Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں |
حسنِ ادب
اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں

پروڈکشن کے نام پر جنسی استحصال
ARI Id

1688708340819_56116321

Access

Open/Free Access

پروڈکشن ہاؤس کے نام پر جنسی استحصال

                یہ ناول نگار کا مشاہدہ ،تخلیق اور تحقیق ہے جو انھیں دوسروں سے نمایا ں کرتی ہے۔وہ بے باکی سے اپنامدعا بیان کرتے ہیں۔ناول نگار نے ظفر عالم کا ذکر کیا ہے کہانی میں جو کہ پروڈکشن ہاؤس چلاتے ہیں اور ان کی بیگم وہاں پہ ٹیچر ہیں۔وہ لڑکیوں کو پروڈکشن کے کام سکھاتی ہیں۔ضامن کی جب ان سے ملاقات ہوئی تو وہ اسی کشمکش میں تھا کہ وہ ضامن سے کیوں ملنا چاہتے ہیں۔پہلے ہی اس کے دل ودماغ میں ذیشان اور شیزہ کے حوالے سے سوالات کے انبار تھے۔ضامن نے ظفر عالم سے ملاقات کے بعد  اس کے نتائج بھی کچھ یوں نکالے:

’’مجھے یہ شخص پورے سسٹم کا مرکزی کردارمعلوم ہورہا تھااور اس کی بیوی جسے وہ ٹیچر بتارہاتھا۔میں اچھی طرح جانتا تھا یہ شوبز ڈیزاننگ انڈسٹری دوسرے لفظوں میں سیکس انڈسٹری ہوتی ہے‘‘ (25)

                یہ ایک معمہ تھا۔ضامن کیلئے وہ الجھتا جارہا تھا۔ناول نگار کی تحریر شعور زیست کے ساتھ ساتھ شعار زیست بھی دیتی ہے جو قاری میں ترفع پیدا کرنے کا موجب بنتی ہے۔بہر حال قاری کے دل ودماغ کو شعور تب ملنا شروع ہوا جب ضامن، ذیشا ن اور شیزہ دونوں کے ساتھ ایک فلیٹ پر رہنے آگیا۔وہ ایک عجیب قسم کا فلیٹ تھاکبھی دوست آتے، بہت چہل ہوتی ،کبھی بہت خاموشی ،کبھی رقص کی محفل ،کبھی انتہائی بیزاری محسوس ہوتی تھی اور سب سے بڑھ کر ضامن جو شیزہ کی محبت میں گرفتار ہو کر فیصلہ نہیں کر پارہا تھاکہ ہو کیا رہا ہے۔

                ناول نگار نے بے پردگی کی ایک ایسی فضا قائم کی ہے جو قاری کو سوچوں میں گم چھوڑ دیتی ہے۔وہ سوچتا رہتا ہے کہ کیا اخلاقیات کی ایسی پستی بھی ممکن ہے جہاں تمام اخلاقی قدروں کو زوال آجاتا ہے۔مصنف ہر قدم پر روایت کی پاس داری کرتا ہے اور تہذیب کی اس دم توڑتی تصویر کو بھی اس طرح دکھایا ہے کہ مادہ پرست انسان خواہشات کے چنگل میں ایسا پھنس جاتا ہے فرار کی کوئی گنجائش باقی نہیں بچتی اور یہ لامتناہی سلسلہ اس کا موت تک پیچھا نہیں چھوڑتا۔ذہنی تناؤ کا شکار زندگی سے فرار کاہی راستہ اپنے لیے آسان سمجھتا ہے اور خود کو حالات کے سپرد کردیتا ہے۔ ایسی ہی صورت حال مصنف مذکور نے کہانی میں بیان کی ہے۔ضامن کو شیزہ سے محبت بھی ہے اور اس کا ذہن حقیقت کو قبول کرنے سے انکار ی بھی ہے۔وہ حالات کو سمجھنے سے قاصر ہے۔

’’جب وہ میرے کمرے میں ہوتاہے عین اسی وقت  شیزہ کا بوائے فرینڈ شیزہ کے ساتھ ہوتا تھا یہ بات  میرے لیے عجیب مخمصہ پیدا کیے ہوئے تھی‘‘(26)

                ناول نگار نیان لوگوں کی زندگی کو حقیقت سے آشنا کیا ہے جو بے آسرا ہوتے ہیںاور پھر گناہوں کی دلدل میں پھنس جاتے ہیں ایسا چنگل جس سے موت کے علاوہ فرار جیسا کوئی راستہ نہیں۔ شیزہ اور ذیشان دونوں بہن بھائی جو کہ پہلے ہی گمنامی کی زندگی بسر کر رہے تھے وہ ظفر عالم جیسے لوگوں کے ہاتھ آگئے اور اس طرح ان کی بربادی کا سلسلہ شروع ہوا۔یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ انسان جو بے آسرا ہوتا ہے اسے مزید لوٹنے کیلئے چاروں طرف سے درندے آجاتے ہیں۔ ضامن کو جو کام ظفر عالم کی طرف سے ملا  اس کی نوعیت کچھ یوں تھی کے اسے مختلف پارٹیز  اور رسالوں کے لیے ہونے والے فنکشنز کی رپورٹ تیار کرناتھی۔یہ رسالے اشتہاانگیز تصویروں کے ساتھ اس رپورٹ کو چھاپیی تھے اور اندھا دھند پیسہ کماتے تھے۔لیکن ان سب حالات پر ضامن کے پاس کڑھنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ تھا۔مصنف کے مطابق پارٹی میں موجود لوگوں کو شراب کے نشے میں دھت ہو نے کے بعد ان کے حالات کو نزدیک سے جانچنے کا موقع ملتا ہے۔باتیں جتنی تفصیل سے اور عریانی سے پیش کی جائیں گی اتناہی پیسہ کمایا جائے گا۔باتوں کو ننگاکرنے کے ساتھ ساتھ فحش تصویروں کو بھی رسالوں کی زینت بنایاجاتا اور مقصد صرف پیسہ۔۔۔اور بس پیسہ ہوتا!

’’میں یہ بھی جان گیا تھا ظفر عالم اور اس کی بیوی پروڈکشن ہاؤس کے ساتھ سیکس مارکیٹ کا بزنس بھی کرتے تھے۔ ان کی یہ مارکیٹ  ملک سے باہر بھی تھی اس میں سیکس کی تمام اقسام پائی جاتی تھیں مگر یہ مہنگے داموں بکتی تھی۔ان گیزلیزبیئن اور عام سیکس یعنی ہر قسم کی ضروریات ان کے پروڈکشن ہاؤس میں چلتی تھی‘‘(27)

                بعض اوقات انسان ایسے ماحول میں زندگی گزار رہا ہوتا ہے جہاں اسے سب اپنے کام سے کام رکھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔مگر جب وہ ان کے اندر گھسنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ وہ کس قدر کیچڑ اور تعفن زدہ ماحول میں آگرا ہے۔ضامن پہ جب یہ ساری حقیقت کھلی تو وہ کراہت محسوس کرنے لگا۔ناول نگار نے شوبزنس کرنے والوں کی اصل زندگی کی  نشاندہی کی ہے۔وہ روشنیوں میں گم زندگی گزار رہے ہوتیہیں اور حقیقی زندگی میں وہ اندھیروں کو ہی اپنا اصل پردہ سمجھتے ہیں۔

                ہمارے معاشرے میں ایسے بہت سے علاقے اور بستیاں ہیں جو کہ ان جرائم کی نرر ہو چکی ہیں۔اسی طرح کی زندگی گزارنے پہ مجبور بھی ہیں اور پھر کچھ کو ایسی لت بھی آلگتی ہے کہ وہ  اس سے چاہ کر بھی نہیں نکل پاتے۔ناطق نے سیکس کی ایسی دنیا دکھائی ہے جہاں پروالدین خود  اپنی  اولاد کو اس میں دھکیل رہے ہوتے ہیں اور وہ اس کو اپنا کام سمجھتے ہیں۔وہ اولاد کو مچھلیاں پھانسنے کا ایک چارہ سمجھتے ہیں اور کوشش ہوتی ہے کہوہ پارٹی میں کسی فارن کے بیٹے کو پھساے لیں اور ان کے تمام معاملات درست ہو جائیں ایسی ہی صورت حال ناطق نے ظفر عالم اور اس کی بیگم کی بتائی ہے۔ظفر عالم اور اس کی بیگم جو بظاہر ایک معزز زندگی گزار رہے ہوتیہیں اصل میں وہی اس سارے نظام کو چلارہے ہوتے ہیں۔

                ناول میں مصنف نے ظفر عالم کی بیویکو پروڈکشن ہاؤس کابنیادی سرا بتایا ہے اور وہ یہ حقیقت بتانا چاہ رہے ہیں کہ اصل میں معاشرے میں باعزت زندگی گزارنے والے لوگ ہی خود کو شرافت کے لبادے میں چھپا کرایک مکمل نیٹ ورک چلا رہے ہوتے ہیں۔ ان کے روابط عام آدمی سے لے کر اوپر تک اعلیٰ عہدوں پر براجمان افسران سے بھی ہوتے ہیں یہ راستے میں ایک پل کے طور پر ہوتے ہیں اور بے چارے غریب،بے بس لوگوں کو پیسوں کا لالچ دے کر انھیں غلط کاموں کیلئے مجبور کرتے ہیں۔ناطق لکھتے ہیں :

’’سب سے زیادہ متحرک ظفر عالم اور اس کی بیوی تھی۔جیسے وہ اپنی آڑھت پر کھڑے گاہکوں کو جنس کی خریداری پر آمادہ کررہے ہوں  اور ان کے کمیشن میں اضافہ متوقع ہو‘‘(28)

                آہ!کیا صورت حال پیش کی گئی ہے کہ والدین خود اپنی سگی اولاد کو سیکس کی طرف مائل کرتے ہیں اور فارنرز کے ساتھ تعلقات کیلئے انھیں دوسرے ممالک تک بھیج دیتے ہیں۔یقینا مصنف نے اپنی نثری مہارت کے جوہر دکھائے ہیں اور اس پس ماندگی کا پردہ فاش کیا ہے۔ ایمبیسڈرز کے ساتھ یہ تعلقات صرف یہاں پر ہی ختم نہیں ہوجاتے تاحیات وہ اس کے لئے کوئی نہ کوئی مچھلی پیش کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں۔محفلیں سجتی رہتی ہیں ،کبھی نہ ختم ہونے والی محفلیں ، قاری ان حالات وواقعات کو پڑھ کر رنجیدہ ہو جاتا ہے اور ایک عجیب کیفیت کو خود پہ حاوی کر لیتاہے۔

                کسی بھی کہانی میں جو مضبوط تانا بانا ہوتا ہے وہ اس کے کردار ہوتے ہیں۔کردار متحرک ہوں تو گویا کہانی چلتی پھرتی نظر آتی ہے۔واقعات کا تانا بانا بنا جانا اور پھر ان سب کے تعلق سے زندگی کی معنویت اوراس کی داخلی وخارجی قوتوں ، رشتوں اور دنیا کے دیگر حقائق کی تلاش کی جاتی ہے۔تب ہی کہا نی میں جان پیدا ہوتی ہے کردار متحرک نظر آتے ہیں۔

                واقعات اور مکالمے حقیقی زندگی سے قریب تر نظر آتے ہیں اور یہ ایک طرح سے سماج کی تصویر پیش کررہے ہوتے ہیں۔ اس نے ایک ایسی پارٹی کا حال واحوال بھی کہانی میں بیان کیاہے جو نہایت دلگیر ہے۔ملک کے ساتھ وفاداری کی یہ کونسی نئی صورت حال تھی۔کیا کوئی اور طریقہ نہیں کہ ملک کی خدمت کی جاسکے۔یہ بیورو کریٹ اور سیکرٹریز کو ایک ہی لالچ کیوں ہے، وزارت خارجہ کی یہ محفلیں صرف اس لیے سجائی جارہی تھیں کہ انھیں منافع ہو یا وہ خود کو ملک کے نام پر ہی  اسے بھی جہاد میں شامل کررہے تھے۔بہر حال مصنف نے حقیقت کو کچھ یوں اجاگر کیا ہے :

’’ایک آدمی جسے میں نے ایک دفعہ سرسری ایڈیشنل سیکرٹری کے طور پر وزارت خارجہ میں دیکھا تھااور اب وہ فل سیکرٹری ہو چکا تھا۔اپنی بیٹی کو بار بار ایک فارنر وزیر کے بیٹے سے ملواتا تھا مگر وہ لڑکی کچھ ہی لمحوں بعد دور جا کر کھڑی ہو جاتی تھی۔اس بات پر سیکرٹری صاحب تھوڑا مضطرب نظر آرہے تھے۔والدین جو زیادہ بیورو کریٹ تھے اس بات پر خوش تھے کہ انھوں نے آج اپنی شام ضائع نہیں کی تھی۔ڈرنک کے ساتھ ساتھ عالمی اور خارجی امور بھی نپٹائے جارہے تھے۔انھیں اپنے دل کو مطمئن کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا تھاکہ وہ یہاں ملک کی خدمت میں اپنا وقت صرف کررہے ہیں‘‘(29)

                ناول نگار نے پروڈکشن ہاؤس میں سیکس انڈسٹری کا نقشہ مکمل اجزائے ترکیبی سے کھینچا ہے۔شروع سے آخر تک تمام صورت حال دکھائی گئی ہے منظر نگاری کچھ یوں بیان کی ہے کہ قاری کا ذہن اسے محسوس کر سکتا ہے کہ کس قدر شراب کی اور نفسا نفسی کی محفل سجی ہوئی تھی۔

                انسان اپنے پاکیزہ رشتوں کو بھی اپنی ذاتی تسکین کیلئے خود کو اور ملک کو دھوکا دے کر استعمال کررہا تھابلکہ سولی پر لٹکا رہاتھا۔اپنی عمر کے تقاضوں کو بھول کر جسم لہر ارہے تھے۔ان خواتین میں سے اکثر کے شوہر اپنی بیویوں کو چھوڑ کر دوسری عوتوں کی طرف متوجہ تھے اورعمر کے اس حصے میں جب کہ جسم پر گوشت بھی ہڈیوں کو چھپانے میں ناکام ہوتا ہے۔ناول نگار نے ایسی عورتوں کو ناول میں اون اتاری ہوئی بھیڑیں کہاہیاورایک جملہ جو نہایت ہی بری حالت کو بتانے کیلئے کافی ہیوہ یہ تھا کہ ان عورتوں کی حالت ایسی معلوم ہو رہی تھی کہ گویا زیادہ دودھ دھونے کے سبب ہڈیاں واضح ہو گئی ہوں۔رقص ،موسیقی، شراب، مییک اور ہنگامہ میں ان سیکرٹریز بزنس مین ،وزرااور ایمبیسڈرز کو دکھا یا گیا ہے جن کے ہاتھوں میں اس ملک کی تقدیر لکھی ہوئی ہے۔اپنے دفتروں میں بیٹھے یہ لوگ کس قدر سنجیدگی کے ساتھ اپنے ملک کی خدمت میں ،میں حاضر کا نعرہ الاپتے اور قانون کی پاسداری کرتے ہوئے ہردستہ اول نظر آتے ہیں۔ناطق لکھتے ہیں :

’’یہ وہ لوگ تھے جو اپنے فیصلے کی سرکاری کرسی پر بیٹھے ہوئے  نہایت سمجھدار اور بارعب ہوتے ہیں۔وہاں ان کی میز پر آئی فائل گویا کیکڑے کے منہ میں پھنس جاتی ہے۔‘‘(30)

                ناول نگار نے اس طبقہ کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جو اپنے بچوں کو مرنے کے خوف سے خود سے دور رکھتے ہیں دوردراز پڑھنے کیلئے بھیج دیتے ہیں یا پھر انھیں ہوسٹل لائف کے علاوہ اپنے عزیز واقارب کے پاس بھیج دیتے ہیں۔یہ بچے باہر کیسے ماحول میں زندگی گزارتے ہیں اور بعض اوقات حالات ہی انھیں اپنے ساتھ بہا لے جاتاہے۔شروع میں وہ اپنے آپ کو حالات سے بچانا چاہتے ہیں پھر بچاتے بچاتے خود کو حالات کے سپرد کر دیتے ہیں ناطق نے ایسے ہی دو بہن بھائیوں کا ذکر کیا ہے۔ جو جائیداد کے تنازعے سے بچنے کیلئے ان حالات کی نذر ہوگئے۔یہ انتہائی تشویش ناک بات ہے قاری کے لئے ،کس قسم کی حقیقت ہے یہ دونوں بہن بھائی ایک ہی فلیٹ میں رہتے ہوئے مختلف حالات میں خود کو کیسے حالات کے سپرد کرنے کے لئے تیار ہو تے گئے یہاں ایک نفسیاتی کشمکش کی فضا پیدا ہو جاتی ہے:

’’اب مجھے اس فلیٹ میں آٹھ مہینے ہوگئے تھے۔میں ان بھائی بہنوں کو اچھی طرح سمجھ چکا تھا۔دونوں سیکس ورکر تھے‘‘(31)

                بہر حال ناول نگار نے ایسی دلدل کا ذکر کیا ہے کہ جس میں انسان بوڑھا ہو کر بھی نکلنے کا خیال اپنے تصور میں نہیں لاسکتا۔بوڑھے ہوجانے پر بھی ایسے لوگوں کو دوسرے کاموں میں ملوث کر دیا جاتاہے وہ چاہتے ہیں کہ یہ بندے ہمیشہ کیلئے ہمارے ساتھ اس طرح ملوث ہو جائیں کہ واپسی کاکوئی راستہ خود ان کے پاس بھی نہ ہو۔ایسی ہی صورت حال میں خود ظفر عالم اس سب کیپیچھے جس کا ہاتھ ہے، وہ اور اس کی بیوی عمر کے اس حصے میں پہنچ چکے ہیں جہاں اب وہ ویسی زندگی نہیں گزار سکتے۔جب وہ جوان تھے اور سیکس کرنے کیلئے تو انا ۔ان حالات میں وہ لوگ ٹرینر بن جاتے ہیں۔ظفر عالم کی بیوی بھی ایک ٹرینر بن گئی وہ لڑکیوں کو چلنے کا ،بولنے کا اور کس طرح سے بات کرکے اگلے کو ڈیل کیلئے تیار کرنا ہے یہ اندازسکھانے لگی۔یہاں ناول نگارنے مڈل کلاس طبقہ کی طرف اشارہ کیاہے جو فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے آتے ہیں اور جب وہ کامیاب نہیں ہو پاتے تو انہیں اس دلدل میں دھکیل دیا جاتا ہے۔کچھ کو خود ہی ناکامی کے راستے پہ جان بوجھ کر بھی چلایاجاتا ہے اور بعد میں ان کو اس کام کیلئے مجبور کیا جاتا ہے۔ایک سٹوڈیو بنایا جاتا ہے اسپیشل ڈیٹنگ ہاؤس بھیجا جاتا ہے وہاں ان کو فلموں سے زیادہ پیسہ مل جاتا ہے کیونکہ یہ غریب گھر سے طبقہ ہوتا ہے عموماًوہ خود کو اس لیے جسم فروشی کی نذر کر دیتی ہیں اور اس دلدل میں پھنس جاتی ہیں۔ان میں سے اکثر لڑکیاں عرب شیخوں کی طرف بھیجی جاتی ہیں۔

                انھیں ٹورز کے نام پردبئی اور عرب ممالک کے چکر لگوائے جاتے ہیں۔پھر ان کی ادائیگی ڈالرز کی صورت میں ہوتی ہے مگر ان لڑکیوں کو اس میں سے کم ہی معاوضہ دیا جاتا ہے۔ظفر عالم کا مقصد صرف یہ تھا کہ جو سیکس کی دنیا میں داخل ہو جاتا ہے وہ کسی صورت باہر کا رخ نہ کرے۔

’’اس کے خیال میں کچھ مدت بعد لڑکی جب یوز لیس ہوجاتی ہے تو ڈپریشن میں چلی جاتی ہے۔اس وقت اس کے لئے ایک بنیادی سہارا ضرور ہونا چاہیے جو آزاد خیال اور سیدھا سادہ ہو‘‘(32)

                ناول نگارنے اب ان لوگوں کی اگلی کاروائی کو بھی اجاگر کیا ہے کہ کوئی جب الٹاان پہ اپنے ہاتھ تنگ کرے اور ان کوتنگ کرے تو ظفر عالم نے ان کے لئے بھی اقدام کررکھے تھے۔ ناول نگار نے من وعن بیان کرنے کی سعی کی ہے جس میں وہ مکمل کامیاب رہے ہیں مصنف مذکور نے بتایا ہے یہ لوگ اپنی چال میں اس قدر پکے ہوتے ہیں جب کوئی ان کو پکڑنے کی کوشش کرے تو اس کے لیے سب انتظامات انہوں نے کر رکھے ہوتے ہیں۔اوپر تک ان کی پہنچ ہوتی ہے یہ ان کے کالے کارناموںکو چھپا رہے ہوتے ہیں۔ایسے میں اگر کبھی ان کی طرف سے کوئی کارروائی ہو یا کسی ناراضی کا اظہار ہو تو اس طرف سے ان کی ملاقاتوں کی مکمل ویڈیوکے ذریعے نہ صرف ان کو بلیک میل کیا جاتا ہے بلکہ خود کوبھی بچا لیا جاتا ہے۔اس طرح ان کا یہ کالا دھندا چلتا رہتا ہے نہ ان کو کوئی خوف ہوتا ہے ،اور نہ ہی ڈر مصنف نے اس صورت حال کو اس طرح بتایا ہے۔

’’جب مجھے کسی آدمی کے ڈرائنگ روم میں بھیجا جاتا تھا،میری انگلی میں انگوٹھی اور میرے بالوں میں لگے کلپ اصل میں کیمرے ہوتے تھے‘‘(33)

                ایک مکمل سوچے سمجھے ہوئے منصوبے کے مطابق یہ کام ہوتا ہے،ان کی مکمل سیکس ویڈیو بنتی ہے تو سیکس ورکر اور کلائنٹ ،دونوں کی ڈوری ڈیلر کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔آخر میں ناول نگار نے ساری تفصیل کے بعد ایک ایسی بات قاری کے ذہن پہ چھوڑ دی ہے جسے وہ مسلسل سوچتا رہتا ہے اور نہایت کرب کے عالم میں وہ وقت گزارتا ہے۔’’ضامن ‘‘ کافی دن سے محسوس کررہا تھا کہ شیزہ کا دل اب بھر گیا ہے جیسے وہ قطع تعلقی چاہتی ہے۔

                وہ شیزہ کو کہتا ہے کہ کیا وہ یہ کمپنی چھوڑناچاہتی ہے کیا ظفر عالم کی طرف سے اسے کوئی  صدمہ پہنچا ہے تو وہ جاننا چاہتا ہے تاکہ شیزہ کا دل تھوڑا ہلکا ہو تو ایک عجیب حقیقت اس کے سامنے آتی ہے۔ناطق نے انسانی سائیکی کا مکمل امتحان لیتے ہوئے قاری کو ان حالات سے دو چار کیا ہے۔جس میں قاری کے اوسان خطاہوجاتے ہیں اور وہ لامتناہی سوچوں کی قید میں مقید ہوجاتا ہے یعنی اس سارے نظام کو اصل میں کون چلا رہاہے، خود شیزہ بھی نہیں جانتی۔یہ سب ایک شطرنج کے مہرے ہیں جو کسی کے ہاتھ میں ہیں اور کھیلنے والا اپنی مرضی سے چال چلتا ہے۔ناطق نے پورے قصے کا خلاصہ کیا ہے جس میں انھوں نے حقیقت نگاری سے کام لیتے ہوئے قاری کی قلبی کیفیت کو برقرار رکھا ہے۔

’’ضامن تم نہیں جانتے یہ ظفر عالم کا پورا آفس بلیک میلنگ کا ایک کریہہ دھندا ہے،جس میں ظفر عالم اور اس کی بیوی خود بلیک میل ہو چکے تھے۔تم شکر کرو تمہیں کسی راز کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ضامن راز جان لیوا ہوتے ہیں مجھے ان رازوں نے ہلاک کر دیا ہے۔میں جسے اپنا فن سمجھتی تھی وہی اصل میں میری ذلت تھا۔ضامن کبھی اہم مت ہونا ،اہم ہونا بہت بڑی ذلت ہے۔ہر مچھلی دوسری مچھلی کا چارا ہے اور دوڑ کے پیچھے ایک دوسری ڈور بندھی ہے۔میں تو اس دوڑ کا بہت آخری حصہ ہوں اور یہ ظفر عالم بھی۔اس کا پہلاسرا نہ مجھے معلوم ہے نہ ظفر عالم کو‘‘(34)

                ناول نگار نے عہدوں پر براجمان لوگوں کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ وہ لوگ کس طرح سے اپنی ترقی کی طرف قدم بڑھاتے ہیں اور کس طرح وہ سیٹوں کو چھن جانے سے بچاتے ہیں۔افسران اور بزنس مین بیویوں کو اپنے ساتھ ساتھ رکھتے ہیں جہاں کہیں بھی ان کو موقع ملتا ہے تو وہ صاحب اختیار یعنی ایسے بندوں کو پکڑ کر کھڑی ہو جاتی ہیں اور اپنے بیگ میں سے قیمتی شراب نکال کر پلاتی ہیں۔اس طرح وہ شناسی اور واقفیت میں اس طویل سفر کو گھنٹوں میں طے کر لیتی ہیں اور اپنے کام نکلوا لیتی ہیں۔اس لیے یہ عہدوں والے افراد اکثر دودو بیویاں رکھتے ہیں ایک کے بوڑھے ہوتے ہی فوراًدوسری جوان بیوی رکھ لیتے ہیں تاکہ ان کے کام نہ رکیں۔ناطق نے حالات کا بہت اچھا آئینہ دکھایا ہے جس میں ہر دھندلائی ہوئی تصویر واضح نظر آرہی ہے۔

’’جہاں کام بلاک ہوچکا تھا ان نوجوان بیگمات کو وہاں ٹارگٹ کیلئے دیا جاتا۔اکثر پارٹیاں یہی ٹارگٹس اچیو کرنے کیلئے کی جاتی تھیں۔مجھے حیرت تھی ملک کے اکثر بڑے عہدوں پربراجمان لوگ ایسی بیگمات سے ہراول دستوں کاکام لیتے تھے۔خاص کر ججز حضرات کے ہاں نوجوان بیگمات کی کثیر تعداد موجود ہوتی تھی اور مختلف پارٹیز میں وہی زیادہ تر پیش پیش ہوتیں‘‘(35)

                 ناول نگار نے مکمل تفصیل کے ساتھ ان سارے حالات کی طرف قاری کی توجہ مبذول کرائی ہے اور یہ ایک نہایت جرات مندانہ جسارت ہے۔وہ روح کو جذب کر کے بڑی درد مندی اور سنجیدگی کے ساتھ باطنی قرض سمجھ کر ادا کر رہے ہیں۔انہوں نے حالات وواقعات کو قرینے کے ساتھ قاری کے سامنے پیش کیا ہے۔

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...