Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں |
حسنِ ادب
اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں

کماری والا میں پس ماندگی کے مظاہر
ARI Id

1688708340819_56116307

Access

Open/Free Access

Pages

۱۳۱۔۱۷۶

"کماری والا " میں پس ماندگی کے مظاہر

                دسمبر2020ء میں ناطق کا دوسرا ناول کماری والا ہندوستان سے شائع ہوا۔ ’’نو لکھی کوٹھی ‘‘ناول کی صورت میں نثر میں پہلی کامیابی کے بعد یہ ان کی دوسری کاوش ہے۔اردو ادب میں ایسے ضخیم ناول بہت کم ہیں۔ مصنف کے ناول اردو ناول کی تاریخ کے لیے روشن باب کی طرح ہیں۔ناول میں اس نے رواں نثر کا مظاہرہ کیا ہے اور یہ کسی بھی اچھے ناول کے لیے بہت ضروری ہے کہ اس کی نثر رواں ہو ، جزئیات نگاری سے کام لیا گیا ہواور آسان  ہو۔اس نے اردو ادب میں جو نئی چیز کا اضافہ کیا وہ ہیان کی علاقائی زبان کے الفاظ۔بھلے ہی الفاظ کو صرف اس علاقے سے تعلق رکھنے والا فرد ہی پڑھ سکتا ہے لیکن رواں نثر ہونے کی وجہ سے قاری جب نثر میں آنے والے نئے الفاظ کو پڑھتا ہے تو جلد ہی اسے ان الفاظ کی سمجھ آجاتی ہے کہ وہ اس سے یہ بات سمجھانا چاہ رہے ہیں اور یقیناًیہ ایک نئے  اضافے کے ساتھ ساتھ ایک عمدہ کاوش و تخلیق بھی ہے۔

                ناول میں ایک علاقائی خوشبو آتی ہے،جو الفاظ کے ذخیرے میں بھی اضافے کا باعث بنتی ہے۔مصنف نے کہانی کو بہت عمدگی سے پھیلایا ہے۔ایک ایسی کہانی جو نسلوں پر محیط ہے۔ جس علاقے کی بات وہ کر رہے ہوتے ہیں اس کے بارے میں وہ تفصیلاًبتا تے ہیں۔ وہاں کا رہن سہن ،ماحول، آب و ہوا، علاقے کے خدوخال، یہاں تک کہ وہاں کے مشہور و مصروف لوگ، سوغات اور اچھی بڑی  تمام باتوں کو اس طرح بتاتے ہیں کہ ہر نیا پڑھنے والا قاری جو پہلی بار اس علاقے کے بارے میں پڑھ رہا ہے وہ جان جاتا ہے کہ یہ علاقہ اس طرح کا ہے۔ جیسے وہ چاہتے ہیں کہ ان کا قاری بھی مکمل طور پر مانوس ہو جائے، اس علاقے سے، ماحول سے تا کہ وہ پڑھتے ہوئے خود کو اس ناول کا ایک حصہ محسوس کر ے اور یقینا وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب رہے ہیں۔

                ناول کی کہانی مصنف نے  ایک ایسے تعفن زدہ سماجی ماحول پر لکھی ہے جو تمام دنیا سے پرے الگ اپنی جڑیں مضبوط کرتا نظر آ رہا ہے۔یقینایہ ایک دلیرانہ کاوش ہے۔ اگر ان باتوں کو بے نقاب کیا جائے اور کوئی عملی کارکردگی  کی جائے تو اس سے ایسے ماحول کی جڑیں کمزور کی جا سکتی ہیں۔ یہ ناول جن باتوں کی وجہ سے خاص طور پر اردو ادب میں جانا جائے گا وہ دراصل ملک کے مذہبی زوال کی عکاسی ہے۔جہاں نئی نسل غلط راستوں پر چل نکلی ہے۔نہ صرف لڑکیوں کے لیے بلکہ لڑکوں کے لیے بھی معاشرہ تنگ نظر ہوتا جا رہا ہے۔نوخیز نسل کے لیے ان کی عصمت کی حفاظت ایک معمہ بن چکی ہے۔ان کی عصمت دری کی جاتی ہے، اغوا کیا جاتا ہے اور پھر باہر ممالک میں بھیج دیا جاتا ہے۔اگر کوئی ان پر کارروائی کرنے کی کوشش بھی کرے تو انہیں دہشت گردی کے کیس میں ملوث کر دیا جاتا ہے۔جس پر انہیں سوائے معاشرے سے فرار کے اور اپنی موجودہ صورتحال پر صبر کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ملتا یہ ایک کاروبار کی طرح ناطق کی کہانی میں بتایا گیا ہے کہ ایک پورا گروہ ہے جو ان کاموں میں ملوث ہے اور مذہبی رہنما مذہب کے نام پر سفید پوشی کے پیچھے چھپ کرحکومت کے اعلیٰ افسران کے ساتھ سودا بازی کرتے ہیں اور اس قدر صفائی سے کہ کوئی ان پر شک بھی نہیں کرتا اور کوئی ان کی طاقت کی وجہ سے ان پر ہاتھ بھی نہیں ڈالتا۔ اس طرح معاشرے میں عام فرد بالکل پس کر رہ جاتا ہے۔ کیونکہ وہ ان طاقتوں کے آگے بالکل بے بس ہے۔

                ناول نگار نے یہ ناول لکھ کر بہت جسارت کا کام کیا ہے۔ اس کے مطابق پاکستان کا وجود میں آنا ہی تنگ نظری کے باعث ہوا تھا۔ شیعہ مسلک کے ساتھ زیادتی کے واقعات کو دکھایا گیا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ کوئی کسی بھی مذہب  و عقیدے کا ہو معاشرے میں اسے پر اعتماد زندگی گزارنے کا پورا حق ہے۔ ناول میں جو انتہائی شرمناک پس ماندگی کو عیاں کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ حکومتی سطح پر لوگ اپنا کام نکلوانے کے لیے اپنی بہو بیٹیوں کا استعمال کرتے ہیں۔ ان کے ذریعے وہ اپنی عزت بنا کر بیٹھے ہوتے ہیں اور اس کاروبار کو غلط بھی نہیں کہتے۔

                اس اخلاقی پس ماندگی کے لیے قدم اٹھانا خود ناطق کے لیے بھی ہمت کا کام رہا ہو گا۔ مصنف بہت ہی دانش مندی سے زندگی  کے تجربات کو ناول کے ذریعے پیغام کی صورت میں  پہنچاتے ہیں اور زندگی میں ہونے والے  بہت سے ایسے واقعات جن پر کوئی بات نہیں کرتا ناطق نے ان باتوں کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ بہر حال یہ ناول اپنے عہد کا قابل ذکر ناول ہے۔

                ناول کی کہانی کہیں کہیں بہت پیچیدہ موڑ پر نکلتی محسوس ہوتی ہے۔ہر موڑ پر ایک نئی کشمکش کا سامنا رہتا ہے۔ناول میں مرکزی کردار ضامن یوں محسوس ہوتا ہے کہ جسے آپ بیتی سنا رہا ہو کہیں مضمون کا احساس ہوتا ہے کہ قاری کو دوبارہ کچھ پچھلے صفحات پڑھنے کے بعد اصل بات کی سمجھ آتی ہے۔بہر حال قاری کیلئے یہ بہت دلگیر لمحات ہیں۔جن واقعات کو بیان کیا گیا ہے ایسے واقعات انسانی زندگی کیلئے ایک کٹھن آزمائش ہیں۔ضامن کی زندگی مسلسل سفر کی نذر ہو گئی کبھی وہ کام کے سلسلے میں رہا، کبھی زندگی کی آزمائش کو جھیلنے کے ،یہ سفر بہت طویل رہا اور پھر شیزہ کی موت واقع ہونے پر ختم ہوا یا شاید قاری کے ذہن میں جیسے تاثر رہ جاتا ہے کہ اگر ضامن یہ اپنی کہانی بتا رہا ہے تو سفر تو پھر بھی مسلسل رہا۔شروع میں پڑھنے سے ایک گاؤں کی عام زندگی کا احساس ہوتا ہے جہاں لوگ سادہ زندگی گزارتے ہیں اور ان کے ساتھ کوئی غیر مناسب حادثہ ہو جانے پر واویلا مچاتے ہیں۔پھر جب وہی کہانی گاؤں کی سادہ زندگی سے نکل کر شوبز نس تک جا نکلتی ہے تو دل سے ایک آہ نکلتی ہے کہ انسان کس طرح خودبخود اس گول دنیا میں ایک گیندکی طرح اچھلتا چلا جاتا ہے۔ بہر حال ناول انتہائی گہرائی میں لے جاتا ہے بہت سی باتیں دل ہی دل میں ان کہی رہ جاتی ہیں کتنے دن تک قاری اس کہانی کے سرا سے نکل نہیں پاتا۔عظیم الشان صدیقی لکھتے ہیں :

’’قدرت نے انسان میں تجسس کا مادہ ودیعت کیا ہے اس بنا پر وہ کچھ جاننے کی کوشش کرتا ہے۔چنانچہ ایک کہانی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ سامعین یاقاری کے اس ذوق تجسس کو برقرار رکھے‘‘(1)

                ناول نگار نے تجسس کا عنصر کہانی کے شروع سے آخر تک برقرار رکھا ہے۔قاری پڑھتے ہوئے جلد ازجلد جان لینا چاہتا ہے کہ کہانی کس موڑ پر جا کر رکے گیاور یہی تجسس کا مادہ لیے جب قاری ایک کے بعد ایک صفحات کو پڑھتا جاتا ہے توخود کو بھول بھلیوں میں گم ہوتا محسوس کرتا ہے۔ واقعات کا آپس میں مصنف نے جو ربط بنایا ہے وہ نسلوں پر محیط ہے۔ایک کڑی کا سرا دوسری کڑی کے ساتھ بہت مہارتکے ساتھ ملایا ہے اور یہ بات قاری جب پڑھتا ہے تو گویا محسوس ہوتا ہے جیسے اس نے کوئی معمہ حل کر لیا ہے اور ایک غار جس میں جانے کے بعد اسے تین چار الگ الگ راستے نظر آرہے تھے اور اب اسے کامیابی کا راستہ مل گیاہے۔وہ باہر نکل آیا ہے اور تجسس کی گتھی کو بھی سلجھاآیا ہے۔

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...