Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں |
حسنِ ادب
اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں

جہاد کے نام پر اغوا کا کاروبار
ARI Id

1688708340819_56116316

Access

Open/Free Access

جہاد کے نام پر اغوا کا کاروبار

                جہاد کے نام پر اغوا کا کاروبار ایک المیہ ہے ہمارے معاشرے میں بہت سی تنظیمیں جن کا وجود اب معاشرے میں موجود ہے اور ان کی بہتات کی وجہ سے اکثر دشمن سادہ لوگوں کی سادگی کا فائدہ اٹھاتے ہیں کوئی مذہب کا واسطہ دے کر بچوں کے کچے ذہن سیکھیلتا ہے،تو کوئی وطن کی محبت کا لالچ دل میں ڈال کر ور غلاتا ہے۔غیرت کا سودا کرنے کا ہنر ایسی تنظیموں میں عروج  پر پایا جاتا ہے۔گاؤں میں آکر ایسی تنظیمیں بچوں کو اپنے وطن کو خطرے میں بتا کر اور ان کے آباؤاجداد کے قصے سناکر ان کے ایمان کو ہتھیار بناکر کہ تم لوگ مومن ہو کیسے چپ بیٹھے ہو اور ان کوان کی مرضی سے یہاں سے ایک ایسی دنیا میں لے جایا جاتا ہے۔جہاں گھر والوں کو وہ اپنی مرضی سے چھوڑ چلے جاتے ہیں اور وہاں انھیں اپنے غلط عزائم کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ایسی ہی صورت حال کا ذکر اس نے بھی کہانی میں کیا ہے ایک ایسا گروہ جس نے گاؤں کے سکول میں آکر کچھ ایسے ہی کہانی سنا کر بچوں کو جہاد کے نام  پر اپنے ساتھ لے گئے۔لکھتے ہیں :

’’کہتے ہیں جس یاجوج ماجوج کا ذکر قرآن میں آیا ہے وہ قوم بڑی ظالم ہیاور اس نے ہماری دیواروں کوچاٹ کر توڑ دیا ہے۔اگر انھیں نہ روکا گیا تو سب کو کھا جائیں گے۔اس لیے اپنے آپ  کوبچانے کیلئے نکلو‘‘(13)

                یہاں مصنف نے ناول کو ایک نیا موڑ دیا۔ عدیلہ جو کہ عماد کی ماں ہے وہ اپنے بیٹے کی جدائی میں اس گروہ کے پیچھے لگ گئی اور سارا ماجرا سامنے آگیا۔یعنی یہ تنظیم جو کہ جہاد کے نام پر  بچوں کو لے جاتی تھی ان کے دوارادے اس نے بتائے ہیں۔اگر کوئی لڑکا خوبصورت ہے تو اس کے جسم کو فروش کیا جاتا اور اگر لڑکا خوبصورت نہیں ہوتا تو اسے کسی محاذ پر لڑنے کیلئے بھیج دیا جاتا۔ عدیلہ کو بیٹے کی جدائی نے پاگل کرکے رکھ دیا۔اس نے ہتس نہیں ہار ی اور سکول پہنچ گئی کہ کسی بھی طرح وہ عماد کو واپس لے آئے گی۔وہ اکیلے ہی نکل کھڑی ہوئی اور ارادہ ایسا مضبوط کہ آج وہ اپنے راستے میں آنے والی ہر دیوار کو گرا دے گی، مگر بیٹا ضرور واپس لے آئے گی۔وہ شیرنی کی طرح سکول پہنچی ،ہیڈ ماسٹر کو گریبان سے جاپکڑا اوراپنے بیٹے کا مطالبہ کیا۔

                ہیڈ ماسٹر کو عدیلہ سے ایسے رویے کی توقع نہ تھی۔ وہ پریشان ہو گیا۔آج سے پہلے تمام والدین خاموش ہو جاتے تھے۔ ان کے بچے اپنی مرضی سے جہاد پہ نکل کھڑے ہوتے تھے اور جدائی میں تڑپ کر بالآخر خاموش ہوجاتے تھے لیکن عدیلہ کا یہ رویہ دیکھ کر ہیڈ ماسٹر بھی پریشان ہو گیا اور اس  نے عدیلہ کی مدد کرنے کا ارادہ کیا۔اس نے دراصل کہانی میں یہ بات عیاں کی ہے کہ ایسے گروہ اسلحہ کے زورپر سب کو دبا لیتے ہیں اور ملک کے بڑے بڑے عہدے داران ان کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں اس لیے ان کو روکا نہیں جاتا۔آپس میں مل بانٹ کر کھانے کیلئے اپنے سے نچلے طبقے کو ڈرا دھمکا کر کچھ لالچ کی ہوس والوں کو پیسہ دیکر اور کچھ کو بلیک میل کراکے چپ کرا دیتے اور اپنے کام کو جاری رکھتے۔یہ معاشرے میں ایک ایسی پس ماندگی ہے جس کو بے نقاب کیا جانا نہایت ضروری ہے۔مصنف نے ناول کے ذریعے باور کرایا ہے کہ اصل میں انسان کو اپنے حق کو حاصل کرنے کیلئے اپنے ضمیر کی آواز کے علاوہ سہاروں پہ نہیں رہنا چاہیے اور اس طرح ہونے والے گناہوں کا پردہ فاش کرنا چاہیے۔عدیلہ جب ہیڈ ماسٹر کو کسی صورت جانے نہیں دے رہی تھی تب ہید ماسٹر نے بھی بالآخر خاموشی کو توڑا:

’’اس حرامی عبدالئیی کو بلاؤ ،خنزیر کا پتر مجھے بھی لے ڈوبا،ہیڈ ماسٹر ایک دم چیخا،بی بی تیرا پتر آجائے گا،صبر کر جااب میں اسے منگواتا ہوں نوکری جاتی ہے تو جائے میں نے اسے کہابھی تھا سکول کے بچوں سے باز آؤ لیکن یہ جہنمی پتا نہیں کہاں تک ڈبوئیگا۔اس لوطی پہ خداکی پھٹکار‘‘(14)

                واقعہ کچھ یوں ہوا کہ گاؤں کے مدرسے کا قاری جو کہ اس کام میں ملوث تھا وہ عرب لوگوں کے ساتھ ملا ہوا تھا۔مصنف نے کہانی میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ کوئی بھی ملک میں غلط ارادے سے تب تک نہیں داخل ہوتا جب تک ملک ہی سے غدار ساتھ مل کر انھیں داخل ہونے کا موقع نہ دیں۔قاری نے اپنے گاؤں کے تمام راز اس تنظیم کو دیرکھے تھے۔گاؤں کے ایک ایک لڑکے کو اس کا پتہ تھا جیسے ہی وہ بڑے ہوتے عین جوانی میں پہنچیم ویسے ہی مدرسہ میں عرب لوگوں کو بھلا کر انھیں جہاد کے نام پر دوسرے ممالک میں فروخت کر دیتا۔ایسے لو گ اپنا ایمان بیچ دیتے ہیں اور جہاد کے نام پر اچھا خاصہ پیسہ بٹور لیتے ہیں۔اس بات پر کاروائی کیلئے جب عدیلہ نے کہا کہ وہ شکایت کرے گی مدد لے گی تو اس پر ہیڈ ماسٹر نے سمجھایا کہ تمہارا یہ انتہائی قدم تمہارے بیٹے کی جان بھی گنوا سکتا ہے۔ یہ لوگ سب ملے ہوتے ہیں اس لیے تمہارا کسی کو بھی مدد کیلئے کہنا بیکار ہوگا۔خاموش ہو جاؤ تمہارا بیٹا ایسے ہی مل سکتا ہے۔شور مچانے پر تمہیں صرف خسارا ہوگا۔ناطق نے کہانی میں لوگوں کو مجبور دکھایا ہے کہ مجبور انسان اپنے ہی مرنے کی دعاکرنے کے لئے مجبور ہو جاتا ہے۔اس نے ماجرا کچھ یوں بیان کیا ہے کہ:

’’جب مدرسے اور سکولوں کے لڑکے ٹریننگ کیلئے تیار ہو جاتے ہیں تو بہت سے جس مقصد کیلئے منتخب ہوتے ہیں اسی کام پر بھیج دیے جاتے ہیں۔کچھ لڑکیجو منہ متھے کے ٹھیک ہوتے ہیں انھیں عربوں سے پیسے لے کر بیچ دیتے ہیں پھر وہ چاہے جو بھی کام لیں۔یہ جو تم مدرسے میں عرب لوگوں کو دیکھ رہی تھی،اسی خاطر یہاں آئے تھے یہ کاروبار سرکار کے کچھ بڑے اور یہ مولوی آپس میں مل کر چلاتے ہیں‘‘(15)

                مدرسوں کے حالات کو ناطق نے کہانی میں بتایا ہے کہ لوگ دین کی تعلیم دینے کے نام پر بچوں کو باغی ہونے کی تعلیم دیتے ہیں۔ان کے روابط ہوتے ہیں۔باہر کے ملکوں میں جہاں پر انھیں رضاکاروں کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ یہاں یعنی پاکستان میں مختلف مدرسوں میں اپنے ساتھی سے رابطہ کرکے اسے اس کام کا بھاری معاوضہ دے کر ایسے گندے جرم کیلئے تیار کرتے ہیں اور  پیسے کا لالچ  ایسا ہے کہ جب اتنی بھاری رقم ایک ساتھ ملتی ہے تو آنکھیں ویسے ہی بند ہو جاتی ہیں۔عدیلہ کو یہ گلہ تھا ہیڈ ماسٹر سے کہ اگر اسے اس باتکا سب پتہ تھا تو وہ خاموش کیوں رہا۔ اس پر قاری  نے کہا کہ وہ خود بھی بچوں کا باپ ہے اس لیے اس کو خاموش رہنا پڑا۔اسی وجہ سے آج کے باشعور والدین بھی اپنے بچوں کو دین کی تعلیم کیلئے مدرسوں میں نہیں بھیجتے بلکہ وہ یہ کام بھی گھر میں ہی کرتے ہیں۔ناول میں ناطق نے ہر پہلو کا کھل کر اظہار کیا ہے۔ایک ایک بات کو بے پردہ کیا ہے:

’’ہمارے ملک کے ایک بڑے ادارے کو لڑاکا قسم کے رضاکار چاہئیں۔اسے یہ مولوی رضا کار مہیا کرنے کا کام کرتے ہیں۔ ملک اور ملک سے باہر نوخیز لڑکوں اور لڑکیوں کو بھیجتے ہیں اور اس کے عوض ان کے مدرسے چلتے ہیں۔بڑی گاڑیاں ان کے ہاں آنے لگی ہیں‘‘(16)

                سلسلہ یہاں ہی ختم نہیں ہوا اپنے آپ کو بچانے کیلئے مولوی عبدالحیٔ نے پھر عدیلہ کو بھی بلیک میل کرنا شروع کردیا کہ وہ اپنے بیٹے کے بدلے بیٹی کا رشتہ اس کے ساتھ طے کرے۔ناول نگار نے معاشرے کی اس برائی کو مکمل طور پر کھل کر اس کی ہر پرت کوتہہ در تہہ قاری پر عیاں کیا ناول ذریعہ ہے معاشرے کی عکاسی کا اور ناول نگار نے انصاف سے کام لیا ہے۔

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...