Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں |
حسنِ ادب
اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں

نولکھی کوٹھی
ARI Id

1688708340819_56116282

Access

Open/Free Access

نولکھی کوٹھی

                ’’نولکھی کوٹھی‘‘علی اکبر ناطق کا ناول ہے۔یہ ناول تاریخ پہ لکھی گئی ایک کہانی ہے کیونکہ تاریخی کہانی ہے اس لیے اس ناول کے سارے کردار روایتی ہیں اور تقسیم ہند پر لکھے جانے والے بے شمار ناولوں میں یہ ممکن نہیں ہے کہ ان کے تاریخی واقعات کو بدلہ جا سکے۔ ناول میں مرکزی حیثیت ولیم کو حاصل ہے جو ایک انگریز ہے۔یہی اس ناول کی خاصیت ہے کہ ولیم جو کہ ایک انگریز ہے اور اپنی اس کوٹھی جس پہ اس ناول کا عنوان ہے’’نولکھی کوٹھی‘‘کا مقیم ہے۔ ہندوستانی کہلوانے اور اس سرزمین سے خود کو جوڑ کر رکھنے کی ان تھک کوشش کرتا رہتا ہے۔جس کیلئے وہ وہاں کے رہائشیوں کے لیے بھی بے شمار ایسی خدمات سر انجام دیتا رہتا ہے جن سے ان کی زندگی میں آسانیاں رہیں لیکن اس کی وطن سے محبت کو اس کی زمین کے لیے خدمت کو ہمیشہ شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔’’ولیم‘‘یہاں سرکاری افسر بھی تھا۔ اس کی شریک حیات جس کو بہت چاہتا ہے اور امید رکھتا ہے کہ وہ ہمیشہ اس کا ساتھ دے گی۔وہ بھی اس مشکل گھڑی میں اس کا ساتھ چھوڑ جاتی ہے اور ولیم اکیلا ہندوستان میں رہ جاتا ہے، بالآخر زندگی کی جنگ ہار جاتا ہے اوراپنی پہچان نہیں بنا پاتا۔علی اکبرناطق نو لکھی کوٹھی میں یوں رقمطراز ہیں :

’’آج میں پھر ان ٹھنڈی ہواؤں کا لطف لیتے ہوئے غیر ارادی طور پر اس طرف بڑھ رہا تھا جیسے ہی اس کوٹھی پر پہنچا وہاں اور ہی رنگ تھے۔مغلیوں کے بچے صحن میں اچھل کود کر رہے تھے۔ذرا غور کیا تو پتا چلا کہ وہاں کوئی اور ہی خاندان آباد ہے۔میں نے جائزہ  لینے کے لیے بھر پور نظر ماری لیکن مجھے ولیم نظر نہ آیا۔بالآخر انہی میں سے ایک آدمی سے پوچھا:’’یہاں ایک بوڑھا انگریزتھا وہ کہاں ہے؟؟‘‘اس نے انتہائی لاپرواہی سے جواب دیا،کاکا اسے تو فوت ہوئے بھی ہفتہ ہو گیا ہے۔‘‘(5)

                ایک انگریز کا ہندوستان سے اس قدر دلی لگا ؤ ،اس محبت کو مصنف نے ناول میں دکھا کر انسانی اقدار کو بہت خوبصورتی سے نمایاں کیا ہے لیکن ساتھ ہی معاشرتی برائی کو بھی دکھایا ہے کہ اس سے اس کا آبائی بنگلہ چھین لیا جاتا ہے اور وہ وہیں رہنا چاہتا ہے ،اس لیے جب ہندوستان کی تقسیم ہو جاتی ہے تو وہ وہی کہیں منتقل ہو جاتا ہے اور غربت کی زندگی گزار کر مر جاتا ہے۔

                دوسرا بڑا کردار جو ناول نگار نے اپنی کہانی میں پیش کیا ہے، وہ ’’غلام حیدر‘‘کا ہے۔ جس کے باپ کو قتل کر دیا جاتا ہے اور اس کے بدلے کیلئے وہ دل میں دشمنی کی آگ کو زندہ رکھتا ہے اور بدلہ لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ناطق نے کہانی میں جو سکھوں اور پنجابیوں کے درمیان لڑائی دکھائی ہے اس لڑ ائی میں تقسیم کے دوران مسلمانو ں کو پل پار کرواتے ہوئے غلام حیدر بھی مارا جاتا ہے۔مصنف نے ناول میں دشمنی ،مار دھاڑ،چوری ،قتل وغارت،محبت،عشق ،ڈیرے داری، رسہ گیری،گولی بارود کو اس طرح سے بیان کیا ہے کہ قاری کو محسوس ہوتا ہے گویا وہ اس جنگ کو دیکھ رہا ہے۔ہر ایک واقعہ کو پڑھنے کے بعد کہانی میں نیاموڑآجاتا ہے جسے پڑھ کر قاری چونک جاتا ہے۔کوئی اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ مصنف کو تاریخ سے گہری واقفیت تھی۔تقسیم ہند پر لکھے گئے اس ناول میں اس نے ہندو مسلم دشمنی کا منظر پیش کیا ہے۔جس میں’’غلام حیدر‘‘اپنے باپ ’’شیر حیدر‘‘کا سودھاسنگھ سے بدلہ لیتا ہے اور اس کے لیے اسے کن حالات سے گزرنا پڑتا ہے۔ پل پار کرنے کے منظر میں دونوں طرف سے گولیوں کی بوچھاڑ سے پل چند ہی لمحوں میں اس طرح خالی ہوگیاجیسے کہ خود صاف کیا ہو۔غلام حیدر کو ایک باوفا چھوٹا جاگیردار بتا یا گیاہے جو کسی بھی طرح کے حالات میں اپنے گاؤں والوں کا ساتھ نہیں چھوڑتا۔اسی لیے جب وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ہجرت کررہا تھا وہی اس کا آخری سفرثابت ہوا اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔نو لکھی کوٹھی سے اقتباس ہے:

’’میجر صاحب کے کیبن کو گولیوں کے دھماکوںسے آگ لگ کر، گھاس پھونس کو اس طرح جلا رہی تھی،جیسے چتا سے الاؤ اٹھ رہے ہوں۔یہ حالت دیکھ کر میجر کیبن سے باہر کی طرف بھاگ اٹھا۔ انھی اوقات میں غلام حیدر نے تاک کر اس پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی،جن میں سے دو گولیاں اس کے سر میں جالگیں اور وہ لڑھک گئے۔گورکھا سپاہیوں نے اپنے افسرکو یوں ڈھیر ہوتے دیکھا تو وہ بو کھلا گئے۔اسی بوکھلاہٹ میں انھوں نے اندھا دھند فائرنگ برسا دی۔ اس دوطرفہ شدید فائرنگ میں دونو ں طرف کے لڑنے والے اور دوسرے لوگ بیروں کی طرح گرنے لگے۔چند ہی لمحوں میں غلام حیدر بھی گولیوں کی بارش میں اپنے ساتھیوں سمیت وہیں ہیڈ کے پل پرخون میں لت پت ہوگیا اور بارش کی رم جھم  میں کچی سڑک پر منہ کے بل گرپڑا لیکن ابھی جانی چھینبا بچا ہواتھا۔‘‘(6)

                بلاشبہ’’نولکھی کوٹھی‘‘اس دور کا ایک بڑاناول ہے۔بے حد منفرد بیانیہ کیساتھ ایک ایسی تاریخی کہانی مسائل سے گھری ہوئی کہ کس طرح لوگوں کو دشمنی کی وجہ سے اپنی جان سے جا نا پڑاکس طرح غلام حیدر کو جلا وطن ہونا پڑا۔یہ صرف کہانی نہیں ہے بلکہ تقسیم ہند کی ساٹھ سال کی تاریخ ہے۔ناول کے ذریعے اس نے معاشرے میں ہونے والی برائیوں اور کچھ ایسی پس ماندگیوں کا ذکر کیا ہے جن سے ایک عام آدمی نا واقف رہتا ہے۔ بعض اوقات انسان کے ساتھ پیش آنے والے حالات اسے اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ ذرا رک کر غور کر پائے کہ ایسا ہونا دراصل معاشرے ہی کی پھیلائی ہوئی برائی ہے ،اسی جڑ نے تمام طرف انتشار پھیلارکھا ہے۔ سکھوں اور پنجابیوں کی لڑائی میں دشمن فائدہ اٹھا رہا تھا مفاد پرست کبھی چاہتا ہی نہ تھا کہ یہ معاملہ حل ہوجائے اور وہ اس لڑائی کو مزید ہوا دیتے رہے اور بالآخر لڑائی تقسیم پہ آ کر رکی مگرختم نہ ہوئی۔ تقسیم کے دوران بھی تمام جمع پونجی تمام رشتے درہم برہم ہو گئے ،ہزاروں جانیں جانے پر بھی،انتقام کی آگ سینوں میں جلتی رہی جو ٹھنڈی نہ ہوئی۔ بلاشبہ ناطق نے ناول کے ساتھ انصاف کیا ہے بہت کھلے اور صاف لفظوں میں اس نے معاشرتی پس ماند گیوں کو بے نقاب کیا ہے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...