Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں |
حسنِ ادب
اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں

فائر ایریا
ARI Id

1688708340819_56116286

Access

Open/Free Access

فائر ایریا

                ایسا ہی ایک ناول جس میں پس ماندگی کے مظاہرنظر آتے ہیں۔اس میں ’’فائر ایریا‘‘ازالیاس احمد گدی بھی اپنی مثال آپ ہے۔ناول میں مصنف نے مزدوروں کے ساتھ ہونے والے سلوک کو پیش کیاہے۔بھوک کو موضوع بنایا ہے یہ بھوک ہی ہے جو اس قدرتڑپ پیدا کرتی ہے کہ ایک انسان مفید اور مضر کے معنی بھول جاتا ہے۔وہ بس یہی خیال کرتاہے کہ کس طرح سے انھیں اپنے پیٹ کی آگ کو بجھانا ہے۔بغور مطالعہ کیا جائے توہندوستان میں صدیوں سے ذات پات کا نظام چلتا آرہا ہے۔آج کے دور میں بھی ذات پات کا نظام اور اس کے اثرات  دیہات اور خاص طور پر نچلے اور مڈل کلاس طبقے میں نظر آتے ہیں اور اسی نظام نے زندگی کو خاشیے پہ لا کھڑا کیا ہے۔مزدوروں کے ساتھ خصوصاً  نارواسلوک رکھا جاتا ہے۔اگر کہیں کوئی آواز بلند کی بھی گئی تو ان آوازوں کو دبا دیا گیا۔یوں کہاجائے تو غلط نہ ہوگاکہ یہ آوازیں انھی طبقوں نے بلند کی تھیں جنہوں نے خود مزدوروں کا استحصال کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی اور آج جب ان آوازوں کو دبا دیا گیا تو قلم کی طاقت سے ہی یہ حق ادا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اردوادب میں بھی متوسط اور نچلے طبقوں پر مزدوروں کے ساتھ ہونے والے اس برے سلوک اور خاص طور پر کس مپرسی کی زندگی پر آواز بلند کی گئی ہے۔مختلف افسانے لکھے گئے اور ڈراموں میں بھی اس موضوع پر بحث کرتے ہوئے اداکار نظر آئے مگر بات اداکاری پہ ہی ختم ہوگئی۔لوگوںکے دلوں میں خلش ہی رہ گئی۔اس سلسلے کی ایک کڑی ہمیں ’’فائر ایریا‘‘کی صورت میں نظر آئی۔ناول پڑھتے ہوئے قاری اس زندگی کو محسوس کرتا ہے جہاں ایک عام انسان اپنا دم گھٹتا محسوس کرتا ہے اور ناول میں مزدور اپنے کام میں مگن اس طرح بتائے گئے ہیں کہ کوئلے کی کان کی حدت سے کہیں زیادہ پیٹ کی آگ اِن کو جلاتی ہے اور جس کا بجھ جانا ان کے نزدیک زیادہ معنی رکھتا ہے۔ احمد گدی لکھتے ہیں :

’’زمین جسے بارش کا پانی سیراب کرتا ہے اس کو آدمیوں نے اپنے پسینے سے ،اپنے خون سے سینچنا شروع کردیا۔پھاوڑے،گینتے اور  شاول ان میں بھوکے اور بدحال لوگو ں کے کمزور بازوں کی مخنت شامل ہوئی اور انھوں نے زمین کا سینا شق کردیا۔چیر ڈالا پتھروں کی سلوں کو،اوپرکا Over Burden اور کوئلے کی سیاہ چمکیلی سیم دکھلائی گئی۔‘‘(18)

                مصنف نے ناول میں بھوک کو موضوع بنایا ہے ہمارے معاشرے میں تمام مسائل کی جڑ یہ بھوک ہی ہے جہاں بھوک کی نوعیت الگ ہے مگرتمام مسائل اسی سے جڑ پکڑتے نظرآتے ہیں۔ یہ بھوک ہی ہے جو مزدوروں کو کان کے گھٹن زدہ ماحول میں زمین کے اندر جانے پہ مجبور کرتی ہے۔ان کے نزدیک سب چیزیں ایک جیسی ہیں نفع نقصان سے دور ملنے والے معاوضے کو مدنظر رکھتے ہوئے خود کو زندہ لاش کی طرح زمین کے سپرد کر دیتے ہیں۔زمین کے اندر رہتے ہوئے انھیں کئی طرح کے خطرے لاحق ہوتے ہیں۔کان کے اندر کی گرم دنیا اس میں پیش آنے والے حادثات بھی ان پہ مسلط ہوتے ہیں۔ اگر یہ زمین ان کے اوپر گر گئی تو ان کی آوازیں اندر کی اندر ہی دب جائیں گی۔کسی کو خبر بھی نہ ہوگی کہ کوئی مزدور کان کے اندر اترا تھااور سب سے بڑا خطرہ جو ان کے ذہنوں میں منڈلا رہا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ پردہ پوشی یعنی باتوں کو چھپا دیا جاتا ہے۔حادثوں کا نام ونشان بھی مٹادیا جاتا ہے لاش کو تو کان میں ہی کہیں دفن کردیا جاتا ہے اور کان کے اوپر کے لوگ جن کے وہ ماتحت ہوتے ہیں ان کی جیبوں کو گرم کردیا جاتا ہے اور بات کو ہمیشہ کے لیے چھپا دیا جاتا ہے ان سب خطرات  کے باوجود بھی مزدور کان میں کام کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ صرف اور صرف اپنی بھوک کی وجہ سے یہ بھوک ہی ہے جو اسے کان میں جانے پہ مجبور کرتی ہے۔

’’یہ الگ دنیا ہوتی ہے اندھیرے میں موت گشت کرتی ہے۔کبھی کہیں چال گر پڑتی ہے،کبھی کول ٹب کا رسی ٹوٹ جاتا ہے،کبھی زہریلی گیس موت کی نقیب بن جاتی ہے،موت کے بعد بھی کوشش کی جاتی ہے کہ لاش کو ہزاروں ٹن ریت میں یاکسی بندگپھامیں دفن کردیا جائے تاکہ معاوضے سے بچا جاسکے۔‘‘(19)

                مزدور اپنے پسینے سے زمین کو سیراب کرتے ہیں اور جب اس طرح  اپنے کسی ساتھی کو مرتا دیکھتے ہیں تو کچھ دن تک خوب ان کے خون کو جوش بھی آتا ہے۔ایسا تب ہوتا ہے جب مقامی پولیس ان کی مدد کے لیے بظاہر تیار ہوتی ہے لیکن ان کو اصل مقصد ہوتا ہے کہ مالکوں کو ڈرا دھمکا کر  اپنی جیب گرم کرنااور اس بات کو ہوا دینے کیلئے یونین کے تمام چھوٹے بڑے لیڈر مزدوروں کو بھڑکانے لگتے ہیں۔ایسے معصوم لوگ ہوتے ہیں یہ مزدور کہ اس فکر کو ان کی چاہت سمجھ لیتے ہیں اور یقین کی حد اس قدرکیفرشتے بھی ان کی معصومیت کو دیکھ کر رشک کرتے ہیں  اور آخر میں ان چھوٹے بڑے لیڈروںکے منہ کو پیسے سے بند کردیا جاتا ہے۔بالکل اسی مقصد کے لیے ہی تو مزدوروں کو بھڑکا رہے تھے۔

                آگ میں تیل ڈالنے کا کام کر رہے تھے اور جب ان کا مقصد پورا ہوجاتا تو معاملہ ایسے ٹھنڈا ہو جاتا ہے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہ تھا۔مزدور بیچارے اپنا سا منہ لے کر بیٹھ جاتے ہیںاور واپس یاد آتی ہے ان کو اپنی بھوک،پھر اپنے جذبات کو پس پشت ڈال کرپھر سے اپنی مجبوری کی خاطر اندھیرے میں اترنے کیلئے تیا ر ہو جاتے ہیں ایک اور زندہ لاش کو کا ن کے سپرد کرنے یہ بیچارے مزدور ہی ہیں جو اپنی بھوک کی خاطر تمام مجبوریوں کو نظر انداز کیے دیتے ہیں۔ازل سے انسان کی سب سے بڑی مجبوری صرف بھوک ہے بس اسی بات کو ذہن میں رکھے وہ کام کے لیے آمادہ ہوجاتے ہیں۔جو انہیں پیٹ کا ایندھن بھی دیتا ہے اور رنگین سنہرے خواب بھی۔

’’اور ایسے معصوم بے ریا اور سیدھے سادھے لوگ بھی جن کی معصومیت پر فرشتے رشک کریں یہ سب اس ویران چٹیل میدان کی تپتی ہوئی دھوپ میں چٹانوں  سے نبرد آزما ئی کرنے والے لوگ کون سی چیز انھیں یہاں کھینچ لائی ہے؟ ان تمام لوگوں میں صرف ایک چیز مشترک ہے بھوک۔بھوک جو ہزارہا سال سے یا شاید ازل سے انسان کی سب سے بڑی مجبوری رہی ہے۔‘‘(20)

                ناول میں الیاس احمد گدی نے جو سب سے اہم موضوع پیش کیا ہے وہ ہے لاقانونیت  اسی لاقانونیت کے زور پر یہاں ہر طرح کا راج ہوتا ہے۔کسی حادثے کے ہونے پہ پولیس کاکام یہ ہے کہ یہ آدمی کس سے جڑا ہوا ہے۔اگر وہ کوئی بڑا آدمی ہے تو بات وہاں ہی ختم کر دی جاتی ہے  اور اگر کوئی آدمی چھوٹا ہے تو مکمل چھان بین کی جاتی ہے اور موٹی رقم ہاتھ نہ آنے پر کیس بناکر کورٹ پہنچا دیا جاتا ہے۔

                ہزاروں فٹ نیچے اندھیر نگری میں شدید حبس ہوتا ہے جسم کے ایک ایک مسام سے پسینہ نکلتا ہے اور جب کوئلے کی سیاہ دھول اس پسینے پہ جم جاتی ہے توآدمی خود بھی سیاہ ہوجاتا ہے۔ نہیں معلوم کہ یہ کوئلوں کی وجہ سے سیاہ ہوچکا ہے، خود پر ہونے والی لاقانونیت کی وجہ سے ،انصاف نہ ملنے کی وجہ سے یا پھر اپنی مجبوریوں کی وجہ سے۔مزدور اس ناول میں سب سے زیادہ مجبورتب معلوم ہوتا ہے جب وہ بھی خود کو انسان سمجھنا چھوڑ دیتا ہے اور خود کو مجبوریوں کی آگ میں جھونک دیتا ہے۔لاقانونیت کو خود پہ مسلط کر لیتا ہے اپنی آواز کو اپنے اندر کبھی چیخنے کا حق نہیں دیتا۔

                اپنی اس ذہنی حالت کے پیش نظراس غیر انسانی مشقت کو برداشت کرنے کیلئے مزدور شراب پیتے ہیں ناقص شراب جو ان کو اندر ہی اندر ختم کردیتی ہے،لاغر کردیتی ہے،بیمار کر دیتی ہے یہ کھانستے ہیں اور خون اگلنے لگتے ہیں اور پھر اس طرح وہ قرض کے بوجھ تلے دبتے دبتے سور خوروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور سود خور ان کو ماہانہ آمدنی آنے سے پہلے ہی موت کے فرشتوں کی طرح اپنے گھر کھڑے نظر آتے ہیں۔ماہانہ ملنے والی آمدن سے بھی دگنا ان سے چھین لیا جاتا ہے۔ مزدوروں نے اپنی الگ دنیا بنا رکھی ہے جہاں اگر کبھی وہ کان سے بچ جاتے ہیں تو سود خور پکڑ لیتے ہیں۔سود خوروں سے بچ جائیں تو بیماریاں آلیتی ہیں۔بس یہ ہر طرف موت ہی ناچتی نظر آتی ہے :

’’عجب دنیا ہے یہ ملک دولت سے اندھا ہو رہا ہے،لیڈر اپنا حصہ لے کر عیش کر رہے ہیں ٹھیکے دار من مانی قیمت وصول کر کے لاکھوں میں کھیل رہے ہیں،مائنگ کا عملہ رشوت کے رویوں سے آسودہ  حال ہے صرف مزدور۔۔۔بس مزدور ہے۔جس کو نہ اپنے پسینے کی قیمت ملتی ہے اور نہ اپنے تھوکے ہوئے خون کا معاوضہ۔‘‘(21)

                مصنف نے ناول میں عورتوں کے بارے میں بھی لکھا ہے کہ کس طرح انھیں جنسی استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔مرد انھیں ہوس کا نشانہ بناتے ہیں۔لیڈر،ٹھیکیدار،بابو اور مالک تو اپنا حق سمجھ کر اس کی عصمت دری کرتے ہیں۔اس کی عصمت کو تار تار کردیا جاتا ہے اور بیچاری عورت کو کسی طرف سے بھی کوئی سہارا نہیں مل رہا ہوتا اگر وہ راضی ہو جائے تو خاموشی سے اور اگر وہ راضی ہو تو معاملہ بندوق کی نوک پر بھی مرد حل کر لیتا ہے۔لوگ خاموش تماشائی بنے نظر آتے ہیں اور اگر کسی نے آگے بڑھ کے عورت کیلیے حق یا انصاف کی کوشش بھی کی تو اس کے سینے میں گولی اتار دی جاتی ہے۔ عورت ہر طرح کے حالات کا اکیلے مقابلہ کر رہی ہوتی ہے۔

                مردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اور یہ سوچتے ہوئے کہ وہ بچ نہیں سکتی ہے تو وہ بھی کھیل کھیلتی نظر آتی ہے۔ اس کے پاس صرف ایک ہتھیار ہے جس سے وہ کہانی کو اپنی مرضی کے مطابق چلاتی ہے اور وہ ہتھیار اس کے جسم کا ہے۔خود مزدور مردوں کو دبانے، ڈرانے کے لیے بھی اوپر والا طبقہ اس کے گھر کی عزت کو تارتار کرتا ہے۔اس کو زردکوب کیا جاتا ہے۔ اور اس کی بہو، بیٹی، اور بیوی کی عزت خراب کر دی جاتی ہے۔اور اس طرح ایک طاقت رکھنے والے مزدور کی قوت کو ختم کر دیا جاتا ہے۔

                اگر کسی میں طاقت ہو بھی تو وہ ایسے حالات کو دیکھتے ہوئے اپنی طاقت کو ظاہر نہیں کرتا اور خاموشی کا تالا لگا لیتا ہے۔وہ جانتاہے کہ مخالفت کے نتیجے میں اسے پیس کررکھ دیا جائے گا۔کولیری میں کام کرنے والی عورتیں جو مردوں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں۔کسی بھی وقت ان کو ہوس پرستی کا نشانہ بنا لیا جاتا ہے۔کولیری کام کا اصول ہے، جو بتایا گیا ہے کہ منہ بند رکھا جائے ، آنکھوں اور کانوں کو ناکارہ بنا دیا ،کچھ دیکھو تو بولو نہیں، کچھ سنو تو بتاؤ نہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ یہاں لوگوں کے پاس دیکھنے والی آنکھ اور سننے والے کان موجود تو ہیں مگر بولنے والی زبان منہ میں موجود نہیں ہے۔

’’ننکو اس کو ابھی تک  دیکھے جا رہا تھا۔جیسے اس کے چہرے سے کچھ پڑھنا چاہتا ہو۔سہدیو کو ہنسی آ گئی۔ننکو بھائی ایسا مت سمجھیے گا کہ میں اس پر ریجھ گیا ہوں۔ عورتوں سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ننکو بولا عورت کو یہاں کون پوچھتا ہے،ٹکے ٹکے کو ملتی ہیں جتنی چاہو۔مگر قائدہ یہ ہے آدمی ڈھول ضرور بجائے مگر اس کو گلے میں نہ ٹانگے۔‘‘(22)

                مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ناول"فائر ایریا" ادب میں اس کی اہمیت لازوال ہے۔ ناول اپنے موضوع کے ساتھ ساتھ ادب  میں ایک نمایاں اور منفرد مقام رکھتا ہے۔ جس میں معاشرتی پس ماندگی کے ایسے مظاہر کو بیان کیاگیا ہے جو حقیقت کے قریب ہیں۔ ناول میں ایک ذہنی کشمکش دکھائی گئی ہے۔جس میں مزدوروں کا استحصال کیا گیا ہے۔بھوک کو موضوع بنایا گیا ہے، طبقوں کی کشمکش پر قلم اٹھایا گیاہے۔عورتوں کی معاشرے میں کس طرح درجہ بندی کی گئی ہے، مجبوریوں کو عزت پر ترجیح دی گئی ہے۔طاقت کو عروج پر رکھا گیا ہے۔سود خوروں کے رویے اور  مزدوروں کی زندگی کو کھل کر بیان کیا گیا ہے اور بیان کرنے کے لیے جس اسلوب کو مد نظر رکھا گیا ہے وہ پوری طرح سے اپنے طبقے کی نمائندگی کرتا ہے۔اس ناول میں فن و فکر کا بہت خوبصورت امتزاج ملتا ہے یعنی کسی کو بھی ایک دوسرے پر فوقیت حاصل نہیں ہے۔ اردو ادب میں اس ناول کی اہمیت لازوال ہے۔الیاس گدی نے مزدوروں کی زندگی کو  بہت نزدیک سے محسوس کیا ہے اور اسے اپنے قلم کی آواز دی۔ایک مشینی زندگی گزارنے والاانسان جس کا خود کے کمائے ہوئے پیسوں پر بھی بس نام کا حق ہے۔لاقانونیت میں انسان زندگی گزارتا نہیں بس گزار رہا ہوتا ہے۔ دم گھٹنا بے جاحبس زدہ ماحول انسان کو جیتے جی ختم کر دیتا ہے۔ایک نہایت ہی دل کو چھو لینے والامنظر جب مزدور خود کو مجبوری کے تحت انسان ہی سمجھنا چھوڑ دیتا ہے ، خود کو مجبوریوں کے سپرد کر دیتا ہے اور خود پہ لا قانونیت کو مسلط کر لیتا ہے۔ایسا تب ہی ہوتا ہے جب انسان بہت زیادہ چیخ و پکار کر چکا ہو اور اس کی آواز ہزاروں سننے والے کان ہونے کے باوجود بھی صرف اپنے ہی کان سن پائیں تو وہ خود کو انسان سمجھنا  ہی چھوڑ دیتا ہے۔یقیناً الیاس گدی نے بہت مجبور زندگی گزارنے والوں کا حال لکھا ہے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...