Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں |
حسنِ ادب
اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں

جائیدادکا تنازعہ
ARI Id

1688708340819_56116317

Access

Open/Free Access

جائیداد کا تنازعہ نسل درنسل دشمنی

                 ناول نگار نے کہانی میں تین بھائیوں کا ذکر کیا ہے جو کہ ضلع خانیوال کے گاؤں ٹبہ والی میں رہتے تھے۔صادق بخش،الٰہ بخش،احمد بخش تینوں بھائیوں کے پاس زمین جائیداد بتائی گئی ہے احمد بخش جو کہ ان سب سے بڑا ہے اس کا ایک بیٹا ہے۔طلال احمد،دوسرے بھائی کی ایک بیٹی ہے بیٹی کی پیدائش پر بیوی کا انتقال ہو گیا اور تیسرے بھائی کی دو بیویاں ہیں مگر اولاد کوئی نہیں۔ان تینوں بھائیوں کا باپ جنگ عظیم دوم میں انگریزوں کے خلاف جنگ کرتا ہوا اپنے ایک بازو سے ہاتھ دھو بیٹھا اس صورت میں اسے حکومت کی طرف سے زمین الاٹ کی گئی، کچھ بعد میں یہ بھائی اپنے دماغ سے اضافہ کرتے گئے۔تینوں بظاہر بہت اچھے بھائی تھے۔ مگر طلال احمد جو کہ دل میں بغض رکھتا تھا، وہ اور اس کا باپ احمد بخش تین ہزار ایکڑ کے امورخود سے ہی دیکھتے تھے۔سب کام بہت خوش اسلوبی سے ہورہے تھے۔تینوں بھائیوں میں بگاڑ تب پیدا ہواجب دوسرا بھائی اپنی زندگی میں ہی اپنے حصے کی زمین اپنی بیویوں کے نام کردینا چاہتا تھا۔ناطق نے بھائیوں کے پیار میں بھی بتایا ہے کہ خون کے رشتے ،سگے بھائی بھی کس طرح جائیداد کے لالچ میں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو جاتے ہیں۔صادق بخش ہمیشہ سے چاہتا تھا اور اس سلسلے میں اپنے بڑے بھائی احمد بخش کو بہت بار کہہ چکاتھاکہ وہ اپنا حصہ اپنی بیویوں کے نام کرنا چاہتا ہے اور احمد بخش ہمیشہ ٹال مٹول سے کام لیتا تھا۔دونوں میں بہت تکرار ہوگئی اور بات طے پائی کہ وہ اس سال  کپاس کی کاشت پر رقم دونوں بیویوں میں تقسیم کردے گا۔اس تکرار کی وجہ سے اب بھائی ساتھ میں کم بیٹھتے تھے۔مگر احمد بخش نے اپنا وعدہ  پورا نہ کیا صادق بخش اب تمام معاملے کو اچھی طرح سمجھ گیا تھا اس لیے اس نے خود ہی عدالت جاکر اپنی کاروائی کو پورا کرنے کی کوشش کی مگر ان کے ساتھ واپسی پر حادثہ پیش آگیا۔

’’آج صبح صادق بخش ان سب چیزوں کا اہتمام کرکے گیا تھا مگر کچہری میں کمشنر کی آمد کے سبب تمام عملہ دفتری کام چھوڑ کر اس کے پروٹوکول کیلئے جمع ہوگیا اور صادق کا کام آج بھی نہ ہوسکا۔ اسے کل پر ٹال دیا گیا۔واپسی پر صادق بخش کی جیب ایک میل ستون سے ٹکڑا کر الٹ گئی اور ایک گہرے کھڈے میں جاگری۔ تینوں بھائیوں کے سروں اور جسم کے دوسرے حصوں پر گہری چوٹیں آئیں‘‘ (17)

                تینوں کا انتقال ایک حادثے کی صورت میں ہوگیا خون کا سفید ہونا کی اس سے بہتر مثال کوئی اور نہ ہوسکتی تھی۔جس طرح ناطق نے ناول میں سگے بھائیوں میں جائیداد کے تنازعہ  پر پیش کی ہے۔دوسری طرف دوسرا بھائی جس کی ایک بیٹی ہے اس نے اپنی بیٹی کو ان سب سے دور کراچی بھیج رکھا تھااس نے دیکھا کہ جنازے پر سب پولیس والے تھے۔ایس پی اس کے علاوہ اکثریت ان لوگوں کی تھی جنہیں الہ بخش نہیں جانتا تھا۔آس پاس کے گاؤں کے سیاسی آدمی تک بھی آئے ہوئے تھے۔

                یہ لوگ کب ،کیسے اور کس طرح واقف بنے کوئی نہیں جانتا تھا۔اس بات کا الٰہ بخش نے    جائے حادثہ پر پہنچ کر جائز ہ لیا کہ اس کے مطابق تو بھائی کا ملیدہ بن جاناچاہیے تھامگر ایسا کچھ نہ ہوا۔وہ عجیب دماغی کیفیت  میں تھا جس کا وہ سامنا کررہاتھا۔مصنف نے حالات  کی سنگینی کو اس طرح بیان کیا ہے کہ ایک کے بعد ایک بات خود بخود سامنے آتی چلی گئی۔بالکل اس طرح جس طرح جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے اور سچ چھپائے نہیں چھپتا۔

                ناطق نے ایک اور سنگدلی کا واقعہ پیش کیا ہے کہ جب الٰہ بخش پہ تمام راز کھلنے لگے تو یہ بات سامنے ا ٓئی کہ صادق بخش مرنے سے پہلے فرد نامہ دے کر گیا تھا کہ اس کی ساری جائیداد طلال کے نام یعنی اس کے بڑے بیٹے کے نام کردی تھی۔پھر تو واقعی معاملہ سارا سمجھ میں آگیا کہ اگر ایسا تھاتووہ دونوں بیویوں کے نام پر زمین کرنے کی ضد کیوں کرتا تھا۔

                پہلے معاملے کی صورت حال کو سمجھتے ہوئے الٰہ بخش نے اپنی بیوی بیٹی کو اپنے بعداپنی زمین جائیداد کا نام ہبہ کرنے کی ہدایات جاری کیں پھر اپنے بھائی کی جائے حادثہ اور اس کی موت  کی تفتیش کیلئے دوبارہ درخواست دے دی۔اس معاملے سے آگ اور بھڑک اٹھی ناول نگار نے معاملے میں ہونے والے ایک ایک جز کی تفصیل بہت گہرائی میں جاکر بیان کی ہے۔احمد بخش نے اپنے بھائی کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر بات کو عدالت میں جانے سے نہ روک پایا۔دوسری طرف طلال اپنے اس چچا کو بھی موت  کی نیند سلانے کی تیاری کر چکاتھا:

’’یہ کار تو س اتنا سخت اور زوردار تھاکہ ایک بھینسے کو مارنے کیلئے کافی تھا۔اس نے الٰہ بخش کے دل کے اوپررکھ کرگھوڑا دبادیا۔ایک ایسا دھماکاہوا کہ تمام  عدالت کانپ اٹھی‘‘(18)

                جس طرح مصنف نے ماحول کا نقشہ کھینچا ہے ،ایک دہشت زدہ خوف کی لہر دل میں اترتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔قاری بھونچکا سارہ جاتا ہے کہ یہ جائیداد کیا انسان کے بس میں ہے کہ وہ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے اور اسے اپنے لیے تمغہ سمجھتا رہے گا یا پھر وہ مرنے کے بعد اس جائیداد کو اپنے ساتھ لے جاسکتا ہے۔دونوں ہی صورتیں ناممکن ہیں پھر سگے رشتے خون کی ندیاں بہاتے چلے گئے اور قاری کے دل ودماغ پر سوچ کا ایک بوجھ مسلسل چھوڑ گئے۔ناطق بذات خود ایک تاریخی کہانی لکھنے میں صف اول کے ادیب مانے جاتے ہیں اور یقیناانھوں نے نسل در نسل  دشمنی کا وہ نقشہ کھینچا ہے جو ایک خوفناک اور ناقابل برداشت واقعہ محسوس ہورہاہے۔

                جائیداد کے اس تنازعے نے بس یہاں تک ہی دم نہیں لیا بلکہ اس سانپ کا منہ کھلا ہی رہا گاوں بھر میں یہ لوگ مشہور ہوگئے کہ جائیدادکی خاطر انہوں نے اپنے سگے بھائیوں کا قتل کردیا ہے اور ہوس بڑھتی ہی گئی طلال نے آگے بھی زمین کے لالچ میں اس قتل وغارت کو جاری رکھا کہ اس  سے کوئی تنکا برابر بھی زمین یا جائیداد میں سے کوئی حصہ نہ لے سکے۔بات جب تک بھائیوں میں چھپی ہوئی تھی پر طلال تو ایسے نکل کر سامنے آیا کہ جیسے وہ کسی کو زندہ سامنے نہیں دیکھ سکتا۔

                اس نے خاندان کی تمام عورتوں کو بھی جائیداد سے محروم رکھا ناطق کے مطابق یہ پاکستان میں ہی ایسا ہے جہاں عورتوں کو ان کے حق سے دستبردار کر دیا جاتاہے۔قانون ہر طرح کا موجود ہے مگر بات یہ ہے کہ اس پر عمل کوئی نہیں کرتا۔یہ صورت حال صرف گاؤں میں نہیں پائی جاتی بلکہ شہروں میں جائیداد کی خاطر ایسے مسائل نظر آتے ہیں۔قانون مرد اور عورت کے وراثتی حقوق کا تحفظ کرتا ہے مگر یہ آگے سے افراد ہیں جو قانون کو بھی اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیںاور یہ وہ لہو تھا جو طلال کے منہ کو لگ چکا تھا پھر اس نے نسل در نسل اس کو ہوادی اور سب کچھ برباد کرکے رکھ دیا۔ناطق نے  طلال کی پھیلائی ہوئی تباہی کا قصہ کچھ یوں بیان کیا ہے:

’’اسی طرح چودھری طلال نے الٰہ بخش کو مار دیا،صادق بخش کو مار دیا۔کچھ تو یہ کہتے ہیں کہ سگے پیو کو بھی اس نے قتل کیا ہے۔اللہ بخشے پہلے قتل تو بھائی کا خود اسی احمد بخش نے کروایا تھاخیر اپنی سگی پھوپھی کو مار دیا،پھوپھی زاد کو بھی قتل کرادیا ۔ابھی تھوڑے دن پہلے ہی اپنی بہن کو زہر دے دیا اور کہہ دیا اسے محرقہ ہوگیا تھا۔اس زمین کے بدلے میں اس نے کیکو کا ایک فرد نہیں چھوڑا۔جب تک اس کا باپ حیات تھا پھوپھی بچی ہوئی تھی اس کے مرنے کے بعد اللہ جانے کس نے سبق پڑھایا ایک دن صبح ہوئی تو رعایا کو پتہ چلا پھوپھی زہراں کادل بند ہوگیا اور وہ مرگئی۔سب رعایا کو پتہ تھا،چوہدری طلال نے اس کا گلا گھونٹا ہے پر چلتی توپ کا منہ کس نے دیکھا ہے‘‘(19)

                ناطق نے جائیدادکے تنازع میں قتل وغارت کاجوقصہ کہانی میںبیان کیا ہے۔وہ دراصل اس معاشرے میں عورتوں کو ان کے حق سے محروم کر دینے والو ں اور پھر ان کو موت کے گھاٹ اتار دینے والوں کے خلاف احتجاج کرتے نظر آتے ہیں۔سماجی رویوں کی اس سے بہتر غمازی نہیں ہوسکتی۔وہ اس قدر کرب سے قاری کو گزارتے ہیں اور زمانی تقاضوں اور عصری رویوں کے مطابق وہ خیالات کا اظہار کرتے ہیں کہ ان کے افکار وجذبات میں پرسوز سماجی کرب کی ایک گونج سنائی دیتی ہے۔نثر میں ایسی جدت انیںق دوسرے ادیبوں سے ممتاز کرتی ہے اور یہ تخلیقی جہت انھیں مزید اس طرح کے حالات وواقعات کو بے نقاب کرنے کی طرف گامزن رکھتی ہے۔وہ نہ تو ظلم ہوتا دیکھ کر چپ رہ سکتے ہیں اور نہ ہی مادیت پرستی کے اس دور میں وہ خاموشی کو اپنا شعار بنا سکتے ہیں۔

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...