Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں |
حسنِ ادب
اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں

دیہات میں قابل ڈاکٹروں کا فقدان
ARI Id

1688708340819_56116313

Access

Open/Free Access

دیہات میں قابل ڈاکٹروں کا فقدان

                آج تک یہ المیہ ہی بنا ہوا ہے کہ شہروں میں زیادہ سہولتیں ہوتی ہیں اور دیہاتوں میں زندگی سہولتوںسے دور ہوتی ہے۔اسی بات کی وجہ سے لوگ شہروں کا رخ کرلیتے ہیںاور دیہاتوں میں پہلے سے بھی کم لوگ رہ جاتے ہیں۔جو افراد تعلیمی میدان کوفتح کرلیتے ہیںتو وہ دیہات میں رہنا پسند نہیںکرتے ،بوریا بستر سمیت شہروں کی طرف نکل پڑتے ہیں۔جیسے وہ پڑھائی ہی اس لیے کرتے ہیں کہ وہ شہروں کی طرف زندگی کو لے جاسکیں۔

                ناطق نے بھی کہانی کے آغاز میں قاری کی توجہ اسی طرف مبذول کرائی ہے کہ دیہاتی زندگی بہت سادہ ہوتی ہے۔جہاں قابل ڈاکٹروں کا فقدان ہوتا ہے قابل ڈاکٹرز کا اس لیے کہ وہاں جو کوئی سیانا ہوتا ہے تو اسے علاج معالجے کیلئے مقرر کر لیا جاتاہے۔وہ اب چھوٹی موٹی بیماریوں بخار،زکام ،گلہ خراب جیسے امراض کا تو علاج کر سکتا ہے مگر بڑے مسائل کو حل کرنا اس کے لئے ناگزیر ہوتا ہے۔

                دیہات میں خواتین اور ان کے نومولود بچوں کے حوالے سے بھی بہت سے مسائل کاسامنا رہتا ہے اور پورے علاقے  میں زچگی سینٹر نہ ہونے کی وجہ سے اکثر انہیں جان سے بھی جانا پڑتا ہے۔ناول نگار نے بھی کہانی میں ایک سیانی عورت کا ذکر کیا ہے جو کہ دراصل خود کی پناہ کیلئے اس علاقے میں بسی اور پھر وہاں لوگوں کا علاج معالجہ کر کے گزارا شروع کردیااوراس علاج معالجے کا تجربہ اس عورت کو اس لیے تھا کہ اس کی ماں نرس تھی اور ماں کو دیکھ کر وہ کافی کچھ سیکھ چکی تھی۔

’’میری بیوی کا سارا علاج معالجہ اس نے کیا۔تمہیں تو ہماری مشکلوں کی خبر نہیں پر یہاں آدھی عورتیں بچہ پیدا کرتے ہوئے مر جاتی ہیں۔غریبوں کے پاس نہ چنگا کھانے کو ہے اور نہ چنگی دوائی ملتی ہے‘‘(4)

                دیہاتی زندگی میں بہت سے مسائل کے ساتھ جہاں انسان گزارا کررہا ہوتا ہے وہاں یہ بات بہت تکلیف دہ ہے کہ جب کوئی اپنا بیمار ہوجاتا ہے اور اسے ایمرجنسی علاج کی ضرورت ہوتی ہے ایسے میں اسے علاج کیلئے شہر سفر کرکے جانا پڑتا ہے اور اس دوران اکثر مریض کی موت واقع ہوجاتی ہے۔پیدائش سے پہلے ہی بعض اوقات عورتوں کو اچھا علاج نہ ملنے کی صورت میں تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور رہی سہی کسر یہ الیکشن کے نزدیک ووٹ لینے والے نکال لیتے ہیں۔ جو ہر سال وعدہ تو کرتے ہیں اسپتال بنانے کا اور ڈسپنسری کے انعقاد کا لیکن جیسے ہی ان کی ضرورت پوری ہوتی ہے وہ وعدہ خلافی سے کام لیتے ہوئے اپنی بات سے مکر جاتے ہیں ڈاکٹرز کا فقدان گاؤں میں یہاں شہری سہولیات سے دوری بھی ہے کچھ لوگ اپنے لائف سٹائل کو بھی بدلنے کی خاطر گاؤں کے لوگوں کے بارے میں نرم دلی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔زمینداروں اور وڈیروں  کا ایسا رعب ودبدبہ ہوتا ہے۔گاؤں میں غریب عوام کی کثرت زیادہ ہے جو اپنے کم وسائل ہونے کی وجہ سے یہاں زندگی گزارنے پہ مجبور بھی ہیںاور کٹھ پتلی بھی بنے رہتے ہی اورصرف زمینداروں کامنہ دیکھتے رہتے ہیں کہ وہی کچھ گاؤں کے حالات بدل سکتے ہیں۔ناطق نے ناول کے ذریعے دیہاتی زندگی اور وہاں کے لوگوں کومجبور حالات میں گزارا کرتے ہوئے دکھایا ہے۔شہر کی زندگی میں جو آسائشیں ہیں گاؤں کے لوگ نہ صرف ان سے محروم ہیں بلکہ مجبور بھی ہیں۔

’’میاں توڈاکٹرکو روتا ہے،یہاں اسپرو کی گولی لینے کیلئے ستر میل دور جانا پڑتا ہے۔کئی بار ووٹیں لینے والے آئے ،ہسپتال کا وعدہ کرتے ہیں،ووٹ لیتے ہیں پھر اگلے پانچ سال تو کون اور میں کون‘‘(5)

                مصنف نے بہت ہی قابل غور بات کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے کہ یہ ووٹ لینے والے  لوگ ہر سال وعدہ کرتے ہیں۔ان لوگوں کی سادگی کے ساتھ کھیلتے ہیں اور پھر واپس پلٹ کر خبر بھی نہیں لیتے کہ کون کس حال میں ہے۔گاؤں میں دکھاوئے کے نام پر ایک ڈسپنسری ضرور ہوتی ہے جس کا فائدہ بس یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی  سرکاری دورہ ہوتا ہے تو یہ نشان موجود ہوتا ہے جس کی وجہ سے پکڑ ہونے سے بچ جاتے تھے۔ ایک لمبے عرصے سے یہاں گاؤں میں بھی ایک ڈسپنسری موجود تھی۔

                مصنف اس کا احوال کچھ یوں بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر اور نرسیں تبدیل ہوتی رہتی تھیں،کوئی تکتا ہی نہیں تھا۔ڈسپنسری ہر وقت خالی ہونے کی وجہ سے لڑکے یہاں کرکٹ کھیلتے نظر آتے تھے۔دیکھنے میں ایک بڑی عمارت جس میں رہنے کیلئے کواٹرز بھی موجود تھے مگر پھر بھی اس ڈسپنسری کو ناطق نے بالکل ویران اس لیے بتایا ہے کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ لوگوں کو پتہ چلے کہ گاؤں میں لوگ ڈاکٹرز کے نہ ہونے کی وجہ سے کیسی زندگی گزارتے ہیں، ان کو کیا حالات پیش آتے ہیں جب وہ کسی حادثے کا شکار ہوتے ہیں کہیں ناطق نے ایسا نقشہ بھی کھینچا ہے کہ کمپوڈر ہی خود کو ڈاکٹر سمجھنے لگتے ہیں اور بضس اوقات اپنے ناجائز کاموں کیلئے بھی ڈسپنسری کو استعما ل کرنا شروع کردیتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں :

’’ڈاکٹراور نرسیں گاؤں کے ہسپتال میں مستقل نوکری نہیں کرنا چاہتے تھے۔حکومت ہر نئے ڈاکٹر اور نرس کو سال چھ مہینے گاؤں کے ہسپتالوں میں بھیج کر تجربات کرواتی۔جب وہ یہاں سے اچھی ٹریننگ لے لیتے تو ان کی شہر کے ہسپتال میں تعیناتی کردی جاتی ہے اور دیہات میں نیا میڈیکل سٹوڈنٹ بھیج دیا جاتا‘‘(6)

                یعنی دیہات کے ہسپتالوں کو صرف ٹریننگ سینٹرز کیلئے استعمال کرتے ہیں۔وہاں مستقل سکونت اختیار کرنا وہ بھی اپنے لیے قباحت خیال کرتے ہیں۔کچھ ایسی وجوہات بھی تھیں جن کی وجہ سے ڈاکٹر گاؤں کارخ نہیں کرتے تھے اگر کسی مریض کی جان چلی جاتی تو وہ اس پر ذمہ دار ڈاکٹر کو ہی ٹھہرا کر اسے مارنا شروع کردیتیہیں اور ان گاؤں کے لوگوں کی اس حرکت کے ڈر سے بھی شہروں کی طرف ہی بھاگتے ہیں اور گاؤں کا رخ نہیں کرتے۔

                ایسے ہی ایک واقعہ کا ذکرانہوں نے بھی کہانی میں کیا ہے۔جب ایک بوڑھے کو ڈسپنسری میں اٹھا لائے اس کے ساتھ آدھا گاؤں تھاوہ مریض پہلے ہی قریب المرگ تھا۔جب ڈاکٹر نے اس کا معائنہ کیا تو بوڑھے کا جسم اکڑ گیااور قلابازیاں لگانا شروع کردی۔ڈاکٹر آنے والے اتنے لوگوں کا غصہ دیکھ کر پریشان ہوگیا اور پھر بروقت اینٹی الرجک انجیکشن نہ ہونے کی وجہ سے مریض کی حالت ان کے اختیار سے باہر ہوگئی اور ڈر کرکمرے میں بھاگ گیا مریض شدید اذیت سے دوچار ہوکرفوت ہوگیا۔اس پر گاؤں کے لوگوں کارویہ ناطق نے یوں بیان کیاہے کہ نہ صرف سہولیات کی کمی سے وہ لوگ زندگی کی دوڑ میں پیچھے ہیں ،بلکہ تعلیمی اور معاشرتی تربیت کی کمی کا عنصر بھی نمایاں ہے۔

’’آخر انھوں نے ڈاکٹر کو ٹانگوں سے پکڑ کر چوہے کی طرح باہر کھینچ لیااور مارنا شروع کردیا۔ڈسپنسری میں ایک شدید قسم کا ہنگامہ ہوگیا۔اس شور شرابے کے عالم میں لوگ اکٹھا ہونا شروع ہوگئے لیکن اس سے پہلے کہ لوگ ڈاکٹر کو بچاتے انھوں نے ڈاکٹر کی ٹانگ توڑ ڈالی‘‘(7)

                یہاں ایسی صورت حال میں بھی ڈاکٹرز شہروں کا ہی ہونا پسند کرتے ہیں اور دیہی زندگی میں سہولیات کی کمی اور پھر لوگوں کے غیر مناسب رویہ سے بھی خود کو دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں بہر حال یہ ایک پس ماندگی ہے عصر حاضر میں بھی دیہاتی علاقوں کا حال کچھ ایساہی ہے۔ڈاکٹرز کا فقدان ہے اور دیہاتی زندگی شہری زندگی کی نسبت ترقی سے ابھی بھی دور ہے۔

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...