Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں |
حسنِ ادب
اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں

عوام کا استحصال
ARI Id

1688708340819_56116302

Access

Open/Free Access

عوام کا استحصال

                ٹیکس کا موجودہ نظام امیر لوگوں کا تحفظ ، مفلس اور متوسط آمدنی والے طبقے پر بوجھ ڈالتا ہے۔ عام عوام کو جو ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے وہ ضرورت اشیا کے مطابق سترہ فیصد ہوتا ہے مگر تمام  ٹیکسز کو ملا کر تین گناہ زیادہ بن جاتا ہے۔اور یہ ٹیکس امیر آدمی کے لیے تو رائی برابر مگر غریب اور متوسط طبقہ افراد کی کمر توڑ کر رکھ دیتا ہے۔ پاکستان کے تمام رہنما قانون آئین اور جمہوریت کی بات کرتے ہیں مگر ان عظیم رہنما ؤں نے کبھی بھی موجودہ نظام میں ٹیکسز کی اصلاح کا ایجنڈا پیش نہیں کیا تو شروع سے یہ نظام چلتا آ رہا ہے ،یہ جوں کا توںہی رہا اور عوام کا استحصال کیا جاتا رہا۔ قوم مسلسل اقتدار اور اعلی منصب پر فائز لوگوں سے ٹیکس وصول نہ کرنے کی سیاسی سرپرستی کی وجہ سے نقصان برداشت کرتی رہی۔لیکن  اذیت کی بات  تو اصل میں یہ رہی کہ یہ حکومت پھر بھی خود کو عوام کا خیر خواہ کہتی رہی۔موجودہ استحصالی نظام کی وجہ سے وہ افراد جن کا تعلق غریب طبقہ سے ہے انھیں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا جا رہا ہے اور غربا میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ملکی ترقی تب ہی ممکن ہے جب طبقاتی تفریق کا خاتمہ کیا جائے اور مساوات کا نظام روا رکھا جائے۔

                ناول نگار نے کہانی میں عوام کے استحصال کو بھی موضوع بنایا ہے۔زمینداروں کے پاس سرمایہ نہیں ہوتا کہ وہ اچھی کاشت کاری کرسکیں جس کے لیے وہ زمین کے عوض سود پر رقم لیتے ہیں اور مقررہ وقت پر جب سود واپس نہیں کیا جاتا تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ زمین بنیوں کے پاس چلی جاتی ہے۔ اس سے ایک نقصان تو یہ ہو رہا ہے کہ مزارعے دلچسپی لینا چھوڑ دیتے ہیں دوسرا کاشتکاری کا نظام بھی آگے پہنچ نہیں پا رہا اور دوسری طرف ان کے خود کار یعنی نجی بنکاری کی وجہ سے سرکاری  بنکوں کا دیوالیہ نکل جاتا ہے اور اس عمل سے ملک کو کافی خسارہ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ناطق نے سود کا کاروبار کرنے والوں،سود لینے والوں اور بینکوں کو ان سب کو اپنی نثر میں تفصیلاً بیان کیا ہے کہ سود کا کا روبار کرنے والے اس بات سے واقف ہوتے ہیں کہ سود لینے  والا کبھی بھی اتنی رقم  اتنے عرصے میں واپس نہیں کر پائے گا اس لئے وہ پہلے سے ہی یہ سوچ کر بیٹھا ہوتا ہے کہ دونوں طرح سے نفع کیسے  حاصل کیا جا سکتا ہے۔

                زمیندار مجبوراً اپنی زمین کو بنیے کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے خود تو بنیا کاشتکاری کرنے سے رہا اس لیے وہ واپس سود ادا کرتا ہے کہ زمیندار اپنی ہی زمین پر کاشت کاری کرے اور جس کے بدلے اسے کم معاوضہ دیتا ہے۔ اس طرح وہ نہ صرف زمیندار کا بلکہ بنکوں کا بھی دیوالیہ نکال دیتا ہے۔ناطق نے اس معاشرتی پس ماندگی کو زمیندار کے لیے ایک ایسا نقصان کہا ہے جس کی وجہ سے وہ بالکل بے بس ہو جاتا ہے اور دوبارہ کبھی دلجمعی سے اپنا کام نہیں کر  پاتا۔ناطق کہانی میں یوں رقمطراز ہیں :

’’زمینداروں سے سود کی رقم ادا  نہیں ہو پاتی ،نتیجہ یہ کہ ان کا کیس عدالت  میں آجاتا ہے اور عدالت قرضے کے عوض زمینداروں کے مالیاتی حقوق بنیوں کے نام کر دیتی ہے بنیے خود زمینداری سے واقف نہیں۔وہ سب کچھ مزارعوں پر چھوڑ دیتے ہیں یہ مزارع وہی ہوتے ہیں جو ان بنیوں کے مقروض ہیں چنانچہ یہی لوگ ان زمینوں کی کاشت کرتے ہیں لیکن انہیں فصل سے بہت کم حصہ ملتا ہے اور ان زمینوں میں مزارعے دلچسپی چھوڑدیتے ہیں‘‘(25)

                تاریخ گواہ ہے کہ اس طبقاتی کشمکش میں کسان ہمیشہ خسارے میں رہا ہے۔ایک طاقت ور با اثر طبقہ ہمیشہ سے ہی زراعت سے منسلک مزدوروں اور کسانوں کا استحصال کرتا رہاہے۔حکمران جانتے ہیں کہ کسان کی بدولت ہی زرعی پیداوار ممکن ہے انھیں کسان کی محنت کا اندازہ بھی ہے مگر اس کے باوجود بھی انھوں نے جبر اور سختی کا سلوک کسانوں کے ساتھ روا رکھا۔ ان پہ بھاری ٹیکس لگا کر ان کا استحصال کیا ،ان کی زندگی نہ صرف اجیرن کردی بلکہ ان کی پیداوار پر قبضہ کرکے ان کو پستی کی طرف لے گئے۔

                کسانوں میں نہ تو اپنی اس زیادتی پر بغاوت کا کبھی کوئی جذبہ پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی وہ خود متحد ہو کر اپنے لیے کسی قسم کی کوئی کوشش کرسکتے ہیں۔کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ بغاوت کی صورت میں ان کی کامیابی مشکوک ہے۔اس لئے وہ اپنے ساتھ ہونے والے اس سلوک کو بہت حوصلے سے برداشت کرتے ہیں۔کبھی کبھی تو ایک سنگین مسئلے کی صورت میں معاملہ سامنے آتا ہے کہ کسان کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس کی زمین کو بیچ دیا گیا ہے اور اس پر ظلم یہ کہ کاغذوں میں اس کا اندراج بھی نہیں ہوتا۔مصنف نے اس بات کی وضاحت کچھ یوں کی ہے۔

                ٹیکس ادا کرنا کسان کے بس میں نہیں ہوتا اور کچھ وقت کے بعد زمین خودبخود مالیہ ادا کرنے والے کے نام ہو جاتی ہے ۔مگر اس سے بھی اوپر گورنمنٹ کا ہاتھ ہوتا ہے جو کوشش میں رہتی ہے کہ اس کا زیادہ فائدہ بنیے کو بھی نہ ملے۔ کیونکہ بنیا جیسی بھی چال چل لے وہ کسی بھی صورت ٹیکس ادا کیے بغیر زمین اپنے نام نہیں کرواسکتا ہے اور ہاتھ ہمیشہ گورنمنٹ کا ہی اوپر رہتا ہے۔

’’ ہم اس نظام کو مشکل بنا رہے ہیںاورہر حالت میں زمین خریدنے والے پر بھاری ٹیکس لگا رہے ہیں۔وہ کسی بھی صورت میں بغیر گورنمنٹ کو ٹیکس دیے زمین اپنے نام نہیں کروا سکتا۔دوسری طرف بہت سے فیصلے چونکہ تحصیل سطح پر آپ نے خود ہی کرنے ہیں اس لیے کوشش کرنا کہ بنیوں کو کم سے کم ان فیصلوں میں فائدہ پہنچے‘‘(26)

                ناول نگار نے عوام کو مجبور دکھا یا ہیکہ وہ کسی بھی صورت اپنی زمین کو دوبارہ حاصل نہیں کر سکتے۔ زمین داروں کے پنجے سے نکل بھی جائیں تو قانون کا شکنجہبہت سخت آن پکڑتا ہے اور عوام مسلسل غربت وافلاس میں مبتلا زندگی گزارنے پہ مجبورہو جاتی  ہے۔

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...