Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں |
حسنِ ادب
اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں

قانون کے ساتھ بڑے لوگوں کا کھلواڑ
ARI Id

1688708340819_56116298

Access

Open/Free Access

قانون کے ساتھ بڑے لوگو ں کا کھلواڑ

                مصنف نے  ایسے طبقے کا ذکر کیا ہے جو ان لوگوں کو راضی رکھنا فرض سمجھتے ہیں جن سے ان کو کام رہتا ہے۔زیادہ تر گورنمنٹ کو راضی کرنے کے لیے گاؤں کے لوگوں کو نواب اور ذیلدار خود ہی اپنے طور طریقے سے سنبھال لیتے ہیں اور اس بات کی خبر بھی گورنمنٹ کو لگنے نہیں دیتے۔ اس طرح کچھ کو تو انصاف مل جاتا مگر زیادہ تر لوگ اپنی بات کو دل میں ہی دبا کر صبر کرلیتے ہیں۔ نواب اور ذیلدار بھی اپنی اپنی ذات میں اتنے مگن ہوتے ہیں کہ اپنے ماتحت کام کرنے والوں کے سپرد اپنی رعایا کردیتے ہیں۔ اس طرح غریب کی آواز گورنمنٹ تو کیا خود نواب تک بھی نہیں پہنچ پاتی۔ مصنف نے اس درد کو محسوس کیا کہ لوگ کس طرح اپنے حق کے لیے بھی آواز نہیں اٹھا پاتے اور اپنے حق سے دستبردار ہو جاتے ہیں۔معاشرے میں مختلف طبقات کا ہونا بھی ایک حقیقت ہے۔ یہ ایک بہت بڑی سچائی ہیکہ دنیا اختلاف رائے  پر قائم ہے۔ہر کوئی مختلف ہے رنگ، نسل،  زبان، عقائد، امیر، غریب، چھوٹا، بڑا، مختلف رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے مختلف قبائل کے لوگ ریگستانوں، دریاؤں، پہاڑوں،میدانوں کے باسی اور سب سے اہم مختلف نظریات  اور گروہوں کی شکل میں مختلف سیاسی پارٹیوں اور مختلف قائدین سے وابستہ لوگ۔اس سب کے باوجود ان کو جو چیز آپس میں ایک رکھتی ہے وہ ہے ان کاآپس میں اعتمادو یقین، اداریاور ملکی حکومت اس چیز کی ضامن ہوتی ہے کہ رویے انصاف پر مبنی ہوں اور یہی  انصاف پر مبنی رویے ہی مضبوط  معاشرے کی بنیاد بنتے ہیں۔ مگر وہاں جہاں کوئی ایک گروہ سرکش ہو جاتا ہے تو وہ اپنی اجارہ داری کی صورت میں سارا نظام خراب کر دیتا ہے۔

                گورنمنٹ کو بے خبر رکھتے ہوئے مختلف طریقوں سے اپنا مفاد اور دوسروں کے لیے لاتعلقی کا رویہ اپنا لیتا ہے۔وہاں معاشرہ ریت کی طرح بکھرنا شروع ہو جاتا ہے جہاں اعتماد ختم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اگر عوام کا اعتماد مجروح ہو جائے اور حکومت بھی انصاف کا ترازو چھوڑ  فریق کی صورت اختیار کرلے، ادارے حصہ دار بن جائیں تو مضبوط سے مضبوط دیوار بھی گر جاتی ہے۔ مصنف نے بھی کچھ ایسے ہی طبقے کا ذکر کیا ہے جہاں پر وہ لوگوں کو بہت مجبور دیکھتا ہے۔

’’عمومی طور پر قتل اور ڈکیتی کی واردات کے علاوہ اتنے بڑے رقبے میں رہنے والی رعایا سے گورنمنٹ بے نیاز سی ہو جاتی ۔ویسے بھی بڑے زمیندار کچھ تو اپنی ذیلداری کا بھرم رکھنے کے لیے اور کچھ گورنمنٹ کی نظروں میں اعتبار پانے کی غرض سے اپنی رعایا کے فیصلے عام طور پر خود  ہی عدل سے چکا دیتے اس لیے زیادہ تر ایسے علاقوں میں امن و امان  ہی رہتا۔ یا اگر کسی کے ساتھ زور زیادتی ہو بھی جاتی تو وہ صبر کر لیتا اور گورنمنٹ تک بات کم پہنچتی‘‘(14)

                سچ یہ ہے کہ انسان نے ہر طرح کے معاملات میں زندگی گزاری ہے۔وہ انسان مبنی معاشرہ سے لے کر ان ادوار میں بھی زندگی گزار چکا ہے جب ظالم اور جابر حکمران بادشاہ ہوتے تھے۔ہر دور میں زندگی  جینے کے لیے انسان نے مختلف جتن کیے ہیں۔ اگر اس دور کی بات کی جائے جب انسان جنگلوں میں زندگی گزارتا تھاتب کوئی ذات پات کی تقسیم نہ تھی، کوئی امیر غریب نہیں تھا،طبقاتی کشمکش کو تب ہی عروج ملا جب انسان زرعی معاشرہ میں داخل ہوا۔ انسان قبیلوں میں بٹ گیا،زیادہ سے زیادہ کے حصول نے لالچ دلوں میں بھر دیا، بغض کینہ نے ہمدردی کی جگہ لے لی، اجارہ داری اور قبضہ قائم ہوا، امیر ، غریب ، چھوٹا، بڑا اور آقا غلام کی تقسیم کا رواج قائم ہوا۔

                شیر حیدر کی وفات کے بعد دشمن نے دیکھا کہ بیٹا اکیلا رہ گیا ہے اور غلام حیدر کو کوئی تجربہ بھی نہیں تو دوسرے ہی دن کمزور جانتے ہوئے ا نہوں نے کھیتوں پر حملہ کر دیا۔ کہانی میں اصل دشمنی کا آغازیہاں ہی ہوا۔رات کے اندھیرے میں مکئی کا اجاڑا کر دیا  اور جاتے جاتے خاص وفادار ملازم چراغ کو بھی قتل کر گئے۔ غلام حیدر سے چراغ کا قتل برداشت نہ ہوا اور انتقام کی  آگ اس کے اندر بھڑک اٹھی۔چراغ نے آخری دم تک لڑنے کی کوشش کی پر وہ اکیلا بیچارہ کسی  طور بھی معاملے کو سنبھال نہ سکتا تھا۔ دوسرے ملازم نیاز حسین کے ذریعے جب ساری بات غلام حیدر کوپتہ چلی ،ملازم جیسے جیسے واقعہ سناتا گیا غلام حیدر کے چہرے کے تاثرات بدلتے گئے۔ شدید غصے کی حالت میں کپکپی طاری ہو گئی۔واقعے کو مصنف نے بالکل ایسے بتایا ہے گویا غلام حیدر اسی وقت  غلام کا انتقام لینا چاہتا تھا اور غلام حیدر قانون کو نظر انداز کر کے دشمن کو منہ زور جواب دینے کے لیے بالکل تیار تھا اور رفیق پاؤلی کو ایک دم اٹھ کر کہا :

’’سودھا سنگھ کو کیا پیغام دوں؟رفیق پاؤلی نے تشویش کااظہار کرتے ہوئے کہا۔ یہی کہ سکھڑے اب واہگرو سے جو مدد مانگتا ہے مانگ لے کیونکہ موت اسے اب زیادہ مہلت نہیں دے گی۔ غلام حیدر نے غصے سے شدید نفرت پیدا کرتیہوئے کہا، جیسے کہہ رہا ہو کہ میں تیرے واہگرو کو بھی دیکھ لوں گا‘‘(15)

                ناطق نے قانون کو ہاتھ میں لینے کے اس منظر کو اس طرح بیان کیا ہے کہ قاری پر ایک ہیبت طاری رہتی ہے ،اب اگلے  پل کیا ہونے والا ہے اور اسی ہیبت کو مصنف نے پس ماندگی    بھی ظاہر کیا ہے کہ کس طرح معاشرے میں زمینی خداؤں کا اضافہ روز بروز ہو رہا ہے جو قانون کو ہاتھ میں لینا باعث فخر سمجھتے ہیں۔

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...