Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں |
حسنِ ادب
اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں

ہم جنس پرستی
ARI Id

1688708340819_56116315

Access

Open/Free Access

لوطی حرکات ہم جنس پرستی

                یہ انسانی معاشرہ ہے انسان خطا کا پتلاہے ،لیکن ابلیس کے پیروکار یہ لوگ اسی انسانی معاشرے میں بظاہر خود پر انسانیت کا لبادہ اوڑھے حیوانیت کو ترویج دیتے ہوئے ،انسانی حدود سے  ہی باہرنکل جاتے ہیں۔نا صرف خود اس کام میں شامل ہوجاتے ہیں بلکہ اپنے آس پاس کے لوگوں کو بھی ملوث کرنا چاہتے ہیں۔اچھی سوچ وبصیرت کا مالک ایسے گندے کام سے کراہت محسوس کرتا ہے اور خود کو غلاظت سے پاک رکھتا ہے۔خواہ وہ کوئی بھی ہوکیونکہ وہ انسانی حدود کو جانتا ہے لیکن کچھ جو انسانی حدود سے نکل کر جنسی آزادی کو خود پر لازم اور خود کو آزاد سمجھتے ہیں وہ خود کو حیوانیت کی حدود سے باہر خارج کردیتے ہیں۔اس آزادی کا نام ہم جنس پرستی ہے۔ایسے ہی فلسفے کا پرچار کرنے والے یہ لوطی کسی بھی رکاوٹ کے دائرے میں نہیں آتے اور اپنی تسکین کے لئے ، ہر رشتے کو خود کے لیے جائزاور حلال سمجھتے ہیں۔ یہ سراسر شیطانی وصف ہے۔ رحمانی وحی کے خلاف ہے یہ کام اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے مگر انسان اپنا عرفان بھول چکا ہے۔جو ذہن ہدایت سے اندھا ہوچکا ہے تو اس کی آنکھیں،کان،زبان سب بیکار ہیں وہ اپنے آپ کو جہنم کی آگ کا ایندھن بنا لیتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :

سورت الاعراف کی آیات کا ترجمہ:آیات 81،80

’’اور جب لوط نے اپنی قوم سے کہا کہ تم لوگ ایسی بے حیائی کرتے ہو جوتم لوگوں سے پہلے دونوں ہی جہانوں (یعنی انسانوں اور جنوں )میں کسی نے بھی کیاور وہ یہ ہے کہتم لوگ اپنی جنسی خواہش پوری کرنے کیلئے عورتوں کی بجائے مردوں کو استعمال کرتے ہو،تم لوگ تو بالکل ہی حد سے گزر گئے ہو‘‘(8)

                لوط قوم نے خود اپنی بربادی کا سامان کیااور آج کا انسان جوکہ پڑھا لکھا باشعور ہے پھر بھی وہ ان باتوں کو ہدایت کی طرف لے جانے کی بجائے خود کو گمراہی کے اندھیروں میں دھکیل دیتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ  تباہی  اس کا مقدر ہوگی مگر پھر بھی اس راستے کو اپنے لیے چن لیتا ہے اور اپنے ساتھ ساتھ اپنی خاندانی تباہی کا بھی باعث بنتا ہے۔مصنف نے بھی ناول میں ایسی حرکات کا ذکر کیا ہے یقینااس موضوع پر لکھنا بہت ہی مشکل ہوگا۔ مگر معاشرے میں پنپ رہے اس گناہ کو ناطق نے بہت ہی عمدگی سے کہانی کے ذریعے قارئین کی نذر کیا ہے۔’’جلال دین‘‘ اس کہانی میں کمپوڈر کا کردار ادا کر رہاہے۔ وہ پہلے بھی غلط کاموں میں ملوث ہے اور اسے کوئی گاؤں سے نکال نا  پائے، اس صورت حال سے بچنے کیلئے اس نے لوگوں کو بہت ادھار دے رکھا ہے۔وہ ڈسپنسری کی دوائیوں کو بیچ دیتا ہے ،ان سے ملنے والی رقم کو لوگوں میں ادھار کی صورت میں دے کر ایک طرح سے ان کو اپنا غلام بنا لیتا ہے اوراپنی حرکات پر پردہ ڈالے رکھتا ہے۔مصنف نے ڈسپنسری میں ہی اس کی رہائش بتائی ہیاور ضامن جوکہ مرکزی کردار ہے وہ ڈسپنسری میں امرود کے درخت پر چڑھا امرود توڑنے کی غرض سے اور دیکھتا ہے :

’’شمیر چارپائی پر الٹا لیٹا ہوا تھا اور یہ ننگا تھا۔اس کے ساتھ جلال دین بھی محض نکر پہنے ننگا لیٹا تھااور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ الجھے ہوئے تھے۔‘‘(9)

                ضامن کیونکہ ابھی دس سال کا بچہ تھا وہ یہ سارا ماجرا سمجھ نہیں پایا اور اسے لگا کے شمیر جلال دین اس کو گلادباکرمارڈالے گا۔مصنف نے ایک ایسا معاشرہ جہاں سادہ لوگ رہتے ہیں۔گاؤں جہاں ہر کوئی ایک دوسرے کو کسی نہ کسی ربط سے جانتا ہے اس کی عکاسی کی ہے کہ ایک ایسے ماحول میں بھی جہاں سب ہر معاملے میں ساتھ ہوتے ہیں۔وہاں بھی ایسی پس ماندگی نے جنم لے رکھا ہے ایسے ہی معاشرے میں لوگ شرافت کالبادہ اوڑھے نا صرف خود کو بلکہ دوسروں کو بھی تباہی کے راستے پرلے جاتے ہیں۔

                 یہ لوگ جانتے ہیں ان کے پاس عبرت کے واقعات بھی موجود ہیں کہ قوم لوط کی بستیوں کو جہاں وہ رہتے تھے رہتی دنیا تک اللہ تعالی نے انتہائی بدبودار اور سیاہ جھیل میں بدل دیا جس سے کبھی بھی فائدہ نہیں اٹھایا جا سکتا تھا قرآن پاک میں بھی ان لوگوں کے لئے جا بجا اللہ تعالی نے نشانیاں چھوڑی ہیں لیکن جو لوگ گمراہی کو اپنا مقدر بنا لیتے ہیں وہ ان ہدایت کی نشانیوں سے بھی محروم رہتے ہیں۔چالیس ایسے مقامات ہیں قرآن پاک میں جہاں حضرت لوط ؑکا ذکر آیا ہے۔ پھر بھی یہ مقدر کے مارے لوگ ہدایت نہیں لیتے ہیں۔ناول نگار نے لوطی حرکات کو گاؤں میں رہنے والے سادہ لوگوں میں رہنے والے شیطان صفت انسانوں کا شیوہ بتایا ہے اور وہ آہستہ آہستہ اپنی اس ہوس سے سادہ لوگوں کو بھی شکار بنا لیتے ہیں۔انسان جو کے خطا کا پتلا ہے بچپن سے جوانی تک اس سے خطائیں سرزد ہوتی رہتی ہیں۔مگر اللہ کی ذات پھر بھی اپنے بندے سے اس کی توبہ کی منتظررہتی ہے لیکن جب کوئی توبہ سے انکارکرتا ہے توتباہی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔

’’جب کوئی قوم اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی بجائے غرور وتکبر اور عادات بدمیں مبتلا ہو جائے ،تو ایسے لوگوں کے دل ودماغ پر شیطان قابض ہو جاتا ہے اور پھر یہ ابلیس کے نقش قدم پر چلنے لگتے ہیں‘‘(10)

                ناطق نے ناول میں جہاں پتھر تراش فیکٹری کا ذکر کیا ہے وہاں کا ماحول بھی کچھ ایسا ہی دکھایاہے۔ زیادہ ترکام کرنے والے افغانی لڑکے تھے۔ضامن جب روزگار کے لئے اس  فیکٹری میں جاتا ہے تو اسے فیکٹری ہی میں موجود افغانی لڑکوں کے ساتھ ان کے کمرے میں  سونے کے لیے چارپائی دے دی جاتی ہے۔جس پر ایک لڑکا اور سوتا تھا۔اس سے پہلے مصنف نے ایک گاؤں کا ماحول دکھایا ہے جہاں ہم جنس پرستی عروج پرتھی۔

                اب کہانی میں وہ ایک دوسری جگہ یعنی ایک فیکٹری کا ماحول دکھا رہے ہیں کہ اصل میں دوردراز سے کام کرنے کی غرض سے آنے والے لڑکوں کو جو ماحول میسر آتا ہے تو وہ اسی میں ڈھل جاتے ہیں اور پھر اسی کے رسیا ہو جاتے ہیں۔ کہانی کا کردار جس نے خود کو بچائے رکھا وہ یہاں اس ماحول سے بھی باعزت نکل جانے میں کامیاب رہا۔فیکٹریوں میں کام لینے کے دوران مزدوروں کا استحصال کیا جاتا ہے۔انھیں ہر برے طریقے سے ڈر ا دھمکا کر کام کے بدلے ملنی والی اجرت میں اضافے سے روکا جاتاہے اور پھر بھی اگر کوئی طاقت رکھتا ہے ،بولنے کی یا احتجاج کی تو اسے فیکٹری میں ہی بننے والی ایک یونین جو پہلے اسے ڈرا دھمکا رہی تھی جنسی زیادتی یعنی ہوس پرستی کا شکار بناتی ہے۔وہ ایسے ہی لڑکوں کا ذکر کہانی میں کرتے ہیں جو کام کی غرض سے فیکٹری میں ہی رہتے ہیں اور ہم جنس پرستی جیسے گناہ کو اپنی عادت بنا لیتے ہیں اور پھر ایسی دلدل میں پھنس جاتے ہیں جس سے وہ کبھی نکل نہیں پاتے۔اپنے ساتھ ساتھ وہ دوسرے افراد کے لئے بھی گناہ کی فضا قائم کر دیتے ہیں۔

’’یہ تمام افغانی لڑکے جو مجھ سے عمر میں تو کم تھے مگر جنسی تلذذ کے شیدا تھے۔انھوں نے نہایت بیباکی سے اپنے کپڑے اتار دیے اور اس نیم تاریک،کالے اور سیم زدہ گیلے بدبودار کمرے میں ایک دوسرے کے ساتھ جفتی میں مصروف ہو گئے‘‘(11)

                ناول نگار نے اخلاقی پس ماندگی کی نہایت گری ہوئی صورت کو عیاں کیا ہے کہ ایسے گندے ماحول میں جہاںسانس لینا مشکل تھا۔وہاں کہانی کا مضبوط کردار خود کو بچا کر نکلتا رہامگر جب اس کو ایسا ماحول میسر رہا تو وہ خود بھی اسی دلدل میں پھنس گیا اور ہم جنس پرستی کا شکار ہوگیا۔اس واقعے کے بعد ضامن کی تمام اخلاقی قدروں کو بھی زوال آگیا اور وہ خود کو اس گناہ کے حوالے کرنے کے لئے آمادہ ہوگیا۔

                ناطق اسی بات کو عیاں کرنا چاہتے ہیں کہ انسان مادیت پسند ہے وہ ترقی کے زینے چڑھتا ہے اس دوران وہ تمام معاشرتی واخلاقی پس ماندگیوں کو نظر انداز کرتا جاتا ہے۔وہ دھوکہ دہی،خود غرضی،مفاد پرستی،ہوس،طمع گیری اور موقع پرستی جیسی برائیوں کو غلط نہیں سمجھتااور بالآخر ان میں ڈوب جاتا ہے۔انہوں نے اس اخلاقی پس ماندگی کے خلاف آواز بلند کی ہے اور کہانی کے ذریعے عام عوام کو شعور دیا ہے۔

                وہ معاشرے میں رہنے والے مختلف مردوں کی زندگی کے احوال کو عیاں کررہے ہیں اور قاری کے دھیان کو اور اس کے ذہن کو ماحول میں پلنے والے اس حیوان صفت انسان سے آگاہ کررہے ہیں۔جو خود کو اب جانوروں کے درجات سے بھی نیچے گرا چکا ہے۔ کہانی میں اس طرح الگ الگ ماحول میں لوطی حرکات بیان کرنے کے پیچھے مقصد جو وہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ ’’ضامن‘‘ کہانی کا مضبوط کردار ان دونوں واقعات سے اپنا دامن بچاپایا اور نکل گیا لیکن جب مسلسل ماحول ایسا میسر ہو تو مضبوط سے مضبوط انسان بھی اس سے بچ نہیں پاتا ہے۔ یہ گناہ جس کاارتکاب انسان اگر بچپن میں کرے تو بڑھا پے تک ساتھ رہتا ہے اور ضامن جو کہ بچپن میں واقعہ کو سمجھ نہ سکا جوانی میں جب اس کے سامنے یہ واقعہ پیش آیا تو وہ دلدل  میں پھنس گیا۔جب کام کے سلسلے میں ہی’’ضامن‘‘کو ایک کرائے  کے مکان میں سکونت اختیار کرنا پڑتی ہے۔وہاں دوبہن بھائیوں کے ساتھ شراکت داری پہ ایک ہی فلیٹ میں کچھ شرائط کے بعد’’ضامن‘‘رہنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ضامن ان دونوں کے کام سے ناواقف تھا اس لیے اس نے فیصلہ لینے میں عار محسوس نہیں کی،مصنف نے ناول میں یہ قصہ یوں بیان کیا ہے:

’’میری ٹانگوں اور سینے کے بیچ نرم انگلیوں کی سرسراہٹ نے میرے جسم کی آگ پرایندھن رکھ دیا تھا۔اس ایندھن میں دو چہروں کو زیتون ،دو مساموں کے پسینے سے بہنے والی کستوری اور دو لعاب سے ٹپکنے والا شہد شامل ہو چکا تھا۔یہ تمام ایندھن میرے جسم کی آگ میں پھینک دیا گیا‘‘(12)

                یہاں ناول نگار اپنے اصل مقصد کی طرف پہنچ جاتا ہے ۔ ضامن کا مضبوط کردار بھی اس موڑ پر آ کر خود کو اس گندگی سے بچا نہیں پایا۔یہی بات جو وہ بتانے کی جسارت کر رہا ہے کہ ایسے  افراد جو ان عادات کا شکار ہو جاتے ہیں، اپنے ساتھ ساتھ وہ اپنے آس پاس کے  لوگوں کو بھی اپنے گناہ میں شامل کر لیتے ہیں۔اسی طرح  معاشرے میں یہ برائی جڑ پکڑتی رہتی ہے۔

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...