1688708377628_56116353
Open/Free Access
۴۰
اقتدار اور اسیری
ذوالفقار علی بھٹو شہید نے صرف چار سال اور بیس دن سیاست جبکہ پانچ سال ،چھ ماہ اور پندرہ دن حکومت کی جس کے بعد پھانسی کی سزا ہوئی ۔تحریک ،قتدار اور اسیری کا یہ کل دورانیہ بارہ سال اور پانچ دن ہے ۔نواز شریف کو سیاست میں تیس برس گزر چکے ہیں ۔مولانا فضل الرحمن کو سینتیسواں سال ہے اور عمران نیازی کو بائیس سال ۔
ذوالفقار علی بھٹو شہید کو پھانسی دینے والے ڈکٹیٹر کو بھی قتدار کے گیارہ سال ایک ماہ اور بارہ دن ملے مگر ان میں سے کوئی بھی ذوالفقار علی بھٹو شہید کا متبادل نہ بن سکا ۔اب یہ بھٹو کا کرشمہ ہے یا بھرپور طاقت اور وقت ملنے کے باوجود متبادل بننے کی کوشش کرنے والے لیڈروں کی نااہلی کہ بھٹو زندہ ہے ۔
دنیا کی تاریخ میں بہت کم ایسے لیڈر ہیں جنہوں نے اتنے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں ۔ایسا صرف مذہبی تحریکوں میں ممکن ہوا ہے یا بھٹو نے ممکن کر دکھایا ہے ۔بھٹو ضدی تھا ۔اسے جب تک تسلیم نہیں کیا جائے گا اور وہ اپنی جنگ جیت یگا ۔کہیں لکھ کر رکھ لیں وہ مرنے والا نہیں ۔ذوالفقار علی بھٹو شہید نے کہا تھا کہ آخری قہقہہ عوام کا ہو گا ۔
مجھے لگتا ہے کہ پاکستان کے عوام ادھر وہ قہقہہ لگائیں گے اور ادھر بھٹو آنکھ مار کر مر جائے گا ۔ذوالفقار علی بھٹو شہید صرف پاکستان پیپلز پارٹی کی پراپرٹی نہیں ہے بلکہ یہ پاکستان کی پراپرٹی بھی ہے ۔وہ ہمارا منتخب وزیر اعظم تھا ۔ہمیں دوسرے خطوں سے ہیروز امپورٹ کر نے پڑتے ہیں ۔بھٹو ہمار ا وہ مقامی ہیرو ہے جسے ہم دنیا میں ایکسپورٹ کرتے ہیں ۔
اٹل بہارئی واجپائی بھی جب پاکستان آ یا تھا تو اس نے سب سے پہلے یہ دریافت کیا تھا کہ بھٹو صاحب شیروانی کہاں سے سلواتے ہیں ۔ہارورڈ یونیورسٹی کا بھٹو لیڈر شپ پروگرام ہو یا دنیا بھر میں بھٹو صاحب سے منسوب یادگاریں ۔یہ پاکستان کا اعزاز ہیں ۔دنیا میں اگر کوئی پاکستان کے بارے میں جاننا چاہتا ہے تو وہ سب سے پہلے بھٹو خاندان کو پڑھتا ہے ۔ذوالفقار علی بھٹو شہید ہمارا حوالہ اور تعارف ہیں ۔کردار کشی ،انکار ،الزامات اڑتیس برسوں سے مسلسل لگ رہے ہیں ۔مگر بھٹو کا بال بیکا نہ ہوا نہ اس کی بیٹی کا ۔ان دونوں کا قتل اس بات کا اظہار ہے کہ بھٹو کے دشمنوں کے پاس کوئی اور چارہ نہیں رہا تھا ۔
موجودہ پاکستان پیپلز پارٹی کے اگر اقدامات غلط اور کارگردی بری ہے تو اس سے ذوالفقار علی بھٹو شہید کا کوئی تعلق نہیں اور یہ بھی لفافہ صحافیوںکا شاخسانہ ہے جنہوں نے مال لے کے پیپلز پارٹی کو بدنام کر نے کی کوشش کی کہ ان کے پاس اتنا مال کہاں سے آ گیا ۔،آپ سچ لکھنے والوں کی ہسٹری دیکھ لیں قلم کی حرمت پر مر مٹنے والوں کی زندگی کے اوراق پھرول لیں وہاں آپ کو زندگی تنگدست ملے گی ۔یہودی اور ہندوئوں کی لابی نے یہاں فنڈنگ کی اور ان کو مال دے کر قلم کی حرمت کو خریدااور بدنام کروایا ار لوگوں کو گمراہ کروایا ۔وہ اس قول پر عمل پیرا رہے کہ جھوٹ کو اتنا بولو کہ لوگ اس کو سچ سمجھنے لگیں اور ایڈ ور ٹائزنگگ پر اتنا مال خرچ کر مٹی سونے سے مہنگی بکے ۔
ہماری سیاست اگر گند ی ہو گئی ہے تو اس کی سزا اپنے ہیرو کو دینا غلط ہو گا ۔بھٹو غریب کی امید ہے ۔امید کا یہ دیا جلتا رہے گا اور بھٹو غریبوں کے قہقہے تک زندہ رہے گا اور غریبوں کے قہقہے روٹی کپڑا اور مکان اور بنیادی ضروریات زندگی صاف پانی مفت علاج اور تعلیم کی فراہمی پر ہی نکلے گا تو تب تک بھٹو اور بھٹو ازم زندہ رہے گا ۔
Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
Loading... | |||
Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |