Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں |
حسنِ ادب
اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں

غربت و افلاس جبری مشقت اور تشدد
ARI Id

1688708340819_56116295

Access

Open/Free Access

غربت و افلاس، جبری مشقت اور تشدد

                ایک ان پڑھ اور غریب معاشرہ کبھی بھی ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا۔اسی وجہ سے بڑھتی ہوئی روز بروزسماجی تفریق اور غربت معاشرے میں ناسور کی شکل اختیارکرتی جا رہی ہے۔ معاشرے کا ایک طبقہ اگر زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے سے محروم رہتا ہے تو غربت کسی بھی معاشرے میں اس سماجی تقسیم کا نام ہے جس میں  ایک گروہ خوب ترقی کی منزلیں طے کرے تو دوسری طرف دوسرا گروہ مسلسل غربت و افلاس سے تنگ و تاریک زندگی گزارنے پر مجبورہو۔ کیونکہ اختیارات رکھنے والے کبھی بھی تنگ و تاریک زندگی گزارنے والے سفید پوش لوگوں کو ان کا حق نہیں دیں گے۔لوٹ کا بازار ایسا گرم ہے کہ مردہ ضمیر لوگ یہ بھول بیٹھے ہیں کہ ایک نوالہ ان کے لیے وجہ رحمت بن سکتا ہے۔غربت کی اسی رفتار کو ماپتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ نوجوان نسل اور بچے اس غربت کا شکار ہو رہے ہیں۔بھوک سے تنگ انسان خوشحال و مطمئن زندگی نہیں گزار سکتا، وہ محروم ہے ہر اس پل سے جسے وہ سوچ کر خوش بھی نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے بھی اس درد کو محسوس کیا اور ناول نو لکھی کوٹھی میں اس کو اپنا موضوع بنایا۔

مولوی کرامت کا گھرانہ جو پچھلے تیس سال سے چھوٹے سے گاؤں میں رہتا تھا۔گاؤں کی آبادی سو پچاس گھروں پر مشتمل تھی۔مولوی کا دادا بھی جب اس گاؤں میں آیا تو گدا گری اور چندے سے کام چلاتا تھا۔تب گاؤ ں کی مسجد خالی پڑی تھی۔اس نے ادھر ہی گڈری جما لی اور نماز پڑھنے لگا۔ شروع شروع میں لوگ غربت کو مدنظر رکھتے ہوئیترس کھا کر روٹی دے دیتے تھے۔دیکھا دیکھی گاؤں کے کچھ لوگوں نے اس کے پیچھے نماز پڑھنا شروع کر دی۔اس طرح وہ مسجد میں رہنے لگا۔ اس کے انتقال کے بعد یہ ذمہ داری کرامت علی کے باپ اور باپ کے بعد کرامت علی کو ملی۔ یوں نسل در نسل وہ دن اور آج کا دن یہ لوگ یہاں رہنے لگے لیکن غربت نے دامن نہ چھوڑا۔

’’مولوی کرامت گھر سے نکلا تو اس کے قدم سیدھے نہیں پڑ رہیتھے۔ بار بار عصا پر دباؤ بڑھ جاتا اور سر میں  شدید درد تھا۔ معدہ خالی ہونے کی وجہ سے اس میں تبخیر پیدا ہو چکی تھی۔ اسے رہ رہ کر فضل دین پر غصہ آ رہاتھا۔جو ابھی تک روٹیاں لے کر نہیں آیا تھا۔ مولوی کرامت کو ڈر تھا ، نماز پڑھاتے ہوئے گر ہی نہ  پڑے۔صبح کے وقت ایک گلاس گڑ والی لسی پی کر  ظہر تک نبھانا بہت مشکل تھا۔ اس لیے نماز کے دوران وہ پتہ نہیں کیا پڑھتا رہا۔ بلکہ ایک  دفعہ  تلاوت کرتے ہوئے کسی جگہ کی آیت دوسری جگہ پڑھ گیا۔‘‘(9)

                ادھر فضل دین جو گھر گھر سیروٹیا ں اکٹھی کر کے نکلا تھا وہ الگ ہی مسئلے سے دوچار تھا۔ لوگ اسے روٹیاں دینے کے عوض گھنٹوں کاموں میں مصروف رکھتے،ذاتی کاموں میں جن کے بعد ہی اسے سوکھی روٹیاں لے جانے کی اجازت ہوتی تھی۔ عام طور پر والدین جو خود غربت کا شکار ہوتے ہیں اور اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دے پاتے تو وہ بچوں پر بہت ذمہ داری ڈال دیتے ہیں۔ غربت کے شکار والدین یا وہ جو خود کمانے کے قابل نہ ہوں ایک سے زیادہ افراد کنبہ کی کفالت کی ذمہ داری ہو تو وہ بھی اپنے بچوں کو کم سنی میں ہی ، زبردستی رزق کی تلاش میں سخت کاموں کے لیے زندگی سے لڑنے بھیج دیتے ہیں اور یہ مسئلہ خطرناک حد تک بڑھ کر اس وقت سامنے آتا ہے جب معصوم بچوں سے جبراً مشقت کے علاوہ جنسی استحصال کیا جانے لگتا ہے۔ملازمت کے دوران بلا وجہ بعض اوقات ان کو چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے مصنف نے بھی کرامت علی کے بیٹے فضل دین کے کردار کو بطور نمونہ پیش کیا ہے کہ جب وہ گھر گھر روٹیاں لینے جاتا ہے تو اس کے ساتھ کیا حالات درپیش رہتے ہیں۔

’’اماں لوگ کام لینا شروع کر دیتے ہیں۔فضل دین منہ بسورتے ہوئے بولا، میں کیا کروں؟انکار کرتا ہوں تو روٹیوں کا تھیلا اتار کر رکھ لیتے ہیں۔تب مجھے بات ماننی ہی بنتی ہے۔کون کون ایسا کرتا ہے؟شریفاں نے فضل دین کے سر پرہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔اماں! ملک نظام کی بڈھی حاجن مجھے گھنٹہ گھنٹہ کام میں لگائے رکھتی ہے۔ یہ  سب دیر اسی وجہ سے ہوتی ہے۔ وہ سارے گھر کے کام اکٹھے کر کے میرے انتظار میں رکھ چھوڑتی ہے، بس جاتے ہی کام پر لگا دیتی ہے۔ زیادہ دیر تو وہیں ہوتی ہے۔‘‘(10)

                فضل دین جب وہاں سب کام کر کے گھر سوکھی روٹیاں لے کر آتا  تو گھر پر کرامت علی کے غصے کا نشانہ بنتا۔ کرامت علی کے مطابق فضل دین اپنا وقت اپنے دوستوں  کے ساتھ گزارتا تھا اور گھر کی فکر نہیں کرتا اس لیے گھر اور باہر دونوں طرف سے ہی فضل دین کو اپنی کم عمری کی وجہ سے مشکلات کاسامنا کرنا پڑتا۔یہ معاشرتی  پس ماندگی ہے غربت و افلاس کی اوٹ میں دکھاوا کرنا، مدد کے نام پر غریب کا استعمال کرنا اور اسی معاشرتی برائی سے معاشرے  میں جبری مشقت  اور جنسی تشدد جیسی پس ماندگیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...