Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں |
حسنِ ادب
اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں

مرکزی کردار
ARI Id

1688708340819_56116291

Access

Open/Free Access

 مرکزی کردار

                مصنف نے ناول میں کرداروں کو اس طرح باہم گتھا بتایا ہے کہ سب آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔ایک کے بغیر دوسرے کی کہانی مکمل نہیں ہوتی۔ کوئی بھی غیر ضروری محسوس نہیں ہوتا۔ سب کردار اتنے جاندار او رمتحرک ہیں کہ سب کے سب ہی مرکزی کردار معلوم ہوتے ہیں اور یہ اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے کہ ناول کا مرکزی کردار کون ساہے۔مگر چار ایسے کردا ر ہیں جن سے کہانی اختتام تک پہنچتی ہے۔ ایک اسسٹنٹ کمشنر’’ولیم‘‘ جو کہ انگریز ہے۔وہ خود کو ہندوستانی شناخت دینا چاہتا ہے او ر آخری دم تک ناکام رہتا ہے۔ایک جاگیر دار’’حیدر‘‘ جو اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لینا چاہتا ہے اور منفی کردار کے طور پر ناطق نے ’’سردار سودھا سنگھ‘‘کو پیش کیا ہے۔ وہ ایک زمیندا ر ہے ،سکھ ہے اور آخر میں مولوی کرامت، جو کہ امام مسجد ہے،ان چاروں کرداروں کے گردکہانی گھومتی نظر آتی ہے۔مصنف ان چاروں میں ایک ربط قائم رکھتے ہوئے کہانی کو اختتام تک لے جاتا ہے۔آغاز سے آخر تک اپنے اندر بہت سی ان کہی باتیں لیے ہوئے ہے جن کو قاری محسوس کرتا ہے۔ کہانی کے آغاز سے ہی جو داستان بیان کی گئی ہے وہ غلام حیدر اور سودھا سنگھ کی دشمنی کی ہے۔پڑھتے ہوئے شروع میں یہ دونوں ہی مرکزی کردار معلوم ہوتے ہیں۔ پھر جب ’’ولیم‘‘کا مضبوط کردار کہانی میں شامل ہوتا ہے ۔وہ ان دونوں کی دشمنی سے الگ اپنی ایک ہی دھن میں نظر آتا ہے۔وطن سے محبت، اپنی زمین سے محبت اور اسی زمین کو اپنی زندگی مانتا ہے اور مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ناول کے بہت سے کردار حقیقت سے قریب ہیں۔ جیسے ’’محمد علی جناح، لارڈ ماؤنٹ بیٹن، نواب افتخار ممدوٹ ‘‘اور ناول کے آخر میں مصنف  خود بھی ناول میں موجود ہے۔ ناول ’’نو لکھی کوٹھی ‘‘پر امتیاز احمد نے کالم لکھا ،جس میں انہوں نے ناطق کے فن کو سراہا۔

’’بلا شبہ و مبالغہ علی اکبر ناطق کو کہانی سنانے کا فن بخوبی آتا ہے اور وہ اپنے کرداروں کی نفسیات سے باخبر ہے۔ علی اکبر ناطق ناول نہیں  لکھتا بلکہ ناول اسے لکھتا ہے‘‘(3)

                مصنف کرداروں کے ذریعے انگریزوں، مسلمانوں اور سکھوں کی نفسیات کوعیاں کرتاہے۔ انگریز افسران کا کردار ان کی نفسیاتی کشمکش، سکھ معاشرے کو اس انداز سے بیان کیا ہے  جیسے کہ کوئی بات کرنے والا جز ہی نہ بچا ہو۔اس نے صاف لفظوں میں جز سے کل کا کام لیا ہے۔ وہ کرداروں کے ذریعے معاشرے کی عکاسی کرتے نظر آتا ہے۔کردار اپنے کردار میں اس طرح نظر آتے ہیں جیسے ہمارے ہی آس پاس کے رہائشی ہیں۔ ایک ایک کردار اپنے معاشرے کی پوری طرح سے نمائندگی کرتا ہے۔مردانہ کرداروں کی بہتات ہے جبکہ خواتین کردار نہ ہونے کے برابر ہیں۔’’ولیم‘‘ کے ساتھ کیتھی کا کردار اور ’’سودھا سنگھ ‘‘ کے ساتھ اس کی بیوی،’’حیدر‘‘ کے ساتھ اس کی والدہ کا کردار سپورٹ کے لیے لکھے گئے ہیں۔خواتین کی موجودگی ناول میں نہ ہونے کے برابر ہے۔کیتھی کا کردار ولیم کو سپورٹ اس طرح کرتا ہے کہ وہ اسے اس کی وطن سے  والہانہ محبت کے ساتھ چھوڑ کر اپنے ملک واپس چلی جاتی ہے۔ جہاں ولیم کو اکیلے ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں۔وہ بیوی کی جدائی میں کم غمزدہ دکھائی دیتا ہے کیونکہ اس پہ وطن کی  مٹی سے محبت کا جذبہ تمام کہانی میں غالب نظر آتا ہے۔ڈاکٹر نجم الہدی کی کردار اور کردار نگاری میں کچھ یوں کرداروں کے بارے میں لکھا گیا ہے:

’’قصہ نگار اپنے جیسے  لوگوں کے کرداروں سے کچھ معلومات فراہم کرتا ہے، لفظوں کو وسیلہ اظہار بناتااور فنی خصوصیات کا التزام کرتے ہوئے کچھ ایسے اشخاص اپنے قصے میں پیش کرتاہے جو عام انسانوں سے قدرے مختلف ہوتے ہوئے بھی ان سے ملتے جلتے ہوتے ہیں‘‘(4)

کردار کہانی میں جاندار ہوں تو کہانی متحرک رہتی ہے اور کسی بھی کہانی کے عروج وزوال کا باعث بھی یہی کردار نگاری کہلاتی ہے۔نولکھی کوٹھی میں کی گئی کردار نگاری اس کے فن تخلیق کو عروج دیتی ہے۔ایک ایک کردار حقیقت کو اس طرح بیان کرتارہاہے جیسے وہ اس دنیا میں چل پھر رہا ہو۔

 منظر نگاری

                ناطق کی تحریروں میں پنجاب کا رنگ نمایاں نظر آتا ہے وہ تحریروں میں ایسا پنجاب دکھاتے ہیں کہ قاری پنجاب کو محسوس کرنے لگتا ہے۔کھیت کھلیان، پنجاب کے گلی کوچے، فصلیں، رہن سہن المختصر پنجاب کی مکمل تصویر کھینچ دیتے ہیں اور پڑھتے ہوئے قاری کے دل و دماغ میں پنجاب کا نقش ابھرتا ہے۔

’’گاؤں کے ارد گرد زیادہ تر کمادہ ہری ہری برسن کے کھیتوں کے بیچ دور تک پھیلے ہوئے توریے کے زردزرد پھول اور چری کی فصلیں تھیں۔ ایک دو جگہ گڑ بنانے کے بیلنے لگے ہوئے تھے اور آگ  پر چڑھی ہوئی گنے کی پت سے اٹھنے والی حرارت کی خوشبو ہوا میں گھل مل کر سانسوں کو مہکا رہی تھی۔ کچھ سکھ گڈوں پر چارہ لاد کر گاؤں کی طرف جا رہے تھے۔جگہ جگہ رہٹ اور کاریزیں تھیں جن کا شفاف پانی کھالیوں میں سے تیرتا ہوا توریے اور برسن کی فصلوں میں پھیلتا جا رہاتھا۔ اس کے علاوہ کھالیوں کے کنارو ں پر ٹاہلیوں اور پیپلوں کے سایہ دار درختوں کی قطاریں آگے پیچھے جمی ہوئی تھیں۔فصلوں کی سرسبزی اور پانی کی طراوت آنکھوں سے ہو کر دل میں اترنے لگی‘‘(5)

                انہوں نے پنجاب کے حسن کا نقشہ کچھ اس طرح سے کھینچا ہے کہ قاری خود کو پنجاب کی گلیوں، کھیتوںمیں چلتا پھرتا اور دل میں ایک ٹھنڈک کا احساس اترتا ہوا محسوس کرتا ہے۔آنکھوں کے سامنے  ایک خوبصورت منظر پھر جاتا ہے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...