Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں |
حسنِ ادب
اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں

دکھیارے
ARI Id

1688708340819_56116287

Access

Open/Free Access

دکھیارے

                ’’دکھیارے‘‘از انیس اشفاق لکھنؤ کی زوال پذیر تہذیب کی عکاسی کرتا ہوا یہ ناول جس میں انیس اشفاق نے بہت سادہ اسلوب زبان اختیار کیا ہے۔ مصنف بہت خوبصورتی سے حال اور ماضی کے واقعات کو بیان کر رہا ہے اور ان واقعات کو حقیقت کے اس قدر قریب تر بتایا ہے کہ کہیں بھی کوئی جھول نظر نہیں آتا۔ مصنف نے ذکر کیا ہے کہ غربت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ مکان کی قرقی ہو گئی ہے۔کرداروں میں ایک ماں اور اس کے تین بیٹے ہیں۔ ایک بیٹا ذہنی عارضے میں مبتلا ہے جس کو جنونی کیفیت ہونے پہ یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ ماں کو اپنی وحشت کا نشانہ بنا رہا ہے۔

                مصنف نے ناول میں حالات و واقعات کو اس طرح بیان کیا ہے کہ تمام کڑیاں ایک دوسرے سے باہم مربوط ایسے معلوم ہوتی ہیں کہ بات میں سے بات نکلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ناول کے آغاز میں ہی مصنف حال میں بات کرتے کرتے اچانک بات کا رخ کچھ اس طرح سے موڑ دیتے ہیں کہ بات ماضی میں چلی جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مصنف نے خودان سب حالات و واقعات کو قریب سے محسوس کیا  اور پھر قلم کے ذریعے اس کو ہم تک پہنچایا۔

                ’’ماں ‘‘ نے خود جس طرح حالات کا سامنا کیا  اور اولاد کو بتایا نہیں کہ یہ مکان جس میں وہ رہتے ہیں ان کا نہیں ہے تو پہلی بار پتا چلنے پر احساس ہوا کہ اس بات کو چھپا کر خود تک رکھنا ماں کے لیے کتنا تکلیف دہ تھا۔مکان کی قرقی ہونے پر راز افشاں ہوا کہ باپ نے یہ مکان گروی رکھا ہوا تھا۔ماں نے جیسے تیسے مقدمہ لڑنے کی کوشش کی پر ایک اکیلی عورت کے لیے معاشرے سے جنگ لڑنا ممکن نہ تھا ،وہ مقدمہ ہار گئی۔اس کی ہار سے ہی ہم سب کو اندازہ ہواکہ اب ہمیں اپنے گھر کی چھت نصیب ہونے سے رہی۔ہم سب منت کے ٹھکانوں پہ گزارا کرنے لگے۔ایک دن ماں کی طبعیت بگڑ گئی اور جب ماں کو ہسپتال پہنچایا گیا تو دو دن میں ہی ہمیں اس جہان میں اکیلا چھوڑ رخصت ہو گئی۔جاتے ہوئے ماں نے کہا کہ بھائی کا خیال رکھنا۔ بھائی جو کہ ذہنی عارضے میں مبتلا تھے لیکن الٹ ہوا جو کہ بعد میں میرا خیال رکھنے لگے۔کہیں کام بھی شروع کر دیا جس سے میری فیس بھی نکل جاتی اور گھر کا خرچ بھی نکل جاتا اور انہیں دیکھ کر مجھے وہ وقت یاد آتا جب ایک دن بھائی کو بہت غصہ آ گیا اور اسی غصے کی شدت میں آ کے انہوں نے لالٹین اٹھاکر ماں ہی کے سر میں زور سے مار دی۔ بھائی جو رقم کما کر لاتے لا کر ماں کو دیتے اور پھراسی رقم کا مطالبہ کرتے۔ ماں سے اسی بحث کے دوران انہوں نے یہ سب کر دیا اور ماں شدید زخمی ہو گئی۔انیس اشفاق لکھتے ہیں:

’’ماں لالٹین جلانے سے پہلے صاف کر رہی تھی وہ بڑ بڑاتے جا رہے تھے اور ماں ان کی باتوں کا جواب دینے کی بجائے لالٹین کی چمنی کے ایک مونہہ کو بند کر دوسرے مونہہ کی طرف پھونکیں مار کر ایک پرانے کپڑے سے گھما گھما کر صاف کر رہی تھی۔بڑبڑاتے بھائی چیخنے لگے اور چیختے چیختے ماں کے قریب جا پہنچیاور چمنی اس کے ہاتھ سے چھین کر اس کے سر پر دے ماری۔ بھائی نے چمنی اتنی زورسے ماری کے ماں اپنا توازن کھو بیٹھی  اور زمین پر گر پڑی اور زمین پر گرتے ہی ماں کے سر سے خون بہنے لگا۔‘‘(23)

                ماں کی موت کے بعد  بھائی میں آنے والی تبدیلی چند ہی دن کی مہمان تھی۔حالانکہ شروع میں ٹھکانے بدل بدل کر  بھائی نے مجھے اپنے ساتھ رکھا لیکن پھر ان کی دماغی  حالت پہلے جیسی ہو گئی اور ایک دن اچانک ہم تینوں بھائی الگ الگ رہنے لگے۔

                مصنف نے تینوں بھائیوں کا قصہ کچھ اس طرح بتایا ہے کہ جب تینوں الگ الگ رہنے لگے تو بڑے بھائی کی کچھ خبر نہ ہوئی کہ وہ کدھر ہیں۔ پتا چلا کہ وہ عیسائیت میں داخل ہو گئے ہیں۔ماں کی موجودگی میں بھی کئی دن تک بڑا بیٹا گھر سے غائب رہتا تھا۔ ایک خط چھوڑ جاتا تھا ماں کے لیے۔ایسے  ہی ایک دن وہ اپنے چھوٹے بھائی کو بھی خط لکھتا ہے اور کہتا ہے کہ نہیں بتاؤں گا کہ میں کہاں ہوں پر منجلیک بھائی سے ہوشیار رہنا کہ وہ تمہیں قتل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور ماں کی تمام چیزیں سنبھال رکھنا یہ خط موصول ہونے پر مجھے احساس ہوا کہ بھائی کی حالت درست نہیں مجھے انہیں ڈھونڈنا چاہیے۔بھائی کو دوبارہ جب پایا تو بچوں کو قرآن پڑھا رہا تھا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ کچھ دن کے لیے وہ عیسائی ہوئے تھے پھر مسلمان  ہو گئے، مذہب اپنا ہی اچھا ہوتا ہے۔مصنف کی مشاقی پر اس وقت حیرت ہوتی ہے جب اپنے بھائی کی زندگی کے بیان میں حزن ہمیں زندگی کے قریب  لے جاتا ہے۔

’’کوئی بات تو ہے ان میں جو میں ان کے لیے پریشان رہتا ہوں، کیا بات ہے؟ پتہ نہیں بس یوں سمجھو کہ وہ ان مریضوں میں سے نہیں جنہیں معالج عزیز رکھنے لگتے ہیں۔‘‘(24)

                مصنف نے ناول میں ڈرامہ کی طرح کا منظر رکھا ہے۔زیادہ تر وہ قارئین جو ناولوں میں ڈرامہ جیسی منظر نگاری کو پسند کرتے ہیں انہوں نے لکھنؤ کی تہذیب کو اپنے قلم سے محفوظ کیا ہے۔ دکھیارے کوپڑھتے ہوئے آپ کو پرپیچ واقعات سے نہیں گزرنا پڑتا۔ ایک سیدھی سادھی کہانی ہے جس میں کشش خود بخود ہی پیدا ہو جاتی ہے۔دو بھائیوں کا پیار اور ماں کا ساتھ نہ رہنا دل میں آنے والے سوالوں کو دبانے کے لیے مجبور کرتا ہے کہ ناول کو ایک ہی نشست میں پڑھ لیا جائے۔انیسویں صدی کے ناول دکھیارے کو پڑھ کر نثر کی بلندی کا پتہ چلتا ہے یقینایہ بہت بلندی کا حامل ہے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...