Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں |
حسنِ ادب
اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں

نادار لوگ
ARI Id

1688708340819_56116288

Access

Open/Free Access

نادار لوگ

                عبداللہ حسین کا یہ ناول"نادار لوگ"ایک تاریخی ناول ہے اور اس میں نو آبادیاتی عہد میں اقدار اور سماجی رویوں کے ساتھ ساتھ معاشرے کے پسے ہوئے  طبقے کے استحصال کو نمایاں کرنے کی ایک اہم کاوش ہے۔پاکستان کی تاریخ ادب کے تناظر میں کیا تھی ،ہمیں ان کے اس ناول میں پتہ چلتی ہے۔ناول میں 1947ء کے بعد کے حالات و واقعات یعنی تقسیم کے بعد کن حالات سے گزرنا پڑا، کن واقعات کو برداشت کرنا پڑا اور وہ واقعات جو سیاست اور معاشرتی زندگی کی سطح پر رونما ہوئے اور ان کے کیا نتائج رہے یعنی لوگوں پر کس طرح اثر انداز ہوئے۔ انہیں ناولوں میں موضوع بنایا گیا ہے۔ ملک کی آزادی سے لے کر بہت سے مسائل سامنے آنا شروع ہو گئے تھے۔

                ایسے مسائل جنہوں نے پہلے ہی دن بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ مہاجرین جو دربدر ہوگئے  تھے۔ان کی آباد کاری کا مسئلہ، اثاثہ جات کی تقسیم کا مسئلہ، اس کے علاوہ اقتصادی اور انتظامی مسائل ایسے مسائل تھے جن سے جڑیں کھوکھلی ہو گئی تھیں۔اس وقت جب کہ انصاف کی ضرورت تھی ا س سے لا علمی کا  مظاہرہ کرتے ہوئے جب بد عنوانی کی گئی تو اس نے شروع ہی سے ملک میں نا انصافی اور بد امنی کے بیج بودیے تھے جو کہ آج ایک تن آور درخت بن چکے ہیں۔ جعلی الائنمنٹ کا بازار گرم رہا اور حق تلفیاں ہوئیں جبکہ جاگیردار جو اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔انہیں  پہلے سے بھی زیادہ خوشحال کر دیا گیا۔ اس سے بدعنوانی کی جو فضا قائم ہوئی اس نے محکوم طبقہ کو بالکل کس مپر سی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا۔خون کے وہ دھبے صرف کپڑوں پر نہ لگے تھے بلکہ دل و دماغ پر چھا گئے تھے۔ذہن معاؤف ہو گئے اور اپنوں کی بے بسی ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ ایک ایسی خلیج بڑھ گئی جس نے پاکستانی سماج کو بھی خاصا متاثر کیا۔

                عبداللہ حسین نے بھی ناول میں نادار لوگوں کا ذکر کیا ہے۔کہانی کاتانابانا اسی سیاسی و سماجی پس منظر میں تشکیل دیا گیا ہے۔’’نادار لوگ ‘‘کہانی کا آغاز ریل کے سفر سے شروع ہوتا ہے۔ کہانی کا کردار سرفراز جو کہ میجر کے عہدے پر تعینات ہے۔ سرفراز بہت چھوٹا تھا جب اس کے والد کا انتقال ہو گیا۔ سرفراز سے بڑا اس کا ایک بھائی ہے جو کہ سرفراز سے بڑا ہونے کی وجہ سے ساری ذمہ داری اس پر آ جاتی ہے۔اعجاز تعلیم کے شعبے سے وابستہ ہے اور معلم کے فرائض انجام دے رہا ہے۔اعجاز ایک نرم دل انسان ہے اسی وجہ سے مزدوروں کی حمایت میں ہمیشہ سر گرم رہتا ہے۔ان کی حمایت میں مزدور یونین کے اراکین سے میل جول کی وجہ سے اعجاز سے استعفیٰ لے لیا جاتا ہے۔پھر اس کی زندگی مسلسل مسائل کا شکار ہو جاتی ہے۔کبھی جاگیرداروں کے مسائل تو کبھی کھیتی باڑی  مزدور یونین المختصر اعجاز کی زندگی صرف سیاسی دباؤ کا شکار ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس کی وفادار بیوی جو کہ ہر پل اس کے ساتھ ہے۔ ہر طرح کے حالات میں زندگی میں آنے والے نشیب و فراز میں وہ اس کا ساتھ دیتی ہے۔

                حالات صرف اعجاز کے لیے سازگار نہیں ہوئے بلکہ ان حالات کا سامنا سرفراز کو بھی رہا۔ اعجاز اس کی تعلیم کا خواہش مند تھا مگر سقوط ڈھاکہ کے حوالے سے ایم کمیشن رپورٹ کو جواز بناتے ہوئے سرفراز کو ملازمت سے سبکدوش ہونا پڑا۔اعجاز کا واسطہ ایک جاگیردار جہانگیر سے پڑتا ہے جو کہ سماجی طبقہ کے ان لوگوں میں سے ہے جن کا کام ہی غریب عوام کا استحصال کرنا اور انہیں اپنے غلط ارادوں کے لیے استعمال کرنا ہے۔

                کہانی کے دوسرے باب میں مصنف نے ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جو کہ غریب ہیں اور امراء کے رحم وکرم پر پڑے ہوئے ہیں۔سکھوں کے فسادات اور جھگڑے جس میں غریب عوام پستی چلی گئی اور اُف تک نہ کر سکی کیونکہ انہیں اپنے حقوق  کے لیے آواز اٹھانے کی بھی اجازت نہ تھی۔انہی لوگوں کو عبداللہ حسین نے نادار لوگ کہا ہے۔ظلم و ستم کے ستائے ہوئے جن کو کوئی راہ دکھائی نہیں دیتی،ایسا رستہ نہیں ملتا جس سے وہ ظلم و ستم سے فرار حاصل کر سکیں۔یوں ان نادار لوگوں کی زندگی میں آنے والے اتارچڑھاؤ سے اس کہانی کو تشکیل دیاگیا۔

                اعجاز کا چھوٹا بھائی جب پیدا ہوا تب ا س کی عمر پندرہ سال تھی۔ یوں دوسرے بھائی کی ذمہ داری اپنے بڑے بیٹے پر چھوڑ کر ماں رخصت ہو گئی۔اعجاز پیسہ نہ ہونے کو غربت نہیں سمجھتا تھا۔ اس کی نظر میں غربت کے اور کئی رنگ ہیں۔کہانی  میں ایک جگہ وہ کچھ یوں بات کرتا ہے :

’’سب سے بڑی غربت ذلت کی غربت ہوتی ہے۔ ناطاقتی کی غربت ،زیادتی کیسامنیبیبضاعتی کی غربت ، سمجھو کہ یہ غربت کا صدر مقام ہے۔ پیٹ کا خلا کبھی نہ کبھی بھر جاتا ہے۔ذلت کے داغ مرتے دم تک سینے سے نہیں اترتے‘‘(25)

                اعجاز ایک مثبت دل و دماغ کا مالک ہے جس کے دل میں ہر وقت اپنی امید کے بر آنے کا خیال قائم رہتا ہے۔ اس نے ہمیشہ غریب لوگوں کو پناہ دی اور یہی اس کی کامیابی کا سبب بنا۔ بعد کے حالات اسے سیاست کی طرف لے جاتے ہیں۔وہ مضبوط اعصاب کا مالک لوگوں کی بھلائی کے لیے خود کو اس آگ میں بھی جلنے دیتا ہے۔ وہ غریبوں کے استحصال کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اور مختلف یونینز سے رابطے بڑھاتا چلا جاتا ہے۔جس میں اس کو کامیاب دیکھ کر دشمن کو برداشت نہیں ہوتا تو اسے پھر سے پستی میں ڈالنے کے لیے اس کے کھیتوں میں ہل چلا دیتے ہیں  مگر اس کے بعد بھی وہ نقصان سے دل چھوٹا نہیں کرتا۔ وہ اس بات کو بخوبی جانتاہے کہ صنعت کاروں سے بدلہ لینے کے لیے اسے خود کو معاشی طور پر مستحکم رکھنا ہو گا۔اس کے منشور میں بطور سیاست دان یہ بات شامل ہے کہ وہ غریب عوام کو استحصال اور محکومی سے نجات دلاناچاہتا ہے۔ اس سے پہلے پارٹیوں نے منشور ضرور بنائے ، پر ان پر کام نہ کیا۔ اعجاز ایک ایسے سیاست دان کے طور پر سامنے آیا جس نے سیاسی اجتماع میں قراردادیں منظور کروائیں۔ ملاحظہ ہوں:

’’آج سے۔۔۔ آج سے ہمارا مطالبہ ہے کہ کوئی حکومت اور کوئی لیڈر’’ عوام ‘‘کا لفظ استعمال نہ کرے، یہ دھوکہ دہی کا لفظ ہے‘‘(26)

                سیاسی طور پر پس ماندگی کی ایک وجہ جو نظر آتی ہے وہ ہے سیاسی جوڑ توڑ۔اگر کسی سیاسی جماعت کی اکثریت کو جوڑ توڑ کے ذریعے اقلیت میں تبدیل کر دیا جاتا ہے اور اقتدار چھین لیا جاتا ہے تو اس بات کا سیدھا سیدھا مطلب یہی ہوتا ہے کہ عوام اور انتخاب کو رد کر دیا گیا ہے۔ اگر تاریخ میں نظر دوڑائی جائے تو اسی بات نے ملک کو خاص نقصان پہنچایا ہے۔اسی رویہ کو مد نظر رکھتے ہوئے اعجاز کا خون جوش مارتا ہے اور اس کا کردار غریب جو پسے طبقے کی فلاح و بہبود چاہتا ہے۔ وہ غریبوں کو سبز باغ ہرگز نہیں دکھانا چاہتااور نہ ہی قول و فعل کے تضاد کے ساتھ انہیں تنگ کرنا چاہتا ہے۔وہ خود اعتمادی کا ضامن ہے اور اس کے علاوہ جہانگیر کاکردار جو کے عوام کا استحصال کرتا نظر آتا ہے۔جعلی الاٹمنٹ کی صورت میں ملنے والی جاگیر کو غریبوں  پر ظلم روا رکھنے کی رسم اور استحصالی رویے سے آج بھی چھٹکارا نہیں مل سکا بلکہ اقتدار کے ایوانوں میں صرف چہرے ہی تبدیل ہوتے ہیں۔ جو یہ روایت ڈال دی گئی عوام آج تک اسی استحصال کا شکار ہے۔مصنف نے جہانگیر کے کردار کے ذریعے سیاسی چالبازی کو نمایاں کیا ہے۔ سیاست دان کا مطمع نظر صرف اور صرف اقتدار ہوتا ہے۔اپنا خیال عوام کااستحصال سیاست دانوں کا وطیرہ ہے۔ بس اسی وجہ سے آج کی حکومت سیاسی اقتدار اور پیسے تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ اس کے برعکس اعجاز کا کردار جو کہ حکومت کے رویے کواس طرح بیان کرتا ہے۔

’’پچیس سال سے ہم حکومتوں کی بات سنتے آئے ہیں کہ یہ ہو جائے گا ، وہ ہو جائے گا،ایسا کر دیں گے، ویسا کردیں گے،یہ گا، گی گے سنتے سنتے  ہمارے کان پک گئے ہیں۔۔۔۔اس لیے ہمارا دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ آج کے بعد کوئی حکومت یا لیڈر گا ، گی  ،گے کے لفظ استعمال نہ کرے۔یہ بھی دھوکہ دہی کے الفاظ ہیں۔‘‘آج کے بعد‘‘ اعجاز نے کہا حکومت کے ہر بیان میں ’’ہے‘‘ کا لفظ برتا جائے گا یہ سچا لفظ ہے۔‘‘(27)

                انہوں نے ’’نادار لوگ‘‘ میں انسانی زندگی کے ان پہلوؤ ں سے نقاب سرکایا ہے جو کہ خفیہ ہیں۔سیاسی رویوں سے لے کر سماجی رویوں تک ہر ایک کو بے نقاب کرنے کی جسارت کی گیا ہے۔ ہجرت کے وقت بہت سے لوگوں کو ناکامی کا سامنا رہا۔جو ان کے پاس تھا وہ بھی لٹ گیا جس پر وہ لوگ آسرا کر کے بیٹھے تھے کچھ وہ لوگ ہاتھ صاف کرگئے۔جبکہ قوانین کے مطابق جنہوں نے ہندوستان میں اپنی جائیدادیں چھوڑی تھیں۔ان کو آگے چل کے جائیداد کاحصہ پاکستان میں سے ملنا تھا مگر ایسا نہ ہوا۔ یہاں پر موجود مہاجرین نے ان مہاجرین کا خوب استحصال کیا۔ مصیبت کے مارے مہاجرین کے ہاتھ کچھ بھی نہ آیا۔جس کی وجہ سے ابتدا سے ہی لوگوں کو ناکامی کا سامنا رہا اور ملک میں غریب اور مفلوک الحال کی بنیاد رکھ دی۔

                ’’نادار لوگ‘‘ میں بھٹہ مزدوروںسے جو اجرت کی جاتی ہے انہیں تو اس کا بھی علم نہیں ہوتا۔ وہ اسے خرچے کا نام دیتے ہیں۔دن رات کی مشقت کے بعد بھی غریب طبقہ نسلوں کی غلامی میں جکڑا جاتا ہے۔وہ سرمایہ داروں کی اجرت میں اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں اور خود غلامی کی زندگی بسر کرتے رہتے ہیں۔یہ نہ صرف ان کی جسمانی غلامی کی نشانی ہے بلکہ ساتھ ساتھ ذہنی غلامی کا بھی نتیجہ ہے کہ وہ صحیح اور غلط کی پہچان ہی بھول گئے ہیں۔یہ سرمایہ دار کے ہاتھ میں ہے کہ وہ ہر وقت انہیں ڈرا دھمکا کر یا بعض اوقات جسمانی تشدد کر کے بھی اپنا کام نکلوا لیتے ہیں۔ سبط حسین موسیٰ کارل مارکس کا ایک بیان ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’محنت کاروں کو بازار کے بھاؤ سے جو اجرت ملتی ہے اس کے عوض وہ مقررہ وقت میں کئی گنا زیادہ مالیت کا سامان تیار کر دیتے ہیں  لیکن ان فاضل محنت اور فاضل پیداوار کا انہیں کوئی معاوضہ نہیں ملتا۔ یہی قدر فاضل صنعتکار کے نفع، ساہوکار کے سودا اور زمین کے مالک کے لگان اور کرائے کی شکل میں سرمایہ دار طبقے میں بٹ جاتی ہے‘‘(28)

                ’’نادار لوگ‘‘ میں جس طرح پاکستانی سماج کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ اس نے عبداللہ حسین کو ناول نگاروں کی صف اول میں لا کھڑا کیا ہے۔مجموعی طور پر اگر جائزہ لیا جائے تو نادار لوگ ان ناولوں میں شامل ہوتا ہے جن میں تقسیم کے بعد کی صورتحال کو بیان کیا گیا ہے۔

                اردو ادب میں زندگی کی کئی صورتیں جیسے ، اخلاق، تہذیب و تمدن، معاشرتی و سماجی آزادی، جنگیں، حسن و عقیدت، مجاز، کسی کلرک کا قصہ، کسی طوائف کی داستان، قتل و غارت، سیاسی نقطہ نظر، کسی قوم کی بہادری، کسی قوم پر عذاب، کسی طوائف کی عبرت کا نشان ادب کے وسیع کینوس پر ایسی لاکھوں تصویریں بنتی رہتی ہیں۔ ہر دور میں مختلف صورتحال پیش آتی ہے اور اسے مختلف طریقے سے پیش کیا جاتا ہے۔ناول کے ذریعے ان خاموش لہجوں کو  زبان ملتی ہے۔ وہ جذبات کھل کر سامنے آتے ہیں جن پر کوئی اظہار نہیں کر پاتا۔وہ بے بس انسان جو گمنامی اور گمراہی کی زندگی گزار دیتے ہیں۔

                ناول اظہار رائے کرنے کے لیے واحد تسکین کا ذریعہ ہے۔حالات کودونوں طرف سے سمجھنے کر ، خاموش لہجوں کو زبان دینا یہ ادیب کا مقام ہے کہ بعض اوقات وہ ایسے حالات عیاں کر رہا ہوتاہے کہ قاری کو لگتا ہے کہ یہ اسی کی زندگی ہے جو لکھی جا رہی ہے۔معاشرے میں جنم لینے والے نئے نئے جرائم پس ماندگیوں کا سبب بنتے ہیں۔ قتل و غارت ، چوری ، ڈکیتی، خودکشی اور سرکوبی یہ تمام جرائم عام ہو جاتے ہیں۔ادب کے ذریعے ادیبوں نے سماجی برائیوں اور ان پس ماندگیوں سے پردہ اٹھا کر ایک کاری ضرب لگائی ہے اور نا انصافی اور مساوی حقوق روا نہ رکھنے والوں  کے خلاف صدائے احتجاج بلند کیا ہے۔ادیبوں کے اسی رویے کی بنا پر’’چے خوف‘‘ نے کہا ہے کہ ادیبوں نے اپنے ساتھ بھی انصاف سے کام لیا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے ادیب ایک فن کار ہے وہ جو دیکھتا ہے، محسوس کرتا ہے، لکھتا ہے اور اس کے دیکھنے اور محسوس کرنے کا عمل سماج سے ہی وہ لیتا ہے۔اچھا ادیب صرف ادب برائے فن کو ہی نہیں سمجھتا  بلکہ وہ ادب برائے ادب کا قائل ہوتا ہے۔ وہ ادب کو زندگی کا ترجمان  مانتا ہے۔

                اچھا ادیب زندگی اور اس میں موجود پیچیدگیوں سے الجھا رہتا ہے۔ادب کی بنیاد بہرحال مادی، حقائق اور سماجی شعور کی وجہ سے مستحکم ہے۔اس کے بغیر ممکن ہی نہیں کہ ادب تخلیق ہو۔ شعور کی اس تخلیق کا نام ادب ہے جس میں ادیب مادی اور خارجی حقیقتوں کا عکس مختلف حدود و قیود کو مد نظر رکھتے ہوئے ، جمالیاتی تقاضوں کے مطابق پیش کرتا ہے۔یہ ایسا بھی نہیں ہوتا کہ  بالکل ساکن اور جامد ہوبلکہ متحرک ہو اور اس میں زندہ حقیقتوں کا ثبوت ہوتا ہے۔ انسان نے جب قصے کہانیوں کی دنیا میں قدم رکھا یعنی جب وہ تہذیب و تمدن کے زینے چڑھنے  لگا تبھی اس کی دلچسپی کا سامان سماج سے میسر ہوا۔اپنی روزمرزہ زندگی میں وہ جس طرح مسائل ، کشمکش اور پھر اس  سے نجات کے ذرائع اور وجوہات کو دیکھتا ہے تو وہ اسے ادب کے پیرائے میں بیان کرتا ہے۔ حیرت فن کی انتہا ہے اور اسی انتہا کی وجہ سے کہانیوں کا آغاز ممکن ہوتا ہے۔

                شروع میں انسان کا ذہن پس ماندہ تھا  وہ ارد گرد کی پس ماندگیوں کو دیکھنے سے بھی قاصر تھا۔ یہ ادب ہی تھا جس نے انسان کو  کامیابی کے رستے پر گامزن کیا اور آہستہ آہستہ یہ قصہ گوئی کی مدد سے ایک فن کی صورت اختیار کر گیا۔ناول کی صنف ہمارے ہاں مغرب اور بالخصوص انگریزی ادب سے مستعار لی جاتی ہے۔ بہر حال اردو ناول کے ذریعے معاشرے میں جنم لینے والی پس ماندگیوں سے پردہ سرکایا گیا ہے اور اپنی اس کاوش میں ناول کامیاب رہا ہے۔ادیبوں کی کاوش سے معاشرے میں بگاڑ کے مسائل پر کافی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔بالکل درست کہنا ہے چے خوف کہ ادیب درست معنوں میں قدیم زمانوں میں پیغمبر ہوا کرتا تھا اور عام لوگوں کی نسبت وہ زیادہ بصیرت و شعور رکھتا تھا۔ انہوں نے ناداروں اور مفلسوں کی محرومیوں ، ناکامیوں اور تکلیفوں کا جو نقشہ کھینچا ہے اس میں واضح ہے کہ ادیب کامیاب رہا ہے کہ ان کے جذبات عوام کے جذبات کے عین مطابق نظر آتے ہیں۔ شاعروں نے بھی اپنے فکر و فن سے سماج میں ایک نئی روح پھونک کر تازگی کا احساس بخشا ہے۔ شاعروں کی نسبت نثر نے زیادہ اس معاملے میں ترقی کے زینے چڑھے ہیں کہ وہ معاشرے میں ہونے والے بگاڑ کی صورت زیادہ واضح طور پر دکھانے میں  کامیاب رہے ہیں۔ ادیبوں نے قومیت، آزادی اور مساوات کے حقوق یعنی برابری کو عوام تک  پہنچایا ہے۔ یعنی یہ بات درست ہے کہ ادیب اپنے سماج سے ہی متاثر نہیں ہوتا بلکہ اسے متاثر کرتا بھی ہے۔ قاری اگر ایک طرف ادیب  کے نظریے سے خود کو ہم آہنگ سمجھتا ہے تو دوسری طرف وہ خود کو اس کے مطابق ڈھالنے کی بھی کوشش کرتا ہے اور یہی اردو ناول کی سب سے بڑی کامیابی  اور مقصد ہے کہ وہ با شعور طبقے میں پس ماندگیوں کو کم کر سکیں۔

٭٭٭٭٭٭٭

حوالہ جات

1۔صدیقی،عظیم الشان ،اردو ناول۔آغازوارتقا،عفیف آفسیٹ پرنٹرز،دہلی، 2008، ص23

2۔فاروقی،محمد احسن،ناول کیا ہے؟ ،ایجوکیشنل بک ہاوس،علی گڑھ،2006،ص21

3۔اختر ،سلیم،اردو ادب کی  مختصر ترین تاریخ،سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور،2009، ص486

4۔رام بابو سکینہ(مرزا محمد عسکری متراجم) تاریخ بزم اردو، بزم خضر راہ، نئی دہلی،س ن ،ص:47

5۔ناطق علی اکبر، نو لکھی کوٹھی، بک کارنر ، جہلم، اشاعت ہفتم 2021ء

6۔ناطق،علی اکبر،نولکھی کوٹھی،بک کارنر،جہلم اشاعت ہفتم2021ء ص394

7۔تارڑ،مستنصر حسین،خس وخاشاک زمانے،سنگ میلی پبلی کیشنز لاہور2010ئ،ص15

8۔تارڑ،مستنصرحسین ،خس وخاشاک زمانے،سنگ میلی پبلی کیشنز ،لاہور2010ئ،ص34

9۔تارڑ،مستنصر حسین،خس وخاشاک زمانے،سنگ میلی پبلی کیشنز،لاہور2010ئ،ص515

10۔راس میکلی،دا فلاسفی آف فکشن،ص39

11۔ذوقی،مشرف عالم،لے سانس بھی آہستہ روشن پرنٹرس،ص428،429

12۔ایضاً،ص434

13۔ایضاً،ص465

14۔احمد عزیز ،آگ،تخلیقات،لاہور،2000ئ￿ ،ص78

15۔ایضاً،ص102

16۔ایضاً،ص8

17۔ایضاً،ص105

18۔گدی الیاس احمد،فائر ایریا،معیار پبلی کیشنز،نئی دہلی،1994ء ،ص8

19۔گدی لیاس احمد،فائر ایریا،ص9

20۔ایضاً،ص8

21۔ایضاً،ص11

22۔ایضاً،ص52

23۔اشفاق انیس،دکھیارے،شیرزادD-155،بلاک نمبر5گلشن اقبال،کراچی، 2014، ص5

24۔ایضاً، ص7

25۔حسین،عبداللہ،نادار لوگ،سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور،2014ئ،ص317

26۔حسین عبداللہ،نادار لوگ،سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور،2014ء ،ص471

27۔حسین ،عبداللہ،ص473

28۔سبط حسن،موسیٰ سے مارکی تک،کراچی،مکتبہ دانیال،اٹھارویں اشاعت،2014ئ،ص14

٭٭٭٭٭٭٭

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...