Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں |
حسنِ ادب
اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں

لے سانس بھی آہستہ
ARI Id

1688708340819_56116284

Access

Open/Free Access

لے سانس بھی آہستہ

                ’’لے سانس بھی آہستہ‘‘مشرف ذوقی کا اکیسویں صدی میں لکھا گیا ایک بہت بڑا ناول ہے جو حلال و حرام کی تمیز، جائز و ناجائز کو ایک الگ نظرسے دیکھتے ہوئے ایک الگ مقام پر لے جاتا ہے۔اس ناول کو پڑھتے ہوئے قاری نفسیاتی الجھن کا شکار ہو جاتا ہے۔کیونکہ اس میں کچھ ایسی باتوں کو جو معاشرے میں کبھی بھی گفتگو کا درجہ حاصل نہیں کرتیں اور پس پردہ سر اٹھا کر دم توڑ دیتی ہیں، وجود ختم ہو جاتا ہے اور خلش باقی رہ جاتی ہے اور اسی خلش کو انسان اپنے اندر دبائے  خود بھی دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ان باتوں کو اسے قلم بند کرنا کافی مشکل رہا ہو گا کہ کس طرح ایک مہذب انسان اخلاقیات کی دیوار کو گرا دیتاہے اور تمام تر حدوں کو پس پشت ڈال کر رستہ تبدیل کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ مشرف ذوقی کے ناول میں ایک الگ ہی دنیا آباد ہے۔جہاں  تہذیب ختم ہو رہی ہے یا اس کا انداز بدل رہا ہے اور دنیا میں کیا کیا مسائل ابھر رہے ہیں وہاں مصنف نے اس المیہ کو واضح کیا ہے کہ انسان جتنی بھی ترقی کرلے بے شک ترقی کی جدوجہد کو پار کرتا ہوا زندگی کی ہر خواہش کو پورا کر لے پھر بھی وہ اپنے اندر کے جانور کو ختم نہیں کر سکتا۔بات یہاں یہ سامنے آتی ہے کہ کیسی ترقی، کس کی ، کہاں کی ترقی، جب انسان اپنے اندر کا جانور ہی ختم نہیں کر پایا۔مصنف نفسیات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے نظر آتا ہے اور بتاتا ہے کہ ایک فکشن نگار تب تک ایک اچھا فکشن قطعی تخلیق نہیں کر سکتا جب تک وہ انسان کی سائیکی پرگرفت نہ کر لے۔ انسان کے سماجی روابط اورنفسیات کا آپس میں گہرا رشتہ ہے۔راس میکلی نے اپنی کتاب ’’دی فلاسفی آف فکشن ‘‘ میں لکھا ہے:

Psychology is not be forgotton, avoid or dismissed absoloutly quarantined from philosophy on the bases of any piecemeal prvitional scientific status (10)

                راس میکلی کے اس نظریے کے مطابق فکشن میں نفسیات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔انہوں نے بھی اسی طریقہ کار کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک انوکھی کہانی لکھی ہے۔ یہ ایک باپ اور بیٹی کی کہانی ہے۔بیٹی نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہے۔قاری جب یہ کہانی پڑھتا ہے تو معاشرتی پس ماندگی کی اس قسم کو پڑھتے ہوئے اس کے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس ناول میں ان لوگوں کا ذکر کیا گیاہے جو تقسیم کے بعد یعنی پاکستان  میں آنے کے بعد وہ مسلمان جو ابھی تک اسی کشمکش میں ہیں کہ ان کا فیصلہ ٹھیک تھاکہ غلط پاکستان میں رہنا چاہیے تھا کہ ہندوستان میں ایسی صورت حال  میں ان سے جو بھی فیصلہ ہوتا وہ ان کو نقصان یعنی خسارے کا ہی لگتا ہے۔کرداروں  کی بے بسی کو بہت ہی واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔

                ناول میں مجبور باپ جو اپنی معذور بیٹی کا ہر طرح سے خیال رکھنے کا وعدہ اپنی بیوی سے کرلیتا ہے اور پھر دنیا میں ہونے والے حالات و واقعات اور ان کے اثرات نئی نسل پر کس طرح سے اثر انداز ہو رہے ہیں۔اس کو ایک مسلسل روتی ہوئی نومولودبچی نگار کی صورت میں دکھایا گیا ہے۔ تہذیب کی نقالی کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں اور یہ ایک ایسا موضوع ہے جو ہر عہد میں تبدیلی چاہتا ہے یا یوں کہیے کہ تبدیلی تہذیب کا مقدر ہے اور مصنف نے بھی اپنے اس ناول میں تہذیب کی عکاسی کی ہے۔مشرف ذوقی لکھتے ہیں :

’’تہذیبیں عام طور پر رنگ بدلتی رہتی ہیں پہلے کیا اتنی ترقی تھی؟ اتنے میڈیاز تھے؟بچوں کی تربیت اور کردار سازی کے لیے کیا ہمارے پاس وقت ہے؟ اور تربیت ہم نہیں کرتے نہ کردار سازی کرتے ہیں۔ہم صرفاس غلط فہمی میں رہتے ہیں کہ ہم اپنے بچوں کی اچھی تربیت کر رہے ہیں۔‘‘(11)

                مصنف نے ناول میں جن کرداروں کا ذکر کیا ہے ان میں زیادہ تر باپ اور بیٹی کو اہمیت حاصل ہے بیٹی جو کہ نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہے اور اسے پاگل کہا جاتا ہے اور باپ جس کے اوپر تمام تر ذمہ داریاں ہوتی ہے ، بیٹی جب جوان ہوتی ہے تو کیونکہ اس نے رشتوں میں ہمیشہ اپنے نزدیک اپنے باپ کو ہی پایا تھا اور اپنے عارضے کی وجہ سے اسے رشتوں کی پہچان نہیں تو وہ اپنے باپ کو صرف ایک مرد کی حیثیت سے ہی پہچانتی ہے۔باپ کیلئے اس کی بیٹی ایک آزمائش کی طرح ہے جس کو سنبھالنے کی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ اس کیتمام کاموں کو بھی خود ہی دیکھنا پڑتا ہے۔ ایسے میں ایک باپ کی کیفیت کیا ہوگی اس کا صرف اندازہ ہی کیا جا سکتا ہے۔ایک دن باپ جب بیٹی کی ضد کے آگے جھک جاتا ہے تو اس کی ذہنی کیفیت کے بارے میں تو ایک عام انسان سوچ بھی نہیں سکتا۔

"میں خود سے جنگ لڑ رہاتھا۔۔۔رشتوں کی مقدس دنیا میں  سیکس کے جراثیمگھل گئے تھے۔۔۔۔سوالوں کی یہ دنیا مجھے لہولہان کر رہی تھی۔۔۔‘‘(12)

                مصنف نے ناول میں باپ کے کردار کو جس طرح پیش کیاہے وہ تو خاص حالات میں وہ اس گناہ کا ارتکاب کرتا ہے اور اس کے بعد سزاکے طور پر اسے تاحیات گھٹ گھٹ کر جینا ملتا ہے۔بات یہاں صرف تہذیب پہ آکر رکتی ہے۔جہاں تہذیب دم توڑ تی ہے وہاں دوسری تہذیب جگہ لینے کو تیار ہو تی ہے۔بس فرق صرف اتنا ہے کہ ان تہذیبوں میں ہم اپنی اپنی سہولت کے حساب سے مذہب کو چن لیتے ہیں۔اس لیے انسانی رشتے بھی اسی سہولت کی دین ہیں۔جب ہم اندر کے راستے اپنا لیتے ہیں حق بات کہنے ، حق بات کا ساتھ دینے سے ڈر جاتے ہیں تو تہذیبیں یا تو مر جاتی ہیں یاپھر بدل جاتی ہیں۔ان تہذیبوں کے بننے اور ٹوٹنے میں مصنف نے جو انسان کی اخلاقیات پر طنز کی ہے وہ قابل غور ہے۔انسان کسں طرح سے ایک جانور بن جاتا ہے۔اپنی تمام اخلاقیات کو پس پشت ڈال کر وہ اپنی ایک نئی راہ بنا لیتا ہے۔یہ ایسا ہی ہے جیساکہ مذہب کیلیے اپنی مرضی کرنا۔یقیناًیہ ذوقی کا ایک اہم ناول ہیجو تہذیب کی عکاسی کرتا ہے۔ذوقی کے مطابق:

’’دراصل تہذیب جیسی کوئی چیز کبھی تھی ہی نہیں۔ہاں مذہب کے خوف نے الگ الگ تہذیبی سرنگوں کی بنیادیں ڈال دی تھیں۔ ادھر خوف کے بادل ہٹے اور ادھر تہذیبوں کے پل ٹوٹنے شروع۔‘‘(13)

                اس کا کہنا ہے کہ تہذیبیں ہی ہیں جو خود ہی ٹوٹتی بنتی رہتی ہیں۔انسان خود ہی فرار کی راہ میں سہولت سمجھتا ہے۔یہ ناول ان ہی تہذیبوں کی عکاسی میں لکھا گیا ہے کہ ان کی ایسی کیا وجوہات ہیں جن کی بنا پر تہذیبیں دم توڑتی ہیں۔

آگ

                ’’آگ‘‘عزیز احمد کا مشہور ناول ہے۔اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ آج تک کشمیر کے بارے میں جن دو ناولوں میں لکھا گیا ہے ان میں ایک تو کرشن چندر کا’’شکست ‘‘ہے اور دوسرا’’آگ‘‘ہے۔ ان ناولوں میں کشمیر کے رہنے والوں کی سماجی پس ماندگی ، غربت ،افلاس اور استحصال کو مستقل بحث بنایا گیا ہے۔دونوں کا اندازہ الگ ضرور ہے مگر مقصد ایک ہی ہے۔یعنی بنیادی موضوع کشمیر کی سماجی وسیاسی صورت حال ہے وہاں رہنے والے لوگوں کی اونچ نیچ ہندوانہ سماج میں ذات پات کو لے کر سفاکانہ طریقہ کار پھر اس کا مرکزی کردار بھی عمل قوت سے محروم ہے۔

                اگر تاریخی مناظر میں دیکھا جائے تو کشمیر کی صورت حال کو شعوری طور پر سمجھنے کی کوشش جس میں کی گئی ہے۔وہ عزیز احمد کا ناول ’’آگ‘‘ہی ہے۔’’آگ‘‘کا موضوع خاص طور پر کشمیر میں لگی وہ آگ ہے جس نے سارے کشمیر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔عزیز احمد نے نہایت سلیقے سے ایک طرف تو انگریز سامراج کے خلاف کشمیر میں اور پورے ملک میں ہونے والی آزادی کی تحریکوں کو آگ کہاہے اور دوسری طرف ان کاریگروں کے استحصال کو آگ قرار دیا ہے جو قالین بافی کا کام کرتے ہیں۔ناول کی سب سے بڑی خاصیت ہی یہی ہے کہ اس کا حقیقی زندگی سے بہت گہرا تعلق ہے۔عزیز احمد لکھتے ہیں:

’’ایک طرف پرا پنجال اور دوسری جانب قراقرم ،بیچ میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح کوہ ہمالیہ سب سے اونچا سلسلہ۔ان پہاڑوں نے کشمیر کی ہری وادی لداخ اور بلتستان کے لق ودق کہساروں کو بال بال بچا لیااور دس بارہ سال تک شمال اور جنوب کی آگ وہاں تک نہیں پہنچ سکی۔‘‘(14)

                مصنف نے جو محسوس کیا اسے قلم بند کیا ہے ان کے احساسات اور مشاہدات میں بہت وسعت گہرائی ہے۔کشمیر میں رہنے والے لوگوں کا انتہائی گہرائی سے مشاہدہ کیا میرے نزدیک مصنف کاکہنا کہ انھوں نے یہ ناول بہت جلدی میں لکھا ہے۔لیکن میرے مطابق مصنف نے جس قدر گہرائی سے اور کشمیر کے لوگوں کی زندگی کو جس طرح سے آگ میں دکھایا ہے ایسا کبھی بھی اردو ناول میں نظر نہیں آتا۔ایسا کہا جاتا ہے کہ جس طرح ناول میں غربت ،کشمیری مسلمانوں کی کسمپرسی  اور ان کے ساتھ کی جانے والی زیادتی کا خلاصہ کیا ہے۔ایسی پس ماندگی کا مظاہرہ کہیں دیکھنے، سننے کو نہیں ملا ناول نگار لکھتے وقت کچھ ایسی منظر نگاری کرتے ہیں ہیں کہ کشمیریوں کے ساتھ کی جانے والی زیادتی کو پڑھ کر قاری خود کو کرب میں محسوس کرتا ہے۔وہ اس درد کو محسوس کرنے لگتا ہے جو ان لوگوں کی زندگی میں مسلسل ٹھر چکا ہے۔مصنف اس بات سے انکاری نہیں ہے کہ یہ قوم بہت محنتی ہے لیکن ان کی محنت کو نظر انداز کردیا گیا قدر نہیں کی گئی۔اس قدر محنتی  ہونے کے باوجود بھی یہ قوم زندگی کی آسائشوں سے محروم زندگی گزار رہی ہے۔آگ ایک دلکش ناول ہے کرداروں کے ذہن میں شعور کی رو جابجا نظر آتی ہے۔ناول پڑھتے ہوئے ہم بہت آسانی سے کشمیر کے لوگوں کے رہن سہن کو جان جاتے ہیں۔منفا نے فلسفی انداز تحریر اپنایا ہے۔باتوں کو فلسفی انداز تحریر میں کچھ اس طرح بیان کیا ہے کہ قاری پہ سارا راز بھی عیاں ہوجاتا ہے اور خلش بھی رہ جاتی ہے جسے وہ پڑھنے کے بعد محسوس کرتا ہے اس درد کو ،اس غربت کو، ان باتوں کو جو کشمیریوں کے دل میں ان کہی رہ گئی ان چیخوں کو جو بہت چیخ کر بھی اپنی کوئی حیثیت نہ بنا پائی۔

"ڈرائیور موٹر کا گیر بدلتا ہے ،جھاڑیاں بلند سے بلند تر ہوتی جاتی ہیں۔اس پہلے موڑ کے بعد ہم خود ذرا بلند ہیں اور موڑ کے قریب اس طرف سے آتی ہوئی ایک لاری مری کشمیر لائن کی ،اس کی پیشانی پر خدا حافظ لکھا ہوا۔۔۔مگر خدا حا فظ زندگی کیلئے یا موت کیلئے؟۔۔۔گزر جاتی ہے اور دونوں طرف ایک دوسرے کے مقابل بیٹھے ہوئے مسافروں کی ایک جھلک نظر آجاتی ہے پھر ہر موڑ سے پر سن گاڑی کی لچک اور بلندی اور زیادہ بلندی ،اور اس طرح منظر میں بلند اور پست اور ’’نقطہ نظر‘‘کی تبدیلی‘‘(15)

                مصنف نے ناول میں کشمیریوں کے رہن سہن کو بھی بہت مہارت سے بیان کیا ہے۔انھوں نے بتایا ہے کہ وہ کس طرح کے کپڑے پہنتے ہیں اور ان کی صفائی کیلئے وہ ذرا بھی مشقت نہیں کرتے ہیں۔کپڑوں کا اصل رنگ تبدیل ہو چکا ہوتا ہے۔قاری ناول پڑھتے ہوئے محسوس کرتا ہے کہ مصنف نے غربت کو کیا نیا رنگ دیا ہے وہ اس حسین وادی کشمیر میں رہنے والے  حسین لوگوں کی کچھ ایسی عادات کو قلم بند کرتے ہیں کہ جن کو پڑھ کر گھن آتی ہے جو بھی مصنف نے دیکھااس کو لکھ دینے میں عار محسوس نہیں کی۔ناول کے پہلے باب’’زوجیلا‘‘کو جب پڑھتے ہیں  تو ساری حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ اصل میں جو اس خوبصورت وادی میں بدصورتی ہے وہ سب ’’زوجی لا‘‘کی وجہ سے ہے۔مصنف’’زوجی لا‘‘کے بارے میں بتاتے ہیں کہ اس طرف سے سامراج آئے ،جراثیم آئے ،قالین آئے،نمدائے آئے،مذاہب آئے، انسان آئے ،مہاجنی آئے،تعصبات آئے تو تحریر میں کس قدر گہرائی پیدا ہو جاتی ہے کہ یہ درہ زوجی لا بس ایک درہ نہیں ہے بلکہ اسے خوبصورت وادی میں ایک بدصورت ’’کلنک کا ٹیکہ‘‘گردانا جاتا ہے۔کہ کس طرح اس پر سکون زندگی میں بے سکونی کو پیدا کیا۔

’’اس انسان اس حیوان کے ساتھ جو کچھ آیا کرتا ہے،سب آیا۔یہ ساڑھے ہزار فٹ اونچادرہ زوجی لا،یہ ہمالیہ کی پاک پیشانی پر کلنک کا ٹیکا۔‘‘(16)

                مصنف نے ناول’’آگ‘‘میں اپنے احساسات کو قلم بند کیا ہے۔وہ مزدور طبقہ کی زندگی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ کس طرح مزدور خود کو اپنے کام میں اتنا مصروف رکھتا ہے۔سارا سارا دن پتھر توڑتا رہتا ہے پتھر توڑنا گویا اس نے اپنی قسمت ہی سمجھ لیا ہو۔زمانے سے ملے غم اپنی غربت اپنے حالات کا غصہ وہ پتھروں کو کاری ضرب مار کر نکالتا ہے۔دھوپ میں مسلسل پتھر توڑنا اور پرواہ کیے بغیر کہ شاید بلندی سے کوئی پتھر آجائے اور خود ان پتھروں کی طرح جن کو مزدور توڑ رہاہوتا ہے اسی پتھر کے نیچے آکے خود بھی اپنی شناخت کو کھودے اور پھر ان ہی پتھروں میں اس کا وجود بھی کہیں گم ہوجائے ۔مصنف سوچتا ہے کہ پیٹ بھرنے کے اس سے آسان راستے بھی ہیں مگر کیونکہ اس کا نظریہ فلسفیانہ ہے تو وہ ایک گہری سوچ میں قاری کو مبتلا رکھتا ہے کہ غربت کے ہاتھوں مجبور مزدور کو پتھر توڑ کے اپنی محرومی سے باہر آنے کا کوئی حل ملتاہو وقتی سکون یا پھر اس ڈپریشن کا خاتمہ جو شاید کبھی اس کو اپنی جان لینے پر آمادہ کر لیتا۔ایسی وادیوں میں رہنے والے پہاڑوں سے گرنے والی مٹی اور پتھروں سے نہیں ڈرتے اور سوچوں کے دریا میں بہتے ہوئے اپنے کام کو مدنظر رکھتے ہوئے سڑک کنارے پتھروں کو کاری ضربیں لگا کر توڑ دینے والے کب خود تیز رفتار آتی لاری کاشکار ہوجائیں اس سے بالکل انجان رہتے ہیں۔جہلم کے گدلے پانی ، تیز آواز اور اس کی  لہروں سے مزدور اتنا مانوس ہوچکا ہے کہ پہاڑوں سے گرتی ہوئی چٹانیں اور پتھر اس کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔نصیب  میں اس طرح موت کا آنا لکھا ہوگا تو کچھ بھی کرلو موت آکر رہے گی۔ ایسے ہی کوئی پتھر پہاڑ سے گرتے ہوئے اسے اپنے ساتھ جہلم میں بہالے جائے گا اور اسے ہمیشہ کے لیے ختم کر دے گا۔اس بات سے وہ نہیں ڈرتا۔عزیزا حمد لکھتے ہیں :

’’اس پتھر کوٹنے والے نے کئی نسلوں سے تیشہ مار کے خود کشی کر لی ہے۔اب گزرتی ہوئی بسیں لاریاں اور موٹریں اس کے نزدیک محض اتنی اہمیت رکھتی ہیں کہ یہ غیر متعلق بھاری بھر کم جانور ہیں جواگر وہ بے احتیاطی کریں تو اسے کچل کرلولا لنگڑا بنا سکتے ہیں اور اس کی جان لے سکتے ہیں۔‘‘(17)

                مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ناول نگار نے آگ میں ایک بہت خوبصورت انداز میں کشمیر کو بیان کیا ہے۔ناول میں پس ماندگی کو مختلف اندازمیں دکھایا گیا ہے۔کبھی غربت،کسمپرسی، کبھی حکمرانوں کی کی گئی زیادتی ،مصنف یہ بھی بتاتا ہے کہ یہ قوم بہت ذہین ہے مگر ان کے فن ان کی محنت کی کوئی قدر نہیں کرتایہ پس ماندگی کے مظاہر ہی ہیں جو اس ناول کی کامیابی اور شہرت کا باعث بنے ہیں۔لہٰذا یہ کہنا درست ہے کہ مصنف نے ناول میں جس طرح سیاسی وسماجی،معاشی وتہذیبی مسائل اور حالات کی پیش کش کی ہے اس نے اس ناول کو عصری تاریخ بنا دیا ہے۔انہوں  نے آگ کے ذریعے غربت اورکسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارنے والوں کو بے بس زندگی گزارتے دکھایا ہے۔وہ لوگ جو حکمرانوں کی جگہ ان کی ناجائز زیادتیوں کا شکار ہورہے ہیں اور ایک ایسی زندگی گزار رہے ہیں جو انھوں نے کبھی سوچی بھی نہ تھی اور بالکل بے یارومددگار ہیں۔ ایک ایسے مزدور کی زندگی دکھائی ہے جو اپنی محرومیوں کی تکلیف کو بھی اپنے کام کے ذریعے کم کرتا ہے جس وقت وہ زیادہ ڈپریشن میں ہوتا ہے، ذہنی الجھن کا شکار ہوتا ہے اور اپنے دباؤ کو کم کرنا چاہتا ہے۔ اس وقت اس کی پتھر پر پڑنے والی کاری ضرب بتاتی ہے کہ وہ کس دباؤ کو محسوس کر رہا ہے اور وہ مزدور اپنے کام میں اتنا محو ہے کہ اسے اچانک آجانے والی موت میں بھی راحت ہی محسوس ہوتی ہے۔

                اس نے زندگی میں ایک مائل زد ہ انسان کو ایک کے بعد ایک آجانے والی مصیبت زدہ زندگی گزارتے ہوئے دکھایا ہے۔یقیناً عزیز احمد اپنی اس تخلیقی کاوش  میں کامیاب رہے ہیں۔

فائر ایریا

                ایسا ہی ایک ناول جس میں پس ماندگی کے مظاہرنظر آتے ہیں۔اس میں ’’فائر ایریا‘‘ازالیاس احمد گدی بھی اپنی مثال آپ ہے۔ناول میں مصنف نے مزدوروں کے ساتھ ہونے والے سلوک کو پیش کیاہے۔بھوک کو موضوع بنایا ہے یہ بھوک ہی ہے جو اس قدرتڑپ پیدا کرتی ہے کہ ایک انسان مفید اور مضر کے معنی بھول جاتا ہے۔وہ بس یہی خیال کرتاہے کہ کس طرح سے انھیں اپنے پیٹ کی آگ کو بجھانا ہے۔بغور مطالعہ کیا جائے توہندوستان میں صدیوں سے ذات پات کا نظام چلتا آرہا ہے۔آج کے دور میں بھی ذات پات کا نظام اور اس کے اثرات  دیہات اور خاص طور پر نچلے اور مڈل کلاس طبقے میں نظر آتے ہیں اور اسی نظام نے زندگی کو خاشیے پہ لا کھڑا کیا ہے۔مزدوروں کے ساتھ خصوصاً  نارواسلوک رکھا جاتا ہے۔اگر کہیں کوئی آواز بلند کی بھی گئی تو ان آوازوں کو دبا دیا گیا۔یوں کہاجائے تو غلط نہ ہوگاکہ یہ آوازیں انھی طبقوں نے بلند کی تھیں جنہوں نے خود مزدوروں کا استحصال کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی اور آج جب ان آوازوں کو دبا دیا گیا تو قلم کی طاقت سے ہی یہ حق ادا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اردوادب میں بھی متوسط اور نچلے طبقوں پر مزدوروں کے ساتھ ہونے والے اس برے سلوک اور خاص طور پر کس مپرسی کی زندگی پر آواز بلند کی گئی ہے۔مختلف افسانے لکھے گئے اور ڈراموں میں بھی اس موضوع پر بحث کرتے ہوئے اداکار نظر آئے مگر بات اداکاری پہ ہی ختم ہوگئی۔لوگوںکے دلوں میں خلش ہی رہ گئی۔اس سلسلے کی ایک کڑی ہمیں ’’فائر ایریا‘‘کی صورت میں نظر آئی۔ناول پڑھتے ہوئے قاری اس زندگی کو محسوس کرتا ہے جہاں ایک عام انسان اپنا دم گھٹتا محسوس کرتا ہے اور ناول میں مزدور اپنے کام میں مگن اس طرح بتائے گئے ہیں کہ کوئلے کی کان کی حدت سے کہیں زیادہ پیٹ کی آگ اِن کو جلاتی ہے اور جس کا بجھ جانا ان کے نزدیک زیادہ معنی رکھتا ہے۔ احمد گدی لکھتے ہیں :

’’زمین جسے بارش کا پانی سیراب کرتا ہے اس کو آدمیوں نے اپنے پسینے سے ،اپنے خون سے سینچنا شروع کردیا۔پھاوڑے،گینتے اور  شاول ان میں بھوکے اور بدحال لوگو ں کے کمزور بازوں کی مخنت شامل ہوئی اور انھوں نے زمین کا سینا شق کردیا۔چیر ڈالا پتھروں کی سلوں کو،اوپرکا Over Burden اور کوئلے کی سیاہ چمکیلی سیم دکھلائی گئی۔‘‘(18)

                مصنف نے ناول میں بھوک کو موضوع بنایا ہے ہمارے معاشرے میں تمام مسائل کی جڑ یہ بھوک ہی ہے جہاں بھوک کی نوعیت الگ ہے مگرتمام مسائل اسی سے جڑ پکڑتے نظرآتے ہیں۔ یہ بھوک ہی ہے جو مزدوروں کو کان کے گھٹن زدہ ماحول میں زمین کے اندر جانے پہ مجبور کرتی ہے۔ان کے نزدیک سب چیزیں ایک جیسی ہیں نفع نقصان سے دور ملنے والے معاوضے کو مدنظر رکھتے ہوئے خود کو زندہ لاش کی طرح زمین کے سپرد کر دیتے ہیں۔زمین کے اندر رہتے ہوئے انھیں کئی طرح کے خطرے لاحق ہوتے ہیں۔کان کے اندر کی گرم دنیا اس میں پیش آنے والے حادثات بھی ان پہ مسلط ہوتے ہیں۔ اگر یہ زمین ان کے اوپر گر گئی تو ان کی آوازیں اندر کی اندر ہی دب جائیں گی۔کسی کو خبر بھی نہ ہوگی کہ کوئی مزدور کان کے اندر اترا تھااور سب سے بڑا خطرہ جو ان کے ذہنوں میں منڈلا رہا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ پردہ پوشی یعنی باتوں کو چھپا دیا جاتا ہے۔حادثوں کا نام ونشان بھی مٹادیا جاتا ہے لاش کو تو کان میں ہی کہیں دفن کردیا جاتا ہے اور کان کے اوپر کے لوگ جن کے وہ ماتحت ہوتے ہیں ان کی جیبوں کو گرم کردیا جاتا ہے اور بات کو ہمیشہ کے لیے چھپا دیا جاتا ہے ان سب خطرات  کے باوجود بھی مزدور کان میں کام کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ صرف اور صرف اپنی بھوک کی وجہ سے یہ بھوک ہی ہے جو اسے کان میں جانے پہ مجبور کرتی ہے۔

’’یہ الگ دنیا ہوتی ہے اندھیرے میں موت گشت کرتی ہے۔کبھی کہیں چال گر پڑتی ہے،کبھی کول ٹب کا رسی ٹوٹ جاتا ہے،کبھی زہریلی گیس موت کی نقیب بن جاتی ہے،موت کے بعد بھی کوشش کی جاتی ہے کہ لاش کو ہزاروں ٹن ریت میں یاکسی بندگپھامیں دفن کردیا جائے تاکہ معاوضے سے بچا جاسکے۔‘‘(19)

                مزدور اپنے پسینے سے زمین کو سیراب کرتے ہیں اور جب اس طرح  اپنے کسی ساتھی کو مرتا دیکھتے ہیں تو کچھ دن تک خوب ان کے خون کو جوش بھی آتا ہے۔ایسا تب ہوتا ہے جب مقامی پولیس ان کی مدد کے لیے بظاہر تیار ہوتی ہے لیکن ان کو اصل مقصد ہوتا ہے کہ مالکوں کو ڈرا دھمکا کر  اپنی جیب گرم کرنااور اس بات کو ہوا دینے کیلئے یونین کے تمام چھوٹے بڑے لیڈر مزدوروں کو بھڑکانے لگتے ہیں۔ایسے معصوم لوگ ہوتے ہیں یہ مزدور کہ اس فکر کو ان کی چاہت سمجھ لیتے ہیں اور یقین کی حد اس قدرکیفرشتے بھی ان کی معصومیت کو دیکھ کر رشک کرتے ہیں  اور آخر میں ان چھوٹے بڑے لیڈروںکے منہ کو پیسے سے بند کردیا جاتا ہے۔بالکل اسی مقصد کے لیے ہی تو مزدوروں کو بھڑکا رہے تھے۔

                آگ میں تیل ڈالنے کا کام کر رہے تھے اور جب ان کا مقصد پورا ہوجاتا تو معاملہ ایسے ٹھنڈا ہو جاتا ہے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہ تھا۔مزدور بیچارے اپنا سا منہ لے کر بیٹھ جاتے ہیںاور واپس یاد آتی ہے ان کو اپنی بھوک،پھر اپنے جذبات کو پس پشت ڈال کرپھر سے اپنی مجبوری کی خاطر اندھیرے میں اترنے کیلئے تیا ر ہو جاتے ہیں ایک اور زندہ لاش کو کا ن کے سپرد کرنے یہ بیچارے مزدور ہی ہیں جو اپنی بھوک کی خاطر تمام مجبوریوں کو نظر انداز کیے دیتے ہیں۔ازل سے انسان کی سب سے بڑی مجبوری صرف بھوک ہے بس اسی بات کو ذہن میں رکھے وہ کام کے لیے آمادہ ہوجاتے ہیں۔جو انہیں پیٹ کا ایندھن بھی دیتا ہے اور رنگین سنہرے خواب بھی۔

’’اور ایسے معصوم بے ریا اور سیدھے سادھے لوگ بھی جن کی معصومیت پر فرشتے رشک کریں یہ سب اس ویران چٹیل میدان کی تپتی ہوئی دھوپ میں چٹانوں  سے نبرد آزما ئی کرنے والے لوگ کون سی چیز انھیں یہاں کھینچ لائی ہے؟ ان تمام لوگوں میں صرف ایک چیز مشترک ہے بھوک۔بھوک جو ہزارہا سال سے یا شاید ازل سے انسان کی سب سے بڑی مجبوری رہی ہے۔‘‘(20)

                ناول میں الیاس احمد گدی نے جو سب سے اہم موضوع پیش کیا ہے وہ ہے لاقانونیت  اسی لاقانونیت کے زور پر یہاں ہر طرح کا راج ہوتا ہے۔کسی حادثے کے ہونے پہ پولیس کاکام یہ ہے کہ یہ آدمی کس سے جڑا ہوا ہے۔اگر وہ کوئی بڑا آدمی ہے تو بات وہاں ہی ختم کر دی جاتی ہے  اور اگر کوئی آدمی چھوٹا ہے تو مکمل چھان بین کی جاتی ہے اور موٹی رقم ہاتھ نہ آنے پر کیس بناکر کورٹ پہنچا دیا جاتا ہے۔

                ہزاروں فٹ نیچے اندھیر نگری میں شدید حبس ہوتا ہے جسم کے ایک ایک مسام سے پسینہ نکلتا ہے اور جب کوئلے کی سیاہ دھول اس پسینے پہ جم جاتی ہے توآدمی خود بھی سیاہ ہوجاتا ہے۔ نہیں معلوم کہ یہ کوئلوں کی وجہ سے سیاہ ہوچکا ہے، خود پر ہونے والی لاقانونیت کی وجہ سے ،انصاف نہ ملنے کی وجہ سے یا پھر اپنی مجبوریوں کی وجہ سے۔مزدور اس ناول میں سب سے زیادہ مجبورتب معلوم ہوتا ہے جب وہ بھی خود کو انسان سمجھنا چھوڑ دیتا ہے اور خود کو مجبوریوں کی آگ میں جھونک دیتا ہے۔لاقانونیت کو خود پہ مسلط کر لیتا ہے اپنی آواز کو اپنے اندر کبھی چیخنے کا حق نہیں دیتا۔

                اپنی اس ذہنی حالت کے پیش نظراس غیر انسانی مشقت کو برداشت کرنے کیلئے مزدور شراب پیتے ہیں ناقص شراب جو ان کو اندر ہی اندر ختم کردیتی ہے،لاغر کردیتی ہے،بیمار کر دیتی ہے یہ کھانستے ہیں اور خون اگلنے لگتے ہیں اور پھر اس طرح وہ قرض کے بوجھ تلے دبتے دبتے سور خوروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور سود خور ان کو ماہانہ آمدنی آنے سے پہلے ہی موت کے فرشتوں کی طرح اپنے گھر کھڑے نظر آتے ہیں۔ماہانہ ملنے والی آمدن سے بھی دگنا ان سے چھین لیا جاتا ہے۔ مزدوروں نے اپنی الگ دنیا بنا رکھی ہے جہاں اگر کبھی وہ کان سے بچ جاتے ہیں تو سود خور پکڑ لیتے ہیں۔سود خوروں سے بچ جائیں تو بیماریاں آلیتی ہیں۔بس یہ ہر طرف موت ہی ناچتی نظر آتی ہے :

’’عجب دنیا ہے یہ ملک دولت سے اندھا ہو رہا ہے،لیڈر اپنا حصہ لے کر عیش کر رہے ہیں ٹھیکے دار من مانی قیمت وصول کر کے لاکھوں میں کھیل رہے ہیں،مائنگ کا عملہ رشوت کے رویوں سے آسودہ  حال ہے صرف مزدور۔۔۔بس مزدور ہے۔جس کو نہ اپنے پسینے کی قیمت ملتی ہے اور نہ اپنے تھوکے ہوئے خون کا معاوضہ۔‘‘(21)

                مصنف نے ناول میں عورتوں کے بارے میں بھی لکھا ہے کہ کس طرح انھیں جنسی استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔مرد انھیں ہوس کا نشانہ بناتے ہیں۔لیڈر،ٹھیکیدار،بابو اور مالک تو اپنا حق سمجھ کر اس کی عصمت دری کرتے ہیں۔اس کی عصمت کو تار تار کردیا جاتا ہے اور بیچاری عورت کو کسی طرف سے بھی کوئی سہارا نہیں مل رہا ہوتا اگر وہ راضی ہو جائے تو خاموشی سے اور اگر وہ راضی ہو تو معاملہ بندوق کی نوک پر بھی مرد حل کر لیتا ہے۔لوگ خاموش تماشائی بنے نظر آتے ہیں اور اگر کسی نے آگے بڑھ کے عورت کیلیے حق یا انصاف کی کوشش بھی کی تو اس کے سینے میں گولی اتار دی جاتی ہے۔ عورت ہر طرح کے حالات کا اکیلے مقابلہ کر رہی ہوتی ہے۔

                مردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اور یہ سوچتے ہوئے کہ وہ بچ نہیں سکتی ہے تو وہ بھی کھیل کھیلتی نظر آتی ہے۔ اس کے پاس صرف ایک ہتھیار ہے جس سے وہ کہانی کو اپنی مرضی کے مطابق چلاتی ہے اور وہ ہتھیار اس کے جسم کا ہے۔خود مزدور مردوں کو دبانے، ڈرانے کے لیے بھی اوپر والا طبقہ اس کے گھر کی عزت کو تارتار کرتا ہے۔اس کو زردکوب کیا جاتا ہے۔ اور اس کی بہو، بیٹی، اور بیوی کی عزت خراب کر دی جاتی ہے۔اور اس طرح ایک طاقت رکھنے والے مزدور کی قوت کو ختم کر دیا جاتا ہے۔

                اگر کسی میں طاقت ہو بھی تو وہ ایسے حالات کو دیکھتے ہوئے اپنی طاقت کو ظاہر نہیں کرتا اور خاموشی کا تالا لگا لیتا ہے۔وہ جانتاہے کہ مخالفت کے نتیجے میں اسے پیس کررکھ دیا جائے گا۔کولیری میں کام کرنے والی عورتیں جو مردوں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں۔کسی بھی وقت ان کو ہوس پرستی کا نشانہ بنا لیا جاتا ہے۔کولیری کام کا اصول ہے، جو بتایا گیا ہے کہ منہ بند رکھا جائے ، آنکھوں اور کانوں کو ناکارہ بنا دیا ،کچھ دیکھو تو بولو نہیں، کچھ سنو تو بتاؤ نہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ یہاں لوگوں کے پاس دیکھنے والی آنکھ اور سننے والے کان موجود تو ہیں مگر بولنے والی زبان منہ میں موجود نہیں ہے۔

’’ننکو اس کو ابھی تک  دیکھے جا رہا تھا۔جیسے اس کے چہرے سے کچھ پڑھنا چاہتا ہو۔سہدیو کو ہنسی آ گئی۔ننکو بھائی ایسا مت سمجھیے گا کہ میں اس پر ریجھ گیا ہوں۔ عورتوں سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ننکو بولا عورت کو یہاں کون پوچھتا ہے،ٹکے ٹکے کو ملتی ہیں جتنی چاہو۔مگر قائدہ یہ ہے آدمی ڈھول ضرور بجائے مگر اس کو گلے میں نہ ٹانگے۔‘‘(22)

                مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ناول"فائر ایریا" ادب میں اس کی اہمیت لازوال ہے۔ ناول اپنے موضوع کے ساتھ ساتھ ادب  میں ایک نمایاں اور منفرد مقام رکھتا ہے۔ جس میں معاشرتی پس ماندگی کے ایسے مظاہر کو بیان کیاگیا ہے جو حقیقت کے قریب ہیں۔ ناول میں ایک ذہنی کشمکش دکھائی گئی ہے۔جس میں مزدوروں کا استحصال کیا گیا ہے۔بھوک کو موضوع بنایا گیا ہے، طبقوں کی کشمکش پر قلم اٹھایا گیاہے۔عورتوں کی معاشرے میں کس طرح درجہ بندی کی گئی ہے، مجبوریوں کو عزت پر ترجیح دی گئی ہے۔طاقت کو عروج پر رکھا گیا ہے۔سود خوروں کے رویے اور  مزدوروں کی زندگی کو کھل کر بیان کیا گیا ہے اور بیان کرنے کے لیے جس اسلوب کو مد نظر رکھا گیا ہے وہ پوری طرح سے اپنے طبقے کی نمائندگی کرتا ہے۔اس ناول میں فن و فکر کا بہت خوبصورت امتزاج ملتا ہے یعنی کسی کو بھی ایک دوسرے پر فوقیت حاصل نہیں ہے۔ اردو ادب میں اس ناول کی اہمیت لازوال ہے۔الیاس گدی نے مزدوروں کی زندگی کو  بہت نزدیک سے محسوس کیا ہے اور اسے اپنے قلم کی آواز دی۔ایک مشینی زندگی گزارنے والاانسان جس کا خود کے کمائے ہوئے پیسوں پر بھی بس نام کا حق ہے۔لاقانونیت میں انسان زندگی گزارتا نہیں بس گزار رہا ہوتا ہے۔ دم گھٹنا بے جاحبس زدہ ماحول انسان کو جیتے جی ختم کر دیتا ہے۔ایک نہایت ہی دل کو چھو لینے والامنظر جب مزدور خود کو مجبوری کے تحت انسان ہی سمجھنا چھوڑ دیتا ہے ، خود کو مجبوریوں کے سپرد کر دیتا ہے اور خود پہ لا قانونیت کو مسلط کر لیتا ہے۔ایسا تب ہی ہوتا ہے جب انسان بہت زیادہ چیخ و پکار کر چکا ہو اور اس کی آواز ہزاروں سننے والے کان ہونے کے باوجود بھی صرف اپنے ہی کان سن پائیں تو وہ خود کو انسان سمجھنا  ہی چھوڑ دیتا ہے۔یقیناً الیاس گدی نے بہت مجبور زندگی گزارنے والوں کا حال لکھا ہے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...