Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں |
حسنِ ادب
اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں

ملائوں کا پرپیگنڈہ
ARI Id

1688708340819_56116303

Access

Open/Free Access

ملاؤں کا پراپیگنڈہ

                ولیم جب سے جلال آبادآیا تھاوہ اس معمے سے باہر نہیں نکل رہا تھا کہ ایسی کیا وجہ ہے کہ مسلمانو ں کے بچوں کی تعدادسکولوں میں بہت کم ہے۔پہلے پہل تو اس نے سمجھا کہ شاید سرکا رکی طرف سے کوئی رکاوٹ ہے۔جلال آباد کے تمام سکولوں میں مسلمان طلبا کی تعداد صرف ایک سو پینتیس تھی جن میں صرف اٹھارہ بچے اپر درجے کے تھے۔ولیم کو بہت سوچنے پر بھی اسے اس بات کا جواب نہ مل پایا تو تسیر داس سے پوچھا ،جس پر ایسی حقیقت کا انکشاف ہوا کہ خود ولیم بھی حیران ہو گیا۔تیچن داس کے مطابق خود مسلمان ہی اپنے بچوں کو سکول بھیجنے سے کتراتے ہیں۔اس نے بتایا کہ صرف جلال آباد میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ ہر جگہ ہی ایسی کیفیت ہے۔مسلمان حکومت سے خائف رہتاہے۔عدم اعتمادی کی وجہ سے وہ کبھی بھی  اپنی اس ناراضی کو ختم نہیں کرتا اور انتاکم کی آگ جو دل میں جلائے بیٹھا ہے اس میں اپنے بچوں کو بھی جلا کرراکھ کر دینا چاہتا ہے۔ سکھ مسلم فسادات میں ان حالات کا اکثر سامنا رہا۔اپنے بچوں کو بچانے کے لیے مسلمانوں نے ہمیشہ اپنا نقصان کیا ،یا صرف یہ ایک چال تھی جو کارآمد رہی کہ مسلمان کے کان میں بات ڈال دی جاتی  اور پھر اس مسئلے کو اتنی ہوا دی جاتی کہ وہ بھڑک کر شعلہ بن جاتی اور آگ لگ جاتی۔ایسا صرف فسادات کی وجہ سے تھا ناول نگار نے یہ کیفیت  ناول میں کچھ یوں بیان کی ہے :

’’مسلمانوں کے ملاؤں نے انہیں روک رکھا ہے کہ گورنمنٹ کے سکولوں میں نصاریٰ کی تعلیم دی جاتی ہے اور بچوں کو زبردستی عیسائی بنادیا جاتا ہے۔ اس لیے مسلمان اپنے بچوں کو گورنمنٹ سکولوں میں بھیجنے سے کتراتے ہیں‘‘(27)

                گاؤں کا ماحول سادہ اور لوگ بھی سادہ طبیعت کے مالک ہوتے ہیں وہ ان باتوں کو سنتے ہی کہ ان کے بچوں کو نصاریٰ کی تعلیم دی جائے گی اور عیسائی بنا دیا جائے گا۔ وہ وضاحت کے لیے کسی بھی دوسرے سے بات کرنے کی بجائے خود کو قید کر لیتے تھے،ایک ایسے حصار میں قید جہاں صرف ان کی اپنی ہی دنیا ہے اور وہ یہ سمجھ کر کہ اب ان کی اولا داس پراپیگنڈہ سے باہر ہے ، اولاد کو تعلیم سے محروم رکھتے ہیں اور اس طرح ان کے معصوم ذہنوں سے کھیلنے والا اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ آج کے دور میں یہ عام ہو گیا ہے کہ جسے بھی داڑھی رکھے دیکھا گیا تو اسے مولانا صاحب اور ملا سے مخاطب کرنا شروع کر دیتے ہیں۔یہاں تک کہ ہمیں کوئی دینی بات بھی بتانے کی کوشش کرے تو ہم اسے کہنے لگتے ہیں کہ تم تو مولوی ہو گئے ہو۔ اگر جائزہ لیا جائے پرانے دور کا تو یہ بات بھی منظر عام پر آتی ہے کہ ان مولویوں نے ہی پاکستان کو طرح طرح کے فتوے جھاڑ کر تباہ کیا تھا۔ کہیں تباہی اور دہشت گردی کی بات بھی چل نکلے تو اس کے پیچھے بھی مولوی ہیں اور یہ بھی کہ یہ لوگ جاسوس ہیں۔ ایسی تمام باتیں کیوں کی جاتی ہیں ، کوئی توو جہ ہو گی،کوئی تو حقیقت ہو گی؟

                اسلام میں یہ لفظ’’ملا ‘‘اور’’مولوی‘‘ احترام اور تعظیم کے لیے کہے جاتے ہیں اور آج بھی ان الفاظ کو شرفاء میں تعظیم کے لیے استعمال کیا جاتا ہے لیکن اسلام چونکہ دین اور دنیا کو ساتھ لے کر چلنے کی تلقین کرتا ہے۔جہاں کہیں بات سے اختلاف کرتے ہیں وہاں ہی ان مولوی حضرات کو مختلف القابات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔سید ابوالحسن ندوی لکھتے ہیں :

’’نیز اگر یہ صحیح ہے کہ معلم کا اثر متعلم پر پڑتا ہے تو ماننا پڑے گا کہ کتابوں کے جامد نقوش سے جمود پیدا ہو گا اور متحرک و سرگرم انسانوں سے حرکت و سرگرمی اور عمل کی طاقت پیدا ہو گی۔اسی طرح دین کا فہم صحیح اور حکمت عملی بھی صحبت و رفاقت اور حرکت و عمل  کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی کہ ایک صحیح حرکت ہزار پردے اٹھا دیتی ہے۔‘‘(28)

                مسلمان کے گھر میں پیدا ہونے والا دین کسی بیزار طبقے کی نذر ہو گیا ہے۔وہ علماسے ان کے مذہب کی چادر اتار دینا چاہتا ہے اور اپنی ذات کی تسکین چاہتا ہے۔ ان مولویوں کے لیے ہمیشہ سے مختلف پروپیگنڈے،بے توقیری کے الزامات عام کیے جاتے ہیں تا کہ تمام لوگ ان سے متنفر ہو جائیں۔ اس طرح علماسے دوری دین سے دوری کہلاتی ہے اور اس طرح بیزار طبقہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوتا چلا جا رہا ہے۔ انگریز سامراج مولویوں کو دہشت گرد قرار دے کر انہیں جاسوس بھی قرار دیتے ہیں اس کے برعکس ناول نگار نے جو ملاؤں کا کردار بیان کیا ہے اس میں ملا حضرات بچوں کو خود تعلیم سے روک رہے ہیں۔ ان کے شعور کو پستی سے آشنا کر دینا چاہتے ہیں اور انگریز کے خلاف تحریکچلا کر خود اپنے ہی لوگوں کے خلاف سازشیں اور مخبریاں کرتے ہیں۔ انگریز سے مالی مفاد کو سمیٹ لینا چاہتے ہیں اور دین کی حمایت میں اور قومی غیرت کو غارت کرتے نظر آتے ہیں۔اگر صرف ان چند باتوں کا ہی جائزہ لیا جائے تو با آسانی اندازہ ہوسکتا ہے کہ کس قسم کا پروپیگنڈا ملا حضرات کرنا چاہتے ہیں۔ سید ابوالحسن علی ندوی لکھتے ہیں:

’’عربوں کو تہذیب کی تعمیر اور عربی معاشرہ کی تشکیل کا واحد راستہ ایک نئے اشتراکی عرب انسان کی تخلیق ہے۔جس کا عقیدہ یہ ہو کہ اللہ مذاہب جاگیرداری و سرمایہ داری استعمائ￿  وغرض وہ ساری قدریں جو قدیم سوسائٹی پر حکمراں تھیں صرف تاریخ کے میوزیم  کی ممی کی  ہوئی لاشیں ہیں‘‘(29)

                ولیم کو یہ کام مشکل ضرور مگر نا ممکن ہر گز نہیں لگا۔ وہ کوشش کو جاری رکھنا چاہتا تھا۔ وہ گورنمنٹ کو بھی اس کام میں شامل کر لینا چاہتا تھا اور یقین کے ساتھ کہنے لگاکہ وہ گورنمنٹ سے فنڈز بھی منظور کرا لے گا۔ ناطق نے ولیم کے کردار کے ذریعے کہانی میں دکھایا ہے کہ ولیم نے جلال آباد کو کس قدر دنوں میں عروج  دکھایا۔ بہت کم دنوں میں پالیسی کو  ترتیب دیا گیا اور جلال آباد کے جتنے گاؤں تھے ان کو دس پہ تقسیم کیا گیا اور ہر گاؤں کا ایک مرکزی گاؤں بنایا گیا۔

                جس میں آٹھویں درجے کا سکول اس میں دس گاؤں کے بچے پڑھنے آیاکریں گے اور اسی طرح پانچ گاؤں کے لیے پانچویں درجے کا سکول بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ مطلب ملاؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ ان کا کیا رویہ ہے۔ ولیم نے اس پالیسی کو کامیاب کرنے کے لیے مختلف منصوبے بنائے۔ اس طرح تحصیل میں آٹھویں درجے کے تیس اور پانچویں درجے کے ساٹھ سکول بنائے گئے اس کے بعد دسویں درجے کے لیے بھی رپورٹ بنا لی گئی۔ اس ساری رپورٹ کو پورا کرنے کے لیے ولیم نے پکا عزم کیا، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سکھ مسلم تقسیم کے وقت مسلمانوں کو تعلیم حاصل کرنے میں کوئی روک نہ تھی۔ یہ بس مسلمانوں کا ہی رویہ تھا کہ جو خود ان کے بچوں کی تعلیم کی راہ میں دیوار کی طرح حائل تھا۔حکومت نے مسلمانوں کو تعلیم کی طرف لانے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے آزمائے۔ ناطق نے کہانی میں گورنمنٹ اور ملاؤں کا نقشہ یوں کھینچا ہے۔

’’جب تک مسلمان مولوی راستے میں حائل ہیں،یہ کام مشکل نظرآتا  ہے لوگ کسی بھی طرح اپنے بچوں کو سکول بھجنیء پر تیار نہیں ہوتے۔ہم نے لاکھ طرح سے کوشش کرکے دیکھ لی ہے۔آپ ہی کچھ اس بارے میں حکم دیں یا پولیس کے ذریعے خبر سے انھیں لایا جائے اور جرمانے یا سزا کا عمل دخل کیا جائے‘‘(30)

                جب ولیم نے یہ طریقہ کار ملاؤں کا دیکھا تو ولیم نے سوچا کہ ٹیڑی کھیر کو ترکیب سے ہی درست کیا جاسکتا ہے۔ناطق نے یہاں پہ بہت ہی دانشمندانہ ترکیب کو عمل میں دکھایا ہے کہ مسلمان بچوں کو تعلیم کی طرف لانے کے لیے ان ہی کے اندر سے لوگوں کو تعلیم کے عہدے پر فائز کرنا ہوگا۔مصنف کہانی میں مولوی کرامت علی کے کردار کے ذریعے ایک نیا موڑ لے کر آیا۔کرامت علی کو سرکاری نوکری میں لے کر آیا گیااور اسے حکم دیاگیا۔

                 مسلمانوں کو تعلیم کی طرف راغب کرنے کیلئے جتنے بچے وہ لے کرآئے گااتنا ہی اس کی تنخواہ میں اضافہ ہوتا جائے گا۔اس طرح خو دملاؤں کاپراپیگنڈہ بھی ختم ہوجائے گا۔شروع میں کرامت علی کی ڈیوٹی صرف یہی لگائی گئی کہ وہ لوگوں کو تعلیم کیلئے آمادہ کرے گا۔۔پھر ایک دوسری ترکیب ساتھ ہی عمل میں لائی گئی کہ مزید پانچ مولویوںکو سرکاری عہدوں پر فائز کرکے مولوی کرامت علی کو ان کا ہیڈ بنا دو پھر یہ لوگ خود ہی تعلیم کی طرف اپنے بچوں کو کھیچو کر لائیں گے۔ایسا خیال گورنمنٹ کو پہلے نہیں سوجھا تھالہٰذا ولیم کا یہ آئیڈیا واقعی کار آمد رہا۔بعض اوقات انسان خود کو گمراہی کی طرف دھکیل لے جاتا ہے۔کہانی کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ناول نگار ولیم کے کردار کے ذریعے جلال آباد کو جنت کا نقشہ بنا دینا چاہتا ہے جہاں امن انصاف ہو سکون ہو بلاشبہ ولیم کا جاندار کردار کہانی میں بہت خوبصورت رنگ بھرتا چلا گیا۔

’’مولویوں کو سرکاری سکول کی ملازمت دے کر اور انھیں مسلمان بچوں کے داخلے پر نامزد کرکے حقیقت میں ایک تیر سے دو کام لیے جاسکتے تھے کہ جو روکنے والے تھے،وہ اب دعوت دینے والے ہوجاتے اور لوہے سے لوہا کاٹنانہایت ہی آسان ہوجاتا‘‘(31)

                اب جہاں پہ ملاؤں کا وسیع پراپیگنڈہ تھا کہ وہ بچوں کو سکول تو نہ بھیجتے تھے۔وہاں اب وہ اپنی ہی مساجد میں بچوں کو پانچ ٹائم آنے کے لیے کہتے کہ نماز کی طرف آؤ اور جب خاص طور پر جمعہ کا دن گاؤں کاہر مسلمان نماز کے لیے جاتا تو وہ اپنے خطبات میں یہی درس دیتے کہ گورنمنٹ کے سکولوں میں نصاری کی تعلیم دی جاتی ہے، بچوں کو زبردستی عیسائی بنا دیا جاتا ہے اور ان پڑھ سادہ طبیعت ہونے کی وجہ سے لوگ اپنے مولویوں کی باتوں کو سچ مانتے ،پورا پورا عمل کرتے اور حکومت کے بار بار بلانے پر بھی بچوں کو بھیجنے سے انکار کرتے۔

                ناطق نے پس ماندگی کا یہ وہ درجہ دکھایا ہے جہاں جہالت نسلوں میں خون کی طرح دوڑتی ہوئی پائی جاتی ہے۔انسان خود اپنے ہی ہاتھوں سے اپنا مستقبل برباد کر لیتا ہے جبکہ اس نقصان سے ان کو وقتی فائدہ تھا کہ وہ دشمن کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تھے یعنی سکھ برادری پر یقین کرنا اور نقصان اپنا بھی کرلینا۔ایسا پس ماندہ طبقہ اب بھی دور حاضر میں موجود ہے جو اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم سے روک کر کنویں کا مینڈک بنا دیتے ہیں۔آج کے دور میںجہاں لوگ اتنی ترقی کررہے ہیں مشینی دور آچکا ہے وہاںبہت ضروری ہے کہ ان پس ماندگیوں کو بالائے طاق رکھ کر صرف اور صرف مستقبل کا سوچنا چاہیے۔جہالت کا ایک اور منظر ناطق نے ناول میں دکھایا ہے کہ عوا م کی اس قدر بے اعتباری تھی کہ وہ کسی طرح بھی یقین کی طرف نہ آتے تھے۔

                جلال آباد کو کیوں ہر وقت دھول مٹی اور گردوغبار میںدیکھا جاتا ہے،یہ کیوں نہیں سر سبزوشاداب نظرآتا۔ایسی صورت حال میں بھی ولیم نے ہندوستانیوں کے لیے سوچنا شروع کر دیا کہ اب ان کو کس طرح جہالت سے باہر نکالے۔سکھ مسلم تصادم میں زیادہ جو محرومی کی وجوہات تھیں وہ خود انہی کی پیدا کی گئی تھیں دونوں کی آپس میں بے یقینی نے انتشار پھیلا رکھا تھا۔ناطق نے اسی ناراضی کا اظہار کیا ہے کہ وہ سکھ ہندو تقسیم سے خائف نظر آتے ہیں وہ ان دونوں قوموں کو ہی الزام دیتے ہیںاور ہندوستانیوں کی جہالت کا یہ نقشہ کھینچا ہے کہ اس پر قاری کو پڑھ کر ہندوؤں کے اس طریقہ کار پہ ہنسی آئے۔ناطق لکھتے ہیں :

’’لوگ نہر سے نکالے گئے کھالوں کے نگال میں مٹی اور کوڑا کرکٹ بھر دیتے ہیں اور نہر کا پانی فصلوں کو لگنے نہیں دیتے۔ان کے خیال میں گورنمنٹ نے نہر کے پانی میں ایسی دوا ملا رکھی ہے جس سے فصلوں میں بیماری پیدا ہو جاتی ہے۔جب اس کا غلہ لوگ استعمال کرتے ہیں تو وہ بیماری لوگوں میں پھیل جاتی ہے یعنی انسان نامرد ہوجاتا ہے اور نسل آگے نہیں بڑھتی‘‘(32)

                ناول نگارنے بتایا ہے کہ ہندوؤں کا خیال تھا کہ گورنمنٹ ان کو نامرد کرنا چاہتی ہے، نسل کشی کی سازش کر رکھی ہے۔اس لیے وہ سرکاری پانی فصلوں کو لگنے ہی نہیں دیتے تھے اور مکمل  انحصاربارشوںپرکرتے تھے۔ہندوؤں کے اس نازیبا طور طریقے پرگورنمنٹ ان پرحاوی تھی۔ ویسے بھی ناطق کے مطابق  انگریز قوم سکھوں کو جاہل سمجھتی تھی اوران کا یہ ماننا بھی تھا کہ اگر یہ قوم سادہ اور جاہل نہ ہوتی تو کہاں ممکن تھا کہ پندرہ بیس ہزار انگریز ان کروڑوں کی تعداد میں سکھوں پہ حکومت کرتی۔ان کی یہی جہالت تھی جس کی وجہ سے یہ لوگ انگریز سرکار کے دباؤمیں تھے اور انگریز سرکار اس کونعمت سمجھتی تھی۔یہاں بھی ولیم نے راستہ نکالا کہ جس طرح مسلمانوں کو تعلیم سے قربت کے لیے انہی کے بندوں کو سرکاری عہدوں پر فائز کیا۔ادھر بھی ولیم نے حکم جاری کیاکہ وہ پانی جوالاٹ شدہ ہے اس کو ضائع کردیا تو بھاری جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔اس طرح ہندو بھی مجبور ہوئے پانی استعمال کرنے کیلئے،کچھ کوتو یہ خیال بھی تھا کہ سرکار ان سے بھاری معاوضہ لے گی پانی استعمال کرنے کا اس لیے وہ پانی بالکل بھی استعمال نہیں کرنا چاہتے تھے۔

                کہانی کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ مصنف انگریزوں کے خلاف نہیں تھے تو کہیں محسوس ہوتا ہے کہ وہ انگریزوں کوہی ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔اصل بات تو یہی ہے جس کا ذکر انھوں نے بھی کیا ہے کہ وہ ہندو سکھ تقسیم سے خائف نظر آتے ہیں۔انہوں نے کہانی میں ایک ہندو زمیندار کا ذکر کیا ہے جس نے صرف ڈر ہی سے کہ گورنمنٹ پانی کا معاوضہ فصل کی قیمت سے بھی زیادہ لے گی تو اس نے فصل کو کاٹ دیا۔

’’زمیندار سمجھتے ہیں کہ گورنمنٹ ان سے پانی کا معاوضہ لیگی،جو ان کی فصلوں کی قیمت سے بھی زیادہ ہوگا۔اسی ڈرسے ایک زمیندار نے اپنی بیسوں ایکڑ کھڑی چاول کی فصل کاٹ کر اپنے مویشیوں کو کھلا دی تاکہ’’نہ ہو بانس نہ بجے بانسری‘‘ب ایسے میں بتائیے کیا کیا جائے‘‘(33)

                انگریزوں کی کالوں پہ حکومت کا برملا اظہارناول نگار نے وہاں دکھایا ہے جہاں ولیم کو اس کے باپ نے بتایا کے کالے اورگورے کے درمیان ایک فاصلہ ہوتا ہے۔اگر اس فاصلے کوتم اپنی محبت سے ختم کرو گے تو اقتدار کی وہ رسی جو ہم نے ان کالوں کے گلوں میں ڈال رکھی ہے اسے کاٹ دیں گے اور ہمارا اقتدار بھی جاتا رہے گا۔

                ولیم کے باپ نے بتایا کہ اگر اس نے کالوں کو جہالت سے نکال دیا تویہ کبھی بھی دب کر نہیں رہیں گے۔ان کی اس جہالت ہی کی وجہ سے ہم ان پر حکومت کر رہے ہیں چنانچہ اب یہ رعب ودبدبہ ان کالوں پہ قائم رہنا بہت ضروری ہے۔اس گفتگو سے ناطق کا انگریزوں کیلئے سوچنے کا نظریہ کھل کر سامنے آتا ہے کہ انگریز حکومت کیلئے آئے تھے۔ہندو سکھ کو ساتھ میں دیکھ نہیں سکتے تھے دونوں کو جاہل قوم تصور کرتے تھے مگر ایک جگہ پر مولوی کرامت علی کے کردار کے ذریعیگورنمنٹ کی تعریف کرتے بھی نظرآتے ہیں۔

                جب مولوی کرامت مسلمانوں کو پکار رہا ہوتا ہے کہ تم لوگ یہ کیا کررہے ہو تمہارے علاوہ باقی تمام قوموں کے بچے سکول میں تعلیم حاصل کر کے بابو بنیو جارہے ہیں۔تم لوگوں کی خود کی کم عقلی کی وجہ سے زمین بھی بنیوں کے پاس جارہی ہے۔ہمارے قرضے بڑھتے جارہے ہیں مگر کرامت علی نے کہا کہ میں صدقے جاؤں، اس منصف اور عادل گورنمنٹ کے جنہوں نے مسلمانوں کیلئے سکول کھولے اور ہم ہیں کہ پھر بھی ناشکرے یہی حالات رہے تو ایک دن وہ آئے گا کہ وہ سارے پڑھ لکھ جائیں گے اور ان کی جگہ ہماری اولادیں ان کاگند صاف کریں گی۔

                لوگ مولوی کی طرف مائل ہوگئے۔مولوی کرامت نے جب اپنے وار کو کارگر دیکھا تو ایک اور تیر سے نشانہ باندھ دیا کہ ہم ان پڑھ خود خط بھی نہیں پڑھ سکتے جب خط پڑھنا ہوتواوروں  کے پاس  جانا پڑتا ہے اس طرح وہ باتیں جو چھپا نا ہوتی ہیں وہ باتیں بھی پردے میں نہیں رہتی ہیں۔بالآخر مولوی کرامت  کی باتیں لوگوں کے دلوں کو جیت ہی گئی۔

’’ایک شخص جس کی عمرساٹھ سال کے قریب تھی۔اس نے سرسے صافہ اتار کر گھٹنوں کے نیچے رکھا اوربولا،ہم تو پترخط بھی نہیں پڑھ سکتے۔کہیں سے شادی موت کالفافہ آجائے تو بیس دروازے بھونکتے ہیںتب جاکرکوئی پڑھ کرسناتاہے وہ بھی سو نخرے کرتاہے‘‘(34)

                مصنف نے بتایا کہ اپنے ہی لوگوں نے اپنوں کو مفلوج زندگی گزارنے پہ مجبور کر رکھاتھا اور نسل در نسل یہ سلسلہ جاری رہاتاکہ جہالت سرایت کر جائے ،عوم سر اٹھانے کے قابل نہ رہے اور خود اعتمادی ختم ہو جائے۔

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...