Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں |
حسنِ ادب
اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں

نولکھی کوٹھی میں پسماندگی کے مظاہر
ARI Id

1688708340819_56116289

Access

Open/Free Access

Pages

۷۹۔۱۳۰

نو لکھی کوٹھی میں پس ماندگی کے مظاہر

                علی اکبر ناطق کا پہلا ناول’’نو لکھی کوٹھی‘‘جس نے اردو ادب میں ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے اور مصنف کی وجہ شہرت بنا۔یہ ناول 2014ء میں سانجھ پبلی کیشنز لاہورسے شائع ہوا ۔ ناول 448 صفحات پر مشتمل ہے ۔ناول کے اب تک سات ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں اور انہوں نے ناول کا انتساب اپنے ابا جان’’محمد بشیر‘‘ کے نام کیا ہے۔

                مصنف  نے ناول کے ذریعے نہ صرف ادب کے معیار کو طے کیا ہے بلکہ ایک مختلف انداز میں یعنی روایتی اندازسے بالکل الگ ہو کر اسے پیش کیا ہے۔ناول نہایت دل فریب صورت میں اور دیدہ زیب انداز میں تحریر کیا گیا ہے،قاری ایک ہی نشست میں مکمل پڑھنا چاہتا ہے۔اس کا مختلف زبانوں میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔

                فکشن میں ان کا یہ قدم حیرت زدہ کرنے والا ہے۔ نثر کو پڑھتے ہوئے ان کی مکالمہ اور بیانیہ پر مکمل گرفت کا احساس اجاگر ہوتا ہے۔ وہ لکھتے ہوئے ایسی منظر کشی کرتے ہیں کہ پڑھنے والا دنگ رہ جاتا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کہانی بالکل ویسی ہے جس میں قاری اپنا ماضی گزار چکا ہے۔ وہ پڑھتے ہوئے خود کو اس کا ایک حصہ گردانتا ہے۔

                اردو ادب ان سے جتنی بھی امیدیں وابستہ کر لے وہ غلط نہ ہوں گی۔ہمارے دور کے ہو کر بھی انہوں نے نہایت ہی کمال طریقے سے ماضی کے ان واقعات سے پردہ اٹھایا ہے جنہیں ہم قصوں کہانیوں میں سنتے آئے ہیں۔

                معاشرت کی خوبصورت انداز میں عکاسی کی ہے۔ مصنف ناول میں پیچیدہ پہلوؤں کو سامنے لے کر آتا ہے۔ناول میں جس ’’نو لکھی کوٹھی‘‘ کا ذکر کیا گیا ہے وہ اوکاڑہ میں واقع ہے۔ اوکاڑہ میں ہی علی اکبرناطق نے جنم لیا ہے۔انتظار حسین لکھتے ہیں:

’’علی اکبر کا فکشن حقیقت اور کہانی کے پیچیدہ پہلوؤں کو سامنے لے کر آتا ہے۔وہ دیہات اور اس کے کرداروں کی بازیافت کا آدمی ہے اور حقیقی طور پر’’سن آف سوئل‘‘ ہے۔ وہ احمد ندیم قاسمی کی طرح دیہات کا رومان پیش نہیں کرتا بلکہ اپنے کرداروں کو حقیقت کی زندگی عطا کرتا ہے‘‘(1)

                کہانی کا اصل موضوع ان کے شہر اوکاڑہ میں واقع نو لکھی کوٹھی ہے جس کے پیچھے بے شمار حقائق ہیں اور کہانی کا مرکزی کردار ولیم اس کا وارث بتایا گیا ہے۔کیونکہ اسے یہ کوٹھی وراثت میں ملی اور وہ اس کوٹھی سے بے حد محبت کرتا ہے۔ کہانی پڑھتے ہوئے جتنی سادہ معلوم ہوتی ہے اسی پل اتنی ہی پیچیدہ بھی معلوم ہوتی ہے،جب ایک کے بعد ایک پرت سامنے آتی ہے۔ اس ناول  سے پہلے بھی تقسیم ہند کے موضوع پر بہت لکھاگیا ہے۔ ہر ایک نے تقسیم ہند کے موضوع کو ایک نئے انداز میں بیان کیا ہے یا یوں کہا جا سکتا ہے کہ سب نے اپنے احساسات ومحسوسات کے مطابق لکھا ہے۔

                علی اکبر ناطق ان ناول نگاروں میں سے ہیں جنہوں نے تقسیم ہند کو تو موضوع بنایا پر وہ تقسیم ہند سے خائف نظر آتے ہیں۔ہندوستان میں انگریزوں کی کئی سالہ حکومت کا خلاصہ انہوں نے بہت خوبصورت انداز میں کیا ہے۔نو لکھی کوٹھی اس حصے میں تھی جو حصہ پاکستان میں شامل ہو گیا۔ کہانی کا مرکزی کردار ایک انگریز ہے۔وہ اپنی اس کوٹھی میں تا عمر رہنے کا خواہش مند ہے۔ وہ اپنی ساری زندگی اپنی پہچان پر قربان کر دیتا ہے،مگر لوگوں کا تعصب آمیز رویہ اسے قبول نہیں کرتا  اسے انگریز ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کی نفرت کا سامنا رہا اور وہ خود کو ہندوستانی کہتا رہا مگر کوئی اسے اس کی پہچان کے ساتھ قبول نہیں کرتا۔ کیونکہ کہانی تاریخی پس منظر میں تقسیم ہند کے گرد گھومتی ہے۔ اس لحاظ سے اسے تاریخی ناول کہا جا سکتاہے۔علی عباس حسینی اس  بارے میں رقمطراز ہیں:

’’مسلمانی عظمت اور گزشتہ صولت کی یاد ایام ہمارے خونی اثرات میں ، ہیجان پیدا کر کے ہمیں زندہ کرنے والی چیز ہے لیکن ساتھ ہی۔۔۔۔وہاں پہنچ کر صرف باتوں ہی باتوں میں ٹالاجا سکتا ہے۔ آج جبکہ زمانہ صدیوں آگے بڑھ چکا تو آپ ہی بتایئے کہ ہمیں اگلوں سے تعارف کرانے کے لیے کیسے زبردست اور ہنر مند شخص کی ضرورت ہو گی۔ یعنی وہ صرف باتیں ہی نہ بنائے بلکہ ہماری روح کو ہٹا کر صدیوں پیچھے لے جائے اور وہاں کچھ اس طرح مصروف سیر رکھے کہ نہ تو جی گھبرائے اور نہ بجائے زندوں کے مردوں سے واسطہ پڑے۔‘‘(2)

                مصنف نے ناول میں ثقافت کو بھی موضوع بنایا ہے۔ پنجاب کے مختلف علاقوں کی ثقافت، مذہب ، جاگیردارانہ نظام، حالات ، رہن سہن، تقسیم کے دوران  ہونے والی ملکی و غیر ملکی سازشیں اور ان کے مظالم کا ذکر کیا ہے۔ جن کو  بیان کرنا بھی اذیت ناک رہا ہو گا۔ان کا مداویٰ ناممکن بیان کیا گیا ہے۔وطن سے محبت کا جذبہ ہر کسی میں پایا جاتا ہے۔لیکن جو جذبہ اس نے مرکزی کردار ولیم کے ذریعے ہمارے ذہنوں تک پہنچایا ہے اس کا نقش مٹنا  ناممکن ہے۔ ولیم جسے بے شمار مصائب کا سامنا رہا، بے شمار ٹھوکریں کھائیں، گھر سے  بے گھر ہو گیا لیکن حوصلہ نہ ہارا خود کو اسی مٹی کے سپرد کر دیا جس مٹی سے اسے محبت رہی اور وفاداری کے ساتھ اپنی تمام تر محبتیں اپنی زمین پر لٹاتا رہا۔ مصنف نے کہانی کو اتنی مہارت سے لکھا ہے کہ کہانی کو پڑھتے ہوئے شروع سے آخر تک وہ قاری کو اپنی گرفت میں لیے رکھتی ہے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...