Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں |
حسنِ ادب
اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں

خس و خاشاک زمانے
ARI Id

1688708340819_56116283

Access

Open/Free Access

خس وخشاک زمانے

                پاکستان میں 2010ء میں منظر عام پر آنے والا ناول خس وخاشاک زمانے مستنصر حسین تارڑ نے تحریر کیا۔ایک ایسا ناول جس میں لاہور کی منظر نگاری کی گئی ہے لاہور میں رہنے والوں کا ماحول ،رہن سہن اور گاؤں سے آنے والے وہ افراد جو روزگار کی تلاش میں بڑے شہروں کی طرف اپنا رخ کرتے ہیں اور پھر کس طرح ان کی زندگی گزرتی ہے، ان کوکن مسائل سے گزرنا پڑتا ہے۔ان تمام باتوں کو بہت خوبصورتی سے خس وخاشاک زمانے میں مصنف نے اپنا موضوع بنایا ہے۔ناول میں مصنف نے دنیا پور سے آئے ہوئے لوگوں کے بارے میں بتایا ہے کہ وہ سبزی  منڈی آتے ہیں اور لاہور سبزی منڈی میں اپنا سارا مال بیچ کر شام کی ٹرین سے واپس اپنے گاؤں کی طرف چلے جاتے ہیں۔مصنف ان لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ جو اپنے آپ کو بلند سمجھتے ہیں یعنی جاٹ برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔خود کو تمام ذاتوں سے اعلیٰ اور باقی تمام ذاتوں کو خود سے کمتر اور اپنا خادم تصور کرتے ہیں۔مصنف نے بتایا ہے کہ جب یہی لوگ اپنے گاؤں سے شہر میں آکر آباد ہو جاتے ہیں تو انھیں شہر کی تنگ گلیوں اور چھوٹے مکانوں کو دیکھتے ہوئے اپنے گاؤں کے کھلے گھر اور گوبر کی بدبوئیں یاد آتی ہیں۔

                ’’خس وخاشاک زمانے ‘‘کو پاکستان کی ایک ایسی کہانی کہا جاسکتا ہے کہ جو معاشرے کی تہذیبی واخلاقی اقدار اور پھر معاشرے میں بدلتے ہوئے اخلاقی رویوں کو بیان کرتی ہے۔ ناول میں دو خاندانوں کی کہانی کو بیان کیا گیا ہے جس کو موضوع بناتے ہوئے اس نے ان حقائق سے پردہ اٹھایا ہے جن پر بات کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔کہانی نسلوں پر پھیلی ہوئی ایک داستان کی صورت ہے۔تقسیم ہند وبرصغیر کے بارے میں لکھا گیا ہے اوران تلخ حقائق کو جو تاریخ میں رونما ہوچکے ہیں ان کو منظر عام پر لایا گیا ہے۔جن کو معاشرے میں سخت ناپسند کیا جاتا ہے اور نہ ہی ان باتوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ دوبارہ موضوع بنیں۔مصنف نے یہ ناول روایتی موضوعات سے ہٹ کر لکھا ہے۔ان موضوعات میں ناجائز طور پر پیدا ہونے والے بچے،مردہ جانوروں کا گوشت کھانے ، لونڈے بازی،تقسیم ہند،ہم جنس پرستی،مغربی زندگی،جسم کا کاروبار کرنے کے علاوہ اپنے ملک کو چھوڑ کر دوسرے ملک چلے جانے والے خاندانوں کی زندگی کے ساتھ ساتھ ان اسلام کے دشمن رویوں کو بھی قلم بند کیا ہے جو نائن الیون کے واقعات کے بعد درپیش ہوئے۔ مزید یہ کہ مصنف نے ناول کی کہانی کو گوجرانوالہ کے گاؤں نت کلاں کے گرد گھومتا دکھایا ہے۔مستنصر حسین لکھتے ہیں :

’’اگر بخت  جہاں کی پر تکبر شوکت اور شانداری نہ رہی تھی تو دنیا پور بھی تو وہ نہ رہا تھا۔۔۔۔اس کے سکھ یار چلے گئے تھے۔۔۔اپنی آبائی زمینوں ،کوٹھوں،گھروں اور شمشان گھاٹوں سے بے دخل ہوکر جتنے بھی چھروں اور بلموں سے بچ نکلے  تھے چلے گئے تھے۔ بیشتر سردارنیوں نے نت کلاں کے برگدوالے کنویں میں کود کر  جانیں دے دی تھیں۔۔۔ادھر جالندھرامر تسراور پٹیا لے سے لٹ پٹ کر آنے والے بھی بیشتر مرد تھے۔۔۔ ان کی عورتیں سکھ اٹھا کے لے گئے تھے۔۔۔ان کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا جس میں ان کی ماؤں بہنوں کے ادھڑے ہوئے برہنہ بدن ڈوبتے ابھرتے تھے۔‘‘(7)

                مصنف نے ناول میں ذات پات کے بارے میں لکھا ہے کہ اس ذات پاک اونچ نیچ کی وجہ سے معاشرے میں طبقات بن چکے ہیں۔جس میں اعلیٰ ذات والا کمتر کو کمی کمین تصور کرتا ہے۔دنیا پور جس کا ذکر مصنف کرتے ہیں کہ وہاں جاٹ برادری رہتی تھی اور وہ خود کو سردار تصور کرتے ہیں۔جاٹ کاشت کاری کرتے تھے جاٹوں کے نزدیک دوسری ذات کے لوگ جو ہر کام کر گزرتے ہیں،وہ خادم ہیں اور کمتر ہیں،مصنف نے کشمیریوں کا ذکر کیا ہے جو ٹانگے چلاتے تھے دکانیں تھیں ان کی بزاز کا کام کرتے یہاں تک کے جوتے بھی سلائی کرتے۔جو کام جولاہوں کا ہے یعنی کھڈیوں پر دریاںاور کھیس بننا وہ بھی یہ کشمیری لوگ کرتے تھے۔ بس اڈے پر جب بس آکر رکتی تو یہ لوگ جلدی سے سموسے اور پکوڑے لے کر آگے بڑھ جاتے وہ کسی کام کو بھی کرتے ہوئے عار محسوس نہ کرتیتھے۔یہاں تک کے  درزیوں کا کام بھی وہ نہایت عمدگی سے کرتیاور جاٹوں کے نزدیک ایسے تمام کام کرنے والے حتیٰ کے برگد کی چھاؤں میں تربوز اور خربوزوں کے انباروں پر کھڑے ہوکر انہیں فروخت کرنا گلا پھاڑ پھاڑ کر آواز لگانا۔ یہ تمام  کام صرف بے حیا لوگ ہی کرسکتے تھے۔وہ ایسے لوگوں کو اچھوت خیال کرتے تھے۔مستنصر حسین تارڑ خس و خاشاک میں لکھتے ہیں :

’’جاٹوں کے پاس زمینوں کی نسبت تفاخر زیادہ تاپ اور انہیں  اپنی بے خبری اور پس ماندگی  پر ناز تھا۔البتہ ان محلوں کے بارے میں کہا جا سکاںہے کہ یہاں دو چار سو برس ادھر یا ادھر ہونے سے انھیں کچھ فرق نہیں پڑتا تھا۔یہ ویسے کہ ویسے ہی تھیجیسے کہ کبھی تھے۔جی ٹی روڈ کے آس پاس کشمیریوںکی اکثریت تھی۔یہ کشمیری لوگ جاٹوں کے نزدیک نہایت کم ذات اور حقیر مخلوق تھے۔ ان کے کم کمین ہونے کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا تھا کہ وہ ہر کام  کر گزرتے تھے جو  جاٹوں کے نزدیک معیوب ٹھہرتا تھا۔‘‘(8)

                مصنف کے مطابق اگر کردار نگاری کی بات کی جائے تو ناول میں تقریباً 74 کردار موجودہ ہیں۔جن میں مرکزی حیثیت جہاں بخت کو حاصل ہے۔ناول کا ہر کردار اپنے اندر ایک الگ دنیا رکھتا ہے اور ایک الگ موضوع کا نمائندہ تصور کیا جا سکتا ہے۔مرکزی کردار بخت جہاں جو کے ایک جاٹ ہے۔ اس میں بری خصلتیں عروج پر بتائی گئی ہیں۔ظالم ہے، وہ اپنی خصلتوں سے ادراک کے باوجود بھی اپنی بری خصلتوں کے آگے مجبور بتایا گیا ہے۔وہ عورتوں کا رسیا ہے ایسی عورتیں جو منہ توڑ جوانی سے بھری ہیں اور اپنی  اسی بری خصلت کی وجہ سے  اپنے جگری دوست کی بیوی سے  نکاح کر لیتا ہے کیونکہ بخت کو کہانی کے پہلے حصے میں مرکزی کردار کی حیثیت حاصل ہے۔اس لیے جب اسے ہجرت کرنا پڑی تو اس واقعے کو مصنف نے بڑی خوبصورتی سے بتایا ہے۔

’’کیسی کیسی مجبور ہجرتیں اس کی قسمت میں آئی تھیں۔۔۔ اور ہجرت مجبور ہوتی ہے۔۔۔۔وہ آج ایک اور ہجرت کی مسافت  میں اس سرحدی چوکی کی جانب قدم بڑھارہا تھا۔ جو لوگ اس مجبوری میں ہوتے ہیں جنہیں اپنی آبائی بستیاں چھوڑنی پڑتی ہیں تو زندگی کی آخری سانسوں تک وہ  بستیاں ان کا پیچھا کرتی رہتی ہیں۔ان کی قبروں کی مٹی ساتھ چلی آتی  ہیں۔‘‘(9)

                ’’خس و خاشاک زمانے‘‘ مصنف کے چالیس سالا ادبی سفر کا نچوڑ ہے۔ناول کا پہلا حصہ سیاست، روایات، تاریخ اور تہذیب بتایا ہے تو دوسرے حصے میں پاکستانی نژاد اور انگریزی ناول نگاروں نے نائن الیون کے بعد مسلم شناختی بحران پر لکھا گیاہے۔اس کے علاوہ ابتدا میں تہذیب ،تاریخ، برصغیر کی تقسیم اور مختلف جنگوں ، زندگی موت کی صورتحال سر اٹھاتے منہ زور انسانی رویے ، فرقہ بندی اور نسلی تفاخر جیسے متعدد موضوعات کو سمیٹا گیا ہے۔انہوں نے اپنے ناول کے ذریعے سر اٹھاتے ہوئے منہ زور انسانی رویوں کا ذکر کیا ہے۔ جہاں بخت جو کہ ہر طرح کی بری خصلت رکھتا ہے۔عورتوں کے ساتھ اس کا رویہ غیر مناسب ہے۔اور یہی پس ماندگی یقینی طور پر کسی بھی معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔نسلی تفاخر جو کہ صدیوں سے چلا آ رہا ہے اور یقیناًآج بھی اس کی وجہ سے معاشرہ الگ الگ رستوں پر چلتا نظر آتا ہے۔قوم ایک نہیں ہو پاتی کیونکہ برابری کے حقوق سے محروم عوام کو جب اچھوت  یا کسی اور کو ان پر برتری دی جاتی ہے تو یہی بات ناگواری کا سبب بنتی ہے۔اور یہ کبھی نہ ختم ہونے والی معاشرتی پس ماندگی ہے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...