Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > فرخندہ رضوی (شاعری اور شخصیت) > فرخندہ رضوی کی تخلیقات

فرخندہ رضوی (شاعری اور شخصیت) |
حسنِ ادب
فرخندہ رضوی (شاعری اور شخصیت)

فرخندہ رضوی کی تخلیقات
ARI Id

1688708425998_56116524

Access

Open/Free Access

Pages

۲۵

فرخندہ رضوی کی تخلیقات
سنو خموشی کی داستان
فرخندہ رضوی کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔ جو جنوری 2002 میں شائع ہوا۔ یہ شعری مجموعہ آزاد اور نثری نظموں پر مشتمل ہے۔ جسے آئیڈیل پبلی کیشنز اردو بازار کراچی پاکستان نے شائع کیااور جس کی کمپوزنگ کا فریضہ فیضان صابری کمپوزنگ سنٹر نے سرانجام دیا۔اس وقت کے مطابق اس شعری مجموعے کی پاکستانی قیمت 225 روپے اور برون ملک 8 امریکی ڈالرز تھی۔
اس کا انتساب فرخندہ رضوی نے اپنی جان سے پیاری دوست ثمینہ کے نام کیا۔ یہ شعری مجموعہ ایک سو آزاد اور نثری نظموں پر مشتمل ہے۔ اس شعری کتابچہ میں انتساب کے اگلے صفحے پر اپنے خیالات کا اظہار فرخندہ رضوی نے اس کے بارے میں یوں کیا ہے۔ ’’مجھ میں ایسا کچھ نہیں کہ مجھ سے ملا جائے اتنا کافی ہے کہ تحریروں کو ملاقات کا ذریعہ بنائیں‘‘
بس جذبوں کی سچائی لفظوں میں سمیٹتی رہی ہوں۔یہ راہیں یہ سفر پرانا ہے۔اپنی کاوشوں کو تحریری صورت میں مختلف میگزین میں بکھراتی رہی ہوں۔محبت کو جنون کا نام دیا ہے میں نے۔شعری ذوق کسی کا ورثہ نہیں۔ جو چاہے دل کی دھڑکنوں سے نکلی ہر سانس کو لفظوں میں بیان کر سکتا ہے۔
مجھ جیسی کم تعلیم یافتہ ہستی کا آسان لفظوں میں یہ سمجھا دینا کہ لہریں جوش سے مچلتی ہیں تو ساحل اور قریب چلا آتا ہے۔ اپنی تمام تحریریں بہت محبت سے پیار سے پڑھنے والوں کے نام۔ (بہت پیار کرنے والے میرے جیون ساتھی کی اجازت سے)( فرخندہ رضوی)
"سنو خموشی کی داستان" کے حوالے سے عرض ناشر میں سلیم احمد یوں رقم طراز ہیں :
" فرخندہ رضوی جو آج کے دور کی شاعرہ ہیں، ان کا کلام" سنو خموشی کی داستان" آزاد شاعری میں ایک نیا منفرد کلام ہے جو قارئین کو ضرور ضرور پسند آئے گا"(23)
فاصلے ستا رہے ہیں
فاصلے ستا رہے ہیں فرخندہ رضوی کا دوسرا شعری مجموعہ ہے جو جنوری 2006ء میں منظر عام پر آیا۔ یہ شعری مجموعہ بھی آزاد نظموں پر مشتمل ہے جسے یونائیٹڈ صابری پبلی کیشنز اردو بازار کراچی نے طبع کیا۔ اور جس کی کمپوزنگ بھی فیضان صابری کمپوزنگ سینٹر سے ہی ہوئی۔ قیمت 150 روپے پاکستانی اور برطانیہ میں 5 پونڈ تھی۔ اس کتاب کا انتساب فرخندہ رضوی نے اپنی زندگی کے ساتھی بشیر رضوی کے نام کر کے انکی محبتوں اور تعاون کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ یہ شعری مجموعہ بھی ایک سو آزاد نظموں پر محیط ہے۔ ’’کچھ اپنے بارے میں‘‘ میں فرخندہ رضوی کہتی ہیں۔
" خداوند کریم کی شکر گزار ہوں کہ ایک موقع اور ملا اپنی دوسری کتاب مکمل کر پائی، اردو سے محبت تو ہمیشہ رہی۔ بہت عرصہ ہوا شاعروں کے اردگرد گھومتے۔۔۔۔۔ زیر نظر انتخاب میں کوئی ایسا دعوی تو پیش نہیں کر رہی۔۔۔۔ مگر اتنا ضرور کہوں کی دل کی کیفیت کو محسوس کیا جائے گا تو میں نے اپنی پہچان خود کرانے کی کوشش کی ہے"( 24)
فرخندہ رضوی صاحبہ کی یہ تمام کوششیں دیار غیر( انگلینڈ) میں بیٹھ کر قابل رشک اور قابل ستائش ہیں۔ وہ اس مشینی ملک میں رہتی ہیں جہاں کا ہر انسان ایک مشین بن چکا ہے۔ مگر وہ باوجود اس کے انسان اور انسان دوستی کی علمبردار ہیں۔ اپنے دلی جذبات و احساسات کو گاہے بگاہے کتابوں میں زیور طباعت سے آراستہ کرتی ہیں۔ وہ ایک سچے جذبے کی متحرک شاعرہ ہیں۔ جو اپنے اردگرد کے ماحول کو بھی اپنی آزاد شاعری سے باخبر رکھتی ہیں۔ بقول شہزاد احمد
" فرخندہ رضوی صاحبہ جدید، موثر اور تازہ و توانا لہجے کی شاعرہ ہیں۔۔۔ طبیعت کازیادہ تر میلان آزاد شاعری کی جانب ہے جو سفر شاعری " سنو خموشی کی داستان" سے شروع کیا تھا وہ نہ صرف ہنوز جاری ہے۔ " فاصلے ستا رہے ہیں" دوسرا معتبر حوالہ ہے۔۔۔ میں نے محترمہ کے دو مجموعوں میں حمد و نعت کی کمی محسوس کی ہے۔ مجھے امید ہے محترمہ اپنے تیسرے مجموعہ کلام میں اس تشنگی " حمد و نعت" کو دور کریں گی"( 25)
پھر وہ صبح کہاں
فرخندہ رضوی کا تیسرا افسانوی اور سچی کہانیوں پر مشتمل مجموعہ ہے۔ جو 2010 میں شائع ہوا۔ یہ فرخندہ رضوی نے شیریں کلام سخن کی بجائے نثر پر طبع آزمائی کی ہے۔ فرخندہ رضوی چونکہ سماج کی عکاس ہیں اور سماجی مسائل کو لوگوں کے سامنے لاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں ہونے والے چیدہ چیدہ مسائل کو افسانوں اور سچی کہانیوں کی صورت میں پیش کرنے کے فن سے بخوبی آگاہ ہیں۔ عورتوں کے حقوق، مردوں کے ظلم و ستم، عورت ہی عورت کی دشمن ہے، چاہے وہ سگی بہن ہی کیوں نہ ہو، پردیس کی مشکلات، معاشی ناہمواریاں، غربت و افلاس وغیرہ جیسے سماج میں ہونے والے سچے واقعات کو افسانوی رنگ میں ڈھال کر پیش کیا ہے۔ برطانیہ میں بطور افسانہ نگار ان کا قلم تسلیم شدہ مانا جاتا ہے۔
زیر لب خندہ
فرخندہ رضوی کا چوتھا شعری مجموعہ " زیر لب خندہ" ہے۔ جو 2012 میں شائع ہوا۔ یہ شعری مجموعہ غزلوں اور نظموں پر مشتمل ہے جسے بزم تخلیق ادب پاکستان کراچی نے طبع کیا۔ جس کی کمپوزنگ فوکس کمپوزنگ سینٹر نے کی۔ اس کتاب کا انتساب اپنی والدہ محترمہ زبیدہ بٹ ( مرحومہ) اور اپنی بہن امتل حمید بٹ ( مرحومہ)کے نام ہے۔ اس شعری مجموعہ کی ترتیب میں دو حمد باری تعالی، ایک نعت ، 55 غزلیات 32 نظمیں اور ایک قطعہ شامل کتاب ہے۔ بقول صفدر ہمدانی:
" فرخندہ رضوی کے اکثر شعر زیر لب مسکراہٹ کے ہیں اور یہی وہ احساس کی سطح ہے جہاں زیر لب مسکرا بڑے قہقہے سے زیادہ طاقت رکھتی ہے۔ میری دعا ہے فرخندہ رضوی کا یہ قلمی، فکری اور فنّی سفر کسی سقم کے بغیر رواں دواں رہے"(26)
قلم خندہ
فرخندہ رضوی کا پانچواں مجموعہ" قلم خندہ" ہے۔ جو 2015 میں شائع ہوا۔ یہ کتاب تنقیدی مضامین، تجزیے، تبصرے، مضامین پذیرائی، سفر نامہ پر مشتمل ہے،جسے روزن پرنٹرز ادبی فورم گجرات پاکستان نے طبع کیا۔ فرخندہ رضوی نے اس کتاب کا انتساب اپنے پہلے استاد جناب خالد یوسف صاحب مرحوم اور قابل احترام و محترم استاد صفدر ہمدانی صاحب کے نام کیا ہے۔
اس کتاب میں فرخندہ رضوی نے معروف شاعروں اور ادیبوں کی تخلیقات پر اپنے خیالات کا اظہار کرکے انہیں دادو تحسین پیش کیا ہے۔ حصہ اوّل میں معروف ادبی شخصیات پر فرخندہ رضوی کے تبصرے و خیالات ہیں اور حصہ دوم میں فرخندہ رضوی معروف ادبی شخصیت کی نظر میں، حصہ سوم سفرنامچہ پر مبنی ہے جو لندن سے سیالکوٹ براستہ دبئی سے متعلق ہے۔فرخندہ رضوی قلم خندہ میری ایک اور کاوش کے ضمن میں رقمطراز ہیں
" میری نوک قلم میں اتنا سلیقہ کہاں میں شکر گزار ہوں اپنے پروردگار کی جس نے مجھے یہ ہنر دیا۔ تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لیے اور صلوۃ وسلام اللہ کے رسول پر۔۔۔۔ یہ میرا پانچواں مجموعہ ہے جو ان تمام مضامین پر مشتمل ہے جو میں نے بہت سے مرد و خواتین مصنفین کی کتابوں پر لکھے۔ اس پذیرائی سے میرا حوصلہ بڑھا اور میں نے اپنے قلم کی طاقت سے لفظوں کا سلسلہ اسی طرح جاری رکھا۔ میں لفظوں کے سمندر میں اپنا عکس دیکھتی اور اپنی ان سطور میں زندگی کا عکس بھرنے کی کوشش کرتی ہوں" (27)
خوشبوئے خندہ
فرخندہ رضوی کا چھٹا شعری مجموعہ "خوشبوئے خندہ" ہے۔جو 2018ء میں شائع ہوا۔ یہ شعری مجموعہ نظموں، غزلوں اور قطعات پر مشتمل ہے۔ جسے فرخندہ رضوی نے خود کمپوز کیا ہے۔ ہر گزرتے وقت کے ساتھ ان کا قلم وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔ اس کتاب میں قلم کی جولانیوں نے دو حمد باری تعالیٰ، محبوب کبریا (نعت) رب ذوالجلال سے التجا و دعا، شاہ کربلا پر سلام، ماہ محرم جیسے سماجی موضوعات پر لکھ کر شاعرات میں اپنا لوہا منوا لیا ہے۔ اس شعری مجموعے کو 127 غزلیات اور نظموں سے آراستہ کر کے ایک اعلی پایہ کی شاعرہ کا اعزاز حاصل کیا ہے۔
اس کا انتساب فرخندہ رضوی نے اپنے والد محترم عبدالرشید بٹ ( جن کی محبت و تربیت نے مجھے اچھا انسان رشتوں کے تقدس کا احترام سکھایا) کے نام کیا۔ بقول ڈاکٹر مقصود جعفری:
’’زیر نظر مجموعہ’’ خوشبوئے خندہ‘‘ان کی تازہ غزلیات اور منظومات اور آزاد نظموں پر مبنی ہے۔ غزلیات میں سلاست و بلاغت ہے۔ احساس کی شدت اور شعور کی جدت ہویدا ہے۔ نظم ’’خالی ہاتھ ‘‘ میں وہ دلدار سے فقط ایک پھول کے تحفے کی خواستگار ہیں، عصر جدید کی محبوبائیں اور بیویاں’’پھول‘‘نہیں بلکہ زرو مال کی طلب گار ہیں جبکہ نیک دل و نیک خصلت شاعرہ اس پرخار زندگی میں ایک تازہ و خوشبو دار پھول کی خواہاں ہے۔ پھول یہاں وفاداری اور قناعت کا ابدی استعارہ ہے۔ جو خندہ کا اسلوبی استعارہ ہے’’( 28)
خوشبوئے خندہ میں فرخندہ رضوی کے ادبی کالم، ان کی اردو ادب سے محبت، بطور شاعرہ اور ادیبہ کی حیثیت سے ان کو خلوص و احترام کے ساتھ نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہوئے ساحر شیلوی (لیوٹن) لکھتے ہیں:
اردو کی خدمت گار فرخندہ رضوی
جیون میں پربہار فرخندہ رضوی
اردو ادب جس کی آغوش میں پلتا ہے
ہے حق پرست روا دار فرخندہ رضوی
نہیں فقط شاعرہ اعلیٰ اوردل کش
اک افسانہ نگار فرخندہ رضوی
غم نہیں اردو کو جب تک ہے یہ ساتھ
اردو کی دستار فرخندہ رضوی
اردو سے جس کو عشق اردو پہ جو نثار
ہم سب کی دلدار فرخندہ رضوی
دعائے ساحر شیلوی ہے آخری دم تک
رہے اردو پے بلہار فرخندہ رضوی(29)
تخلیق خندہ
فرخندہ رضوی کا ساتواں مجموعہ "تخلیق خندہ" ہے۔ جو نمود اول 2021 میں شائع ہوا۔ یہ کتاب مضامین، تبصرے، تجزیے اور طنز و مزاح پر مشتمل ہے۔ جسے شہریار ناصر نے کمپوز کیا ہے اور دور حاضر میں اس کی پاکستانی قیمت 500 روپے ( 30 یورو 40ڈالر) قرار پائی ہے۔ اس کتاب کا انتساب فرخندہ رضوی نے اپنے پیارے داماد اور اپنے پیارے نواسے، پیاری نواسی کی محبتوں کے نام سے کیا ہے۔ یہ کتاب چار حصوں پر مشتمل ہے جس میں فرخندہ نے نہ صرف دوسروں پر تبصرے کیے ہیں بلکہ فرخندہ رضوی پر بھی ناقدین کی آراء قلمبند ہوئی ہیں۔ علاوہ ازیں طنز و مزاح پر مبنی مضامین بھی اپنی گلکاریاں بکھراتے نظر آتے ہیں۔
زیر نظر کتاب میں حافظ صفوان فرخندہ رضوی کی شاعری کی چار خصوصیات کا اظہار بڑے برملا انداز سے کرتے ہیں۔ ان کے مطابق فرخندہ کی شاعری جستہ جستہ دیکھنے کو ملتی ہے۔ جس میں چار چیزیں بالکل سامنے ہیں۔
یہ موضوعات روایتی شاعری والے ہیں روایتی سے مراد روح عصر سے مربوط ہونا نہ کہ کلاسیکی روایت۔ چنانچہ وہ نظم کم ہی کہتی ہیں لیکن ان کی غزلیں موضوعاتی ہوتی ہیں۔ غزل میں یہ چلن آج سے نہیں دلی کے اجڑنے کے بعد ہونے والی غزلیہ شاعری سے متواتر چلتا رہا ہے۔ فرخندہ رضوی اس روایت کی شاعرہ ہیں چنانچہ ان کی شاعری کے موضوعات بھی وہی ہیں۔ جو آج کے سماج سے براہ راست مربوط ہیں۔ اقدار، انسانیت، برابری وغیرہ تاہم ان کو جو چیز معاصر خواتین شعراء سے ممتاز کرتی ہے،وہ ان کے ہاں تانیثیت اور فیمینزم کی سستی دوکانداری نہ ہونا ہے۔ فرخندہ کی شاعری کسی بھی پاپولر نعرے کے پیچھے چلتی نظر نہیں آتی۔
دوسری چیز ان کی شاعری میں ہیئت کے تجربات نہ ہونا ہیں۔ ہیئت کے تجربے شوق میں یا کسی خاص کیفیت و ضرورت کے تحت کیے جاتے ہیں۔ فرخندہ کو غالبا ایسی کسی صورتحال کا سامنا نہیں ہوا۔ مغرب میں رہنے کے باوجود سانیٹ یا ہائیکو قسم کی چیز ان کے ہاں نہیں ہے وہ شعر کے مروجہ سانچے پر بالکل مطمئن ہیں۔
فرخندہ کی شاعری کی تیسری ممتاز چیز ان کے ہاں لفظوں کا قرارواقعی معنی میں استعمال ہونا ہے۔ ان کے ہاں شاعری پائی جاتی ہے نہ کہ کلام مصنوع۔ چنانچہ لفظوں سے کھیلنے، محاوروں کی پنسریاں لڑھکانے اور مگس کو باغ میں جانے دیجو قسم کے ابہام بھری استعاری زبان ان کے ہاں بالکل نہیں ہے۔
چوتھی چیز وہ ہے جو فرخندہ کی شاعری میں تلاش کرنے کی ہر کوشش ناکام ہوتی ہے۔میرا مطلب ہے کہ کسی شاعر کی لفظیات یا رنگ۔ جہاں شاعرات سے یہ پوچھا جاتا ہو کہ آپ کا پہلا مجموعہ کس شاعر پر گیا ہے۔ اور دوسرا اور تیسرا کس پر گیا ہے اور چوتھا کس پر جائے گا۔ وہاں ایک شاعرہ ایسی ہے جس کی شاعری کا دورانیہ دو عشروں پر محیط ہے۔ لیکن اس پر نہ پروین شاکر کی چھوٹ پڑتی دکھتی ہے نہ فہمیدہ ریاض کی اور نہ کسی مرد شاعر کی۔ تو ایسی شاعرہ کو ٹھہر کر پڑھنا پڑتا ہے۔ یہ دعوی بڑی ذمہ داری کا ہے اور میں پورے اطمینان کے بعد یہ دعوی کر رہا ہوں۔
آخر میں ذکر اس دوسری چیز کا جو فرخندہ کی شاعری میں تلاش کرنے میں ناکامی ہوتی ہے وہ بھاشن دہی اور سستی جذباتیت۔ فرخندہ کی شاعری میں اس قسم کی چیزیں نہیں ہیں۔
جناب حافظ صفوان کے اس تبصرے کے بعد یہ طے ہوا کہ فرخندہ رضوی واقعی لاجواب شاعرہ اور ادیبہ ہیں۔ جن کی خصوصیات کا ذکر کاہے بگاہے ادبی شخصیات کی طرف سے ہوتا رہتا ہے۔ بقول سید انور ظہیر رہبر
" آپ کا تعلق ایک ادبی گھرانے سے نہ ہونے کے باوجود آپ کی اردو ادب سے محبت نے ادب کے ذوق کو جلا بخشی جو کہ اردو ادب کی ترویج کے لیے مبارک ثابت ہوئی۔’’ تخلیق خندہ‘‘ آپ کے ان کالموں پر مشتمل ہے جو وقتاً فوقتاًشائع ہوتے رہے ہیں۔ یہ آپ کے ساتھ بھی کتاب ہے جو آپ کی ادب دلچسپی کی غماز ہے۔ آپ اسم با مسمی ہیں بہت کم ایسی شخصیات ہوتی ہیں جن کے نام ان کی زندگی کے بھرپور عکس ہوتے ہیں۔ فرخندہ رضوی بھی اُن خوش نصیبوں میں سے ہیں۔۔۔۔۔۔ آپ نہ صرف اردو ادب کے لیے کوشاں ہیں بلکہ انسانیت کے جذبے سے بھی معمور ہیں‘‘( 30)
فرخندہ رضوی کو اردو کی آبیاری اور ادبی خدمات کے صلے میں مختلف تنظیموں کی طرف سے ایوارڈز اور سرٹیفکیٹ سے نوازا گیا
٭ جرمنی اردو انجمن (برلن) نے ان کی ادبی خدمات کو سراہتے ہوئے سرٹیفکیٹ دیا
٭ پاکستانی کمیونٹی سنٹر ریڈنگ ( برطانیہ) نے ریڈنگ میئر ایوارڈ سے کئی بار نوازا۔
٭ پاکستان میں الفانوس ادبی تنظیم نے ادبی خدمات پر ایوارڈ سے نوازا۔
فرخندہ رضوی کی تصانیف کی تفصیل
٭ پہلا شعری مجموعہ’’سنو خاموشی کی داستان‘‘ آزاد اور نثری نظموں پر مشتمل، جنوری 2002ء
٭ دوسرا شعری مجموعہ " فاصلے ستا رہے ہیں" نظموں پر مشتمل، 2006ء
٭ تیسرا مجموعہ "پھر وہ صبح کہاں" افسانوں اور سچی کہانیوں پر مشتمل,2010ء
٭ چوتھا شعری مجموعہ" زیر لب خندہ" 2012ء
٭ پانچواں مجموعہ" قلم خندہ" مضامین اور تجزیے, 2016ء
٭ چھٹا شعری مجموعہ " خوشبو? خندہ" 2019ء
٭ ساتواں مجموعہ " تخلیق خندہ" 2021ء
٭ کالم، مضامین، سفر نامہ، تجزیے اور طنز و مزاح پر مشتمل ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

حوالہ جات
1 پروفیسر محمود الحسن شاکر، خوشبو ئے خندہ، بزم تخلیق ادب پاکستان، کراچی، 6 مئی 2018، ص: 18
2 ضیاء شہزاد، اظہار رائے، خوشبوئے خندہ، ص :26
3 امجد مرزا امجد، تخلیق خندہ، اردو سخن پاکستان، اردو بازار چوک اعظم لیہ، 2021، ص: 120
4 فرخندہ رضوی، زیر لب، بزم تخلیق ادب پاکستان، کراچی، 2012ئ،ص :201
5 فرحت عباس شاہ، زیر لب خندہ، ص:17
6 ایضاً،ص: 211
7 فرخندہ رضوی، رابطہ ٹیلی فونک، 5 اگست 2021ء بوقت پاکستان، شام 5:00 بجے بروز جمعرات
8 ناصر کاظمی، انتخاب انشاء ، فضل حق اینڈ سنز پبلشرز اینڈ پرنٹر دربار مارکیٹ لاہور، دسمبر 1991ئ، ص 72
9 مرزا غالب اردو کی ضرب المثال اشعار ( تحقیق کی روشنی میں) مرتب شمس الحق
10 فرخندہ رضوی،زیر لب خندہ ، ص: 180
11 ایضا، ص: 201
12 منور احمد کنڈے (انگلینڈ), فاصلے ستا رہے ہیں، یونائیٹڈ صابری پبلی کیشنز اردو بازار کراچی، جنوری
2006ء ، ص: 6
13 فرخندہ رضوی، خوشبوئے خندہ، پیش لفظ، ص 12 تا 14
14 ایضاً، ص 11 تا 12
15 بانو ارشد، زیر لب خندہ، 2012ئ￿ ، ص :23
16 رابطہ ٹیلیفونک، 15 اگست 2021، 7:00 بجے شام، پاکستان وقت، بروزِ اتوار
17 ایضاً، 20 اگست 2021ئ￿ ، 6:00 بجے شام، بروز جمع? المبارک
18 فرخندہ رضوی، خوشبوئے خندہ،ص: 72
19 محمد اشفاق ایاز، قلم خندہ، ورلڈ پنجابی فورم، پاکستان، اوزن پرنٹرز، گجرات، 2015 ء ص: 12
20 فرخندہ رضوی، خوشبوئے خندہ، ص :63
21 فرخندہ رضوی، تخلیق خندہ، ص :76
22 فرخندہ رضوی، قلم خندہ، ص :210
23 فرخندہ رضوی، سنو خموشی کی داستان، ص:1
24 فرخندہ رضوی، فاصلے ستا رہے ہیں، کچھ اپنے بارے میں، جنوری 2006ئ، ص:1
25 شہزاد احمد، فاصلے ستا رہے ہیں، ص:8
26 صفدر ہمدانی، زیر لب خندہ، ص :13
27 فرخندہ رضوی، قلم خندہ، ص :9
28 ڈاکٹر مقصود جعفری، نیو یارک، خوشبوئے خندہ، اپریل 2008ئ، ص: 22
29 ساحر شیلوی، لیوٹن، خوشبوئے خندہ، ص :25
30 سید انور ظہیر رہبر، تخلیق خندہ، نمود اول، 2021ئ، ص: 17

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...