Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں |
حسنِ ادب
اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں

پسماندگی کے مظاہر
ARI Id

1688708340819_56116294

Access

Open/Free Access

پس ماندگی کے مظاہر

                ناطق کے پاس علم کا وسیع خزانہ موجود ہے۔ جب ان کا ناول’’نولکھی کوٹھی‘‘ میں نے پڑھا تو مجھے بھی اس بات سے اتفاق ہوا کہ واقعی ناطق ایک انوکھے شخص ہیں جو علم و حکمت کی دولت سے زرخیز ہیں۔ پنجاب کی مٹی سے ان کو لگاؤ نہیں بے حد لگاؤ ہے۔بہت سادگی سے کہیں دل کی بات کہہ دی تو کہیں انتہائی پیچیدگی سے معاملے کو پیش کیا۔ اپنی ہی ذات میں مست ایک انسان  جو کہ بس لکھتا ہے۔ کبھی لفظوں کو شاعری کا رنگ دیتا ہے تو جب کبھی جذبات سنبھالے نہ جائیں  اور لکھنے کے لیے شاعری سے زیادہ وسعت مانگیں تو انہیں نثر میں مانند گوہر سمو دیتے ہیں۔ تحریر میں جگہ جگہ جزئیات سے جو کام لیا گیا ہے۔ہر با ت کو کھل کر بیان کیاگیا، ہر معاملے اور واقعے کے پیچھے کے اسباب و حقیقت کو کھل کر بیان کرنا بھی کبھی ناممکن نظر آتا ہے۔مگر نو لکھی کوٹھی کو پڑھنے کے بعد یہ احساس ہوا کہ یہ بات بھی اب نا ممکن نہیں رہی۔ ناطق نے ناول میں تقسیم کے بعد کے نقصانات کو بھی بیان کیا ہے۔وہ تقسیم سے ناراض معلوم ہوتے ہیں۔جب تقسیم ہند کے واقعات کو پڑھتے ہیں تو ان کا مخصوص لب و لہجہ بھی محسوس کیا جا سکتا ہے،مولویوں پر نشتر چلاتے نظر آتے ہیں جو کہ طنز سے بھر پور ہوتے ہیں اور سب سے بڑھ کر انہوں نے جو کارنامہ سر انجام دینے کی سعی کی ہے وہ ایڈمنسٹریشن سسٹم کی حقیقت بیان کی ہے۔ انہوں نے ناول کو صرف اس لیے نہیں لکھا کہ پڑھنے کے بعد انہیں نقادوں اور ادیبوں سے داد یا تنقید ملے۔ بس وہ کھلے دل کے ، اپنی طرز کے  واحد آدمی ہیں جنھوں نے ناول صرف اس لیے لکھا ہے کہ پڑھنے والے کہ دل میں پنجاب کی ثقافت اور علاقائی مناسبت کا مکمل نقشہ ابھر آئے اور ایسا ہی محسوس کرے جیسے ناول لکھتے وقت خود ان کے جذبات تھے۔ بہت شدت سے دل میں ظفر اقبال صاحب کی ان کے لیے لکھی وہ لائن جگہ بنا گئی۔ظفر اقبال نے علی اکبر کے فن کو سراہتے ہوئے نولکھی کوٹھی  پر کالم لکھا جس میں وہ کچھ اس طرح رقم طراز ہیں:

"ایسی چنگاری بھی یا رب اپنے خاکستر میں تھی"(8)

                 اس مصرع نے گویا دل ودماغ پر اثر کیا بالکل ایسے ہی محسوس ہوا کہ اس سے بڑھ کر کوئی بات نہیں ہو سکتی تھی جو دریا کو کوزے میں بند کر سکے۔ ناول پڑھتے ہوئے ایسے بہت سے مقامات پر احساس ہوا جہاں وہ پسماندگیوں کو بیان کر رہے ہوں کہیں غربت افلاس کو لے کر جبری تشدد اور مشقت اس کے علاوہ طاقت کا زور، غریب کی آواز کو دبا دینا، حاکم اور محکوم میں فاصلہ، گورنمنٹ کی نظر میں اعتبار حاصل کرنے کے لیے مختلف ہتھکنڈوں کو آزمانا، زمینداروں کا قانون ہاتھ میں لینا، کلرکوں کا اپنے کام میں نا انصافی کا مظاہرہ کرنا،طاقت کے آگے بلند حوصلوں کا پست ہو جانا، غریب یا کم ہمت لوگوں کے لیے تھانیداروں کا غیر مناسب رویہ، پرچہ کاٹنے سے انکار کر دینا، ذاتی عناد اور مفاد پر لڑائی جھگڑے، کاروائی کرنے پر تبادلے کے احکامات جاری ہو جانا، ملاؤں کا وسیع پراپیگنڈا، رشوت لینا، افسروں کا دبدبہ اس طرح کے بے شمار پس ماندگی کے مظاہر اپنی تحریر میں عیاں کیے ہیں۔ جن سے معاشرے میں ہمیشہ بگاڑ رہتا ہے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...