Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں |
حسنِ ادب
اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں

کرپشن
ARI Id

1688708340819_56116319

Access

Open/Free Access

کرپشن ،نجی مفادات اور غداری

                ہر وہ شخص غدار ہے جو اپنے ذاتی مفاد کیلئے پھر غیر آئینی طریقے سے پاکستان کے آئین کو منسوخ کردے یا پھر کسی بھی قسم کی کرپشن جو ملک کیلئے بدنامی کا باعث بنے ،خطرہ بنے ،کسی آئین کو معطل کرے ،یا کسی بھی سازش میں بھی شامل ہو تو وہ ملک کا غدار ہے۔ یہ ایک ایسی لعنت ہے جو کسی بھی ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کردیتی ہے۔

                یہ زمین جس پر ہم رہتے ہیں یہ ہمارے لیے ہماری ماں جیسی ہے پاک زمین کی گود میں پرورش پاکر پھر اسی سیغداری کرنا ،ایسے حالات  میں جہاں غدار موجود تھے وہاں وطن پر مر مٹنے والے بھی موجود تھے مگرجو نقصان وطن کو ان غداروں سے ہوا وہ ملک کیلئے شرمندگی کا باعث بنتارہا۔وطن سے بغاوت کرنے والے کچھ لوگوں نے وطن اور دین کی پرواہ نہ کی اور صرف چند پیسوں کی خاطر اپنا ایمان بیچ ڈالا اور جہاں ان کو وطن کی حفاظت کیلئے کھڑے ہونا تھا وہ وطن کے غداروں کی صف میں شامل نظر آئے۔اکثر اوقات ہم غداروں کو پکڑپانے میں اتنی دیر کردیتے ہیں جب تک وہ ہماری بنیادوں کوکھوکھلا کرچکے ہوتے ہیں۔

                ناطق نے بھی ناول میں ایسے ہی ایک واقعے کو بیان کیاہے کہ جب ’’ضامن‘‘کہانی کا مضبوط کردار وزارت خارجہ کے دفتر میں چودھویں سکیل کے کلرک کی حیثیت سے کام کرنے لگا تو اس کے ساتھ کچھ ایسے حالات پیش آئے جن سے وہ لاعلم رہا کے کہیں نہ کہیں اسے ملک کے خلاف کام کرنے کی سازش میں شامل کیا جاتا رہا ہے۔یقینااس پر قلم اٹھانا مصنف کیلئے بہت بہادری کا کام ہے۔آج سے پہلے بھی اردو ناولوں میں ملکی حالات پر بات کی جاچکی ہے اس لیے ناول نگار کی اس تخلیقی کاوش میں وطن سے محبت کا جذبہ بھی چھپا نظر آتا ہے۔جس کا ثبوت انھوں نے اپنے فن کو تخلیق کرکے دیا ہے۔

                ضامن کو جب کام سکھایا گیا تب وہ لاعلم تھاکیونکہ اسے کام کرنا تھامگر اسے بات معیوب بھی لگتی کے آنکھ،منہ اور کان بند کرکے کام کرنا ہے۔اسے جب اصول سمجھائے گئے کراکی کے یہ جملے اس کیلئے نہایت بھدے تھے کہ اس کو اپنی قبر سمجھو دفتر کی کوئی بات گیٹ سے باہر نہ جائے۔سمجھو کہ تمہیں اسی میں دفن کر دیا گیا ہے۔ناول نگار نے یہاں پہ ہی کام کے خفیہ رکھے جانے کی نشاندہی کردی ہے کہ معاملہ کچھ ٹھیک نہیں ہے:

’’اپنے افسر کے کام پر اعتراض مت کرو چاہے وہ ملک کا سودا ہی کررہا ہو۔یاد رکھو صاحب کو سزا کبھی نہیں ہوسکتی اور سبارڈی نیٹ کبھی بچ نہیں سکتا۔افسر کے کسی کام کی ٹوہ میں نہ لگنا،ورنہ نوکری سے فارغ یا تمام عمر کرپشن کے الزام میں جیل جاؤگے‘‘(20)

                ناول نگار نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ملک میں غداری کرنے والے اپنے نیچے کام کرنے والوں کو بالکل اسی طرح استعمال کرتے ہیں جیسے وہ صرف ان کے نوکر ہیں۔ ان سے وہ ہر طرح کا کام لے سکتے ہیں ،ان کے سامنے کسی بات کو کھلنے بھی نہیں دیتے کہ یہ کام کرنے کی وجہ کیاہے،کونسی فائل کس کام میں استعمال ہوتی ہے ،ان سب باتوں کو راز رکھا جاتا ہے اور خود اپنے غلام پر کام کروانے کیلئے بھی کسی کو تعینات کیا جاتا ہے کہ اس پربھی نظر رکھی جاسکے تاکہ کوئی فائل آگے پیچھے نہ ہو اور نہ ہی اسے پڑھنے کی کوشش کی جاسکے۔ضامن خاموشی سے یہ کام کرتا رہا اسے جس کام کو کرنے کیلئے کہا گیاوہ کرتا رہا جس طرح اس سے کام لیا جاتا رہاخود اسے بھی معلوم نہیں ہوتا تھا کہ فائل کے اندرایک تاریک کمراجس میں وہ فائلوں کی ردو بدل کرتا رہتا اور دنیا سے دور صرف ایک کمرے کی زندگی میں ہی اپنی زندگی کے رات ودن ایک ایسے کام کیلئے بسر کرتاہواجس کا اسے بھی اندازہ نہ تھا۔جب اسے سمجھایا جارہاتھا کہ کیسے کام کرناہے اس پہ تعینات کیے گئے پہلے سے موجود آدمی کا کام صرف یہی تھا کہ اس کو وقتاًفوقتاً بس یہی بتاتا رہے کہ اسے بس اپنے کام سے کام رکھنا ہے۔اس نے کھید لفطوں میں ضامن کو سمجھایا کہ تم سمجھ رہے ہو گے کہ یہ آفس گورنمنٹ کا ہے اس آفس کا تمام سرمایہ بھی گورنمنٹ کا ہے،ملک کا ہے ،کتابوں اور سیشن کورٹ میں یہی لکھا ہیمگر پھر بھی تمہیں صرف اپنے ملک کیلئے کام کرنا ہے ملک کیلئے نہیں اگر وہ تمہیں ایسا کرنے کو کہے کہ اس آفس کی اینٹیں میرے گھر میں لگا دو تو ایسا کرنے میں پل بھر بھی دیر نہ کرنا۔ناول میں اس سچائی کی عکاسی کی گئی ہے کہ غدار کس حد تک مفاد پرست ہو سکتا ہے۔ناطق لکھتے ہیں :

’’محب وطن بننے کی سیڑھی ہمیشہ غدار ی کے کنویں  میں اترتی ہے۔ہم یہاں گورنمنٹ کی نوکری کرنے نہیں آئے،اپنے باس کی نوکری کرنے آئے ہیں جسے گورنمنٹ کہتے ہیں وہ یہاں کا فقط باس ہوتا ہے‘‘(21)

                ناول کیونکہ طویل ہوتا ہے اس لیے اس کی کوکھ میں مختلف عوامل سماسکتے ہیں زیادہ سے زیادہ واقعات ،خیالات ،جذبات اور ثقافت کو اس میں حصہ بنایا جاسکتا ہے۔ناول نویس، یعنی ناول لکھنے والا ، اپنی ذاتی خواہش کے مطابق کوئی نئی دنیا نہیں بناتا وہ ہماری دنیا سے ہی بحث کرتا ہے۔وہ  لاشعور میں چھپے ہوئے جذبات واحساسات کو شعور میں لے کر آتا ہے اور معاشرے کے مطابق قاری کے ذہن کی ترجمانی کرتا ہے۔ناول نگار نے وطن کیلئے جو چیز محسوس کی کہ کس طرح ہمارے اندر سے ہی غدار ہمارے ملک کو ترقی کے زینے چڑھنے نہیں دیتے۔

                ناطق نے تمام واقعات کو ناول کے ذریعے ایک لڑی میں پرو دیا ہے۔فائلوں کے کام میں ضامن کو جو سمجھ آئی وہ یہ تھی کہ صاحب لوگ جن کو اوپر لے کر آنا چاہتے تھے۔اس کی فائلوں کو آسان محکموں میں بھرتی کرواکر ڈیبوٹیشن پرلے لیتے ہیں اور سرکاری لوگ ایک دوسرے کوابلائیج کرتے ہیں اس لیے وہ ایک محکمے سے دوسرے محکمے میں بھرتی کروانا آسان سمجھتے تھے۔مشکل مرحلہ بس یہی ہوتا ہے کہ شروع میں اپنے عزیز کو چھوٹی جگہ پر رکھنا پھر وہی اوپر آنے میں دن نہیں لگاتا اور ان کی ڈگری بھی اعلی ٰنکل آتی ہے۔اگر کوئی اعتراض بھی کرتا ہے تو قانون کی شقیں تو ختم  کسی صورت نہیں ہوتی کیونکہ بالکل اوریجنل کام ہوتا ہے۔اعتراض کرے گابھی توکون کرے گا، وہ جو جھونپڑی میں رہتا ہے، جس کی آواز دبا دی جاتی ہے۔کوئی بھی ان باریکو ں کو نہیں سمجھ سکتا۔ان باریکیوں کو جاننے کیلئے پر اسرار گلیوں سے گزرنا پڑتا ہیاور ممکن حد تک ان ہی باریک گلیوں میں اس کے وہم دور کر دیے جاتے ہیں۔کسی کو بھی ان دفاتر تک رسائی حاصل نہیں ہوتی۔ناطق نے ناول میں عام آدمی کے خیالات کو ہر وقت پیش نظر رکھا ہے:

’’میاں جن کے حق یہ لوگ کھاتے ہیں ان دفتروں تک نہ آگہی ہے نہ رسائی ہے اور نہ وہ اس دنیا سے واقف ہے انھیں یہ خبر نہیں کہ اسلام آباد کے فلاں کمرے میں فلاں فائل  کے پیج پر اس کا معاشی   اورسماجی قتل ہو چکا ہے یا ا س کی آزادی سلب کر لی گئی ہے اسے بالکل اطلاع نہیں‘‘(22)

                ناول نگارنے اس دنیا کو پس پشت ڈال کر تخیل سے تخلیق کا کام لیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ لوگ اس بات کے سحر سے نکلیں کہ زندگی میں انھیں ہمیشہ سادہ اوراصولوں کے مطابق ہی زندگی گزار دینی ہے۔ایسے دفاتر اگر کسی کام میں دلچسپی رکھتے ہیں تو صرف اس میں ،ان کو ذاتی مفاد کتنا مل رہا ہے،کیسے مل سکتا ہے اور اس کا تخفظ کیسے ممکن ہے۔

                وہ ایسا پلاٹ بناتے ہیں جس میں بناوٹ کا احساس نہیں ہوتا اور ان کے پلاٹ میں ان کا فن اور حسن بخوبی  نظر آرہا ہوتا ہے۔ ناول نگار نے ایمبیسڈرز کا ذکر کیا ہے کہ ان کیلئے پارٹیوں کا اہتمام کیا جاتا ہیاعلیٰ عہدے دار ان کے گھروں میں جوا ن کیلئے مفید ہوتی ہے اور نئی نئی راہیں ملتی ہیں۔انھیں کس طرح اگلا قدم اٹھاناہے اپنی فیملیز کیلئے ویزے اور فلاں نیشنیلیٹیز ملنا ان کیلئے بائیں ہاتھ کاکام ہوجاتا ہے۔اسی طرح ان کی راہیں آسان ہو جاتی ہیں اور نسل در نسل سیاست سے جڑے رہتے ہیںاس نیایک اور حقیقت جو عیاں کی وہ تھی جب ضامن کو کام کی جگہ بدل کر سیدھا کوٹھی میں رہنے کی اجازت مل جاتی ہے تب کہیں جاکر ضامن کو سمجھ آتی ہے کہ اصل میں اس سے کیا کام لیا جارہاتھا۔

’’صاحب نے اپنے گھر میں اپنے ایک خاص کمرے میں ایک مشین نصب کررکھی تھی۔جس پر ایک فائل کی خوبخو کئی فائلیں نقل تیار ہوتی تھیں۔میرا کام ان کی نقلیں تیار کرنا ہوتا تھا‘‘(23)

                اگر ناول کا کام کہانی کو غیر ضروری طوالت دینا  واقعات کا تانا بانا بننا ، تھوڑی بہت منظر نگاری اور جذباتی مکالمے لکھنا ہی ہو تو اردو ناول بھرے پڑے ہیں۔بات تو تب ہے جب مقصدیت کو ملحوظ خاطر رکھا جائے اور اس سلسلے میں اس کا فن مقصدیت کے تمام پہلوؤں کو پورا کرنا ہے۔ عام آدمی کو تمام باتوں سے آگاہی کے ساتھ ساتھ اس کے ذہن کو وہ اعلیٰ مقام بخشتے ہیں جن سے اس میں خود نکھار پیدا ہوتا ہیاور قاریاپنے سمجھنے کی حس کو پہلے سے زیادہ تیز محسوس کرنے لگتا ہے۔جیسے ناول نگار نے ان خطوط کا ذکر کیا ہے کہ اپنے نجی مفادات پر ملک کو تباہی کے راستے پر ڈالا جارہاتھا۔وہ خطوط جو واضح کررہے تھیکہ وہ تمام کام جنہیں ہمارے سیاستدان اور حکمران کرنا چاہتے تھے۔انھیں بیورو کریسی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کرسباتاڑ کررہی تھی۔مصنف نے بہت تیکھے انداز میں حقیقت کو بیان کیا ہے۔ہمارا ایڈمنسٹریشن سسٹم کس طرح سے سادہ لوگوں کی سادگی کا فائدہ اٹھاتا ہے۔یعنی ہمارے ایڈمنسٹریٹولوگ کسی بڑے منافع کے نہیں بلکہ معمولی اور بعض اوقات بغیر کسی نفع کے ہی صرف اگلے کو خوش کرنے کیلئے ہی ملک سے غداری کی اتنی بڑی ذمہ داری کو اپنے کندھوں کا بوجھ بنا لیتے ہیں۔ملک سے غداری کا یہ بوجھ وہ بھی محسوس نہیں کرتے بلکہ اس کا سارا وزن عوام کے کندھوں پر ڈال دیا جاتا ہے اور عام انسان کی زندگی تماشہ بن کر رہ جاتی ہے۔ملک سے غداری پر وہ لکھتے ہیں :

’’یہ بہت حساس خطوط تھے جنھیں صرف وزیراعظم  اور ان کی خاص کابینہ تک محدود ہونا چاہیے تھا مگر ان کی نقلیں تیار ہو کر کہاں جارہی تھیں‘‘(24)

                ناول نگار نہ صرف حقیقت کے نزدیک واقعات بیان کرتا ہے بلکہ انھیں کہانی کی شکل دے کر دلچسپ بنا دیتا ہے۔بہت خوبصورتی سے کرپشن کی تمام کہانی کو بیان کیا اور پھر ضامن نے اس پر احتجاج کرنے کا فیصلہ کیا کہ وہ ملک کے ساتھ غداری نہیں کرے گا تو اسے حبس بے جا میں ڈال دیا گیا یعنی یہ کامکرنے والے ہر طرح کیہنر سے واقف ہوتے ہیں۔ناطق کہانی بیان کرتے ہوئے اسے حقیقت کا رنگ دینے کیلئے علم کی پیاس بجھانے کی غرض سیسرحدیں تک عبور کرجاتا ہے۔ایک ایسی حقیقت کو اجاگر کیا ہے،سارا معاشرہ جس تکلیف کو برداشت کر رہا ہے اس سے بہت سے لوگ ناواقف ہیں کہ آخر وجہ کیا ہے اور کیوں ہے؟

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...