Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں |
حسنِ ادب
اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں

آگ
ARI Id

1688708340819_56116285

Access

Open/Free Access

آگ

                ’’آگ‘‘عزیز احمد کا مشہور ناول ہے۔اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ آج تک کشمیر کے بارے میں جن دو ناولوں میں لکھا گیا ہے ان میں ایک تو کرشن چندر کا’’شکست ‘‘ہے اور دوسرا’’آگ‘‘ہے۔ ان ناولوں میں کشمیر کے رہنے والوں کی سماجی پس ماندگی ، غربت ،افلاس اور استحصال کو مستقل بحث بنایا گیا ہے۔دونوں کا اندازہ الگ ضرور ہے مگر مقصد ایک ہی ہے۔یعنی بنیادی موضوع کشمیر کی سماجی وسیاسی صورت حال ہے وہاں رہنے والے لوگوں کی اونچ نیچ ہندوانہ سماج میں ذات پات کو لے کر سفاکانہ طریقہ کار پھر اس کا مرکزی کردار بھی عمل قوت سے محروم ہے۔

                اگر تاریخی مناظر میں دیکھا جائے تو کشمیر کی صورت حال کو شعوری طور پر سمجھنے کی کوشش جس میں کی گئی ہے۔وہ عزیز احمد کا ناول ’’آگ‘‘ہی ہے۔’’آگ‘‘کا موضوع خاص طور پر کشمیر میں لگی وہ آگ ہے جس نے سارے کشمیر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔عزیز احمد نے نہایت سلیقے سے ایک طرف تو انگریز سامراج کے خلاف کشمیر میں اور پورے ملک میں ہونے والی آزادی کی تحریکوں کو آگ کہاہے اور دوسری طرف ان کاریگروں کے استحصال کو آگ قرار دیا ہے جو قالین بافی کا کام کرتے ہیں۔ناول کی سب سے بڑی خاصیت ہی یہی ہے کہ اس کا حقیقی زندگی سے بہت گہرا تعلق ہے۔عزیز احمد لکھتے ہیں:

’’ایک طرف پرا پنجال اور دوسری جانب قراقرم ،بیچ میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح کوہ ہمالیہ سب سے اونچا سلسلہ۔ان پہاڑوں نے کشمیر کی ہری وادی لداخ اور بلتستان کے لق ودق کہساروں کو بال بال بچا لیااور دس بارہ سال تک شمال اور جنوب کی آگ وہاں تک نہیں پہنچ سکی۔‘‘(14)

                مصنف نے جو محسوس کیا اسے قلم بند کیا ہے ان کے احساسات اور مشاہدات میں بہت وسعت گہرائی ہے۔کشمیر میں رہنے والے لوگوں کا انتہائی گہرائی سے مشاہدہ کیا میرے نزدیک مصنف کاکہنا کہ انھوں نے یہ ناول بہت جلدی میں لکھا ہے۔لیکن میرے مطابق مصنف نے جس قدر گہرائی سے اور کشمیر کے لوگوں کی زندگی کو جس طرح سے آگ میں دکھایا ہے ایسا کبھی بھی اردو ناول میں نظر نہیں آتا۔ایسا کہا جاتا ہے کہ جس طرح ناول میں غربت ،کشمیری مسلمانوں کی کسمپرسی  اور ان کے ساتھ کی جانے والی زیادتی کا خلاصہ کیا ہے۔ایسی پس ماندگی کا مظاہرہ کہیں دیکھنے، سننے کو نہیں ملا ناول نگار لکھتے وقت کچھ ایسی منظر نگاری کرتے ہیں ہیں کہ کشمیریوں کے ساتھ کی جانے والی زیادتی کو پڑھ کر قاری خود کو کرب میں محسوس کرتا ہے۔وہ اس درد کو محسوس کرنے لگتا ہے جو ان لوگوں کی زندگی میں مسلسل ٹھر چکا ہے۔مصنف اس بات سے انکاری نہیں ہے کہ یہ قوم بہت محنتی ہے لیکن ان کی محنت کو نظر انداز کردیا گیا قدر نہیں کی گئی۔اس قدر محنتی  ہونے کے باوجود بھی یہ قوم زندگی کی آسائشوں سے محروم زندگی گزار رہی ہے۔آگ ایک دلکش ناول ہے کرداروں کے ذہن میں شعور کی رو جابجا نظر آتی ہے۔ناول پڑھتے ہوئے ہم بہت آسانی سے کشمیر کے لوگوں کے رہن سہن کو جان جاتے ہیں۔منفا نے فلسفی انداز تحریر اپنایا ہے۔باتوں کو فلسفی انداز تحریر میں کچھ اس طرح بیان کیا ہے کہ قاری پہ سارا راز بھی عیاں ہوجاتا ہے اور خلش بھی رہ جاتی ہے جسے وہ پڑھنے کے بعد محسوس کرتا ہے اس درد کو ،اس غربت کو، ان باتوں کو جو کشمیریوں کے دل میں ان کہی رہ گئی ان چیخوں کو جو بہت چیخ کر بھی اپنی کوئی حیثیت نہ بنا پائی۔

"ڈرائیور موٹر کا گیر بدلتا ہے ،جھاڑیاں بلند سے بلند تر ہوتی جاتی ہیں۔اس پہلے موڑ کے بعد ہم خود ذرا بلند ہیں اور موڑ کے قریب اس طرف سے آتی ہوئی ایک لاری مری کشمیر لائن کی ،اس کی پیشانی پر خدا حافظ لکھا ہوا۔۔۔مگر خدا حا فظ زندگی کیلئے یا موت کیلئے؟۔۔۔گزر جاتی ہے اور دونوں طرف ایک دوسرے کے مقابل بیٹھے ہوئے مسافروں کی ایک جھلک نظر آجاتی ہے پھر ہر موڑ سے پر سن گاڑی کی لچک اور بلندی اور زیادہ بلندی ،اور اس طرح منظر میں بلند اور پست اور ’’نقطہ نظر‘‘کی تبدیلی‘‘(15)

                مصنف نے ناول میں کشمیریوں کے رہن سہن کو بھی بہت مہارت سے بیان کیا ہے۔انھوں نے بتایا ہے کہ وہ کس طرح کے کپڑے پہنتے ہیں اور ان کی صفائی کیلئے وہ ذرا بھی مشقت نہیں کرتے ہیں۔کپڑوں کا اصل رنگ تبدیل ہو چکا ہوتا ہے۔قاری ناول پڑھتے ہوئے محسوس کرتا ہے کہ مصنف نے غربت کو کیا نیا رنگ دیا ہے وہ اس حسین وادی کشمیر میں رہنے والے  حسین لوگوں کی کچھ ایسی عادات کو قلم بند کرتے ہیں کہ جن کو پڑھ کر گھن آتی ہے جو بھی مصنف نے دیکھااس کو لکھ دینے میں عار محسوس نہیں کی۔ناول کے پہلے باب’’زوجیلا‘‘کو جب پڑھتے ہیں  تو ساری حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ اصل میں جو اس خوبصورت وادی میں بدصورتی ہے وہ سب ’’زوجی لا‘‘کی وجہ سے ہے۔مصنف’’زوجی لا‘‘کے بارے میں بتاتے ہیں کہ اس طرف سے سامراج آئے ،جراثیم آئے ،قالین آئے،نمدائے آئے،مذاہب آئے، انسان آئے ،مہاجنی آئے،تعصبات آئے تو تحریر میں کس قدر گہرائی پیدا ہو جاتی ہے کہ یہ درہ زوجی لا بس ایک درہ نہیں ہے بلکہ اسے خوبصورت وادی میں ایک بدصورت ’’کلنک کا ٹیکہ‘‘گردانا جاتا ہے۔کہ کس طرح اس پر سکون زندگی میں بے سکونی کو پیدا کیا۔

’’اس انسان اس حیوان کے ساتھ جو کچھ آیا کرتا ہے،سب آیا۔یہ ساڑھے ہزار فٹ اونچادرہ زوجی لا،یہ ہمالیہ کی پاک پیشانی پر کلنک کا ٹیکا۔‘‘(16)

                مصنف نے ناول’’آگ‘‘میں اپنے احساسات کو قلم بند کیا ہے۔وہ مزدور طبقہ کی زندگی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ کس طرح مزدور خود کو اپنے کام میں اتنا مصروف رکھتا ہے۔سارا سارا دن پتھر توڑتا رہتا ہے پتھر توڑنا گویا اس نے اپنی قسمت ہی سمجھ لیا ہو۔زمانے سے ملے غم اپنی غربت اپنے حالات کا غصہ وہ پتھروں کو کاری ضرب مار کر نکالتا ہے۔دھوپ میں مسلسل پتھر توڑنا اور پرواہ کیے بغیر کہ شاید بلندی سے کوئی پتھر آجائے اور خود ان پتھروں کی طرح جن کو مزدور توڑ رہاہوتا ہے اسی پتھر کے نیچے آکے خود بھی اپنی شناخت کو کھودے اور پھر ان ہی پتھروں میں اس کا وجود بھی کہیں گم ہوجائے ۔مصنف سوچتا ہے کہ پیٹ بھرنے کے اس سے آسان راستے بھی ہیں مگر کیونکہ اس کا نظریہ فلسفیانہ ہے تو وہ ایک گہری سوچ میں قاری کو مبتلا رکھتا ہے کہ غربت کے ہاتھوں مجبور مزدور کو پتھر توڑ کے اپنی محرومی سے باہر آنے کا کوئی حل ملتاہو وقتی سکون یا پھر اس ڈپریشن کا خاتمہ جو شاید کبھی اس کو اپنی جان لینے پر آمادہ کر لیتا۔ایسی وادیوں میں رہنے والے پہاڑوں سے گرنے والی مٹی اور پتھروں سے نہیں ڈرتے اور سوچوں کے دریا میں بہتے ہوئے اپنے کام کو مدنظر رکھتے ہوئے سڑک کنارے پتھروں کو کاری ضربیں لگا کر توڑ دینے والے کب خود تیز رفتار آتی لاری کاشکار ہوجائیں اس سے بالکل انجان رہتے ہیں۔جہلم کے گدلے پانی ، تیز آواز اور اس کی  لہروں سے مزدور اتنا مانوس ہوچکا ہے کہ پہاڑوں سے گرتی ہوئی چٹانیں اور پتھر اس کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔نصیب  میں اس طرح موت کا آنا لکھا ہوگا تو کچھ بھی کرلو موت آکر رہے گی۔ ایسے ہی کوئی پتھر پہاڑ سے گرتے ہوئے اسے اپنے ساتھ جہلم میں بہالے جائے گا اور اسے ہمیشہ کے لیے ختم کر دے گا۔اس بات سے وہ نہیں ڈرتا۔عزیزا حمد لکھتے ہیں :

’’اس پتھر کوٹنے والے نے کئی نسلوں سے تیشہ مار کے خود کشی کر لی ہے۔اب گزرتی ہوئی بسیں لاریاں اور موٹریں اس کے نزدیک محض اتنی اہمیت رکھتی ہیں کہ یہ غیر متعلق بھاری بھر کم جانور ہیں جواگر وہ بے احتیاطی کریں تو اسے کچل کرلولا لنگڑا بنا سکتے ہیں اور اس کی جان لے سکتے ہیں۔‘‘(17)

                مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ناول نگار نے آگ میں ایک بہت خوبصورت انداز میں کشمیر کو بیان کیا ہے۔ناول میں پس ماندگی کو مختلف اندازمیں دکھایا گیا ہے۔کبھی غربت،کسمپرسی، کبھی حکمرانوں کی کی گئی زیادتی ،مصنف یہ بھی بتاتا ہے کہ یہ قوم بہت ذہین ہے مگر ان کے فن ان کی محنت کی کوئی قدر نہیں کرتایہ پس ماندگی کے مظاہر ہی ہیں جو اس ناول کی کامیابی اور شہرت کا باعث بنے ہیں۔لہٰذا یہ کہنا درست ہے کہ مصنف نے ناول میں جس طرح سیاسی وسماجی،معاشی وتہذیبی مسائل اور حالات کی پیش کش کی ہے اس نے اس ناول کو عصری تاریخ بنا دیا ہے۔انہوں  نے آگ کے ذریعے غربت اورکسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارنے والوں کو بے بس زندگی گزارتے دکھایا ہے۔وہ لوگ جو حکمرانوں کی جگہ ان کی ناجائز زیادتیوں کا شکار ہورہے ہیں اور ایک ایسی زندگی گزار رہے ہیں جو انھوں نے کبھی سوچی بھی نہ تھی اور بالکل بے یارومددگار ہیں۔ ایک ایسے مزدور کی زندگی دکھائی ہے جو اپنی محرومیوں کی تکلیف کو بھی اپنے کام کے ذریعے کم کرتا ہے جس وقت وہ زیادہ ڈپریشن میں ہوتا ہے، ذہنی الجھن کا شکار ہوتا ہے اور اپنے دباؤ کو کم کرنا چاہتا ہے۔ اس وقت اس کی پتھر پر پڑنے والی کاری ضرب بتاتی ہے کہ وہ کس دباؤ کو محسوس کر رہا ہے اور وہ مزدور اپنے کام میں اتنا محو ہے کہ اسے اچانک آجانے والی موت میں بھی راحت ہی محسوس ہوتی ہے۔

                اس نے زندگی میں ایک مائل زد ہ انسان کو ایک کے بعد ایک آجانے والی مصیبت زدہ زندگی گزارتے ہوئے دکھایا ہے۔یقیناً عزیز احمد اپنی اس تخلیقی کاوش  میں کامیاب رہے ہیں۔

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...