیات کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا،تاکہ آج کا نوجوان نئی نسل اخلاقیات سے کٹ کر نہ رہ جائے۔

                آج اگر اس بات کو مدنظر رکھا جائے تو ہم اس میں کامیاب ہو جائیں گے ،ادب کو ایک نئی جہت سے متعارف بھی کرواسکیں گیاور اخلاقیات کا دامن بھی ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے گا۔اس لیے ضروری ہے کہ اس بات کو عیاں کیا جائے کہ بات کس طرح سے درست ہے اور کس طرح سے غلط ہے۔جہاں ہر بات کا سباق ہوتا ہے وہاں یقینا اس کے سیاق کو بھی مد نظر رکھا جائے پھر کوئی فیصلہ اخذ کیا جائے کہ کہانی کو کس رخ سے دیکھنا ہے۔اردو ادب بے شمار ناولوں کا خزانہ اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے جن میں ایسے لازوال ناول ہیں،جو حقیقت کے قریب تر لکھے گئے ہیں۔

                جن میں معاشرے میں ہونے والے جرائم ،ایسی تاریک گلیوں اور روشن گھروں میں خاموش مکینوں کا ذکر ملتا ہے کہ قاری کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ ان حقیقتوں کا عام انسان کو بھی اگر علم ہو جائے تو معاشرے میں ہونے والے بگاڑ اور پس ماندگیوں کی وجوہات کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔مکمل طور پر نہ سہی مگر اس کیلییایک باشعور ذہن کو ایک نئی راہ ایک نئی منزل ضرور مل سکتی ہے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...