Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں |
حسنِ ادب
اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں

ذاتی مفادات اور عناد پر لڑائی جھگڑے
ARI Id

1688708340819_56116300

Access

Open/Free Access

ذاتی عناد اور مفاد پر لڑائی جھگڑے

                ہمارے معاشرے کو آج پہلی ضرورت تو یکجہتی کی ہے۔ خود غرضی، قتل وغارت، لوٹ مار انتشار اور خلفشار کو ختم کرنے کے لیے انسانی یکجہتی کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ہمیں اپنے مفاد اور دشمنی کو بھلا کرملک کا سوچنا ہو گا۔ذاتی عناد کی خاطر جب ہم دوسروں کی خوشیوں کو قربان کردیتے ہیں تو گویا ہم اس راستے پر چل نکلتے ہیںجو منزل سے محروم ہے ، کٹھن سفر مقدر بن جاتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اتحاد،ایمان ، اتفاق اور یکجہتی انسان کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ایک کامیاب زندگی گزارنے کے لیے ہمیں اس کو اپنا شعار بنانا ہو گا۔ اس سے ہی تہذیب، وجود اور سماجی نظام نشوونما پاتے ہیں۔مگر اس حقیقت کو جانتے ہوئے بھی کہ اتحاد ہی ہمارا ترقی کی طرف پہلا قدم ہے ہم بدقسمتی سے ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں یکجہتی کا فقدان ہے۔خوشیوں سے محروم انسانوں کے مسائل سے قطع تعلقی کی وجہ سے یہ خامی جڑ پکڑتی جا رہی ہے۔

                دنیا کی تمام اقوام و مذاہب میں یہ شرف سب سے پہلے دین اسلام کو حاصل ہے جس نے یکجہتی کا درس دیا ہے۔بلا تفریق اسلام نیانسانی برادری اور مذہب وملت کا وہ نقشہ کھینچا ہے جس پر سچے دل سے عمل کیا جائے تو یہ ذاتی عناد اور مفاد پر لڑائی جھگڑے کرنے والی دنیا جنت کا منظر پیش کرنے لگے۔ ہمیں خود اس بات کا اعتراف کرنا ہے کہ ہم ہی دست  وبازو اور شریک کار ہیں جو انتشار کی وجہ بنے ہیں۔اس معاشرتی پس ماندگی کو ختم کرنا ہو گا اور اس کے لیے بھی ہمیں خود ہی کوشش کرنا ہو گی۔ اقتدار کے نام پر اور دوسروں  سے اختلاف کے چکر میں ہم ذاتی دشمنیوں کو ہوا دیتے ہیں اور ایک ایسی آگ جلا دیتے ہیں جس کی لپیٹ معاشرے کو اپنے اندر لے لیتی ہے۔ ایک دوسرے کو منافق اور ملحد ہونے کے طعنے دیتے ہیں۔ اس طرح سازشی عناصران کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔کچھ اسی طرح کی صورتحال مصنف نے ناول میں تحریر کی ہے۔ فیروز پور کا علاقہ جس کی وضاحت اس طرح سے کی ہے کہ جہاں فصلیں کم اگتی ہیں اور برچھیاں زیادہ اور ان کا معزز ترین پیشہ چوری اور ڈاکہ زنی ہے۔

                مسلمان اور سکھ دونوں یہاں بستے ہیں اور دونوں ہی ذاتی لڑائی میں اپنے خدا  اور گروجی کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ یہ ان کے خون کی گردش ہے جو ان کو گرمائے رکھتی ہے۔ یہ سکھ ہندو کی ذاتی دشمنی ہی تھی۔دونوں قتل و غارت میں گھروں کی بربادی نہیں سوچتے تھے۔سکھ چاپلوسی اور عیاری میں ماہر تھا اور مسلم اپنی غیرت کے نام پر بدلہ لینے میں۔چراغ کے قتل کے بعد غلام حیدر نے بھی اسی غیرت کا مظاہرہ کیا کہ بدلہ ہر حال میں لینا ہے۔ وہ خون معاف نہیں کرے گا۔ اور بات  بڑھتے بڑھتیقتل وغارت  پہ جا کر ختم ہوئی۔سودھا سنگھ کا غلام حیدر کے گاؤں پر حملہ کرنا سکھ مسلمان کا روپ دے کر چودھراہٹ کے لیے کی گئی۔جس کا  انجام انتہائی خوفناک رہا:

’’سر پہلے تو لڑائی ذاتی عناد اور فرد کے مفاد سے شروع ہوتی ہے  مگر سکھ اور مسلمان دونوں عقل سے زیادہ جذبات میں پلتے ہیں۔ اس لیے یہ لڑائی فوراً کسی ایک کے نعرے کی بنیاد پر مذہبی روپ لے لیتی ہے۔‘‘(18)

                غلام حیدر ایک غیرت مند کردار ہے جس کی ایک ہی  بات ہیکہ وہ اپنے باپ کی وفات کے بعد اپنی رعایا کو یتیمی کی زندگی بسر نہیں کرنے دے گا۔وہ اپنے باپ کی طرح لڑائی جھگڑوں سے دور رہنا چاہتا تھا مگر پھر جب سیاست کے پہیے میں آیا تو گول گول گھومتا ہوا خود کے ہاتھ بھی خون سے رنگ بیٹھا اور اپنے کام کو ،اپنی بات کو پورا کرنے کے لیے ہر حد پار کر گیا۔وہ بھی اپنے پورے رعب وجلال میں آ گیا۔ کچی عمر کا لڑکا اب ایک منجھا ہوا آدمی لگنے لگا اور بھانپ بھانپ کر قدم اٹھانے لگا۔ معاملے کو سمجھا اور بہت ہی ہوشیاری کے ساتھ اس نے اپنے کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔

                غلام حیدر نے پہلے پرچہ کٹوانا مناسب سمجھا تا کہ قانونی کاروائی مکمل رہے۔ لڑائی جھگڑے کے معاملات میں رپورٹیں سب سے زیادہ درج ہوتی ہیں اور انہی معاملات میں رپورٹس کو بدل بھی دیا جاتا ہے۔ جو جتنا گڑ ڈالتا ہے اتنا ہی میٹھا ہوتا ہے۔ اس مثال کو مد نظر رکھتے ہوئے مصنف نے بتایا ہے کہ جس مخالف میں زیادہ طاقت تھی اس نے اتنا ہی زور مارا اور خود کو بچانے کی کوشش کی۔سودھا سنگھ دشمن دار تھا اور آسانی سے ہاتھ آنیوالا نہیں تھا۔تھانیدار تک ٹال مٹول سے کام لیتے تھے کہ پرچہ نہ کاٹا جائے۔ لیکن غلام حیدر نے بھی بھروسہ کرنے کی بجائے معاملے کو  خود ہاتھ میں لیا۔ ناول نگار نے اس المیے پر روشنی یوں ڈالی ہے۔

’’میرا مطبل ہے کہ یہ سودھا سنگھ پر سیدھا الزام ہے جو  عدالت میں ثابت نہیں ہو گا۔خواہ مخواہ قتل ضائع ہو جائے گا۔ ویسے بھی قتل والی رات سودھا سنگھ شیخوپورہ گیا ہوا تھا۔(داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے) میں قتل کے اگلے دن سے ہی سارے معاملے کی تحقیق کر رہا ہوں۔ واہگرو کی سونہہ ایک لمحہ بھی سکون سے نہیں بیٹھا۔دیکھیں سردار جی! غلام حیدر نے زور دیتے ہوئے کہا عصر کا وقت ہو گیا ہے اور میں دشمن داری والا بندہ ہوں، وقت بالکل نہیں ہے، کیس خراب ہو گا تو میرا ہو گا،عدالت میں ثابت ہو گا تو ہمارا نقصان ہو گا لیکن میرا ملزم سردارسودھا سنگھ ہے آپ پرچہ کاٹیں‘‘(19)

                ناول نگار نے کچھ اس طرح سے ہماری توجہ اپنے خیالات کی طرف مبذول کرائی ہے کہ اب تماشہ شروع ہو گا جس میں مدعی اور مجرم دونوں ذلیل ہوں گے اور مفاد پرست پارٹی فائدہ اٹھا جائے گی اور ایسے حالات جن میں رپورٹ تھانیدار نے درج کرنی ہوتی ہے وہ رپورٹ درج کرانے والے کو کھلے دل سے بے عزت کر سکتے ہیں۔

                پولیس بظاہر انصاف دلانے والی ہوتی ہے مگر ایسے حالات میں جب ان کی اپنی نہیں چلتی کہ کس طرف رخ کیا جائے تو مالی فائدہ کو سر فہرست لے آتے ہیں۔ اس پرچے میں وہ جج خود بھی ہوتے ہیں اور دونوں طرف آگ لگانے والے بھی ہوتے ہیں اور اگر کسی نے ضرورت سے زیادہ خوش کر دیا  تو اسے بچانے کے لیے ایسی ایسی کہانیاں گھڑ لیتے ہیں کہ مجرم بھی خود کو ایک فرشتہ صفت انسان سمجھنے لگتا ہے اور ایساکیس آگے عدالت میں پہنچنے سے پہلے ہی فیصلہ کروا چکا ہوتا ہے کہ مجرم با عزت بری ہو جائے گا۔تھانیدار نے جب غلام حیدر کی بات کوسننے سے انکار کیا  اور ٹال مٹول سے کام لیا تو  غلام حیدر کو بھی اپنا اصلی روپ دکھانا پڑا۔

                ناول نگار نے غلام حیدر کے ذریعے معاشرے میں ہونے والے اس غلط فعل کا روپ بے نقاب کیا ہے جس نے معاشرے کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔جب گھی سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو انگلی ٹیڑھی کر لینی چاہیئے اور غلام حیدر نے ایسا ہی کیا تھانیدار بھانپ گیا کہ لڑکا خالی نہیں ہے۔ اس حوصلے اور جگر سے بات کرنا ،آج تک گورنمنٹ میں دو پھولوں والے تھانیدار سے اس طرح مخاطب ہونے کی کسی کی جرات نہیں ہوئی تھی۔ناول نگار نے بتایا کہ کس طرح سیاسی دباؤ کے نیچے گورنمنٹ کو دبا لیا جاتاہے اور ایک عام آدمی بھی اپنی ہیبت سے اپنا ذاتی  کام اپنی من مانی سے کروا جاتا ہے۔

’’دیدار سنگھ نے غلام حیدر کو دلاسے کی شکل میں بات سمجھانے کی کوشش کی مگر یہ جملے سن کر غلام حیدر کے تیور بگڑنے لگے اور وہ تلخی سے بولا، سردار جی آپ کی داڑھی کی مٹی میں نکال دوں گا، میرے پاس بہت بندے ہیں، وہ ساری جھاڑ پونچھ کر دیں گے۔ جوکام تمہارے کرنے کے ہیں وہ تم کرو۔ اگر آج تم پرچہ نہیں کاٹو گے تو آج کے بعد میں تھانے نہیں آؤں گا۔ رشوت کی بھینسیں سودھا سنگھ نے آپ کو بھیجی ہیں مجھے نہیں۔ یاد رکھو پرچہ کٹے گا تو سودھا سنگھ پر ورنہ میں لاہور تک جاؤں گا اور یہ دونوں پھول تارے وردی پر نہیں رہیں گے۔ چراغ دین کا قتل کوئی اندھا نہیں ہیکہ کوئی تھانیدار بھی پی جائے‘‘(20)

                ناول نگار نے بات کو صرف یہاں پر ختم کرنے پر اکتفا نہیں کیا۔ جس خوبصورتی سے مدعی اور مجرم کی جنگ بتائی ہیوہاں اس حقیقت کو بھی آشکار کیا ہے کہ پہلے تو بدقسمتی سے کوئی اس طرح کے کیسوں کو ہاتھ نہیں ڈالتا مگر جب کوئی نیک صفت اس کیس کی طرف اپنا دھیان کرتا ہے تو اسے بھی جڑ سے اکھاڑ دینے کے در پے ہو جاتے ہیں۔ اس میں صرف مجرم ہی ہاتھ پاؤں نہیں مارتا بلکہ بعض اوقات تو اوپر سے ہی اس کے تبادلے کا حکم نامہ جاری کروا دیا جاتا ہے۔ایسا معاشرہ جہاں ہر کوئی طاقت کے سر پر اپنا لوہا منوا سکتا ہے وہاں ہر کوئی ہی مدعی ہے ،مجرم کوئی بھی نہیں، ہر کوئی ہی حق پر ہے۔ سب اپنا دھونس جمانا اپنا عین حق سمجھتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورت حال کا سامنا ناول کے کردار ولیم کو بھی رہا۔وہ بھی چاہتا تھا کہ معاملہ اب سلجھ جائے اور اس کی مکمل انکوائری کرنا چاہی۔

                وہ اس معاملے کو کیوں نہ سمجھ سکا۔وہ اپنے کمرے میں ٹہلنے لگا اور ٹہلتے ٹہلتے اس کی نظر دوبارہ دیوار پر لگی تحصیلداروں کی تصویروں پر پڑی۔ ان تحصیلداروں کی تصویریں آویزاں تھی جو یکے بعد دیگرے جلال آباد میں پوسٹ کیے گئے اور اب اس پر ساری حقیقت عیاں ہو چکی تھی۔ ناول نگار کے مطابق ولیم جیسا انسان جو ایمانداری سے کام کرنا چاہتا تھا اور جب وہ مسلسل کام پر دھیان دینے لگا کہ آخر سودھا سنگھ پکڑ سے کیوں باہر ہے تو اسے احساس ہوا کہ پہلے دن جب اس نے اپنے کمرے میں تصویریں دیکھی تھیںاوریکے بعد دیگرے ان کی جلال آباد میں پوسٹنگ ہوئی تھی اس کے پیچھے بھی یہی راز تھا کہ ان لوگوں نے بھی یہاں کے نوابوں اور ذیلداروں کے مطابق کام کرنے سے انکار کیا ہو گا اور ان کے لیے تبدیلی کے حکم نامے جاری کروا دیے گئے ہوں گے۔

’’اس نے سوچا شاید نئے افسران کیساتھ ایسا ہو جاتا ہے، انہیں کافی عرصہ تک باور نہیں آتا کہ وہ افسران بن چکے ہیں۔ اسی لمحے  اسے خیال آیا اس کی اپنی تصویر بھی اب یہاں آویزاں ہو جانی چاہیے، یہ خیال آتے ہی وہ ہلکا سا مسکرا دیا پھر آگے بڑھ کر گھنٹی پر ہاتھ رکھ دیا‘‘(21)

                تصویر آویزاں ہو جانے سے مراد کہ اب مصنف کے مطابق اس افسر کے تبادلے کا بھی وقت آگیا ہے۔تصاویر کا وہاں موجود ہونااور پھر بھی حالات کا نہ بدلنا اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ تصاویر میں موجود لوگوں نے جب حالات کے درست کرنے کی کوشش کی ہوگی تو تبادلے کے آڈر آگئے ہوں گے۔

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...