Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں |
حسنِ ادب
اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں

الیکشن میں دھاندلی
ARI Id

1688708340819_56116304

Access

Open/Free Access

الیکشن میں دھاندلی

                 جب سے ملک میں پارلیمانی انتخابات ہو رہے ہیں تب سے ہی پاکستان میں انتخابی دھاندلی بھی ہورہی ہے۔اب تک جتنے انتخابات ہو چکے ہیں اس میں سے کوئی بھی ایسا نہیں گزرا جب میں عوام کی رائے کو بدل دینے یا پھر طاقت کے زور پہ اقتدار حاصل کرلینے کا الزام نہ لگایاگیاہو۔ جب بھی انتخابات شروع ہوتے ہیں تو دھاندلی کے نت نئے طریقے بھی دریافت ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔بات کبھی جیلش ووٹوں اور کبھی نتیجے کو بدل دینے پہ آکر ختم ہوجاتی،حد سے تجاویز تب کر تی جب قتل وغارت عام ہو جاتی۔پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد بھی اپنی مرضی کے ووٹ یا مطلوبہ مقدار کے مطابق ووٹنگ کرلی جاتی ہے۔اسے ہم پری پولنگ دھاندلی کہتے ہیں۔یعنی پہلے سے ہی یہ طے کرلینا کسی صوبے کو کتنی نشستیں دی جائیں۔اس میں اس بات کو بھی مدنظر رکھا جاتاہے کہ کسی بھی صوبے کو ملنے والی نشستوں کی تعداد اس کی آبادی کے مطابق ہوتی ہے۔ کیونکہ اگر کہیں آبادی زیادہ ہیاور اسے کم بتایا جائے تواس طرح ضلع کی ووٹنگ کی قوت کو بھی کمزور ،طاقت وریا مضبوط دکھایا جاسکتا ہے۔اس لیے اس سے یہ نتیجہ نکلتاہے کہ جہاں بھی دھاندلی کی جاتی ہے وہ ہے جیری مینڈرنگ اس کا مطلب ہے کہ حلقہ بندیاں کرنا یعنی ایک فریق  جو بہت زیادہ لوگوں کی حمایت رکھتاہے۔اس کے باوجود بھی اسے دوسرے فریق کے مقابلے  میں نقصان اٹھانا پڑے۔اس سے دو بڑ ے مقاصد سامنے آتے ہیں ایک تو جب مخالفین کی حمایت  کم ہوجاتی ہے تو وو ٹر بھی ایک ہی ضلع تک خود کو محدود کرلیتے ہیں۔

                یہ سب سے براطریقہ کار ہوتا ہے کیونکہ یہ بنددروازوں کے پیچھے ہوتا ہے۔ اگر انصاف پسندی سے کام لیا جائے تو وہاں موجود تعدا دنتائج کو بدل کر رکھ سکتی ہے۔تیسرا طریقہ یہ ہے کہ اپنے فریق کی کوئی گزشتہ غلطی یا معافی میں کیاگیا۔کچھ کام جو قانونی طور پر قابل قبول نہیں تو اپنے مخالف امیدوار کے کاغذات نامزدگی کو مسترد کروایا جاسکتا ہے۔مگر اس طریقہ میں بات دنوں پہ پڑ جاتی ہے۔یعنی جس کو نااہل قرار دیا جائے وہ عدالت کی طرف بھی رخ کرسکتا ہے کہ اس کے جرم کو ثابت کیا جائے۔

                ناول نگار نے بھی کہانی میں الیکشن میں دھاندلی کو موضوع بنایا ہے اور سیاسی پس ماندگی کو عیاں کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے۔غلام حیدر جب احسانات کے نیچے دب جانے کا بوجھ محسوس کرنے لگا تو اس نے نواب افتخار کو انتخابات میں مدد کرنے کا فیصلہ کرلیا۔نواب افتخار جو کے پنجاب مسلم لیگ کے صدر ہیں اور اس علاقے سے الیکشن لڑرہے تھے۔جہاں غلام حیدر کا ہی بول بالاتھا۔ناطق نے صورت حال کو کچھ یوں بیان کیا ہے کہ:

’’نواب کا جو میرے اوپر احسان چڑھ گیا ہے وہ تو شاید عمر بھر نہ اترے لیکن کم از کم اس علاقے میں تو اس  کے خلاف کوئی بندہ پر چی نہ ڈال سکے۔اس کے لیے ہمیں  چاہے کسی بھی قسم کی زبردستی کرنی پڑے مسلم لیگ کو ہر حالت میں پورے علاقے سے الیکشن جتوانا ہے۔کانگریس اور یونینسٹ کے امیدواروں کو پرچیاں دینا تو ایک طرف جلسہ تک نہیں کرنے دینا اس کیلیے جتنا اسلحہ چاہیے وہ میں بندوبست کرنے کو تیار ہوں‘‘(35)

                ناول نگار نے کہانی میں بتایا ہے کہ غلام حیدر اس کام کو دل وجاں سے کرنے کے لیے تیار تھاا ور اس میں اپنے ساتھ ملک بہزاد کو بھی ملالیا۔رہی سہی کسرساری ملک بہزاد نے نکال دی کہ مسلم لیگ کو ہر حال میں ہی جیتا  ہوگا اس کا ساتھ ہم نہ دیں گے تو اور کون دے گا۔ اس نے  کہا کہ یہ کام سودھا سنگھ کو دنیا سے رخصت کرنے سے زیادہ مشکل تو نہیں اس نے غلام حیدر کی بات کو مزید ہوادی کہ پہلے جس طرح تم نے سودھا سنگھ کا خاتمہ کیا ہے۔تمہارا نام تو پہلے ہی مشہور ہو چکا ہے۔اس نے غلام حیدر سے کہا کہ الیکشن کے دن اگر نواب افتخار کو کوئی خطرہ لاحق ہوا یعنی ووٹ اس کی حمایت میں گئے تو وہ اپنے بندوں کو ہمارے ساتھ لگا دے ہم انتخابات کے دن ہی پانسہ پلٹ دیں گے۔کسی کی جرات نہ ہوگی کہ وہ  مخالف فریق کو ووٹ ڈالے۔

                بس اس سے پہلے یہ کام کرو کہ اپنی بہادری کے قصے کو مشہور کرو نواب افتخار کے قصوں کومشہور کرو تاکہ لوگ اس کی طرف مائل ہو ں اگر پھر بھی کوئی کسر رہ گئی تو ہم اس علاقے کا دورہ کریں گے اور تمام معلومات لے لیں گے اور حالات کا پانسہ پلٹ دیں گے۔انہوں نے بتایا ہے کہ ایک جیتا ہوا انسان کس طرح ہار جاتا ہے ،سازشوں کا شکار  ہو جاتاہے اور حق سے محروم ہو جاتا ہے۔

’’پھر بھی جس جگہ سے نواب کے خلاف ووٹ پڑنے کا خطرہ ہوا،وہاں نواب سے کہہ دینا، الیکشن والے دن اپنے بندے ہمارے ساتھ کردے،نگرانی ہم کریں گیاور پرچیاں اپنے ہاتھوں سے  نواب صاحب کی صندوقچی میں ڈالتے جائیں گے جس نے چوں چراں کی،چار متہریں چوتڑوں پر ماریں گے اور سیدھا کردیں گے۔‘‘(36)

                انتخابات میں دھاندلی کے لیے اگر ایک فریق انتخابات سے پہلے بھر پور کوشش کر چکا ہو تو دوسرا موقع اسے انتخابات کے  دن میسر آتا ہے اور اس کا سب سے کارگر طریقہ یہ کہلاتا ہے کہ جن اضلاع میں اس کا بس چلتا ہیوہاں کے پولنگ اسٹیشن پر قبضہ کر لیتا ہیاور وہاں نگران کو مختلف طریقے سے چپ کروا دینا یہ عام ترین طریقہ ہے۔کیونکہ اکثر پولنگ اسٹیشن پر ایسے ہی قبضہ کر لیا جاتا ہے اور اپنی من ما نی کی جاتی ہے۔خواتین کے بوتھ پر اکثر مرد حضرات برقعہ پہن کر بھی دھاندلی کرنے پہنچ جاتے ہیں۔اور وہاں  جہاں ابھی تک امیدوارووٹ کے اندراج کے لیے نہیں پہنچا ہوتا، مرد حضرات ووٹ ڈالنے کے لیے اپنا اثر دکھا گئے ہوتے ہیں۔کبھی کبھار تو جب یہ طریقہ بھی کام نہ کرے ، مطلب ایسا تو ممکن نہیں کہ کام نہ کرے، مگر پھر بھی جب مخالف فریق کے جیتنے کے آثار نظر آئیں تو گنتی کر کے بھی  اپنے آدمی کو جتایا جا سکتا ہے۔

                ناطق نے بھی کچھ ایسی ہی دھاندلی کا نقشہ کھینچا ہے کہ غلام حیدر نے کیسے اپنی دھاک بٹھائی اور جب جلسے اور جلوس زوروں پر تھے۔ ان جلسوں میں فریق کے بھی چند ایک جلسے جلوس نظر آ جاتے جو بالکل آٹے میں نمک برابر تھے۔

                غلام حیدر کے لوگ اس طرح سارے علاقے میں پھیل چکے تھے کہ ان کو جگہ نہ ملتی تھی۔بہت جگہوں پر ہاتھا پائی ہوئی اور بات ختم ہو گئی۔فریق  بدک گیا اور ان کے سامنے آنے سے گریز کرنے لگا اور ہوا کچھ یوں :

’’اس دوران ڈیوٹی پر موجود تین چار پولیس والوں نے  دخل اندازی کی تو ان کے چوتڑوںپربھی دو دوڈنڈے لگوا دیے گئے۔ انہی واقعات کا نتیجہ تھا کہ وہاں مخالفین سہم گئے۔ووٹ مانگنا تو ایک طرف انہوں نے غلام حیدر کے اثرو رسوخ والے علاقوں میں آنا ہی چھوڑ دیا۔‘‘(37)

                ایک اور بات دھاندلی میں زور پکڑتی جا رہی ہے وہ ہے ووٹروں کو رشوت دینا،اس طرح ان کے آدھے ادھورے وعدے کر لیے جاتے ہیں اور ڈھکی چھپی بات میں دھمکیاں دے کر  کام کروایا جاتا ہے۔بااثر افراد اکثر دھاندلی کرنے والوں کا ساتھ دینے والوں کو رشوت کے بوجھ تلے دبا لیتے ہیں اور اس طرح  انہیں ہدایات دی جاتی ہیں کہ ان کے ماتحت لوگ وہیں ووٹ ڈالیں جن کے لیے ان کو ہدایات جاری کی  جاتی ہیں۔ بااثر افراد کو رشوت دینا ہمیشہ ایک اکیلے فرد کو رشوت دینے سے بہت بہتر ہے کیونکہ اس طرح آپ رشوت دے کر یہ یقین دہانی نہیں کرا سکتے کہ وہ ووٹ آپ کے من چاہے کو ہی دے گا۔

                خفیہ طاقتوں کی جانب سے بھی کسی مخصوص پارٹی کے لیے حمایت کرنا اور پھر اسے میڈیا کے ذریعے پھیلا دینا ،پاکستان میں یہ بھی ووٹروں کے تاثر میں اثر انداز ہوتی ہے۔جدید دور میں میڈیا پر بھی دباؤ ڈالا جاتا ہے کہ وہ مخالف پارٹیوں کو زیادہ  ٹائم کوریج نہ دیں،یہاں تک کہ ٹی وی پر بھی نشریات کو روک دیا جاتا ہے تا کہ ائیر ٹائم نہ ملے اور منصفانہ کوریج نہ ملے۔ اس صورت میں وہ عوام سامنے آتی ہے جو سوئنگ ووٹ دیتے ہیں یعنی اس کا ذہن پختہ نہیں ہوتا اور وہ پس ماندہ ذہن یا غیر پختہ ذہن سوئنگ ووٹ کا پانسہ بدل کر رکھ دیتے ہیں۔

                 عوام کی دیکھا دیکھی کہ کوئی کیا کر رہا ہے۔کس کو زیادہ ترجیح کس بات پر دی جاتی ہے کو مد نظر رکھتے ہوئے مخصوص سیاسی جماعت کو جسے وہ خود بھی ٹھیک سے جانتے نہیں  ووٹ ڈال رہے ہوتے  ہیں۔ایسے ہی لوگوں کا ذکر ناطق نے اپنی کہانی میں کیا ہے کہ کس طرح لوگ ووٹوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ ووٹروں کو مخالف سیاسی پارٹی سے دور رکھنے اور پھر اپنی سیاسی پارٹی کو دینے کے لیے قائل کرنا بھی ’’سوئنگ ووٹ‘‘ جیسا ہی ہے۔ناطق لکھتے ہیں کہ:

’’ایک ریکارٹ لو، جس میں تمہارے سارے واقعے قصے کی شکل میں بھرے ہوں۔اس کام کے لیے امیر سبحانی بہت مناسب ہے۔وہ ریکارٹ الیکشن سے پہلے پورے علاقے میں پہنچا دو اور اپنے خرچے پر سنوا دو۔جب تیری  بہادری، خدا ترسی ،اور بڑے گھروں کی پہنچ کے قصیلوگ سنیں گے تو وہ خودبخود ہماری طرف دوڑے چلے آئیں گے‘‘(38)

                مصنف نے کہانی کے ذریعے اس معاشرتی پس ماندگی کی طرف ہماری توجہ مبذول کروائی ہے جو کہ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ یعنی حکمرانوں کو مسلط کیا جانا، زور زبردستی کے ساتھ معصوم اور مظلوم عوام کو دبا دینا،حق دار کو حق نہ ملنا، تعقارت کے بل پر اپنے کام نکلوا لینا، اجارہ داری اور رشوت ستانی ،یہ سب باتیں کسی بھی معاشرے میں بگاڑ کا باعث بنتی ہیں اور الیکشن کی جس صورتحال کا نقشہ اس نے کہانی میں کھینچا ہے وہ عوام کے ساتھ کی گئی بد سلوکی کا اور زور زبردستی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔بے شک اس صورتحال کا نقشہ اس نے بڑی بہادری سے کھینچا ہے۔البتہ غلا م حیدر کے کردار کے ذریعے اس کام کا ہونا تھوڑا مشکوک گزرتا ہے۔لیکن یہ ایک دوسری صورت میں معاشرتی پس ماندگی ہے کہ طاقت کا غلط استعمال اگر سودھا سنگھ اور صرف بہزاد کی توسط سے ہوتا تو اچھے کردار کا مثبت پہلو قائم رہتا مگر یہاں غلام حیدر کی اس بے جا زبردستی سے کہیں قاری کے دل میں سوال رہ جاتاہے۔۔۔ بہر حال پس ماندگی کے آئینے سے اگر دیکھا جائے توناطق نے بہت چہروں کوکرداروں کے ذریعے بے نقاب کیا ہے۔

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...