Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں |
حسنِ ادب
اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں

حاکم و محکوم میں فاصلہ
ARI Id

1688708340819_56116297

Access

Open/Free Access

طاقت کا زور ،حاکم اور محکوم میں فاصلہ

                ہمارا ہمیشہ سے یہ المیہ رہا ہے کہ ہم اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ دنیا فانی  ہے۔ ہر شے زوال پذیر ہو جائے گی۔ پھر بھی قوت و اقتدار کے ملتے ہی ہم خود کو طاقتور گردانتے ہوئے اپنی زندگی کو حقیقت سے دور لے جاتے ہیں۔ ماضی کے دریچوں سے اگر جھانکیں تو بے شمار ایسے واقعات ملیں گے مگر عصر حاضر میں بھی اس  میں شدت بڑھتی ہی گئی۔ خاص طور پر مشرقی ممالک میں حاکم اور محکوم کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلے ہیں کہ جس کے نتیجے میں عام عوام کے خواب کانچ کی مانند ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔ ایسے چکنا چور کے جن کے شیشے آنکھوں اور ہاتھوں کو مزید چھلنی کر جاتے ہیں۔ دل میں نئی نئی امنگیںامیدیں سر اٹھاتی ہیں اوربالآخر گمنامی میں گم ہوجاتی ہیں۔ دل میں ہمیشہ یہ احساس ہوتا ہے ، کاش یہ اقتدار رکھنے والی قوتیں اس احساس کو ہمیشہ دامن گیر رکھتیں کہ اقتدار صرف اور صرف ایک ڈھلتے سائے کا نام ہے۔اقتدار نہ رہے گا تو خود کی زندگی بھی پھر دل میں آخری خواہش کی طرح سسکی کے ساتھ دم توڑ دے گی۔کاش وہ دن جان پاتے کہ اقتدار ایک آفتاب لب کوہ کا نام ہے۔ یہ حاکم و محکوم کے درمیان فاصلے آشوب قیامت برپا کیے ہوئے ہیں۔اقتدار رکھنے  والی مقتدر قوتوں کو یہ علم ہونا چاہیے کہ عوام کی فلاح و اصلاح ہی ان کے اقتدار کا واحد جواز ہے۔انہوں نے بھی کہانی میں کچھ اس طرح  ہی حاکم و محکوم کے فاصلے کا ذکر کیا ہے کہ کس طرح انگریزوں کی حکومت رہی ، ہندو اور مسلمان  جو کہ آپس کے جھگڑوں میں بھی انگریز حکومت کے پابند تھے اور انگریز حکومت فیصلہ صادر کرنے میں ہی خود کو برتر سطح پر رکھتے۔ انگریز حکومت کا خیال تھا کہ اگر ہر بار مقامی لوگوں کو میل جول کے لیے آسانی فراہم کی تو وہ اس طرح ہیبت سے باہر نکل جائیں گے جو کہ انگریز سرکار قائم رکھنا چاہتی ہے۔ انگریزوں کے مطابق اس طرح ان کا قانون جو ایمپائر کا حقیقی ستون ہے۔دیسی لوگوں کے سامنے چھوٹا پڑ جائے گا۔

’’ولیم حاکم اور محکوم میں ایک فاصلہ ہوتا ہے۔اسے قائم رکھنا حاکم کی ذمہ داری ہے۔دیسی لوگوں کو انصاف فراہم کرو لیکن عدل کے دوران تمہارا ظالم اور مظلوم  سے فاصلہ برابر ہونا چاہیئے۔ان کے درمیان فیصلہ کر کے دونوں سے بے تعلق ہو جاؤ۔ اگر مقامی سے سو دفعہ ملو تو ہر بار اجنبی کی طرح  کیونکہ  تمہاری قربت  اسے تمہاری ہیبت سے باہر کر دے گی اور یہ قانون کو چھوٹا کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہی قانون جو ہماری ایمپائر کا حقیقی ستون ہے۔‘‘(11)

                انگریز حکومت اپنی بقا کے لیے ہر وقت ہوشیار اور متحرک رہنا چاہتی تھی۔ اس لیے وہ ہندو اور مسلمان دونوں کو صاف منظر نہیں دیکھنے دیتے تھے۔وہ چاہتے تھے کہ دونوں ہماری حکومت پر اعتبار کریں اور کسی طرح یہ اعتبار قائم رہے تب تک جب تک ہم خود اپنے پاؤں نہ جما لیں۔وہ یہ بھی جانتے تھے کہ یہ دونوں قومیں اپنے آپ میں ایک بڑی طاقت رکھتی ہیں۔دونوں کا مل جانا بھی انگریز حکومت کے لئے خطرے کا باعث ہوتا اوردونوں میں اس حدتک فساد اور لڑائی جھگڑے بھی انگریز حکومت کے لیے باعث راحت نہ تھے۔ اس لیے وہ ہوشیاری کو اپنا شعار بنا کر چلتے رہنا چاہتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ جب ہیلے نے ولیم کو سمجھایا  تو اس نے کچھ یوں ذکر کیا کہ ہندوستان میں پنجاب واحد ایسا علاقہ ہے جہاں انسان اور جانور ایک ساتھ رہتے ہیں۔ وہ صاف لفظوں  میں انسانوں کو جانوروں سے تشبیہ دے رہا تھا اور ان کی طاقت کا اعتراف بھی کر رہا تھا۔اس  نے نہایت ہی کھلے لفظوں میں  اظہار کیا کہ کس طرح انگریزوں نے دوقوموں کو آپس میں بیوقوف بنا رکھا تھا۔

                ہیلے کا ایک جملہ کہ یہ د ونوں قومیں ایک وقت میں اگر بھینس کی طرح ہیں اور اگر ان سے اختلاف رائے بڑھ جائے تو ایک دم سرکشی بیل بن جاتے ہیں اور لڑنے کے لیے میدان میں اتر آتے ہیں۔سکھ قوم کو تو انگریز احمق جبکہ مسلمان قوم کو وہ خطرناک سمجھتے تھے۔سکھ اپنا نقصان کر کے انگریزوں کے لیے مفید جبکہ مسلمان انگریز کے ہر کام میں اپنی مداخلت کر کے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ ہیلے کا جملہ ولیم کو سمجھانے کے لئے اورسمجھنے کے لیے کافی تھا کہ ان قوموں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تھپکی دینا اور سرکشی کریں تو سینگوں سے دور رہنا ، انگریز ایک عیار قوم ہے۔ ناطق نے جملہ بندی سے اس بات کو ثابت کر دیا۔ ناول  میں ایک  جگہ انگریزوں کی عیاری کا خلاصہ یوں کرتے نظر آتے ہیں :

’’مجھے نہیں معلوم ہمارے مرکز میں کتنی طاقت ہے۔لیکن تمہاے ہیٹ کی چوڑائی پگڑی سے زیادہ ہونی چاہیئے اور سگار کا دھواں حقے سے تلخ۔تم ان کی آنکھوں میں دھواں بھرتے رہو تا کہ یہ صاف نہ دیکھ پائیں۔ اس کے بعد جو تمہاری عینک انھیں دکھائے، یہ وہیں دیکھیں لیکن دھواںتمہاری اپنی آنکھوں کی طرف نہیں آنا چاہیے‘‘(12)

                مسلم طبقے کو مصنف نے  ناول میں رعب ودبدبے  اور غیرت والابتایا ہے جو  صرف غیرت کے لیے لڑتے ہیں، ذاتی مفاد کو ترجیح نہیں دیتے، اس لیے جب غلام حیدر نے اپنے ملازم کے قتل کا بدلہ لیا تو اس  میں بھی ایسی عیار ی سے کام نہیں لیا جس سے دوسرے کا نقصان ہوتا۔ شیر حیدر نے اپنا ایک رعب و دبدبہ رکھا ہوا تھا جس کے لیے اسے کبھی بھی لڑائی کر کے اپنا رعب جمانے کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔

                جلال آباد ایک چھوٹا سا گاؤں تھا جہاں دور دور تک شیر حیدر کی بہادری کا طوطی بولتا تھا۔ شیر حیدر کے تعلقات چھوٹے بڑے تمام زمینداروں اور نوابوں سے تھے جہاں دوسرے لوگ انگریز کا نام سن کر حیرانگی میں چلے جاتے تھے۔ وہاں شیر حیدر انگریزوں سے ذرا کم ہی رابطہ رکھتا تھا۔ شیر حیدر زمیندار تھااور اس کے زیادہ تر حریف سکھ ہی تھے۔ لیکن سکھوں نے بھی کبھی سامنے آ کر وار نہ کیا تھاسوائے سودھا سنگھ کے، سودھا سنگھ کے ساتھ دشمنی پچھلی دو نسلوں سے چلتی آ رہی تھی۔ دشمنی کے باوجود بھی سودھا سنگھ شیر حیدر پر کبھی سبقت حاصل نہ کر سکاکیونکہ طاقت میں شیر حیدر سودھا سنگھ سے زیادہ ہمت والا تھا۔

’’شیر حیدر جلال آباد کے تین گاؤں کا مالک تھا۔ جلال آباد میں اس کی ذیلداری کسی بھی شک و شبے اور چیلنج سے بالاتر تھی۔ خاص تیس چالیس آدمی ڈانگ برچھی سے لیس اس کے ڈیرے پر موجود رہتے لیکن عموماً وہ لڑائی سے پرہیز ہی کرتا۔ کوشش یہی ہوتی کہ معاملہ صلح صفائی سے حل ہو جائے۔ ویسے بھی اتنی بڑی طاقت سے مخالفین دبکے رہتے اور بات آگے نہ بڑھ پاتی۔ اس کے علاوہ شیر حیدر کو انگریز سرکار سے جو ذیلداری کا  پروانہ ملا ہوا تھا وہ بھی کم نہ تھا۔‘‘(13)

                یقینایہ معاشرتی پس ماندگی ہے۔ طاقت کا زور دکھانے والے مظلوم کو پیس کر رکھ دیتے ہیں اور مظلوم بیچارہ حاکم تک اپنی آواز کی رسائی کے انتظار میں ہی اپنے انصاف کی خواہش کو اپنے اندر دبا دیتا ہے۔یہ بے بسی معاشرے کو کھوکھلا کر رہی ہے اور عوام انصاف سے محروم زندگی گزارنے پہ مجبور ہے۔

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...