Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں |
حسنِ ادب
اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں

مہاجرین کے ساتھ ناروا سلوک
ARI Id

1688708340819_56116306

Access

Open/Free Access

مہاجرین کے ساتھ ناروا سلوک(تقسیم ہند)

                ناطق نے تاریخ کو موضوع بناتے ہوئے ناول میں اپنی تخلیقی کاوش کے فن کو ابھارا ہے اور دل دہلادینے والے واقعات کا ذکر بھی کیاہے۔تقسیم ہند:وہ خود بھی اس تقسیم سے خائف نظر آتے ہیں۔اسی لییخفگی کا  رنگ ان کی تحریروں  میں بھی نظرآتا ہے۔اس تقسیم کے ساتھ جو ہنگامہ آرائی ہوئی،قتل غارت عروج پر رہی مہاجرین پر حملے ہوئے اور کروڑوں لوگ موت کی نیند سوگئے۔موت کی نیند سو جانے والے اپنے پیاروں کے دل  میں آزادی کے ساتھ ساتھ  ناسور کی طرح پلتی ہوئی ایک آگ کی طرح ہیں۔

                وہ جو اس راہ میں شہید ہوئے، دل میں آخری خواہش لیے اس دنیا سے رخصت ہوگئے کہ اب وہ ایک آزاد فضا میں سانس لیں گے۔جہاں نہ روز روزہندو،مسلم،سکھ تصادم ہوں گے، جہاں نہ گولیوں کی بوچھاڑ ہوگی اور نہ ہی ایسا کوئی خطرہ ہوگا کہ کوئی پیارا گھر واپس لوٹ کر نہیں آئے گا۔جانیں محفوظ ہوں گی،عزتیں قائم رہیں گی مگر افسوس صد افسوس وہ ہجرت ان کے لیے آخری سانس کی طرح ثابت ہوئی۔

                آزادی کی راہ میں اپنا سب کچھ نچھاوڑ کر دینے والے اس پاک وطن اس پاک زمین کے لیے اپنے پیاروں کیلیے ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ان تمام مصیبتوں ،اذیتوں اور تکلیفوں کو بیان کرنا نہایت تکلیف دہ عمل ہے بلکہ ناممکن بھی ہے کیوں کہ وہ اس تکلیف کا اندازہ نہیں لگاسکتے جو انھوں نے برداشت کی۔بغیر کسی سہارے کہ بے یارومددگار ہر وقت جان جانے ،عزت لوٹ جانے کے خطرے کے ساتھ،آہستہ آہستہ ہجرت کرتے وہ لوگ نہ جانے کتنی راتوں سے سوئے نہیں تھے۔ان پیاروں کو کفن نصیب نہ ہوا۔آہ! یہ بہت دل دہلادینے والا واقعہ ہے۔خون سیاہی سے مسلمانوں نے اپنی آئندہ نسل کیلیے الگ وطن کی تاریخ لکھی تھی۔

                ناطق نے بھی تقسیم ہند کے واقعات کو کہانی میں تفصیلاًبتایا ہے شروع میں حالات اس قدر سازگار تھے کہ آپس کے جھگڑوں سے بچنے کے لیے دونوں ایک دوسرے سے چھپتے پھرتے تھے۔گلیوں میں کوئی بھی نظر نہیں آتا تھا ایسا محسوس ہوتا تھا جیسیکوئی دیو آگیا ہوجس نے آن کی آن میں تمام مخلوق کو غائب کردیا ہو۔ہندو،سکھ یہ سب مل کر مسلمانوں کے پیچھے پڑے ہوئے تھے۔گاؤں چھوٹا ہونے کی وجہ سے کہیں نہ کہیں سے لوگوں کا پتا چل جاتا تھا کہ کون کہاں چھپا ہوا ہوگا۔

’’مسلوں نے غلام حیدر کے بڑے احاطے میں پناہ لے رکھی ہے۔ گاؤں چھوٹا ہونے کی وجہ سے انہیں ڈھونڈنے میں زیادہ تگ ودو نہ کرنا پڑی اس نے سوچا ،یہ اور بھی اچھاہے،سارے ایک ہی جگہ پر قابو آگئے ہیں۔اسی وقت اس نے مکان پر حملے کا حکم دیدیا۔اس سے پہلے کہ شمشیر سنگھ کاجتھا حملہ آور ہوتا،رحمت علی نے فیصلہ کیا کہ سکھوں پر گولی چلادی‘‘(41)

                سکھوں کے اس قدر حملوں کی وجہ سے مسلمانوں کو گاؤں سے نکلنے کا موقع میسر نہیں آرہا تھا۔خوب گولہ بارود کی بوچھاڑ دونوں طرف جاری رہتی اور لاشوں کے ڈھیر لگتے جاتے۔ناطق نے وہ صورت حال بھی دکھائی ہے جس میں حملے کے لیے مرد عورت اور بچے تک بھی ہتھیار ہاتھوں میں لیے تیار رہتے تھے۔حیدر کا خیال تھاکہ کسی بھی صورت میں سکھ عورتوں کی طرف نہ بڑھیں۔ دروازوں کی طرف ان کا رخ نہ ہواس لیے غلام حیدر نے ہوائی فائرنگ رکنے نہ دی اس کا نتیجہ یہی نکلاکہ سکھ دروازوں کی طرف آنے سے رک گئے۔ایسی دہشت زدہ زندگی مصنف نے کہانی میں بیان کی ہے کہ آزادی کے لیے کتنی جانیں قربان کرناپڑیں۔ناطق نے جنونی کیفیت بتائی ہے کہ جیسے سکھوں کا مقصد صرف آزاد وطن حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ وہ صرف مسلمانوں کا خاتمہ چاہتے ہوں،مسلمان ہر طرح سے اپنے آپ کو ان کی اس جنونی کیفیت سے بچانے کا طریقہ کررہے تھے۔

                حالات کو اس قدر سنگین دکھا کر مصنف نے ہمارے اندر آزادی کے لیے لڑنے والے شہیدوں کی قربانیوں کی داستان سنانے کی کاوش کی ہے کہ کیسے ان پہ زندگی کو تنگ کردیا گیا تھا۔مسلمان بھی برابر لڑتے رہے جب تک ہمت اور جان نے ساتھ دیا۔ اس کے مطابق سکھوں کی تعداد بھی زیادہ تھی۔ان کی جنونی کیفیت کے ساتھ ساتھ اان کے پاس اسلحہ کی مقدار بھی زیادہ تھی۔

’’چھویاں،ڈانگیں،کرپانیں اور برچھیاں اس طرح برسنے لگیں جیسے ساون کی بارش برس رہی تھی اور پانی کے ساتھ ساتھ خون کے پرنا لے بھی بہنا شروع ہوگئے۔سکھ تعداد میں بہت زیادہ تھے اس لیے نقصان مسلمانوں کا زیادہ ہورہاتھا‘‘(42)

                ہر طرف ہی خون کی ندیاں بہہ رہی تھیں اس طرح جیسے خون نہ ہوپانی ہو کسی کو کسی کا کوئی احساس نہیں ایک دوسرے کے دل میں نفرت  ہی نفرت ہوسارا گاؤں اجڑ کررہ گیا۔ کہیں سے آواز یاعلی کی بلند ہوتی تو کہیں سے سکھوں کے نعرے بلند ہوتے۔ تقسیم کے فسادات کا جو نقشہ کھینچا گیاہے ا س سے سچ میں دل دہل جاتا ہے کہ اس سب کوقاری پڑھ کر گھٹن محسوس کرتا ہے کہ جیسے سانس ٹھیک سے نہیں آرہا مگر یہ وہ واقعات ہیں جو ہمارے عظیم شہدا پر گزر چکے ہیں۔ناول میں مصنف نے مسلمانوں پر ہونے والے ظلم کا خلاصہ کیاہے کہ سکھوں نے ان پہ چاروں طرف سے گھیراڈال رکھا تھا اگر وہ کسی راستے سے بھی بچ کر نکلنے کا سوچتے تو یہ سکھ ان راستوں پہ بھی لاشوں کے ڈھیر لگانے آجاتے تھے۔قافلوں کی صورت میں  لوگ ہجرت کرنے لگے ان قافلوں کو بھی لوٹ لیا جاتا۔رات کے اندھیرے میں روتے سسکتے لوگ اپنے گھروں کو آخری بار دیکھ کر ہجرت کرجاتے، اپنے گھروں کو چھوڑتے ہوئے حسرت بھری نگاہوں کے ساتھ چھکڑوں پر سوار ہو جاتے اور پل بھر کو بھی آرام کرنے کیلیے کہیں نہ رکتے کہ کوئی حملہ آور نہ آجائے۔کسی طرح بھی ہجرت کرنے والے چاہتے تھے کہ وہ زندگی کو محفوظ رکھ پائیں اور اسی رات کے اندھیرے میں وہ آزادی کی صبح دیکھنے کے لیے منزل پرپہنچ پائیں۔اسی طرح کی صورتحال کو بھی ناطق نے ناول میں بیان کیا ہے کہ لاشیں جو اب سوائے بوجھ کے کچھ نہ تھیں۔اپنے پیاروں کو چھوڑ کر اب آگے نکلنا تھا۔ وہ چاہ کر بھی لاشوں کو اٹھا نہیں سکتے تھے اور ساتھ میں چھکڑوں پر جتنا  وزن کم ہو اتنا بہتر تھا۔ عورتیں بیچاری قابو میں نہیں آ رہی تھیں ان کے لیے تو ان کا سب کچھ یہی مرد تھے جو اب لاشوں کی صورت میں ان کے آگے بے جان پڑے ہوئے تھے۔

’’وہ کبھی اپنے کپڑے سنبھالتی اورکبھی بھائیوں،باپوںاور خاندانوں کے اوپر گر گر کے دوہتھڑ پیٹتیں اور بین کرتیں جنھیں چند لمحوں بعد وہ خود چھوڑجانے والی تھیں۔ انہیں رہ رہکر ان لاشوں کی تنہائی اور بے کسی کچوکے لگا رہی تھی جن پر اب نہ وہ اگر بتی سلگا سکتی تھیں اور نہ ان کی قبروں پر بیٹھ کر ماتم کر سکتی تھیں‘‘(43)

                مصنف نے قافلے کی جو صورتحال بتائی ہے وہ ایک دہشت زدہ ماحول کا نقشہ کھینچتی ہے بد نصیب قافلہ کس طرح اپنے پیاروں کو ایک ہی گڑھے میں دفن کر کے آگے بڑھا اور آگے زندگی پھر ایک نئی آزمائش کے لیے کھڑی تھی۔

                نرمی بنگلہ کی پٹڑی پر چار میل تک لاش کے ساتھ لاش جوڑ کر رکھی تھی اور اس طرح رکھی گئی تھی کہ ایک لاش مرد کی اور ایک عورت کی ، پھر مرد اور پھر عورت جیسے لاشوں سے خود اس رستے کو سجایا گیا ہو۔لاشیں بھی اس طرح سے تھیں کہ کسی کا سر نہیں ، کسی  کا بازو نہیں اور کسی کی ٹانگ نہیں تھی۔ بارش کی وجہ سے بھی ان لاشوں میں تعفن پیدا نہیں ہواتھا۔ایک دن پہلے ہی کی لاشیں معلوم ہوتی تھیں جن کو دیکھ کر ایک بار پھر صبر کے بند ٹوٹ گئے اور دل منہ کو آتا تھا۔لیکن ان مشکل حالات میں بھی سفر جاری رکھا گیا۔اس سفر کے دوران پھر سے لڑائی کاسلسلہ شروع ہو گیا اور اس بارمسلمانوں کا سب سے مضبوط قلعہ گرگیا یعنی غلام حیدر کو گولی لگ گئی اور وہ بھی مرگیا۔منزل کے قریب پہنچ کر وہ دنیا سے کوچ کر گیا۔

’’الغرض مسلمان پل پار کرتے رہے اور مجاہد بنتے رہے، جبکہ جلال آباد ، شاہ پور اور جودھا پور والے سب کو یہیں چھوڑ کر اپنی لاشوں کے ساتھ منڈی ہیرا سنگھ کی طرف بڑھ گئے‘‘(44)

                مجاہدین کے ساتھ ناروا سلوک پر بھی اگر تاریخ کے اوراق کھولے جائیں تو ایسا بے دردانہ سلوک روا رکھا گیا کہ جس میں یہ معاہدہ طے پایا تھا کہ ہندوستان میں جو اپنی جائیدادیں چھوڑ جا ئے گا اسے پاکستان میں حصہ مل جائے گا، مگر پاکستان آنے پر انہیں بالکل بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا۔ جو جمع پونجی تھی وہ بھی ہاتھ سے نکل گئی اور جو امیدیں تھیں وہ بھی ختم ہو گئیں کہ نئی زمین پر بھی کوئی آسرا ہو گا۔سب سے برا سلوک تو یہ تھا کہ رہنے کو چھت تو دور کی بات کھانے کو پاس روٹی تک نہ تھی۔ خالی ہاتھ، کھلا آسمان، بھوک سے بلکتے ہوئے بچے اور دوران بارش مسلسل کٹنے والے دن، حادثات کی وجہ سے بیمار جسم، زخموں کو بروقت طبی امداد نہ ملنے پرناسور بنتے ہوئے زخم ،زخموں سے جسم میں پھیلنے والا زہر، ان تمام حالاتوں کے ساتھ اب ان کو ایسے ہی گزارا کرنا پڑا۔ ناطق نے اس تاریخی واقعے کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایسی ہی داستان کو اپنی کہانی کا حصہ بنایا  اور بالکل ویسا ہی کرب دکھایا ہے جس کو پڑھنے کے بعد انسان کے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ وہ اس تکلیف سے کیسے گزرے:

’’ان گاؤں اور قصبہ قصبہ چلنے والے لاکھوں زندگی اور موت کے درمیان ، انسانوں اور جانوروں کے درمیان کی مخلوق کو بس کھانے  کو روٹی کی ضرورت تھی جو ان کی عزت کے بدلے میں، جان کے بدلے میں یا کسی بھی چیز کے بدلے میں مل جاتی تو یہ جی سکتے تھے  لیکن کیا کیا جائے کہ ان لاکھوں خاندانوں میں بارش، بھوک اور مسلسل سفر کے دوران ہیضے اور گردن توڑ بخار کی بیماریاں پھوٹ پڑیں‘‘(45)

                ناطق نے کہانی میں بیان کیا ہے کہ اسٹیشن کے نزدیک جنہوں نے خیمے لگائے ان میں  بھی مقامی لوگوں نے آ کر ان سے بچا ہوا مال اسباب لوٹنا شروع کر دیاتھا۔قتل و غارت کا سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہ سکھ ،مسلم فساد کا سلسلہ آج بھی ختم نہیں ہوا ہے،یہ ایسے  ہی چلتا آیا ہے اور اس نے بگاڑ ہی پیدا کیا ہے۔ ایسا ہی مصنف نے کہانی میں بھی لکھا ہے کہ جب تھک ہار کر سب لوگ بیٹھ چکے تھے تو تب قافلے میں محمد زمان نامی آدمی کھڑا ہو گیا اور اس نے ایک بار پھر دشمنی کو ہوا دے دی۔ اس نے غم کا اظہار کچھ اس طرح کیاکہ گرم خون جو کہ اب لگتا تھا کہ ٹھنڈا ہو چکا ہے، ایک بار پھر جوش میں آ گیا اور آن کی آن میں جل کر سب راکھ ہو گیا۔ اس طرح کے واقعات تاریخ میں بھی ہوتے رہے۔جب دیکھا کہ حالات ٹھیک ہونے کو ہیں تو پھر ایک چنگاری کو بھڑکا دیا جاتا، جس سے آگ لگ جاتی اور سب پھر سے تباہ و برباد ہو جاتا۔ محمد زمان نے کچھ ایسے رو دھو کے اپنا قصہ بیان کیا کہ سب میں بدلے کی آگ پھر سے بھڑک اٹھی اور انہوں نے اسٹیشن پر موجود گاڑی کے تمام دروازے بند کر دیے، چھتوں پر موجود افراد اور آس پاس کھڑے سب کو تلواروں کی نذر کر دیا اور بعد میں گاڑی کے ڈبوں کا ایک ایک دروازہ کھولتے جاتے اور  لاشوں کے ڈھیر لگاتے جاتے۔ وہ یہ سب کس لیے کر رہے تھے ، نہیں جانتے تھے۔ بس یہ تھا کہ ایک بار پھر قتل و غارت کا سلسلہ شروع ہو گیا اور سب ختم ہو گیا۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس سے درندگی کا احساس ہوتا ہے۔انسانیت جیسے ختم ہو گئی،خون سفید ہو گئے اور ایسے کاٹ کاٹ کر پھینکا گویا خود پر ہونے والے تمام ظلموں کا بدلہ لے رہے ہوں۔

’’ابھی قتل و غارت رکی ہی تھی کہ جانے کہاں سے میونسپل کمیٹی کے ٹرک آ گئے۔ انہوں نے چند ساعتوں میں وہ لاشیں اٹھا کر پتا نہیں کہاں جا پھینکیں، البتہ اسٹیشن سے اٹھا کر لے گئے۔ اس کے بعد خداکی قدرت، پھر وہی بارش شروع ہو گئی جس نے اسٹیشن کو دھو کر ایسے صاف کر دیا جیسے  یہاں کچھ ہوا ہی نہیں۔گویا قدرت بھی ان سب کے ساتھ ساتھ اپنا فرض ادا کر رہی تھی۔‘‘(46)

                بے شک نولکھی کوٹھی ایک تاریخی ناول ہے اور یہ ہمیں ماضی میں لے جاتا ہے۔ وہ دل خراش ماضی کی یادیں، صدمے جو کبھی بھی ہم بھلا نہیں سکتے۔دل میں یہ اب ایک بھاری پتھر کی طرح ہیں۔ناطق نے جن پس ماندگیوں کا  ذکر کیا ہے ان کو کھلے دل سے جس طرح وہ ناول میں لے کر آئے ہیں ،اسے  بیان کرنے میں کامیاب رہیہیں۔

                ناطق تاریخ کا آدمی ہے وہ قاری کو اپنے ساتھ ماضی میں لے جاتا ہے اور اپنی تنہائی کو قاری کے ساتھ بانٹتے ہوئے اسے اپنا دوست بنا لیتا ہے۔ایسی کرب ناک کہانی ناطق کی ہی کاوش ہو سکتی ہے۔انگریزوں  کے راج میں غربت وافلاس کی زندگی گزارتے لوگ جن کو جبری تشدد اور مشقت جیسی زندگی گزارنا پڑی۔طاقت کا زور تھا اورغریب محکوم کو اختیار بھی نہیں تھا کہ وہ حاکم تک اپنی بات پہنچا سکتا۔وہ لوگ جن کے پاس چالاکی اور عیاری جیسی دولت تھی وہ   گورنمنٹ کی نظر میں اعتبار حاصل کرنے کے لیے کامیاب رہے۔ قانون ہر کسی کی جاگیرتھا۔ جو مال دار تھے قانون کو خرید لیتے تھے۔کلرک افراد نے بھی لوٹ مار مچا رکھی تھی۔کسی کی زمین کسی کے بھی نام کر دیتے تھے اور اپنے ساتھ ایسا ہوتا دیکھ کر ہمت پست ہو جاتی تھی۔

                جب کوئی ذرا سی آواز اٹھانے کی کوشش کرتا تو اس کی آواز کو دبا دیا جاتا۔ تھانیدار پرچہ ہی نہ کاٹتے،ذاتی عناد پر لڑائی جھگڑے شروع ہو جاتے اور سالوں تک چلتے رہتے اور رہی سہی کسر ملاؤں نے نکال دی، وہ اپنی ہی ایک دنیا بنا رہے تھے۔ رشوت کے زور پر اپنا کام نکلوا لینا لوگ فن سمجھتے تھے، عوام کا استحصال کیا جاتا تھا، بھاری ٹیکس لگا کر غریبوں کی ہمت پست کرنا اور اسی روپے کی وجہ سے عوام نے حکومت پر اعتبار کرنا چھوڑ دیا۔جہالت عام ہو گئی، ہندو آڑھتی قابض ہو گئے، طاقت کے نشے میں ہر کوئی مست نظر آتا تھا،الیکشن میں دھاندلی عروج پر تھی۔ اگر کوئی اپنا حق  استعمال کرنے کی سوچتا بھی کہ وہ اپنا لیڈر خود منتخب کرے تو وہ بھی بیکار تھا۔ مسلمانوں کے ساتھ سکھوں کی جنگیں، قتل و غارت اورتقسیم ہند کے دل دہلا دینے والے واقعات اور مہاجرین کے ساتھ ناروا سلوک یقیناً یہ سب ناطق  کے ہی ذہن کی کاوش ہو سکتی ہے۔ یہ ناول ان کی نثری تخلیق کی ابتدا کہلاتا ہے اور انھوں نے ثابت کیا ہے کہ یہ ان کے کمال فن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

                انہیں پنجاب اور پنجاب کی زمین سے بے پناہ محبت ہے۔اسی لیے ان کی تحریروں میں پنجاب کی ثقافت کی نہ صرف جھلک بلکہ خوشبو موجود ہے۔جزئیات نگاری پر انہیں عبور حاصل ہے۔ یہ جزئیات نگاری کا ہی کمال ہے کہ ناول میں کوئی بھی واقعہ نا مکمل نہیں ہے۔ اس سے متعلق ایک ایک بات کو کھل کر بیان کیا گیا ہے۔ پلاٹ اس قدر سادہ اور مربوط ہے کہ ایک عام قاری کو بھی ناول پڑھتے ہوئے اس کی مکمل سمجھ آ جاتی ہے۔ ایک کے بعد ایک ایسے واقعات سامنے آتے ہیں جو قاری کو چونکا کر رکھ دیتے ہیں۔ تمام واقعات کڑی کے ساتھ کڑی کی صورت ہاتھ ملاتے ہیں۔ وہ کہانی کو اس طرح سناتے ہیں کہ گویا وہ شروع سے لے کر آخر تک موجود تھے اور سارے واقعات ان کی آنکھوں دیکھے اور کانوں سنے ہیں۔ نو لکھی کوٹھی کے کردار مکمل طور پر آزاد ہیں۔ کہیں بھی یہ گمان نہیں ہوتا کہ ناول نگار کے ہاتھ میں چھڑی ہے اور وہ ان کو ہانک رہا ہے۔ولیم کا کردار جس طرح سے ناول نگار نے پیش کیا ہے، جیسے جیسے وہ ارتقائی منزل طے کرتا ہے ، ایک ہیرو کی طرح منظر پر نمایاں ہوتا ہے۔ بچپن اور جوانی کی عیش و عشرت سے ہوتا ہوا یہ کردار بڑھاپے میں  محرومیوں اور ناانصافیوں کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے اور اس طرح قاری کو ولیم سے بے حد محبت ہو جاتی ہے۔ بلا شبہ و مبالغہ ناطق کو کہانی سنانے کا خوب فن آتا ہے۔ وہ اپنے کرداروں کی نفسیات سے با خبر ہے۔ یوں گمان ہوتا ہے کہ علی اکبر ناطق ،ناول نہیں لکھتا ،بلکہ ناول اسے لکھتا ہے۔

٭٭٭٭٭٭٭

 

 

 

 

 

حوالہ جات

1۔            حسین انتظار ،نولکھی کوٹھی،سانجھ پبلی کیشنز،لاہور ،2014 ئ،ص بیک فلیپ 

2۔            حسینی،علی عباس ،اردو ناول کی تاریخ و تنقید ،ایجوکیشنل بک ہاؤس ،علی گڑھ،1994 ئ، ص233

3۔            احد، امتیاز ، روزناہ صدائے مسلم ،راولپنڈی ،2021،10 فروری ص 4

4۔            الہدی ،نجم،کردار اور کردار  نگاری ، بہار اردو اکادمی ،مظفرپور،1980ء ،ص44

5۔            ناطق،علی  اکبر ، نو لکھی کوٹھی ، سانجھ پبلی کیشنز، لاہور،لاہور،2014ئ، ص 86

۔            ناطق،علی اکبر ،نولکھی کوٹھی،سانجھ پبلی کیشنز،لاہور،2014ئ،ص42

7۔            نیئر، ناصر عباس، حصیت شعر ،اسوہ کالج ، اسلام آباد ،2016 ،ص،بیک فلیپ

8۔            اقبال ،ظفر ، دال دلیا،روزنامہ دنیا ، 2015 ئ،25 جولائی

9۔            ناطق ،علی اکبر ، نولکھی کوٹھی ،سانجھ پبلی کیشنز  ،لاہور ،2014ئ، ص 14

10۔          ایضاً،ص18                            11۔          ایضاً،ص32،33

12۔          ایضاً،ص33                            13۔          ایضاً،ص21

14۔          ایضاً،ص38                            15۔          ایضاً،ص44

16۔          ایضاً،ص48                            17۔          ایضاً،ص49

18۔          ایضاً،ص76                            19۔          ایضاً،ص59

20۔          ایضاً،ص190                         21۔          ایضاً،ص112

22۔          ایضاً،ص117                         23۔          ایضاً،ص125

24۔          ایضاً،ص203                         25۔          ایضاً،ص209

26۔          ایضاً،ص210                         27۔          ایضاً،ص116

28۔          علی،ابوالحسن، سید ایک اہم دینی دعوت  یا عمومی تعلیم و تربیت کا نبوی نظام، ناظم مکتبہ الفرقان بریلی،پولی،سن ،ص7

29۔          علی،ابوالحسن،سید ،ایک اہم دینی  دعوت یا عمومی تعلیم و تربیت کا نبوی نظام ،ص30

30۔          ناطق،علی اکبر ، نو لکھی کوٹھی،سانجھ پبلی کیشنز،لاہور،2014 ئ،ص226

31۔          ایضاً،ص 227                        32۔          ایضاً،ص228

33۔          ایضاً،ص228                         34۔          ایضاً،ص267

35۔          ایضاً،ص356                         36۔          ایضاً،ص357

37۔          ایضاً،ص363                         38۔          ایضاً،ص357

39۔          رسول،غلام مہر،1857 پاک و ہند کی پہلی جنگ کے مستند و مکمل حالات،کتاب منزل لاہور،س ن ،ص10

40۔          ناطق،علی اکبر،نولکھی کوٹھی،سانجھ پبلی کیشنز،لاہور2014 ئ، ص374

41۔          ایضاً،ص 380                        42۔          ایضاً،ص382

43۔          ایضاً،ص385                         44۔          ایضاً،ص393

45۔          ایضاً،ص393                         46۔          ایضاً،ص396

٭٭٭٭٭٭٭

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...