Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں |
حسنِ ادب
اردو ناول میں پسماندگی کا رجحان: نولکھی کوٹھی اور کماری والا کے تناظر میں

مذہبی زوال کی عکاسی۔
ARI Id

1688708340819_56116323

Access

Open/Free Access

مذہبی زوال کی عکاسی(خصوصاً شیعہ مسلک سے زیادتی)

                شروع ہی سے یہ مسائل دیکھنے کو ملے یعنی برصغیر ہی سے یہ مذہبی زوال کی عکاسی رہی ہے۔شیعہ اور سنی دونوں ہی خط مستقیم پر نہ رہے۔اتنا وقت گزرنے کے بعد بھی آج تک یہ دونوں خط مستقیم پر نہیں ہیں۔اکثریت نے ہمیشہ اقلیت کو دبایا اور اس کے اثرات کس شکل میں ظاہر ہوئے یہ کوئی راز نہیں رہا۔ناطق نے کہانی میں حاجی فطرس علی کا ذکر کیا ہے۔یہ وہ مضبوط کردار دکھایا گیا ہے جو شیعہ مسلک سے آگاہی دیتا ہے۔

                ضامن نے علمی و ادبی گروہ کے ساتھ راہ و راست یکجا کیے تو کامریڈ نے کچھ کتابیں ضامن کو دی کہ ان کو پڑھو تو تمہیں پتہ چلے گا کہ مذہب کتنا بڑا جھوٹ ہے اور ہم سب کیا ہیں۔ ضامن نے ان کتابوں کو پڑھا اور پھر جب ان ہی پر بحث کرنا چاہی تو ضامن کو پتہ چلا کہ خود انہوں نے بھی روایتی باتوں کے علاوہ کچھ نہیں سیکھا۔ ناطق نے ناول میں لکھا ہے کہ جب ضامن کو اس کے کامریڈ ساتھی نے کہا کہ آج تمہاری ضرورت پڑ گئی ہے۔ پہلے اس نے غور سے ضامن کو دیکھا اور پھر کہا کہ کامریڈ الیاس جو کہ میرے استاد ہیں ان کی دو بچیاں ہیں۔

                الیاس صاحب کی بیماری کی کسی کو سمجھ نہیں آتی۔تمہیں پتہ ہے کہ ہمارا کسی بھی مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ وہ ضامن کو کسی چال میں لینا چاہتا تھا۔وہ خود بھی شیعہ تھا اور جہاں مفاد کی بات آتی تب وہ اپنا تعلق ہر مذہب سے ختم کر کے صرف پیٹ کی بات کو سنتا۔ کیونکہ الیاس صاحب سنی ہیں۔ضامن نے معاملے کی تہہ کو بھانپ لیایعنی سنی عقیدے میں ان کی آدھی  جائیداد کے وارث ان کے بھتیجے ہوں گے اور بیٹیوں کے حصے میں بہت کم آئے گی۔ناول نگار نے لالچ کی خاطر مذہب سے غداری کرنے والوں کا اصلی چہرہ دکھایا ہے۔

’’سنا ہے مذہب جعفریہ میں اصول مختلف ہیں۔ باپ کے مرنے کے بعد اگر اولاد میں کوئی بیٹا نہیں، صرف بیٹیاں ہیں تو ساری جائیداد بیٹیوں کے حصے میں برابر تقسیم ہوتی ہے۔کامریڈ الیاس صاحب کا کوئی بیٹا نہیں صرف بیٹیاں ہیں‘‘(40)

                مطلب ناول نگار نے سیدھا ان لوگوں پر کاری ضرب لگائی ہے جو لالچ کی خاطر پیٹ بھوک اور مال و دولت کو ہی اپنا مذہب سمجھتے ہیں اور جہاں منافع ہو وہ اسی مذہب کے ہو جاتے ہیں  کامریڈ نے ضامن سے جب کہا کہ تم شیعہ ہو ،سلام بھی کہتے ہو، تو تم یہ گواہی دیدینا کہ الیاس صاحب شیعہ ہو چکے تھے۔سب کام خفیہ رہے گا کسی کو کان و کان خبر بھی نہیں ہو گی۔ضامن یہ بات سن کر، میں طاقت نہیں رکھتا کہ سنی مذہب کے تمام اصول و ضواط اور قواعد کو رد کر کے بدل دوں اور نہ ہی میں ایسا کام کرنے کی سفارش کر سکتا ہوں۔ناول نگار نے کامریڈ کے کردار سے لالچی لوگوں کی نشاندہی کی ہے اور بتایا ہے کہ وہ کس طرح شیعہ ہو کر اپنے مذہب کے لیے ایک داغ کی صورت تھا۔ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جن کی وجہ سے فرقہ وارانہ فسادات ختم نہیں ہوتے ہیں۔ مفاد پرست موقع نہیں دیکھتے،ادھر کے ہی ہو جاتے ہیں جدھر کی ہوا چلے اور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی اس آگ میں جلانے کا پورا بندوبست کیے رکھتے ہیں۔یہ بات حقیقت کے بہت قریب ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہیں جو خود پر خول چڑھا کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ان ہی موقع پرست لوگوں کی نشاندہی ناول نگار نے کی ہے کہ یہ لوگ لالچ کی خاطر اپنے مذہب سے بھی کھیل  سکتے ہیں۔

’’شیعہ مذہب کی قبولیت کا خط ہم نے سید غضنفر نقوی سے لیاہے۔ جب عدالت میں پیش ہوں تو آپ نے  بس اتنا کہنا ہے ، الیاس صاحب نے ہمارے سامنے شیعہ مذہب قبول کیا ہے۔ گواہی کے طور پر خط میں آپ کا اور سید علی زیدی کا نام درج ہے‘‘(41)

                کامریڈ کی باتوں پر ضامن کو جب غصہ آیا تو ناول نگار نے یہاں لوگوں کی سفاکی اور خصلت کو بیان کیا ہے۔مسلک بندی کے اس شیرازے میں اقلیت کس طرح زور پکڑتی ہے اور کس طرح بنتی بگڑتی ہے۔ناول نگار نے اس کی مکمل تصویر دکھائی ہے۔ یہ لوگ خود ہی اپنی مرضی سے عمارت کو بناتے ہیں اور ضرورت کے وقت اسے گرا بھی دیتے  ہیں۔ضامن نے جب بہانہ کیا کہ وہ گواہی نہیں دینا چاہتا کیونکہ وہ ان کا امتی نہیں ہے ،تو کامریڈ نے طنزاً کہا کہ جج نے تم سے بس گواہی لینی ہے۔تصدیق کے طور پر جج کی ماں کو کونسا کانٹا چبھنا ہے جو وہ گواہی تسلیم کرنے سے انکار کر دے گا۔اس نے ضامن کو دھمکی دی کہ گواہی دینی ہے تو دو ورنہ تم جیسے مومن تو  ہر وقت ہماری جیب  میں پڑے رہتے ہیں۔ ناول نگار نے شیعہ مسلک کا مزاح اڑانے کا واقعہ کچھ یوں بیان کیا  ہے:

’’کامریڈ ایچ اے ہنس کر بولے، دونوں سید رکھ لیتے تو کیا معلوم وہاں سچ بول دیں، بھائی ان سید لوگوں کا کوئی بھروسہ نہیں، کب صادق اور امین بن جائیں۔ ہر وقت انقلاب کے درپے ہوتے ہیں اور ہمیشہ اس راہ کے مخالف چلتے ہیں، جس راہ خلق چلتی ہے‘‘(42)

                ناول نگار نے شیعہ مسلک افراد کا مزاح اڑاتے ہوئے یوں کہا ہے کہ یہ لوگ موقع پرستوں کی طرح اپنے آس پاس دیکھتے رہتے ہیں اور جہاں ان کوجس بھیس کی ضرورت پڑتی ہے ،وہ لبادہ اوڑھ لیتے ہیں۔ان کے دل میں جو آتا ہے یہ کرتے ہیں۔وہ ایسا ان شیعہ افراد کیلئے تاثر رکھتے ہیں جن کے پاس اشرافیہ کے اختیارا ت ہیں۔

                انہوں نے شیعہ لوگوں کی اشرافیہ کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ وہ لوگوں کو بیوقوف بناتے ہیں۔شیعہ سرمایہ دار اور جاگیر دار اپنی چالوں کو کامیاب بنانے کے لیے ایک دوسرے کو آپس میں لڑاتے رہتے ہیں۔ کبھی احتجاج، کبھی جلسے، یہ تمام جاگیر دار اور سرمایہ دار خود کبھی کسی جلسے اور جلوس میں نظر نہیں آئیں گے مگر پیچھے سب کو لگا لیں گے۔غریبوں کو چند پیسے دینے کے عوض انہیں مرنے کے لیے آگے لگا دیں گے۔سنی اور شیعہ لوگ بظاہر تو ایک قوم ہی ہیں لیکن وہ بالکل لا علم ہیں یعنی اختیارات رکھنے والے اپنے فائدے کے لیے ان کو بڑی قربانی دینے کے لیے اشرافیہ کے آگے دھکیل دیں گے۔حاجی فطرس علی نے ہر بات ضامن پر عیاں کر دی کہ شیعہ فسادات خود ان کی اپنی مرضی پر منحصر ہوتے ہیں۔ ضامن سے جب حاجی فطرس نے پوچھا کہ تم کوئی نوکری کرتے ہو تو اس نے کہا نہیں بلکہ کتنے اشرافیہ اور زمینداروں سے کہا ہے مگر بات نہیں سنی۔

"خویشی سے یہاں کے کئی جاگیردارشیعہ حضرات سے اپیل کی کہ وہ ضلعی سطح پراپنی دولت پڑھے لکھے شیعہ نوجوانوں کے لیے کوئی ادارہ قائم کریں مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ وہاں ضامن جیسے لوگ ہم سادہ عوام کو استعمال کرتے ہیں‘‘(43)

                یہاں ناول نگار نے مثال دی ہے کہ شیعہ مسلک افراد خود اپنے بندوں کے ساتھ بھی رویہ غیر جانبدارانہ رکھتے ہیں ان کی مالی حالت اور گھر کے حالات کا انھیں کوئی اندازہ نہیں ہوتا۔یہ تمام سہولتیں صرف اشرافیہ کیلئے ہیں وہ صرف اپنی خوشیوں کو فرض عین سمجھتے ہیں۔

                انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا  ہے کہ یہ حکومت کا  بنا ہوا جال ہوتا ہے جس میں وہ اشرافیہ کو اپنی مرضی سے گھماتے ہیں۔ وہ دونوں مسلکوں کے ساتھ کھیل کھیلتی ہے، وہ چاہتی ہے یہ دونوں الگ ہو جائیں ، بٹ کر رہ جائیں اور وہ اس میں کامیاب بھی رہے۔ اشرافیہ ویسا ہی کرتی ہے جیسا حکومت چاہتی ہے۔ مار تو صرف نیچے والے طبقے کو پڑتی ہے۔ اگر شیعہ لوگوں کو دیکھا جائے تو وہ اپنا مطالبہ پورا کر لیتے ہیں تو سنی صدر اس بات میں کامیاب ہو جائے گا کہ شیعہ لوگ مضبوط ہیں ،ان کے  پاس زیادہ طاقت ہے اور پھر سے فساد پیدا ہو جائے گا اور یہ سلسلہ جاری ہو جائے گا۔

’’میں یہ نہیں کہتا۔ شیعہ اشرافیہ اپنی قوم کا قتل چاہتیہیں مگر وہ اپنی معصومیت اور تھوڑے فائدے کے لیے پوری قوم کو رسک میں ڈال رہے ہیں‘‘(44)

                مصنف نے اسی رویے کو بنیاد بتایا ہے کہ جب نچلے والا طبقہ پس رہاہوتا ہے تو فسادات ہوتے ہیں۔ ناطق تو خود ہی ان تخلیق کاروں میں سے ہیں جو تقسیم سے خائف نظر آتے ہیں ،تو پھر وہ شیعہ سنی میں ہونے والے فسادات پر کیسے راضی ہوتے۔ اسی صورتحال کے پیش نظر ناول نگار نے لکھا ہے کہ ایسا معاشرہ جہاں یہ فسادات ہوں اور اپنے ہی اس کی وجہ ہوں، نچلہ طبقہ پس کر رہ گیا ہو تو ایسے معاشروں میں مفلوک حال لوگوں کی خوشیاں ایسے ہی ادھوری ہوتی ہیں۔ ہر وقت دل کو بس کسی دھڑکے کا ڈر لگا رہتا ہے اور ایسا ہی ہوا۔سوگواری کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو  گیا۔ وہی اشرافیہ جو افراد کو اپنے فائدے کیلئے استعمال کرتی رہی پھر جب ضرورت پڑی تو کسی اپنے کی جان لے لی مصنف اس پہ خائف نظر آتے ہیں۔

’’بیٹا حاجی فطرس صاحب کو آج صبح نماز فجر کے وقت امام بارگاہ جاتے ہوئے کسی نے گولی مار دی ہے وہ شہید ہو گئے ہیں‘‘(45)

                ضامن جو فطرس صاحب کے بہت قریب تھا۔بچپن سے ہی ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا رہا، ہر سوال کا جواب وہ ان سے پاتا تھا تو انہیں اس طرح جاتے دیکھ کر ایک بات اس کے ذہن میں گھومنے لگی کہ فطرس صاحب نے  بھی اس حقیقت سے پردہ اٹھا دیا تھا کہ وہ بھی ایک دن اس اشرافیہ کے کارناموں کا نشانہ بن جائیں گے۔گویا ایسا ہی ہوا۔ ناول نگار نے حالات و واقعات کے ساتھ انصاف کیا ہے۔ وہ ایک کے بعد ایک واقعہ بیان کرتے ہیں ان میں ایک گہرا ربط پایا  جاتا ہے جو قاری کے دماغ کو گہرائی میں لے جاتا ہے کہ ڈوری کیسے بندی ہوئی ہے۔کون ،کہاں اور کیسے استعمال کیا جارہا ہے اورجب یہ فسادات نہیں رکتے تو پھر ایک کے بعد ایک حادثے کے لیے تیار ہو جانا چاہیے۔آپ کو کس طرح استعمال کیا جائے گا کوئی نہیں جانتا۔ مصنف کہ مطابق  فسادات یونہی نہیں ہوجاتے بلکہ ان کے پیچھے سوچی سمجھی سازش ہوتی ہے۔جس کا نشانہ سادہ لوگ بنتے ہیں۔

" اس لیے کہ میرے والد شیعہ ٹارگٹ کلنگ میں قتل ہو گئے ہیں۔ آپ انہیں شہید کہہ سکتے ہیں اور اب یہ میرا حق بھی ہے۔"(46)

                قاری کے دل و دماغ میں ہمیشہ کے لیے تاثررہ گیا کہ ضامن کے باپ کو جب نشانہ بنایا گیا اور اس سے  پہلے حاجی فطرس علی کو تو ان کی اموات شہادت کو پائیں گی۔ یہ ایک سوچی سمجھی سازش کی بنا پر قتل  ہو رہے تھے۔ناول نگار  اس لیے یہ مسلک بندی خصوصاً شیعہ مسلک کی  طرف شک آمیز لہجہ اپنائے ہوئے ہیں۔وہ خود کو مذہب میں بندھا ہوا انسان نہیں جب کہ حق بات پر ڈٹ جانے والا کہتے ہیں وہ ناپسند کرتے ہیں ایسا اقتدار رکھنے والوں کو جو مفاد پرست ہیں۔

                یقینا کماری والا ناول کو ناطق نے جامع انداز میں پیش کیا ہے۔ قاری کے لیے یہ اس کے علم کے خزانے سے ایک قیمتی سرمایہ ہے۔اس کا پلاٹ نہایت منظم اور مضبوط ہے۔ ناول معاشرے میں موجود پسماندگیوں کی نہ صرف نشاندہی کرتا ہے بلکہ ان پس ماندگیوں کو پیدا کرنے والے اسباب پر بھی کاری ضرب کرتا ہے۔ ناطق جن کرداروں کو پیش کرتے ہیں وہ ثقافتی ، سماجی ، نسلی، گروہی اور قومی حوالوں سے بے مثال ہیں۔ وہ کرداروں کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ ناول نگار ایک اچھا کہانی گو ہے جس نے تنظیموں کے ساتھ ساتھ حکومتی سطح پر ہونے والے ناجائز کاموں کے علاوہ نچلے طبقے میں بھی جڑ پکڑنے والے جرائم کی نشاندہی کی ہے جہاں قاری یہ تمام حالات و واقعات پڑھ کر سکتے میں آ جاتا ہے وہاں انہی حالات و واقعات کی مدد سے اس کی ذات میں شعور پیدا ہوتا ہے۔

                کہانی کو نہایت ہی خوبصورت انداز میں ترتیب دیا گیا  ہے۔گویااختتام پر ایک اداس لہر دل  میں خلش کی طرح رہ جاتی ہے۔ مگر قاری کا کوئی بھی سوال تشنہ نہیں رہتا۔ اسے اپنے تمام سوالوں کے جواب مل جاتے ہیں۔ناطق کو تنہائی  پسند نہیں کہا جاسکتا لیکن وہ تنہا انسان ہے ،وہ قاری کو اپنا ساتھی بنا لیتا ہے ،دل کھول کر اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے اور جذبات کی رو میں بہہ کر وہ اپنے ساتھی کو ان تمام برائیوں سے آگاہ کر دینا چاہتا ہے جو معاشرے میں پردے کے پیچھے پنپ رہی ہیں۔ کہانی پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ناول نگار کے دل میں بے شمار باتیں تھیں،درد تھا،جس کا برملا اظہار وہ قاری کے ساتھ کر کے اپنے درد کی تسکین کرتے ہیں۔یہ فن پارہ ان کے تلخ تجربات کا ترجمان ہے۔

                جدید ناول نگاروں کی بات کی جائے تو ان میں ناطق ایک اہم ناول نگار کے طور پر ہمارے سامنے آئے ہیں۔مذکورہ ناول بھی ایک آب بیتی کے طور پر سامنے آیا ہے جس کی ساری کہانی ایک کردار ضامن کے منہ سے سنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ کہانی میں رومانوی عناصر بھی موجود ہیں۔ایک مرکزی کہانی کا بیان کنندہ ضامن مختلف اوقات میں مختلف عورتوں کی محبت میں گرفتار ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔اس کے علاوہ مذکورہ ناول میں حکومت کا صحت کے حوالے سے عام دیہاتیوں کے ساتھ ناروا سلوک دکھایا گیا ہے۔دیہاتوں میں قتل و غارت کے علاوہ باہمی دشمنی  کی بڑے خوبصورت انداز میں منظر کشی کی گئی ہے۔پوری کہانی کے اسلوب، منظر کشی، فرقہ واریت، قتل و غارت، پلاٹ اور مناسبت کے حوالے سے بہتر ہو گا کہ حوالہ جات اور کرداروں کی مدد سے تجزیہ کیا جائے۔ کہانی میں دیہاتی زندگی کی بھر پور عکاسی کی گئی ہے کہ کس طرح دیہات کے لوگ آپس میں زمین اور جائیداد کے معاملات میں دشمنی پال رکھتے ہیں اور کس طرح گاؤں اور دیہات کے لوگ آسانی سے قتل و غارت گری کی بھر پور عکاسی بالکل درست انداز میں قاری کے  سامنے آتی ہے۔ بلکہ خونی رشتوں میں بھی ایک دشمنی اور چپقلش دکھائی گئی ہے ، بھائی اپنے بھائی کا قتل صرف اس بنیاد پر کر دیتا ہے کہ وہ اس کی زمین اپنے اختیار میں لے لے گا،یا اپنے چچا کی جائیداد پر قبضہ کرنے کی نیت سے اسے قتل کرتا ہوا دکھایا گیا ہے۔یقیناً ناول کا پلاٹ انتہائی خوبصورت اور مربوط ہے۔

                ناطق نے شوبزنس کے نام پر کھلنے والی سیکس انڈسٹری کا جس طرح سے خلاصہ کیا ہے ، ہر فرد کے لیے شعور کی ایک نئی راہ قائم کی ہے۔عام انسان  ان باتوں کو سمجھنے سے قاصر ہے،اسی لیے نچلے طبقے میں زیادہ تر لوگ اداکاری کے نام پر اس دلدل کی نذر ہو جاتے ہیں۔اردو ادب میں ان کا یہ قدم بہت دلیرانہ ہے۔ عصری ادب میں یہ ایک لازوال اضافہ ہے۔

٭٭٭٭٭٭٭

 

 

حوالہ جات

1۔صدیقی، عظیم الشان، اردو ناول، آغازو  ارتقا ، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی، 2008ء ،ص:32

2۔ایضاً،ص:33                       3۔            ایضاً،ص:34

4۔ناطق، علی اکبر، کماری والا، جہلم بک کارنر، لاہور، 2021ئ￿ ،ص:16

۔ایضاً،ص:17                       6۔            ایضاً،ص:35

7۔ایضاً،ص:37

8۔القرآن، سورۃالاعراف، آیات: 81،80

9۔ناطق، علی اکبر، کماری والا، جہلم بک کارنر، لاہور،2021ئ￿ ،ص:43

10۔(حضرت لوط علیہ السلام) مطبوعہ روز نامہ جنگ، سنڈے میگزین،لاہور، 31 مارچ 2019ء

11۔ناطق ،علی اکبر، کماری والا،جہلم بک کارنر، لاہور، 2021ئ￿ ، ص:360

12۔ایضاً،ص:61                                    13۔ایضاً،ص:63

14۔ایضاً،ص:69                                    15۔ایضاً،ص:76

16۔ایضاً،ص:124                                  17۔ایضاً،ص:143

18۔ایضاً،ص:307                                  19۔ایضاً،ص:367

20۔ایضاً،ص:367                                  21۔ایضاً،ص: 371

22۔ایضاً،ص:376                                  23۔ایضاً،ص:380

24۔ایضاً،ص:387                                  25۔ایضاً،ص:397

26۔ایضاً،ص:500                                  27۔ایضاً،ص:506

28۔ایضاً،ص:507                                  29۔ایضاً،ص:509

30۔ایضاً،ص:522                                  31۔ایضاً،ص:538

32۔ایضاً،ص:557                                  33۔ایضاً،ص:557

34۔ایضاً،ص:540                                  35۔ایضاً،ص:574

36۔ایضاً،ص:583                                  37۔ایضاً،ص:574

38۔ایضاً،ص:575                                  39۔ایضاً،ص:209

40۔ایضاً،ص:210                                  41۔ایضاً،ص:210

42۔ایضاً،ص:334                                  43۔ایضاً،ص:335

44۔ایضاً،ص:525                                  45۔ایضاً،ص:597

46۔ایضاًص:597

٭٭٭٭٭٭٭

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...