Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں |
حسنِ ادب
اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں

رشوت ستانی
ARI Id

1688708340819_56116301

Access

Open/Free Access

رشوت ستانی

                رشوت ستانی ایک جرم ہے۔ایسا جرم جو مجرم کو امید دیتا ہے بلکہ یقین کہ وہ بالکل بے قصور ہے۔ اس میں ایک فرد کی تیسرے فریق کو عام طور پر جو کوئی اتھارٹی رکھتا ہے،(کسی سرکاری بندے کو یا نجی ادارے) کو رشوت دیتا ہے تا کہ وہ اس کے ذریعے فائدہ اٹھا سکے۔اس طرح وہ رقم مختلف قسم کے تحائف ،جاندار یا بے جان تحائف یا مختلف اقسام کی صورت میں دی جا سکتی ہے۔ صرف اور صرف ذاتی مفاد کے لیے اگلے کو خوش کر دینا بلکہ اس کے گلے میں اپنی رشوت کے ذریعے گھنٹی باندھ دینا۔رشوت دینے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ رشوت لینے والا ایسی کاروائی کرے اور ایسا کیس بنا کر پیش کرے جس میں قانون کو بھی اندھا ثابت کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رہے اور معاملہ فرد کے حق میں ہو جائے۔بعض اوقات رشوت دینے کا مقصد خود کو ٹھیک ثابت کرنے کا نہیں ہوتا بلکہ اس لیے بھی ہوتا ہے کہ ہم پر حکومت کرنے والے ہمیشہ کے لیے ناکارہ ہو جائیں اور ہر عمل سے پہلے رشوت دینے والے کا سوچیں۔

                ایک مستقل سرگرمی جس میں اگلے کو اپنا غلام بنا لیا جاتا ہے،اسی کی وجہ سے معاشرتی مسائل بڑھتے جا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہر شعبہ زندگی  میں سفارش،رشوت  اور لوٹ مار کا بازار گرم نظر آتا ہے۔دوسروں کی دل آزاری کرنا، اس کی حق تلفی کرنا نہ صر ف حقوق العباد کی نفی کرتے ہیںبلکہ اس کے ذریعے ہم حقوق اللہ سے بھی انصاف نہیں کرتے۔افسوس صد افسوس اسلام کے معیار کو بھلا کر معاشرے کی اقداروں کو نظر انداز کر کے آج ہم اس رشوت جیسے جرم کو مزید اضافے کی طرف لے جا رہے ہیں۔

                کرپشن کے لیے راہیں ہموار ہم نے خود کی ہیں ، لوگوں کو ناجائز طریقے بھی ہم نے خود سکھائے ہیں اور اس برائی کا شکار بھی ہم خود ہی ہیں کیونکہ ہم فرد کو معاشرے سے کاٹ نہیں سکتے۔ ناول نگار نے بھی کہانی میں کرداروں کے ذریعے اس معاشرتی پس ماندگی کو عیاں کیا ہے۔ ناول نگار کرداروں کے ذریعے ایسی فضا پیدا کردیتا ہے کہ جن گوشوں پر اس کی ڈالی ہوئی تفصیل کی  روشنی نہیں پڑتی وہ بھی قاری پر اجاگر ہو جاتے ہیں۔

’’کیا اس بارے میں تم نے ہمیں رپورٹ دی؟ ولیم کا لہجہ انتہائی سخت ہو چکا تھا، یا تم سمجھتے ہو کہ سودھا سنگھ کو گرفتار کرنا  تمہارے لیے برا شگون ہے کیونکہ غلام حیدر نے تمہارے لیے کبھی دیسی شراب کے مٹکے نہیں بھجوائے‘‘(22)

                غلام حیدر کو اس بات کا  اندازہ پہلے سے ہی تھا کہ پرچہ کٹوانے کے باوجود بھی سودھا سنگھ کبھی بھی پولیس کی گرفت میں آنے والا نہیں۔ اس لیے اس نے صرف پرچہ ہی کٹوایا مگر اس کا پیچھا نہیں کیا۔اس کو یہ بھی پتاتھا کہ سودھا سنگھ سب خرید چکا ہے ورنہ اسے پرچہ کٹوانے میں اتنی بحث نہ کرنی پڑتی۔وصول کنندہ ہی اس معاملے میں ایمانداری دکھاتا ہے رشوت لینے کے بعد کام کو روک دینا۔ناول نگار نے بھی یہ واضح کیا ہے کہ جب لوگوں کے جائز حقوق سیدھے طریقے سے نہ ملیں  اور انصاف معاشرے سے ختم ہو جائے تو رشوت کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔رشوت نہ صرف لینے دینے والے کو برباد کرتی ہے بلکہ اس کے اثرات پورے ملک و ملت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔جس جگہ رشوت اپنا ڈیرہ جما لیتی ہے اس جگہ سے امن و امان ختم ہو جاتا ہے۔ کسی کی جان وعزت محفوظ نہیں رہتی کیونکہ وہاں قانون معطل ہو کر رہ جاتا ہے۔

                رشوت لینے اور دینے والا دونوں ہی جہنم کی آگ میں جلتے ہیں۔اگر ہم تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھیں تو ہم جان جائیں گے کہ یہودیوں میں مختلف برائیاں فروغ پاتی رہیں اور کرپشن کو بھی عروج ملتا رہا۔رشوت ایک ایسی نحوست ہے جو ساری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے ،قوم کو کھوکھلا کر کے غیروں کا خوف خود پر مسلط کر دیتی ہے اوراپنوں میں انتشار پھیلا دیتی ہے۔ غلام حیدر نے بھی جب پرچہ کٹوایا تو اسے ان ہی حالات کا سامنا رہا:

’’پھر اب کیا ارادہ ہے؟ نجم علی نے پوچھا ،پرچہ درج کرایا؟پرچہ تو درج کرا دیا ہے۔غلام حیدر نے بتانا شروع کیا۔پر نجمے لگتا ہے کہ سودھا سنگھ کے ہاتھ لمبے ہیں۔ تھانیدار سے لے کر اوپر تک سب اسی کے کنویں سے پانی بھرتے ہیں۔ابا کیا فوت ہوا سب نے نظریں  پھیر لیں۔اب تو خبر ہے کہ چوہے بھی شراب کے مٹکوں سے نکل نکل کر سامنے آ رہے ہیں‘‘(23)

                ناول نگار نے رشوت کے بارے میں بات کرتے ہوئے تفصیلاً روشنی جو ڈالی ہے وہ ’’ملک بہزاد‘‘ کے کردار کے ذریعے ڈالی ہے۔ملک بہزاد ایک پکا کھاتڑی ہے اپنے وقت کا اور شیر حیدر کا جگری یار۔اس رشتے سے ہی غلام حیدر اسے چچا کہتا ہے۔غلام حیدرنے جب خود کو اکیلا محسوس کیا تو ملک بہزاد نے ہی اس کا ساتھ دیاتھا۔ ملک بہزاد کے مشوروں پر چل کر ہی غلام حیدر نے اپنے کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ ملک بہزاد نے غلام حیدر کو سمجھایا کہ قانون کے پیچھے جانا چھوڑ دے، اگر قانون نے کچھ کرنا ہوتا تو وہ کب کا پھاہے لگ چکا ہوتا۔اس نے صاف لفظوں میں بتایا کہ قانون رشوت کا پجاری ہے۔ رشوت کے بل پر ہی وہ اپنا کام نکلوا سکتا ہے اور یہ بات بھی سوچ رکھو کہ یہ بات اگر میں تمہیں بتا رہا ہوں تو سودھا سنگھ تم سے پہلے یہ بات جانتا ہے۔ وہ پکی ہڈی کا آدمی ہے۔

                رشوت ستانی نے معاشرے میں ایسی جڑ پکڑ رکھی ہے کہ لوگ ڈاکہ زنی، چوری، مکاری اور لوٹ مار آرام سے کر لیتے ہیں اور رشوت کے زور پر باعزت بری بھی ہو جاتے ہیں۔کچھ تو پہلے ہی آدھا حصہ اس آدمی کے نام کر چکے ہوتے ہیں جس کے ذریعے وہ کام نکلوانے کا ہنر جانتے ہیں  رشوت لینے والا تب ہی رشوت لیتا ہے جب وہ اپنا ایمان اور ضمیر بیچ چکا ہوتا ہے۔پھر وہ چاہ کر بھی خود کو راہ راست پر نہیں لا سکتاکیونکہ رشوت کا نشہ اس کی زبان کو لگ چکا ہوتا ہے اور پھر وہ خود کو غیروں سے عظمت و برتری کا احساس خود میں لیے غفلت کا مظاہرہ کرتا ہے۔رشوت نے ہمارے معاشرتی نظام کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ جب یہ وبا پھیل جاتی ہے تو اس کی وجہ سے ہر حاکم و محکوم ہیبت میں مبتلا ہو جاتا ہے اور پورا نظام حکومت لاقانونیت کا شکار ہو جاتا ہے اور اس طرح پوری قوم بے  اطمینانی ، پریشانیوں  اور مختلف قسم کے مصائب کا شکار ہو جاتی ہے۔ناول نگار نے بھی ایسی ہی لاقانونیت کا ذکر کہانی میں کیا ہے۔

’’یہ انگریز بابو اور میمیں یہاں کتے لڑانے، زمینیں خریدنے ، کبوتر اڑانے اور کوٹھیاں بنانے کا دھندا کھلے کھیتوں کرتے ہیں اور یہ سب عیاشیاں رشوت کے بغیر نہیں ہوتیں۔ میرے بھائی کے بیٹے یہ رشوت کا خون ان کے منہ کو بھی لگ چکا ہے۔ ہاں ایک بات ضرور ہے جہاں دیسی دلا دس لیتا ہے یہ گورا وہاں بیس لیتا ہے۔ قل میں فرق ہے کرتوت میں نہیں رہا۔ کیا تو نہیں جانتا؟ اگر یہاں انصاف کی رسی ہوتی تو میں کب کا پھاہے لگ چکا ہوتا‘‘(24)

                ناطق نے رشوت ستانی سے اپنے خیالات کا اظہار بہت ہی عمیق مطالعہ کے بعد کیا ہیکہ کوئی بھی کام اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کے آپ رشوت کا شہد نہیں اگلے کو کھلا دیتے معاشرے میں جڑ پکڑتی یہ برائی معاشرے میں ناسور بنتی جارہی ہے جس پر ناطق نے کہانی میں صاف لکھا ہے کہ اگر انصاف نام کی کوئی چیز ہوتی تو مجرم کب کا پھاہے لگ چکا ہوتا۔

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...