Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > فرخندہ رضوی (شاعری اور شخصیت) > فرخندہ رضوی ۔۔۔ایک تعارف

فرخندہ رضوی (شاعری اور شخصیت) |
حسنِ ادب
فرخندہ رضوی (شاعری اور شخصیت)

فرخندہ رضوی ۔۔۔ایک تعارف
ARI Id

1688708425998_56116523

Access

Open/Free Access

Pages

۷

فرخندہ رضوی۔۔۔ ایک تعارف
شاعری خوشبو ہے۔شاعری مہک ہے۔ شاعری دل ناز کا ترانہ ہے۔ شاعری جذبات و احساسات اور تخیل کو لفظی پہناوا پہنا کر پیش کرنے کا نام ہے۔ شاعری ایسے طلسم کدے کا نام ہے جو زمان ومکان کی قیود سے آزاد ہوتی ہے۔ شاعری محبت کا دوسرا نام ہے شاعری جذبات کے ریلے میں بہہ جانے کا نام ہے یہ سفر رواں دواں ہے اور ہمیشہ جاری و ساری رہے گا۔
شاعری کے کئی روپ ہیں کبھی یہ غزل اور کبھی نظم کی صورت میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ کہیں رباعی اور کہیں قصیدہ کے پہناوے میں سامنے آتی ہے۔ کبھی شعلہ بن کر اور کبھی شبنم میں ڈھل کر جلوہ نما ہوتی ہے۔ کہیں عشق و محبت کے راگ الاپتی نظر آتی ہے تو کبھی آنسوؤں کی بے بس مورت کا روپ دھار لیتی ہے۔ کہیں یہ سہمی ہوئی گھٹی چیخ توکبھی انالحق کا نعرہ بن جاتی ہے تو کبھی باضابطہ مقصدِ زندگی کا اظہار بن جاتی ہے۔
موثر اور میعاری شاعری معاشرے پر گہرے مثبت اثرات مرتب کرتی ہے ہے کسی بھی شاعر کی زندگی اس کی شاعری پر کسی نہ کسی حوالے سے ضرور اثرانداز ہوتی ہے۔ شاعر اپنی زندگی کے حالات و واقعات اور اردگرد کے ماحول سے جو کچھ حاصل کرتا ہے۔ وہی سوچیں شاعری کی بنیاد بن کر سامنے آتی ہیں۔ شاعر کے خیالات اور سوچ و بچار پر سماج،گھریلو حالات، اپنوں کے رویے، خوشی اور غم،عشق و محبت، حاصل زیست اور محرومی کے اثرات کا واضح اثر ہوتا ہے۔
جہاں تک غزل اور نظم کے معیار کی بات ہے تو اس میں اسلوب اور تخیل بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ شعری تخلیق کے لئے خیال ہی بنیاد ہے۔ اس حوالے سے شعر لکھنے کے لیے نہیں بلکہ شعر کہنے کے لئے خیالات کی فروانی اہم ترین عنصر ہے۔ جس کے بعد طبیعت کی موزونیت، علم کی ضرورت مطالعہ اور مسلسل مشق شاعر کو شعر کہنے کے قابل بناتے ہیں۔
شاعری انسانی سوچ کا ذہن کے نہاں خانوں سے نکل کر قرطاس پر بکھرنے کا عمل ہے جوجاری وساری ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اسی سوچ کو شاعر ایک خاص پیمانے پر ناپتے ہوئے دلکش انداز میں شعر کہتا ہے۔ وہ الفاظ تراشتا نہیں بلکہ زبان میں موجود تراشیدہ الفاظ کو موتیوں کی طرح مزین کرتا ہے۔ وہ الفاظ جو کہنے والے کے دل سے نکل کر سننے والے کے کانوں سے ٹکرا کر دل میں بستر لگا لیتے ہیں۔ بقول پروفیسر محمود الحسن شاکر:
"شاعری ذات کا اظہار ہے یا ارد گرد پھیلی زندگی کا عکس، ان ہر دو صورتوں میں شاعر کو معتبر بناتا ہے۔ فرضی خیالات جذبات سے عاری ہوتے ہیں تاثیر سے بیگانہ ہوتے ہیں۔ بزرگوں نے یونہی نہیں کہا تھا "سانچ کو آنچ نہیں" ( 1)
یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ انسانی فکر اور رویوں میں علاقے کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ شہر سیالکوٹ علم و ادب کا گہوارہ رہا ہے۔ اس کی فضائیں اور ہوائیں اپنے اندر قوت تخلیق رکھتی ہیں جو قالب میں ڈھلتی ہیں تو اقبال و فیض پیدا کرتی ہیں۔ خصوصاً شعر و ادب کے حوالے سے شہر سیالکوٹ کی مردم خیز اور عطر بیز مٹی کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ اس دھرتی پر مرد مومن علامہ اقبال اور فیض احمد فیض کے بعد کسی اور حوالے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
فرخندہ رضوی نے بھی انہی ہواؤں اور فضاؤں میں پرورش پائی ہے۔ ایک حساس طبیعت ہونے کے ناطے ان میں ذوق علم و ادب و شاعری نے اپنی ایک جگہ بنا لی ہے اور ان کا قلم بطور شاعرہ اور ادیبہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ہے۔ فرخندہ کا پورا نام فرخندہ بٹ تھا۔ جو شادی کے خوبصورت بندھن میں بندھ جانے کے بعد فرخندہ رضوی میں ڈھل گیا۔ قلمی نام خندہ ہے۔ چار مارچ 1956 کو سیالکوٹ کے کشمیری محلے میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم سیالکوٹ سے ہی حاصل کی۔ جو تھرڈ ایئر سے آگے نہ بڑھ سکی اور شادی ہو گئی۔ بچپن سے ہی شاعری کا شوق تھا۔ 1980ء سے باقاعدہ لکھنے کا آغاز کیا اور آج تک اس شوق کو لفظوں کے نت نئے پہناوے پہنانے میں پوری آب و تاب سے مصروف عمل ہیں۔ فرخندہ رضوی خود اپنے بارے میں لکھتی ہیں:
"اپنی تحریروں کی پذیرائی سے میرا حوصلہ بڑھا اور میں نے قلم کی طاقت سے لفظوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ میں لفظوں کے سمندر میں اپنا عکس دیکھتی اور اپنی ان سطورمیں زندگی کا عکس بھرنے کی کوشش کرتی۔ میں اپنی تحریر سے جانی پہچانی جاتی ہوں میری اس سوچ نے مجھے اس فیصلے تک پہنچایا کہ میرے لفظوں کو زندہ رہنا چاہیے تب میرے لکھنے کی عمر بڑھنے لگی اور خواہش شدت اختیار کرنے اور دعا بننے لگی "(2)
فرخندہ رضوی لندن میں مقیم پاکستانی نژاد،کالم نگار، افسانہ نگار،تبصرہ نگار، محقق اور بہترین شاعرہ ہیں۔ کثیر الجہات شخصیت کی مالک پرکشش خاتون ہیں۔ حسن ظاہروباطن کی دولت سے مالا مال ہیں۔نہایت شیریں زبان اور مہمان نواز شخصیت کی مالک ہیں۔ ان کی سب سے اچھی خوبی یہ ہے کہ انہیں مطالعہ کا بہت شوق ہے۔ وہ نہ صرف کتابیں پڑھتی ہیں بلکہ دوسروں کی کتابیں پڑھ کر ان پر اپنی رائے کا اظہار بھی کرتی ہیں اور یہ اظہار صرف زبانی ہی نہیں ہوتا بلکہ تحریر کر کے محفوظ کر لیتی ہیں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ بعض لکھنے والے وسیع القلب نہیں ہوتے اور دوسرے ساتھیوں کی تحریروں کو سراہنے میں بخل سے کام لیتے ہیں کیونکہ کسی دوسرے ادیب ساتھی کی محنت سے لکھی گئی تحریر پر حوصلہ افزائی کرنے اور اچھی بات کی تعریف کرنے کے لئے بھی بڑے دل گردے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن فرخندہ رضوی یہ کام بھی سلیقے اور محبت سے کرتی ہیں۔ کیونکہ ان کا دل صاف بھی ہے اور کشادہ بھی۔ بقول امجد مرزا امجد:
"آپ ایک وسیع النظر، کشادہ ذہن، کشادہ قلب، عمیق مطالعے اور گہرے مشاہدے کی مالک ہیں۔ جس کا ثبوت ان کی کتابوں کے ایک ایک لفظ میں پوشیدہ ہے۔ افسانہ لکھتی ہیں تو دنیا جہاں کے دکھ سمٹ کر صفحہ قرطاس پر بکھر جاتے ہیں اور قاری کہانی پڑھ کر اپنے آپ کو تلاش کرتا دکھائی دیتا ہے۔ جب شاعری کرتی ہیں تو وہی صفحات پر بکھرے ہوئے طویل مضامین سمٹ کر دو مصروں میں قید ہو کر رہ جاتے ہیں اور قاری دم بخود ہو جاتا ہے"(3)
شاعری ایک ایسا ہنر ہے جو نہ صرف احساسات کو قوت بیان دے کرحیات دیتا ہے بلکہ سننے اور پڑھنے والوں کو بھی زندگی کے نئے مزے چکھاتا ہے۔ لفظوں کو زندگی دینا اور احساسات کو قوت بیان عطا کرنا ہی شاعری کی معراج ہے۔ گو یہ کام بہت دشوار ہے مگر یہ ہماری خوش قسمتی کی دلیل ہے کہ اس مشکل اور دشوارگزار کام کو سہل بنانے والے باکمال لوگ ابھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔ ایسے با کمال، ہنر مند اور قلم کو اپنے خون جگر سے سینچنے والوں کی صفِ اول میں فرخندہ رضوی کا نام بھی آتا ہے۔ وہ اپنے عہد کی سچی ترجمان شاعرہ ہیں۔ ان کی شاعری صرف روایتی حسن و عشق کا مرقع ہی نہیں بلکہ اپنے ارد گرد ہونے والے حالات و واقعات کو نہایت خوبصورتی سے موضوعِ سخن بناتی ہیں۔ ان کی شاعری خوبصورت تشبیہات و استعارات کے ماہرانہ استعمال سے سجی سنوری نظر آتی ہے ہے جو قاری کے دل پر ان مٹ نقوش ثبت کرتی ہے۔ بقول ضیاء شہزاد:
اہل نظر ہیں اہل سخن اور ذی وقار
ہیں شاعرہ، ادیبہ بھی وہ سفر نگار
فرخندہ رضوی بزم سخن کی ہے ایک شان
ان پر ہمیشہ مہرباں ہے میرا کردگار
(4)
فرخندہ رضوی اپنے قلم کی طاقت سے سماجی مسائل جیسے مرد کی بے وفائی، مظلوم عورت، خونی رشتوں میں خلوص کا فقدان، عشق و محبت، غربت و افلاس، بے حسی، خودغرضی وغیرہ کو معاشرے کے سامنے بے نقاب کیا ہے۔وہ معاشرے کی سچی عکاس شاعرہ ہیں۔ان کی تحریروں میں متنوع موضوعات ہیں اور یہ سب ان کا انسانی نفسیات پر مکمل عبور کا ثبوت ہے وہ نثر لکھتی ہیں تو لاجواب، وہ شاعری کرتی ہیں تو بے مثال، وہ گفتگو کرتی ہیں تو باکمال۔ بقول فرحت عباس شاہ
’’فرخندہ رضوی کی شاعری سادہ، معصوم، سچی، اور محبت سے بھری ہوئی ہے۔ ان کی شاعری میں بھاری بھرکم الفاظ اور وزنی خیالات کا شائبہ تک نہیں ملتا۔ وہ نہایت سلیس انداز میں حال دل بیان کرتی چلی جاتی ہیں۔ بحروں کا انتخاب اور قافیہ ردیف کا تو تعین ان کے بناوٹ سے پاک طرز اظہار سے میل کھاتا ہے۔ دردمندی اور رشتوں کا تقدس ان کی شاعری اور ذات دونوں کا خاصہ ہیں"(5)
فرخندہ رضوی سیالکوٹ سے انگلینڈ کی طرف شاید اس نظریے کے تحت عازم سفر ہوئیں تھیں کہ کچھ پانے کیلئے کچھ کھونا پڑتا ہے۔ انہوں نے جنم دینے والی مٹی سیالکوٹ کو کھو کر علم و آگہی کے وہ خزانے حاصل کر لیے ہیں، جن کی تلاش میں انہوں نے رخت سفر باندھا تھا۔آج بھی وہ سیالکوٹ کی سوندھی مٹی کی خوشبو کو محبت سے یاد کرتی ہیں۔ لیکن جو نام اور شہرت ان کو ملی ہے اس کے لیے یہ دوری یہ قربانی ضروری تھی۔ فرخندہ رضوی وطن سے محبت کا اظہار یوں کرتی ہیں:
تجھ پر ہوں فدا میرے جان و تن
میرے پیارے وطن اے پاک وطن
(6)
فرخندہ رضوی نام ہے اس ہمہ جہت شخصیت کا جو افسانہ، نظم، غزل غرض ہر صنف ادب پر استقلال و استقامت سے طبع آزمائی کرتی نظر آتی ہیں۔ برطانیہ کے ادبی حلقوں میں بطور شاعرہ، کامیاب کالم نگار اور بہترین افسانہ نگار کی حیثیت سے اپنی پہچان کروا چکی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ وہ ریڈنگ کی ہی نہیں بلکہ پورے برطانیہ کی معروف مقبول تخلیق کار ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔
برطانیہ اور اس کے پڑوسی ممالک میں شائد ہی کوئی ادبی تقریب ہوئی جس میں فرخندہ رضوی اپنی غزل، نظم، افسانے یا کالم کے ساتھ شریک نہ ہوتی ہوں۔ ان کے کام کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ وہ برطانیہ میں اردو ادب کا متحرک استعارہ ہے۔ وہ ایک ایسی بھرپور آواز ہے جسے نظر انداز کرنا بہت مشکل ہے۔ فرخندہ رضوی صاحبہ ایک ادبی شخصیت ہی نہیں بلکہ ایک سماجی شخصیت بھی ہیں۔ ان کی شخصیت تہہ در تہہ پردوں میں چھپی ہوئی ہے۔ ان کی ذات کا ہر پہلو منفرد شناخت رکھتا ہے۔
ہر مسلمان کے ایمان کی بنیاد اسلام سے ہے۔مسلمانوں گھرانوں میں تین یا چار سال سے دینی تعلیم دینے کا آغاز کردیا جاتا ہے۔ اسلام خالی زبانی وکلامی مسلمان ہونے کا نام نہیں بلکہ اسلامی شریعت کے مطابق عملی طور پر نافذ کردہ اصولوں کے مطابق اپنی زندگی کو ان اصولوں کے مطابق ڈھالنے کا نام ہے۔ دینی تعلیم کے حوالے سے فرخندہ رضوی بچپن میں قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرنے کے حوالے سے بتاتی ہیں:
"ماں باپ کی تربیت اولاد کی پہلی درسگاہ ہے۔ وہ ہمیشہ کوشش کرتے ہیں کہ بچوں کو اپنے وقت پر دینی اور دنیاوی تعلیم سے آشنا کیا جائے۔۔۔ ہم سب بہن بھائیوں نے سات سال کی عمر میں قرآن پاک ختم کیا۔۔۔۔ نوراں بی بی سے ہم نے قرآن پاک پڑھا اور ہماری والدہ سے دوسرے بچوں نے۔۔۔۔"(7)
فرخندہ رضوی تازہ وار دان بساط شعر ہیں۔ یہ بات ہم پاکستانیوں کے لیے باعثِ مسرت ہے کہ انگلستان میں نہیں بلکہ دنیا کے کسی بھی خطے میں اردو ادب کی آبیاری کرنے والوں اور اردو ادب کے فروغ میں کوشاں اردو زبان کی ترقی و ترویج کرنے والوں کا خیر مقدم زور و شور سے کرنا چاہیے۔ خصوصا وہ لوگ جو پاکستان سے باہر یورپ اور امریکہ میں بیٹھ کر اردو کی آبیاری کر رہے ہیں۔ اردو کے فروغ کے لئے دن رات کوشاں ہیں، خصوصی مبارکباد کے مستحق ہیں کیونکہ یہاں اردو دان طبقہ بہت تیزی سے سکڑتا اور سمٹتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں بچوں کی زبان اردو نہیں انگریزی ہے۔ اکثر بچے اردو میں شعر کہہ سکیں یا سمجھ سکیں مشکل ہے۔ وہ تارکین وطن جو اپنے ساتھ اردو لے کر آئے تھے تاریخ کا حصہ بنتے جارہے ہیں۔ بقول انشاء اللہ خان انشاء
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں
بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں
(8)
شاعری کا دوسرا نام محبت ہے۔ محبت پاکیزہ جذبوں کے احساسات کو کہتے ہیں۔ شاعروں نے شاعری کے ذریعے محبت کے پیغام کو عام کیا ہے۔ جبکہ اہل ہوس لوگوں نے محبت کو بد نام کیا ہے۔ بقول غالب:
ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوہ اہل نظر گئی
(9)
شاعروں نے ہمیشہ لسانی، گروہی، مذہبی اور علاقائی تنازعات و مناقشات سے صرف نظر کیا۔ محبت کو زندگی اور زندگی کو محبت جانا۔ انسانیت کو مذہب گردانا۔ محبت کے گیت گائے اور محبت کے ساز کو دل کے راگ سے گنگنایا۔ محبت پانے کا نہیں بلکہ کھونے کا نام ہے۔کیونکہ دسترس میں آنے کے بعد کسی بھی چیز کی وقعت باقی نہیں رہتی۔ تاریخ شاہد ہے کہ لیلیٰ مجنوں، شیریں فریاد، سوہنی مہینوال اور سسی پنوں وغیرہ جیسے عاشقوں کی محبت امر ہوئی۔ کیونکہ درحقیقت محبت پانے کا نہیں بلکہ کھونے کا نام ہے۔ اس محبت کو بنیاد بنا کر شاعری تخلیق ہوئی۔اگر محبت نہ ہوتی تو شائد شاعر نہ ہوتے کیونکہ شاعرحضرات محبت ہی کی پیداوار ہیں یقینا محبت کے جذبے پر ہی دنیا قائم و دائم ہے۔ فرخندہ رضوی محبت کا فلسفہ کچھ یوں بیان کرتی ہیں:
محبت میں ہوتا ہے مٹنا مٹانا
محبت ہے دانستہ دل کو دکھانا
محبت ہے شعلوں میں دل کو جلانا
محبت کا دشمن ہے سارا زمانہ
(10)
کتنی ستم ظریفی کی بات ہے کہ ہر طرف خوف و ہراس اور نفرت و کدورت کی سیاہ رات کا دور دورہ ہے۔ محبت پر پابندیاں ہیں اور نفرت آزاد ہے۔ حالانکہ محبت جتنی بھی زیادہ ہو کم ہے اور نفرت کم بھی ہو تو زیادہ ہے۔غیرت کے نام پر آج بھی قتل ہو رہے ہیں۔ مشرق کی سر زمین آج بھی اہل دل پر تنگ اور باعث ننگ ہے۔ اہل زور و زر دریائے عیش و عشرت میں غوطہ زن ہیں۔ ایسے گھٹے گھٹے ماحول میں فرخندہ رضوی بے اختیار پکار اٹھتی ہیں:
کب سے سسک رہی تھی جہالت کے غار میں
علم و عمل سے ہم نے ابھاری ہے زندگی
(11)
آزار محبت آلام محبت کو جنم دیتا ہے۔ انسان کش ماحول میں جذبات و احساسات کچل دیے جاتے ہیں۔ انگریز شاعر جان کیٹس JohnKeats اپنی محبوبہ فینی براؤن Brown Fanny کے ہجر میں عالم شباب ہی میں نذر مرگ ہوا۔ غم ہجراں اصل میں غم انسان ہے۔ انسان کا مقصد ہی انس ہے اور انس کے سوتوں سے ہی لفظ محبت پھوٹتا ہے۔ گویا انسان صاحب محبت کو کہتے ہیں۔
فرخندہ رضوی کی شاعری بھی سیاسی، سماجی اور ادبی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ان کی شاعری میں درد ہجراں، غم دوراں اور فکر انسان کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ وہ اپنے دل میں ساری انسانیت کے لے درد دل کا جذبہ رکھنے والی ہستی ہیں۔کیونکہ یہ درد دل کا احساس ہی انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کا ثبوت ہے۔نوراحمد کنڈے ( ٹیلفورڈ) انگلینڈ لکھتے ہیں:
" برطانوی دختر پاکستان آزاد نظم کی معروف شاعرہ فرخندہ رضوی بنیادی طور پر پابندی سے مبرا آزاد نظم کی شاعرہ ہیں۔ فرخندہ کی نظمیں" نوائے وقت لندن "میں پابندی سے شائع ہوتی رہی ہیں اور ہزاروں قارئین ان کی شاعری سے محظوظ ہوتے ہیں۔ ان کا اپنا ایک مخصوص طرز تحریر ہے۔ یہی فرخندہ کی پہچان ہے فرخندہ نے بہت سے موضوعات کو نظم کیا ہے۔ ان میں اداسی، تنہائی، پھول،آنسو، خوشبو، محبت، انتظار، بیقراری، ظلمت و اجالا،ہادوبارش، خار و خس، ربط عشق، پکارو التجا، خواب و ہیئت، یار، دوستی کی آگ، رشتے و فاصلے، برسات، چراغاں، اور کیا کیا ہے جو موجود نہیں۔۔۔۔۔" (12)
فرخندہ رضوی اپنے نام کے لغوی معنی کی طرح ہیں ۔ مبارک، خوش آئند، برکت والی، سعادت مند، نیک سیرت۔آپ کاتعلق ایک ادبی گھرانے سے نہ ہونے کے باوجود آپ کی اردو ادب سے محبت نے ادب کے ذوق کو جلا بخشی جو کہ اردو ادب کی ترویج کے لیے مبارک ثابت ہوئی۔ آپ اسم بامسمی ہیں۔ بہت کم ایسی ہستیاں ہوتی ہیں جن کے نام ان کی زندگی کے بھرپور عکس ہوتے ہیں۔ فرخندہ رضوی بھی انہی خوش نصیبوں میں سے ہے۔ مگر یہ خوش نصیبی ہر ایک کے مقدر میں نہیں ہوتی۔
ہمارے معاشرے کا المیہ بدقسمتی سے یہ ہے کہ نئے شاعروں اور شاعرات کو ابتدائی اصلاح سازی کے لئے تجربہ کار لوگوں کی مدد درکار ہوتی ہے یا انہیں ایسے پلیٹ فارم کی تلاش ہوتی ہے جہاں ان کی اصلاح کے ساتھ ساتھ رہنمائی بھی میسر آ سکے۔ مگر اول تو ایسے تجربہ کار لوگ کم ہی دستیاب ہوتے ہیں ، دوسرے اگر ہوتے بھی ہیں تو ان سے وقت لینا نہایت دشوار ہوتا ہے اور کچھ لوگ طبیعتاً لیے دیے والی کیٹگری سے تعلق رکھتے ہیں ان کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہے۔ ایسی صورتحال میں نئے شاعر علم عروض سے ناواقفیت کی بنا پر ردیف، قافیہ اور بحروں کے چکر میں باوجود موزوں سخن طبع اپنے ہنر کو خوار کرتے ہیں اور بالآخر مایوس ہو کر شعر و شاعری کو ترک کردیتے ہیں۔ بدقسمتی سے ایسے ہی حالات سے فرخندہ رضوی کو بھی گزرنا پڑا۔ نہ پڑھا لکھا گھرانہ نہ ادبی ماحول کی دستیابی اور نہ ہی کسی قسم کا تعاون و مشاورت۔ ایسی صورتحال میں ان پر شوق قلم کا جنون حاوی رہا اور ایسے حالات کے باوجود وہ لکھتی رہیں اور اپنے شوق جنون کو لیے ادبی راہوں پر بغیر سہارا لیے لفظوں کے موتیوں کو پروتی رہیں مگر کبھی ہمت نہ ہاری۔ادبی سفر کے حوالے سے فرخندہ رضوی لکھتی ہیں :
"میں نے اپنے ادبی سفر کو بہت مشکل طے کیا کیونکہ نہ تو میرا کسی ایسی فیملی سے تعلق تھا،جہاں اردو ادب پلتا ہے آباؤ اجداد میں دور دور تک کوئی ایسی روشنی نہ ملی۔ جس سے میں کچھ کرنیں اپنے نام کر لیتی۔ مگر میرے شوق نے اردو سے محبت نے میرے قلم کو زنگ آلود نہ ہونے دیا" (13)
ماضی کی طرف پلٹ کر دیکھنا انسانی فطرت ہے۔ تاریخ کا فہم و ادراک تخلیقی تجربے میں پختگی اور معنی آفرینی کا سبب بنتاہے۔ عمر کی زنجیر جتنی طویل ہوگی انسان کے تجربات اس کی سوچ کے دھاروں کو مضبوط کرتے جاتے ہیں۔
2013 میں شہر ریڈنگ میں اردو ادب سوسائٹی کی جانب سے ایک مشاعرہ منعقد ہوا، جس میں اعلیٰ پایہ کے شاعروں ساتھ ساتھ فرخندہ رضوی کو بھی اپنی شاعری پڑھنے کا موقع ملا۔ اسی مشاعرے میں جہاں بہت سے شعراء سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ وہیں فرخندہ کو خالد یوسف صاحب سے ملنے کا موقع بھی ملا اور یہ ملاقات ان کے لئے کسی اعزاز سے کم نہ تھی۔ خدا حافظ کہتے کہتے مسکرا کر بولے کہ اچھا لکھتی ہو۔ تمہاری شاعری اور افسانے دونوں ہی نظر سے گزرتے رہتے ہیں۔ لکھتی رہا کرو خود بخود نکھار آنے لگے گا۔فرخندہ رضوی کہتی ہیں کہ ان کے وہ حوصلہ افزائی کے چند الفاظ مجھے بہت بلندی پر لے گئے مجھے لگا کہ میرے قلم کو انہوں نے طاقت دے دی ہو۔ یہ ان سے میری پہلی ہم کلامی تھی۔
گزرتے وقت نے محترم خالد یوسف کو میرا پہلا استاد بنایا۔ جنہوں نے شفقت سے میری شاعری کی اصلاح کی۔ مجھے علم عروض کی طرف راغب کر کے بحروں کی پہچان کروائی، اور شاعری کے رموز و اوقاف سے روشناس کروایا۔ دوسرے محترم صفدر ہمدانی صاحب میرے لئے مقدس ہستی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جنہوں نے قدم قدم پر میری رہنمائی فرمائی۔ میری غلطیوں کو اصطلاحی پہناوے پہنا کر لفظوں کو خوبصورتی عطا کی۔ کہتے ہیں کہ محبتوں کے قرض چکائے نہیں جاسکتے۔ اس لیے کہ وہ اس جملے کی صداقت پر کامل یقین رکھتی ہیں، اور وہ کہتی ہیں کہ میں اپنے اساتذہ کا شکریہ ادا کرکے ان کی محبتوں، شفقتوں اور رہنمایوں کے قرض کو چکانا نہیں چاہتی بلکہ قرض کو سر پر لے کر ہر دم دعاؤں کے تحفوں کے ذریعے ساری زندگی ان کے لئے خیر و دعا کی طالب رہوں گی۔
فرخندہ رضوی ان دو ہستیوں کو خصوصی طور پر ہر دم دعاؤں میں یاد رکھتی ہیں۔ جنہوں نے شاعری کے سفر میں قدم قدم پر رہنمائی فرمائی۔ ان اساتذہ کے خلوص شفقت اور محبت بھری اصلاح سے ان کے لیے شاعری کے دریچے کھلتے چلے گئے اور آج وہ شاعری کے سارے رموز و اسرار سے واقف نظر آتی ہیں۔ فرخندہ اپنے محترم اساتذہ کے بارے میں لکھتی ہیں:
"میرے استاد محترم خالد یوسف صاحب (مرحوم) جن کا ذکر نہ کرنا سراسر بے انصافی کے زمرے میں آتا ہے۔ اس ہستی میں مجھے علم عروض کی طرف راغب کیا۔۔۔۔۔ اپنے دوسرے استاد محترم صفدر ہمدانی صاحب کی بھی شکر گزار ہوں کہ انہوں نے میرے مسودوں کو غور سے پڑھا، املا کی غلطیوں کی درستی فرمائی، کلام کو شاعرانہ استادانہ نظر سے دیکھا۔۔۔ جہاں اصلاح کی ضرورت محسوس ہوئی وہاں نشاندہی کی ، میں ان کی اس محبت کے لیے بے انتہا ممنون ہوں۔۔۔"(14)
کسی بھی ادب کو تخلیق ہونے کیلئے زبان کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ زبان دانی کے بغیر ادب کا وجود ممکن نہیں۔ بالکل ایسے جیسے پھولوں کو کھلنے کے لیے بہار کی آمد کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ شاعر ہر دور میں پیدا ہوتے ہیں اور اپنی اپنی بساط کے مطابق اپنے کلام کے ذریعے اپنے عہد کی عکاسی کرتے ہیں۔کچھ شاعروں کے کلام میں بڑی تاثیر ہوتی ہے جو قارئین کے دلوں کو نہ صرف بھاتی ہے بلکہ دل میں بسیرا کر لیتی ہے۔ غالب اور اقبال جیسے عظیم نامور شاعروں کے بعد فیض احمد فیض، حبیب جالب، فراز،بشیر بدر،جون ایلیائ، ساغر صدیقی اور دوسرے کئی شعرا ء نے اپنے اپنے دور کے سیاسی، ثقافتی اور ادبی حالات و واقعات کو اپنے لفظوں کے خوبصورت سانچوں میں ڈال کر پیش کیا اور زمانے سے داد تحسین کے مستحق قرار پائے۔ بعض شعراء نے اپنے کلام کی بدولت آسمان کی بلندیوں کو چھولیا اور کچھ کے مقدر میں گمنامیوں کے اندھیرے لکھ دئیے گئے ہیں۔
پاکستانی نثراد فرخندہ رضوی دیار غیر( برطانیہ) میں بیٹھ کر اردو ادب کی آبیاری میں عرصہ چھتیس(36) برس سے مصروف عمل ہیں۔ شادی سے پہلے جس گھر میں ہوش سنبھالا وہاں نہ تو تعلیم کا خاص رواج تھا اور نہ ہی شاعری کا ماحول۔ والد عبدالرشید بٹ صاحب ایک کاروباری شریف النفس انسان تھے۔ انہیں نہ تو فلمیں دیکھنا پسند تھا اور نہ ہی شاعری کے لگاؤ کو پسند کرتے تھے۔ اس لحاظ سے بچوں پر کڑی نگرانی تھی۔ سیانے سچ ہی کہتے ہیں :
شوق دا کوئی مل نیئں ہوندا
پہرے وچ وی راہ بنا لیندا
فرخندہ رضوی اپنے شوق قلم کو ہوا دیتی رہیں اور چپکے چپکے لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ جب وہ 1983ء میں برطانیہ اپنی بڑی بہن عظمت کو ملنے گئیں تو حالات و اتفاق ایسا ہوا کہ وہیں 1984ء میں ان کی شادی بشیر رضوی صاحب کے ساتھ ہو گئی تب وہ فرخندہ بٹ سے فرخندہ رضوی بن گئیں۔ شادی کے وقت بشیر رضوی کے والدین حیات نہیں تھے۔ فرخندہ نے اس مقدس رشتے کو نہ صرف دل سے قبول کیا بلکہ ہر ذمہ داری کو بخوبی نبھایا۔ شوق عشق میں قلم و کاغذ پر نقوش کا سلسلہ گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ جاری رکھا۔ آج تک سنا تھا کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ لیکن یہاں معاملہ اس کے برعکس ہوا۔
فرخندہ رضوی کی کامیابی کے پیچھے ان کے شوہر بشیر رضوی کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ یہ ان کی محبت،شفقت اور تعاون کرنے کا ہی نتیجہ تھا کہ فرخندہ رضوی آج کامیاب شاعرات میں مانی جاتی ہیںاور یہ ان کے شوہر کا ایک اچھا انسان ہونے کا ثبوت ہے۔اب اس مقولے کو بھی سند مل جانی چاہیے :
ہر کامیاب عورت کے پیچھے اس کے شوہر کا ہاتھ ضرور ہوتاہے۔
محمد بشیر رضوی صاحب نے ان کے شوق قلم میں کوئی رکاوٹ حائل نہ کی۔ وہ نہایت بردبار، نرم دل اور نفیس انسان ہیں۔ فرخندہ رضوی نے برطانیہ کے ہر نیوز پیپر کے ادبی صفحات میں شاعری،افسانے، سچی کہانیاں، کالم حتیٰ کہ ہر صنف ادب پر لکھا اور ادبی جرائد کے پلیٹ فارم پر اپنا ادبی سفر جاری و ساری رکھا اور آج تک اپنے اس سفر میں کامیابی کے ساتھ گامزن ہیں۔ بانو ارشد "زیر لب خندہ" کے اظہار خیال میں لکھتی ہیں :
"فرخندہ بہت محنت سے اردو کی خدمت میں مگن ہے۔ خواہ وہ شاعری ہو یا نثر نگاری اس میں مشق سخن جاری ہے اور ان کی اس بے پناہ عقیدت جو ان کو اپنے وطن و مذہب سے ہے۔ خداوند کریم سے دعا ہے کہ ان کا یہ سفر اسی طرح جاری رہے اور یہ اردو کو فروغ دینے میں راہ ادب میں گامزن رہیں۔ یقینایہ اردو کی سرزمین میں سرسبز ثمر اور شجر پیدا کر کے زمانہ ادب کے دانشوروں اور فنکاروں کی نقد میں اپنی دھاک بٹھا لیں گی "(15)
فرخندہ رضوی نہ صرف برطانیہ بلکہ پاکستان، یورپ، انڈیا اور دیگر ممالک میں ادیبہ اور شاعرہ اپنی پہچان بنا چکی ہیں۔ انہوں نے ان ممالک کے ادبی صفحات پر اپنی بطور شاعرہ، ادیبہ، کالم نگار،افسانہ نگار اور تجزیہ نگار جگہ بنا لی ہے۔ قلم کی طاقت بڑھی تو راستے ملتے گئے اور پہچان مستحکم ہوتی گئی۔ کچھ سلسلے کمپیوٹر نے آسان بنا دیے۔ کچھ سوشل میڈیا نے رول ادا کیا اور یوں آن لائن اخبارات، رسالے، پی ڈی ایف فائلوں کا سلسلہ حتی کہ فیس بک کی بدولت ان کا حلقہ احباب بڑھا اور یوں یہ سلسلے دراز ہوتے گئے۔ فرخندہ رضوی اس ضمن میں کہتی ہیں:
’’میری کتابوں کی اشاعت سے کتابوں کی رونمائی تک میرے دونوں بچوں اور میرے شریک حیات نے ہمیشہ میرے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔ اگر یہ ساتھ نہ دیتے تو شاید میرا قلم کب کا دم توڑ چکا ہوتا۔ میرے الفاظ راکھ بن چکے ہوتے۔۔۔۔ احسان مند ہوں اپنے گھر والوں کی۔۔۔میرے خیال میں مفادات اور غرض سے ہٹ کر رشتوں کو چاہا جائے حسین سے حسین ترہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس رنگینی میں رنگ بھرنے میں سب سے بڑا ہاتھ میرے شوہر کا ہے"(16)
اپنے شوہر کی محبتوں اور مہربانیوں کے اعتراف میں انہوں نے اپنی خوبصورت تخلیق "فاصلے ستار ہے ہیں" کا انتساب اپنے محبوب شوہر کے نام سے کیا۔ یہ ان کی طرف سے محبتوں بھرا جوابی ردعمل تھا۔ اگرچہ محبتوں کو کسی پیمانے میں تولا نہیں جا سکتا ہے۔ آج تک کوئی ایسا پیمانہ نہیں بن سکتا جس سے محبت کی پیمائش ممکن ہو۔ محبت کے کئی روپ ہوتے ہیں محبت کبھی محبوب سے ہوتی ہے تو کبھی ماں باپ سے سے، کبھی اولاد سے اور کبھی یہ محبت دوستوں اور رشتہ داروں کی طرف نظر عنایت کر لیتی ہے۔ فرخندہ رضوی کا عشق اور محبت کے بارے کہنا ہے :
"عشق کا لفظ برہنہ ہے ہم سوچتے ہیں کہ ایک مرد کو عورت سے یا عورت کو مرد سے ہی ہو سکتا ہے۔ میرے خیال میں ایسا ہر گز نہیں۔۔۔۔ اس کا دارومدار آپ کی نیت پر ہوتا ہے۔ مجھے عشق اپنے والد سے ہوا۔ اپنی اماں سے ہوا۔ میرے رب نے میری ماں کی تمام ذمہ داری شروع سے ہی مجھ پر ڈال دی تھی۔ اس کے علاوہ ایسے رشتے جو دل کی شریانوں میں خون بن کر گردش کرتے ہیں مجھے ان رشتوں سے عشق ہوا"( 17)
شعر و سخن، فکر و فن، نقد و نظر اور دیدہ و دانش کے ذیل میں فرخندہ رضوی کا نام ایک معروف اور معتبر نام ہے۔ ان کی شاعری ان کے افسانے متعدد ادب پاروں پر ان کے نقد نامے قارئین کی نظر میں ایک اہمیت اور اعتبار قائم کر چکے ہیں۔ گزشتہ تین دہائیوں سے انھوں نے خود کو قلم گسار( غم گسار کی طرح) بنا رکھا ہے۔ ان کی زندگی میں مسائل و امتیاز سے نپٹنے کا ایک ہی ہتھیار ہے اور وہ ہے ان کا قلم،ان کے قلم کی جولانیاں ملاحظہ ہوں :
طلسم توڑ دیا شب کا لاکھ سورج نے
مگر یہ صبح بھی ناپائیدار لگتی ہے
قطار بجھنے کو ہے شب زدہ چراغوں کی
نوید صبح بڑی خوشگوار لگتی ہے
(18)
فرخندہ کسی ازم کی نقیب نہیں ہیں وہ زندگی کی، انسانی دکھ کی، افراد کی، مسرتوں کی اور عزم و ہمت کی نقیب ہیں ان کی پوری شاعری اسی محور پر گھومتی نظر آتی ہے۔ محبت، درد، سماجی بے راہ روی، بے انصافی جبر اور انسان کی ناقدری کی تصاویر انھوں نے اپنی غزل میں بہت خوبصورتی سے کھینچتی ہیں۔ امید اور عزم کی ایسی خوبصورت جھلکیاں ان کی شاعری میں جگہ جگہ اپنا جلوہ دکھا رہی ہیں۔
فرخندہ رضوی کی نظموں کا دلکش پہلو فنی حربوں کا اچھوتا اور نادر استعمال ہے۔ خصوصاً تمثال کاری فرخندہ رضوی کا خاص فنی حربہ ہے، جس میں ان کی انفرادی اُپج کا فنی و فکری ڈھانچہ ابھر کر سامنے آتا ہے۔ جدید شعری تناظر میں پیکر اور تمثالیں ایسا فنی حربہ ہیں۔ جنھیں برتنے کے لیے خاص فنی مہارت اور جمالیاتی ذوق کی ضرورت ہوتی ہے۔ فرخندہ کے ہاں شعری تجربہ اسقدر اچھوتے، معنی خیز اور نئے امکانات کے ساتھ وارد ہوا ہے کہ اردو شاعری میں اس انداز کی فنی مہارت کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ فرخندہ کے ہاں یہ تمثالیں پیکر در پیکر، جذبات نگاری، سیاسی و سماجی شعور، نفسیاتی پیج و خم، فلسفیانہ رموز و علائم اور منطقی استدلال کی نقیب ہیں۔ جو مجرد خیالی کی بجائے حقیقی اشیاء کے نئے اور اچھوتے تفاعلی تصورات کی منظر کشی کرتی ہیں۔ بحیثیت مجموعی فکری و فنی اعتبار سے فرخندہ کی نظمیں اور غزلیں انفرادی شعور سے اجتماعی شعور کی جانب گامزن ہیں۔ فکری تنوع اور اسلوبیاتی اعتبار سے یہ نظمیں اور غزلیں جدید شعری منظر نامے کی عکاس ہیں۔
برطانیہ میں مقیم اردو ادب کی معتبر شخصیت، شاعر، ادیب جناب صفدر ہمدانی نے اپنے مضامین میں فرخندہ کی پانچ اہم ترین خوبیوں کا ذکر کیا ہے ہے۔جو آج صاحب استطاعت اور بزعم خود ادبی حضرات میں بھی ختم ہوتی جارہی ہیں۔ مگر فرخندہ ان روایات کو احسن طریقے سے زندہ رکھے ہوئے ہے۔
پہلی خوبی:
تعلقات عامہ اور مفاد پرستی کے اس دور میں فرخندہ اصول پرستی کا نقصان برداشت کرنے والی اہم شخصیت ہیں۔
دوسری خوبی:
فرخندہ کو مطالعے کا شوق ہے جو اس عہد میں اہل ادب سے عنقا ہے۔
تیسری خوبی:
فرخندہ رضوی کو کتاب خرید کر پڑھنے کا شوق ہے اور اس کی سب سے زیادہ دوستی کتاب سے ہے۔
چوتھی خوبی:
فرخندہ موروثی قلم کار نہیں بلکہ یہ مقام سخت محنت سے بنایا ہے۔
پانچویں خوبی:
وہ سیکھنے کے ساتھ ساتھ پوچھنے سے کبھی دریغ نہیں کرتیں کہ یہی عمل دراصل اس کی قوت متخیلہ کو مہمیز دیتا ہے۔ بقول محمد اشفاق ایاز:
" کسی کی ادبی صلاحیتوں کو سراہنا، ان کا اعتراف کرنا بڑے دل گردے کا کام ہے یہ کام بے لاگ طریقہ سے وہی شخص کر سکتا ہے جس کے دل میں کسی کے خلاف کینہ، حسد اور بغض نہ ہو۔۔ ادبی گروپ انہیں خوبیوں سے متصف ہیں۔ ان کے مقابلے میں فرخندہ ایک کھلے دل کی مالک تخلیق کار ہے"( 19)
شاعری انسانی مزاج و فطرت سے نمو پاتی ہے یہ باہر سے کم اور اندر سے زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔ اس لیے کوئی چاہے بھی تو اس سے اپنا آپ چھپایا نہیں جاسکتا۔ فرخندہ رضوی کی شاعری اس لیے نہایت سادہ اور معصومیت بھری ہے کہ وہ خود ایسی ہی ہیں۔ سادہ، معصوم، سچی اور محبت سے بھری ہوئی ان کی شاعری میں بھاری بھرکم الفاظ اور وزنی خیالات کا شائبہ تک نہیں ملتا۔ وہ نہایت سلیس انداز میں حال دل بیان کرتی چلی جاتی ہیں۔ بحروں کا انتخاب اور قافیہ و ردیف کا تعین ان کے بناوٹ سے پاک طرز اظہار سے میل کھاتا ہے۔ دردمندی اور رشتوں کا تقدس ان کی شاعری اور ذات دونوں کا خاصہ ہیں۔
فرخندہ رضوی اپنوں کے دئیے ہوئے غموں کے لمس سے آشنا ہیں۔ انہیں جو دکھ اپنے سگے رشتوں سے ملتا ہے وہ رشتے جن پر ہر انسان آنکھ بند کرکے بھروسہ کرتا ہے۔ لیکن جب خونی رشتے ہی رنگ بدل لیں تو دنیا کے ہر خطے سے اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ اور انسان کا دل ٹوٹ جاتا ہے۔ اپنے دکھ درد کو فرخندہ نے ایسے بیان کیا ہے کہ پڑھنے والے کو اس میں اپنا ہی دکھ نظر آنے لگتا ہے۔ یہ ہمارے سماج کی بہت بڑی حقیقت ہے کہ رشتوں میں مخلصی ختم ہوگئی ہے۔ اور رشتہ مطلب اور غرض سے جڑ گیا ہے۔ بغیر مطلب کے کوئی کسی کا سگا نہیں ہے۔ غرض کہ خونی رشتوں میں بھی غرض کی ملاوٹ ہو گئی ہے۔ اور یہ ہمارے معاشرے کا بہت بڑا المیہ ہے،بقول فرخندہ رضوی:
ممکن جو ہوئی ہم سے وہ تدبیر کرے ہیں
جو زخم ہرے تھے ہاں ابھی تک وہ ہرے ہیں
بتلاؤ تو رکھیں بھی کہاں غم کے دفینے
برتن جو میسر تھے ہمیں سارے بھرے ہیں
(20)
فرخندہ رضوی نے اپنی محنت سے اپنا خاص مقام بنایا ہے۔ کتاب و قلم سے دوستی انسان کو کبھی تنہا نہیں ہونے دیتی ہے۔ مگر یہ رفاقت انسان کو عجب منزل کا مسافر بنا دیتی ہے۔ جب تک فرخندہ رضوی دعاؤں کے دست حصار میں تھی مطمئن و شاداں تھی۔ اپنی ماں سے محبت فرض نہیں عبادت سمجھ کر کی ہے۔ ماں سے پیار کے معصوم رنگ اس کی تحریروں میں واضح نظر آتے ہیں۔ ان کی نظموں میں ’’ماں‘‘ ثابت کرتی ہیں کہ خیال کی تجسیم کاری کے لیے تکنیکی طور پر نئی نئی ساخت اور ہیئت اختراع کرنا بھی انہیں خوب آتا ہے۔ اس نظم کی خوبی یہ ہے کہ اس کا ہر مصرع لفظ ’’ماں‘‘ پر ختم ہوتا ہے :
پرورش میں اْن کی ہستی تک مٹا دیتی ہے ماں
اپنے بچوں کی مگر قسمت بنا دیتی ہے ماں
(21)
فرخندہ رضوی کا اپنی ماں سے گہری محبت اور چاہت کا اظہار ان کی شاعری میں جابجا ملتا ہے۔ ماں کی موت سے بڑا کوئی سانحہ دنیا میں رونما نہیں ہو سکتا۔ وہ اس سانحہ کو Loss Bigکہتی ہیں۔ یعنی بڑا نقصان جس کا مداوا ہو ہی نہیں سکتا۔
یہ حادثہ ایک ہی پل میں گھنی چھاؤں میں ٹھہرے انسان کو ایک دم سے تپتی ہوئی دوپہر میں کھڑا کر دیتا ہے۔ اپنی ایک نظم میں سانحہ کو دلگداز انداز میں بیان کرتی ہیں:
یک بیک رت بدل گئی کیسے
آسماں کیسے ہو گیا ہے سیاہ
ماں تیری موت کی خبر سن کر
میری ہر سانس بن گئی ہے آہ
(22)
اس نظم میں جس قدر دو عالم کو فرخندہ رضوی نے محسوس کیا اسے غم کی سیاہی میں ڈبو کر کاغذ پر انڈیل دیا ہے۔ ان اشعار میں جس کرب کا اظہار ہے وہ کرب و اذیت جو بے اختیار ہونٹوں سے پھسل جاتا ہے۔
فرخندہ رضوی کا خمیر اگرچہ اقبال اور فیض کی سرزمیں سیالکوٹ کی مردم خیز مٹی سے اٹھا ہے۔ مگر آج کل ان کا وطن ثانی انگلستان ہے اور وہیں رہ کر بڑی تن دہی، مستعدی، دل جمعی اور عرق ریزی سے اردو ادب کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔وہ شاعرہ تو ہیں ہی لاجواب لیکن افسانہ نگار بھی کمال کی ہیں۔ جنہیں خالد یوسف، اکبر حیدرآبادی، صفدرہمدانی، ڈاکٹر مختار الدین، بانو ارشد اور راحت زاہد جیسے اکابرین و مصلحین کی سرپرستی ،اُن کی حمایت اور حوصلہ افزائی حاصل ہے اور یہ بڑی بات ہے۔ آج انگلستان میں آباد اردو کی عظیم بستی فرخندہ اور انہی شائقین اردو اور باذوق مہاجرین کی مرہون منت ہے۔
یہ تمام حوالے فرخندہ رضوی کو اپنے دور کی نمائندہ شاعرہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں۔ انہوں نے ادب برائے ادب نہیں بلکہ ادب برائے زندگی کا نظریہ اپنایا ہے۔ ان کو محض قافیہ پیمائی کا شوق نہیں بلکہ ان کی شاعری کی جڑیں لوگوں کے دلوں میں پیوست ہیں۔ ( خدا کرے زور قلم اور زیادہ ہو)
٭٭٭٭٭٭٭٭

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...