Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)

فرخندہ رضوی (شاعری اور شخصیت) |
حسنِ ادب
فرخندہ رضوی (شاعری اور شخصیت)

سماج اور سماج فہمی
ARI Id

1688708425998_56116525

Access

Open/Free Access

Pages

۳۵

سماج اور سماج فہمی
سماج
سماج لفظ سنسکرت زبان کے دو لفظوں سے مل کر بنا ہے۔"سم " اور "آج" سم کے معنی ہیں اکٹھا یا ایک ساتھ اور آج کے معنی ہیں رہنا۔یعنی سماج کے لغوی معنی ہیں ایک ساتھ رہنا۔ اس خیال سے جہاں افراد ایک جگہ جمع ہوجاتے ہیں وہیں سماج بن جاتا ہے۔انگریزی زبان میں معاشرے کے لئے سوسائٹی (society)کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ عمرانیات میں افراد کے باہمی تانے بانے کو معاشرہ کہتے ہیں۔ عموماًمعاشرے سے مراد افراد کا گروہ لیا جاتا ہے۔
’’لفظ سماج کے لغوی معنی معاشرہ سوسائٹی ،انجم،حلقہ،ٹولہ، یا صف کے ہیں اور یہ سنسکرت زبان کا لفظ ہے۔‘‘(1)
عام فہم الفاظ میں تو تمام انسانوں ہی کا مجموعہ سماج کہلاتا ہے۔لیکن اگر کوئی یہ سوال اٹھانا شروع کر دے کہ انسان کیا ہے؟ تو پھر انسان اور سماج دونوں کے وجود پر سوال اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں اور دونوں ہی پیچیدہ تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔انسان صرف گوشت پوست کا لوتھڑا تو نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا صاحب شعور اور صاحب نطق جانور ہے جو صرف ایک وجود نما نہیں ہے۔ بلکہ اس وجود کی بقا کے لئے تمام مادی، جغرافیائی اور مالیاتی نظام کا نام بھی ہے۔
اس تعریف کے مطابق کوئی انسان اس وقت تک مکمل انسان کہلاہی نہیں سکتا جب تک اسے اپنی بقا کے لئے تمام تر "معیاری"اور"مناسب ماحول" حاصل نہیں ہو جاتا۔ اب معیاری اور مناسب ماحول کیا ہوتا ہے؟ کیونکہ فطرت نے ہمیں اپنے جینے کے لئے کوئی نہ کوئی معیاری اور مناسب ماحول فراہم نہیں کیا۔ اس کے لئے انسان نے خود تگ و دو کی ہے۔اس لیے یہ اضافی صفات بن گئی ہیں۔
گروہ اور اجتماع اپنی سادہ شکل سے پیچیدہ شکل کی طرف سفر کرتے رہے ہیں ،اس لئے یہ"مناسب"اور "معیاری" رقابلی صفات بھی ہوتی گئیں۔ لوگوں کے تمام گروہ اور اجتماع کے ارتقائی مراحل سے گزرنے کے عمل کے دوران اور سماج کے موجودہ شکل تک سفر کے مراحل طے کرتے ہوئے یہ دونوں اصطلاحات اچھی خاصی "سیاسی" اصطلاحات بن گئیں۔
سماج کی تعریف صرف یہاں پر ہی ختم نہیں ہوتی۔ جدید سماج نے انسان کی مادی اور شعوری ترقی کے درمیان اور روز بروز پیچیدہ صورتحال کو جنم دے دیا ہے۔ جو قدیم سماجوں میں اتنی پیچیدہ نہیں تھیں۔اس معیاری اور مناسب ماحول کے افراد کی انفرادی زندگی میں کچھ معنی ہوتے ہیں اور پورے سماج کی اجتماعی زندگی میں بھی "معیاری" اور "مناسب" اپنے معنی رکھتے ہیں۔
پہلے بات جدید فرد کی تعریف سے شروع کریں تو دور جدید کا انسان ایک ایسا انسان ہے جو موجودہ دور کے تمام تر مناسب ماحول اور انسانی علم و آگہی اور سائنس نے اس میں جو بھی بہتری پیدا کی ہے،اس کو اپنا ماحول خیال کرتے ہوئے ، اس کے لئے جدوجہد کرنے والا عامل ہے۔ لیکن جب اسے ’’مناسب‘‘اور ’’معیاری‘‘ ماحول حاصل نہیں ہوتا، تو وہ اپنے حالات، گردو نواح اور ماحول کا جائزہ لیتا ہے اور اپنے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کہ آخر وہ کونسے عوامل ہیں جو اس ماحول کے حصول کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
اپنے اس سوال کے جواب میں وہ سماج کے مختلف گروہوں ،ا نفرادی سطح پر اس سمت میں کوشش کرنے والے افراد کی کوششوں اور حتیٰ کہ ریاستی ادارے کے کردار کا جائزہ لیتا ہے تو وہ پریشان ہو جاتا ہے اور اسے ہر کوئی اپنی راہ کی رکاوٹ لگتا ہے۔اسے یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ یہ سارا ماحول انسان کا پیدا کردہ ہے لیکن اس میں اسے اپنے لئے کوئی گنجائش نظر نہیں آتی بلکہ اسے محسوس ہوتا ہے کہ انسانوں میں سے چند ایک ہی اس پر قابض ہیں۔ اور صرف وہی ان آزمائشوں کے حصول کو اپنا زیادہ حق سمجھتے ہیں اور وہ اس ماحول پر اس کے حق کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ جونہی یہ شعور اس کے اندر پیدا ہوتا ہے۔ تو اس وقت فرد ایک انسان نہیں رہتا بلکہ دو ہو جاتا ہے۔
یعنی ایک وہ فرد جو عام طور پر عملی زندگی میں اپنی مادی ضروریات اور مناسب اور معیاری ماحول کی تگ و دو میں پھر رہا ہے اور دوسرا اس کے اندر خیالی انسان ہوتا ہے جو اس کے اندر رہنے کے باوجود باہر آنے کی آزادیوں سے محروم ہوتا ہے۔ وہ آزاد ہونے کے باوجود ایک کرب اور بے بسی کا شکار رہتا ہے۔
اس مرحلے پر انسان کی ایک سطح پر اپنے آپ سے بھی ایک کشمکش شرو ع ہو جاتی ہے ،تو دوسری سطح پر اپنے سماج ، اپنی ریاست اور ریاستی مشینری کے ساتھ بھی ایک جنگ جاری رہتی ہے یعنی باہر کجا مادی انسان جو جتنا مادی ماحول اسے نصیب ہوتا ہے۔ اس میں زندگی بسر کرنے کے لئے بضد ہوتا ہے جبکہ اس کے اندر کا انسان وہی مناسب یا معیاری(جو اس کے لیے "مثالی" ماحول ہوتا ہے)کو تلاش کرنے یا پھر اس طرح کا کوئی اور نیا ماحول تراشنے کی تگ و دو میں رہتا ہے۔
اس طرح حقیقی مادی انسان اور اس کے اندر موجود رہنے والے تصوراتی اور خیالاتی انسان کے درمیان مسلسل جنگ رہتی ہے۔ تصوراتی اشخاص کی مختلف اقسام ہو سکتی ہیں، ایک قسم توسادہ لوگوں کی ہو سکتی ہے جو اپنے تصورات میں فرد، سماج ، ریاست اور ریاستی مشینری کے جیسے ہیں اور جہاں ہے کی بنیاد پر قبول کر لیتے ہیں اور صرف اپنی تمام تر صلاحیتوں کو اس میں ایڈجسٹ ہونے کے لئے صرف کرتے ہیں۔ عمومی طور پر افراد کا یہ گروہ مڈل کلاس کے لوگوں پرمشتمل ہوتا ہے۔ دوسری قسم علمی اور فکری سطح پر کاوش کرنے والے لوگوں کی ہے۔ اگرچہ ان افراد کو بھی مختلف اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے لیکن یہاں ہم ایک محدود دائرے میں ذہنی توجہ ان افراد کے جم غفیرمیں صرف خودشناسی اورخود آگہی کے متلاشی افراد پر مرکوز کرتے ہیں۔ایسے لوگ اس مرحلے پر خود شناسی کے عمل سے گزرنا شروع ہو جاتے ہیں۔انہیں یہ آگاہی ہونا شروع ہو جاتی ہے کہ انسان حقیقت میں کیا ہے اور کیا نہیں ہے جہاں تک " کیا ہے۔" کا سوال ہے۔ تو وہ اپنی سرشت میں "کیا نہیں ہے" سے بہت زیادہ محدود ہے۔
"انسان کیا ہے؟ "جیسے سوال کے جواب کے لیے وہ صرف اور موجودات او ر وجودات سے متعلق رہتا ہے۔اس کے برعکس " کیا نہیں ہے" کے حوالے سے اس کے پاس وسیع تر امکانات کی دنیا ئیں ہوتی ہیںکیونکہ اسی"کیا نہیں ہے؟" میں اس کے خیالی اور تصوراتی انسان کی دنیائیں پوشیدہ ہوتی ہیں۔اس کی ان دنیاؤںکی وسعت کا انحصار بھی اس کے علم ، تجربے اور مشاہدات کے تابع ہوتا ہے۔ جتنا اس کا تجربہ اور مشاہدہ وسیع ہو گا۔ اتنا ہی اس کی خیالی اور تصوراتی دنیا وسیع ہو گی۔
اسی"کیا نہیں ہے؟" والے سوال سے نبرد آزما ہونے والا انسان دراصل تصوراتی اور خیالاتی انسان ہوتا ہے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ایسے افراد کی اس قسم کی شخصیت سازی کے اصل محرکات یہی سماج(society) اور خود اس کا ماحول ہوتا ہے۔ جو انہیں رد عمل کی طور پر اس فکری عمل کی طرف مائل کرتا ہے۔اس حوالے سے تمام تر فکری عمل مادے کے عمل اور اس کے رد عمل کے امکانات کی دنیا ہوتا ہے۔ ایسے افراد سماج ہیں۔ اس کی ان دنیاؤں کی وسعت کا انحصار بھی اسی عمر ، تجربے اور مشاہدات کے تابع ہوتا ہے۔ جتنا اس کا تجربہ اور مشاہدہ وسیع ہو گا اتنا ہی اس کی خیالی اور تصوراتی دنیا وسیع ہو گی۔
اسی" کیا نہیں ہے؟" والے سوال سے نبردآزماہونے والا انسان دراصل تصوراتی اور خیالاتی ہوتا ہے۔یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ایسے افراد کی اس قسم کی شخصیت سازی کے اصل محرکات یہی سماج اور خود اس کا ماحول ہوتا ہے۔ جو انہیں رد عمل کے طور پر اس فکری عمل مادے کے عمل اور اس کے رد عمل کے طور پر امکانات کی دنیا ہوتا ہے۔ ایسے افراد سماج میں رہتے ہوئے بھی اپنی شناخت اور خود آگہی کے متلاشی ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے مختلف سماج ترقی کے مختلف مدارج پر ہوتے ہیں تمام سماجوں کی ترقی یکساں نہیں ہوتی ہے۔
معاشرہ افراد کا ایسا گروہ ہے۔ جس میں ایک دوسرے کے ساتھ لگاؤ اور تعاون کی فضا قائم ہو جہاں مشترک ثقافت مشترک اشتراک عمل کے کسی طے شدہ ضابطے اور قانون و اصول کے مطابق زندگی گزار رہے ہوں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک فرد کا دوسرے فرد سے تعلق کے بغیر رہنا مشکل ہی نہیں محال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افراد ایک دوسرے کے ساتھ تعلق کی بنا پر زندگی کی دوڑ میں مصروف نظر آتے ہیں اور اسی طرح گروہی زندگی قائم و دائم ہے۔ مگر جانور وں میں یہ شعور ی کوشش نظر نہیں آتی ۔ یہی وجہ ہے کہ ارسطو نے انسان کو سماجی جانور قرار دیا ہے۔ معاشرہ ہی انسان کو انسان کے رتبے پر لاتا ہے۔ وگرنہ معاشرے کے باہر وہ حیوان ہی ہے۔ معاشرہ یا سماج کے قیام و بقا میں کچھ عناصر کار فرما ہوتے ہیں جن کی بنیاد پر سماج بنتا ، قائم و دائم رہتا اور ترقی کرتا ہے۔
سماج یا معاشرہ کو قائم رکھنے میں اہم کردار یکسانیت کا ہے۔یکسانیت کے بغیر سماج یا معاشرہ کا قائم رہنا ناممکنات میں سے ہے۔ لباس ،زبان، خیالات،اقدار،عادات، رسومات، احساسات و جذبات اور عقائد میں یکسانیت وہ بنیادی عناصر ہیں جو لوگوں کو ایک ڈوری سے باندھے رکھتے ہیں یہ عناصر یا اجزا ہی لوگوں کے گروہ بندی کے لئے معاون و مددگار بنتے ہیںاور زندگی کی لذتوں سے لطف اندوزہوتے ہیں اس لحاظ سے رسوم و رواج اور عقائد وغیرہ میںیکسانیت معاشرے کی پائیداری اور استحکام کا سبب بنتے ہیںمگر ایسا کوئی پیمانہ ، ضابطی یا طریقہ کار وضع نہیں ہوا جس سے معاشرتی تعلق کو جانچا ،ماپا یا پرکھا جا سکے۔یہی وجہ ہے کہ معاشرتی تعلق کا مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ لوگوں کے گروہ ، تنظیمیں اور اداروں کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ جو دراصل سماج کی جان ہیں۔ کوئی بھی سماج راتوں رات تشکیل نہیں پاتا اور نہ ہی یہ لوگوں کا عارضی گروہ ہوتا ہے جو ہجوم کی شکل اختیارکر لیتا ہے۔
سماج کے بننے میں سینکڑوں سالوں کی روایات اور اقدار کے ساتھ مل جل کر رہنے والے لوگوں اور گروہوں کی تنظیم ایک اہم کردار اد کرتی ہے۔ سماج میں بعض معاملات میں اختلافات بھی پائے جاتے ہیں اگر سماج صرف یکسانیت پر قائم رہے تو زندگی جام ہو کر رہ جائے گی۔نہ کوئی ترقی اور نہ ہی کوئی تبدیلی وقوع پذیر ہو گی۔اس طرح لوگوں کی زندگی اجیرن ہو جائے گی۔ کسی بھی معاشرے یاسماج میں رہنے والے افراد میں مذہبی، سماجی، سیاسی، نسلی، لسانی اور معاشی اختلافات پائے جاتے ہیں یہی اختلافات سماج میں لوگوں کے نئے گروہوں کے وجود میں آنے کا سبب بنتے ہیں۔ پھر سماجی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ ان تمام اختلافات کے باوجود سماج کے لوگوں کو ایک دوسرے پر انحصار بھی کرنا پڑتا ہے۔ چونکہ اکیلا فر دیا انسان اپنی ضروریات کی تکمیل کو پورا نہیں کر سکتا۔ اس لئے اسے دوسرے افراد اور گروہوں کا مرہون منت ہونا پڑتا ہے۔ یہ سب کچھ امداد باہمی کے زمرے میں آتا ہے اور یہ سماج کی ایک خاص خوبی اور وصف بھی شمار ہوتا ہے۔سماج میں لوگ پیدا ہوتے ہیں، زندگی گزارتے ہیں اور زندگی گزار کر مر بھی جاتے ہیں۔ ان کا یہ جینا مرنا اکیلے پن کا نہیں تھا بلکہ دوسروں کی مدد اور تعاون کا مرہون منت تھا۔ انہی سماجی رویوں کے بل بوتے پر سماج تشکیل پاتا ہے۔
سماج / معاشرے کی اقسام
ماہرین عمرانیات نے معاشرے کو مندرجہ ذیل اقسام میں تقسیم کیا ہے۔
1- دیہی معاشرہ 2- بلدیاتی معاشرہ
3- خانہ بدوش معاشرہ 4- اقامتی معاشرہ
5- روایتی معاشرہ 6- جدید معاشرہ
1۔دیہی معاشرہ:
دیہاتی لوگ دیہات میں رہائش پذیر ہوتے ہیں ایسے لوگوں کو دیہی سماج کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے۔کاشت کار جو اپنی زمینوں پرہی گھربناکررہائش اختیارکر لیتے ہیں۔وہ بھی دیہاتی معاشرے کا ہی حصہ تصور ہوتے ہیں۔ہر معاشرہ اپنی بعض منفرد خصوصیات کی بنا پر خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔دیہاتی معاشرہ بھی اہمیت کا حامل ہے۔
دیہات میں لوگ کھلے اور بڑے گھروں میں رہتے ہیں بڑے بڑے صحن اور کچے مکان ہوتے ہیں مگر اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو شعور کی آگہی سے پکے مکان بنانے کا سلیقہ آ گیا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ رواج(Trend) عام ہوتا جا رہا ہے۔دیہی معاشرے میں لوگوں کا روزگار زراعت پر مشتمل ہوتا ہے۔جو لوگ کاشتکاری نہیں کرتے وہ بھی کاشتکاروں کے معاون کے طور پر کام کرتے ہیں جیسے لوہار ، کمہار وغیرہ وغیرہ۔البتہ بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ گاؤں کے پیشوں میں تبدیلی آرہی ہے۔اور لوگ پڑھنالکھنا سیکھ کر ملازمت اور کاروبار کی جانب مائل ہو رہے ہیں۔دیہی سماج میں غیر رسمی گروہ عام پائے جاتے ہیں۔ جیسے حقے کے اردو گرد بیٹھ کر گپ شپ کرنے والے لوگ، پنچایت میں بیٹھے افرادیاآڑھتی کی دکان پر اکٹھے ہونے والے افراد وغیرہ۔اس معاشرے کی ایک بہت اہم و خاص خوبی یہ ہے کہ یہ لوگ دکھ درد میں ایک دوسرے کا بھر پور ساتھ دیتے ہیں، دوسروں کی خوشی اور غم کو اپنا سمجھ کر حل کرتے ہیں مگر تعلیم کی کمی کے باعث یہی لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کو اناکا مسئلہ بنا کر قتل و غارت تک نوبت لے جاتے ہیںاور کئی گھر تباہ و برباد ہو جاتے ہیں اور یہ دشمنیاں نسل در نسل چلتی ہیں۔
دیہی معاشرے میں تعلیم کا معیار بہت پست ہوتا ہے۔ زیادہ تر لوگ ان پڑھ ہوتے ہیں اور جو پڑھے لکھے ہوں وہ بھی واجبی تعلیم سے آراستہ ہوتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں سکول پرائمری تک ہوتے ہیں اور مڈل اور ہائی سکول دور ہونے کی وجہ سے عموما لوگ بچوں کو سکول نہیں بھیجتے یاکام پر لگا لیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد آبائی پیشوں سے وابستہ ہوتی ہے۔موچی کابیٹا موچی،لوہار کا بیٹا لوہار اور مزارع کا بیٹا مزارع بن کر زندگی گزار دیتا ہے۔
دیہی معاشرے میں لوگ نہایت سادہ زندگی گزار تے ہیں۔سادہ روٹی، دودھ ،لسی وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں اور سادہ کپڑے پہنتے ہیں۔ لیکن کچھ مواقع پر فضول رسموں پر بے تحاشہ پیسے لگانے سے نہیں چوکتے جیسے فوتگی کی صورت میں قل،چالیسواں اور سالانہ ختم اورشادی بیاہ کے موقع پرولیمہ کاکھانا اور جہیز وغیرہ کے معاملات ۔بے شک ان رسومات کی ادائیگی کرتے ہوئے قرض سر پر چڑھ جائے یا کچھ گروی رکھنا پڑ جائے اور اس قرض کو اتارتے قبروں میں چلے جائیں۔
2۔بلدیاتی معاشرہ:
بلدیاتی معاشرہ کو اگر دیہی معاشرے کی ترقی یافتہ شکل کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔ بلدیاتی سماج یا معاشرہ کی آبادی زیادہ ہوتی ہے۔ گھر ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں اکثر مکان پکی اینٹوں سے بنے ہوتے ہیں جہاں بجلی، پانی و گیس اور ٹیلی فون کی سہولتیں میسر ہوتی ہیں۔
اس معاشرے میں معاشرتی زندگی کی تقریباً تمام سہولیات جن میں تعلیمی ، سیاسی ، مذہبی اور معاشرتی ادارے وغیرہ میسر ہوتی ہیں بلدیاتی معاشرے کے لوگ کام سے کام رکھتے ہیںاوربلا ضرورت کسی سے نہیںملتے یا بہت کم ملتے ہیں۔ لوگوں کی گروہی زندگی بھی رسمی ہوتی ہے جو کلب، تنظیم یا سوسائٹی تک محدود رہتی ہے۔ان لوگوں کے زیادہ تر پیشے کاروبار ، تجارت، صنعتی پیداوار، سرکاری و نیم سرکاری ملازمت اور مزدوری وغیرہ ہیں۔
اکثر لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہوتا ہے۔ تا ہم ادنیٰ درجے کی ملازمت یا کاروبار سے وابستہ کو اپنی ضروریات زندگی کو پورا کرنے میں مشکلات کاسامناکرنا پڑتا ہے۔ دیہی طبقہ کی نقل مکانی کے سبب رہائش کی قلت ہو جاتی ہے۔اکثر لوگ کرائے کے مکانوں میں رہتے ہیں ۔ترقی کے بڑے بڑے ادارے اس معاشرے میں موجود ہوتے ہیں۔ جن میں بڑے کالج، یونیورسٹیاں ، منڈیاں، ہوائی اڈے، ریلوے اسٹیشن اور ہسپتال وغیرہ شامل ہیں۔
تعلیم یافتہ اور ترقی پسند ہونے کی وجہ سے بلدیاتی معاشرہ کے افراد معاشرتی تغیر کی نئی سکیموں کو جلدی جلدی اپنانے کی کوشش کرتے ہیں ٹیلی فون ، انٹرنیٹ ، موٹر گاڑیوں اور ہوائی جہازوں سے مستفیدہو کر یہ لوگ دنوں کا کام گھنٹوں میں اور گھنٹوں کا کام منٹوں میںکرتے ہیں۔اعلیٰ افراد کے لیے جدید طرز رہائش پر مبنی پلاٹس والی کالونیاںاور متوسط طبقہ کے لیے درمیانی درجہ کی سکیمیں ہوتی ہیں ۔جبکہ اس سے بھی کم درجہ کے لوگ تنگ گلیوں اور کم سہولتوں والی آبادیوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ لوگ قدیم روایات کی بجائے جدت پسند ہوتے ہیں اور نئی اقدار کو جلد ہی قبول کر لیتے ہیں جن میں جدید ماڈرن قسم کے پہناوے ، لباسوں کے نت نئے ڈیزائن ، سلائی کڑھائی کا نیا فیشن اوربناؤ سنگھار کی نئی مصنوعات شامل ہیں۔بلدیاتی سماج میں رہنے والے لوگ شادی بیاہ کے معاملے میں ذات برادری کی قدیم روایات کی شدت سے پابندی نہیں کرتے بلکہ جہاں مناسب رشتہ ملے وہاں شادی کر دی جاتی ہے۔
3۔خانہ بدوش معاشرہ:
اس سماج کے لوگ مستقل بنیادوں پر اپنی رہائش نہیں رکھتے بلکہ جہاں بنیادی ضروریات خوراک ، پانی اورمویشیوں کے لیے چارہ وغیرہ کی فراوانی ہو وہیں ڈیرہ ڈال کر رہنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ جگہ بدلتے رہتے ہیں یہ عام طور پر قبیلے کی شکل میں ہوتے ہیں ۔ اس سماج کے لوگوں میں یگانگت ، باہمی ہمدردی ، ایثار و محبت کے گہرے جذبات پائے جاتے ہیں۔ یہ چھوٹا سا معاشرہ ہوتا ہے جس میں افراد کی تعداد عموماً چند سو نفوس پر مشتمل ہوتی ہے۔
خانہ بدوش لوگوں کی غیر منقولہ جائیداد نہیں ہوتی اس لئے ان میں وراثت کا مسئلہ نہیں بنتا ہے اور نہ ہی ان میں زمین و جائیداد کے تنازعات جنم لیتے ہیں۔ خانہ بدوش لوگ شادی بیاہ اپنے قبیلے سے باہر نہیں کرتے۔ بلکہ آپس میں ہی رشتے طے کر لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ مضبو ط سماجی بندھن میں بندھے ہوئے ہیں۔ اس معاشرے میں تغیر نہ ہونے کے برابر ہے۔ لوگ ایک ہی روایت پر چلتے ہیں آباؤاجداد کی روایات کے ساتھ ساتھ جیتے اور مرتے ہیں ان لوگوں کا عام پیشہ بھیڑ بکریاں ، اونٹ، خچر، گھوڑے اور گدھے پالنا ہے۔عموماً خانہ بدوش مرد گھروں میںآرام کرتے اور اپنی عورتوں اور بچوں کو بھیک مانگنے کے لئے باہر بھیج دیتے ہیں۔ ایسے عزت دار مردوں کو اس چیز کی بھی فکر نہیں ہوتی کہ وہ روٹی اور پیسہ کیسے لے کر آتی ہیں؟"ہاتھ پھیلا کر یا عزت بیچ کر"۔ انہیں روٹی اور پیسے سے مطلب ہوتا ہے۔
4۔اقامتی معاشرہ:
اقامتی معاشرہ ایسا معاشرہ ہے جو ایک ہی جگہ قائم رہتا ہے۔ دنیا کی اکثریت ایسے ہی افراد پر مشتمل ہے۔ ہمارا معاشرہ بھی اقامتی معاشرہ ہے۔ جس میں ہم زندگی گزار رہے ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے پہاڑی علاقوں میں مقیم قبیلے بھی اقامتی معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں۔ دیہی علاقوں کے باشندے ہوں یا بلدیاتی علاقوں کے ، جب اپنی غیر منقولہ جائیداد قائم کر لیں تو اقامت اسی جائیداد کے قریب رکھتے ہیں۔غیر منقولہ جائیداد میں زرعی زمین، مکان ،کارخانہ اور فیکٹریاں وغیرہ شامل ہیں۔ ایسے معاشرے میں افراد کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ ان میں جائیداد کی وراثت کا قانون پایا جاتا ہے۔ ایسے معاشرے میں معاشرتی اداروں کی بہتات ہوتی ہے۔
پاکستانی معاشرہ بھی اقامتی معاشرہ ہے۔اس معاشرے کے افراد دیہاتوں اور شہروں میں اپنے اپنے مکان بنا کر زندگی گزارتے ہیں۔ زرعی اور سکنی جائیداد کا باقاعدہ قانون ہوتا ہے۔جس کے تحت جائیداد بطور وراثت نسل در نسل منتقل ہوتی رہتی ہے۔یہ معاشرہ تغیر پذیر ہوتا ہے۔ جبکہ تغیر کی شرح مختلف طبقوں میں مختلف پائی جاتی ہے۔ ایسا معاشرہ وسیع تر ثقافت کا حامل ہوتا ہے۔ ایسے معاشرے کا حصہ وہ لوگ بھی ہیں جنہیں ہم قبائلی کہتے ہیںاور یہ ایک ہی جگہ مقیم ہوتے ہیں۔ اقامتی معاشرے میں زمینی حرکت پذیری نہیں پائی جاتی جس کی وجہ سے معاشرتی رسموں اور رواجوں میں تبدیلی قبول نہیں کی جاتی۔ ایسے معاشرے میں سماجی اصلاحات ٹھونسی جاتی ہیں افراد آزادانہ طور پر قبول نہیں کرتے کیونکہ وہ اپنے معاشرے کے معاملات کو چھوڑ کر کسی دوسرے راستے پر چلنا قبول نہیں کرتے۔
5۔روایتی معاشرہ:
ایسا معاشرہ جو قدیم روایات کی پاسداری پر قائم ہو روایتی معاشرہ کہلاتا ہے۔یہ معاشرہ زیادہ تر غیر صنعتی ساخت رکھتا ہے۔اس معاشرے میں مشینیں کم سے کم استعمال ہوتی ہیں۔اس لیے اس معاشرے میں معاشی ادارے سادہ ہوتے ہیں پیچیدہ ادارے نہیں پائے جاتے۔اس معاشرے میںعام طور پرزراعت،تجارت اورصحت کے ادارے پائے جاتے ہیں۔اس معاشرے کا رہن سہن اور بودوباش سادہ اور پرانی طرز کا ہوتا ہے۔ بجلی،پانی اور گیس وغیرہ کی سہولتیں نہیں ہوتیں۔ پختہ سڑکیں اور ٹریفک کی روانی اب گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ نظر آنا شروع ہو گئی ہے۔
جدید ذرائع مواصلات کی بھی روایتی معاشرے میں کمی ہوتی ہے۔انٹرنیٹ، فیکس اور ٹیلی فون سمیت دیگر ذرائع و ابلاغ لوگوں میں مشہور و قبول نہیں البتہ موبائل فون کی آمد سے لوگوں کی بڑی تعدادمستفید ہو رہی ہے۔ روایتی معاشرے میں معاشرتی اداروں کی تعداد کم سے کم پائی جاتی ہے اور رسمی ادارے بھی نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔
اس معاشرے میں تعلیم کی کمی کے سبب ایجادات اور دریافتوں کی طرف کوئی توجہ نہیں ہوتی۔ اس معاشرے میںمعاشرتی ترقی بھی سست روی کا شکار ہوتی ہے۔تعلیم کے اعلیٰ ادارے ناپید ہوتے ہیں۔خاص طور پر فنی تعلیم کے اداروں کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔ اس معاشرے کی یہ بھی خصوصیت ہے کہ یہاں ثقافتی اقدار کی مکمل حفاظت کی جاتی ہے اور مذہبی اقدار کی بنیادیں بھی مضبوط ہوتی ہیں۔
6۔جدید معاشرہ:
جدید معاشرہ،روایتی معاشرے کی متضاد خصوصیات کا حامل ہے۔یہ معاشرہ جدیدصنعتی ترقی پر قائم و دائم ہوتا ہے۔اس لیے اس کاوجودترقی یافتہ ممالک میں اور ہمارے ہاں بلدیاتی(شہری) علاقوں میں پایا جاتا ہے۔اس معاشرے میں تعلیمی ترقی اور شہر بندی عام پائی جاتی ہے اور اپنی حدود میں رہتے ہوئے مختلف ادارے لوگوں کو سہولیات فراہم کرتے ہیں۔افراد کی تعداد کثیر ہوتی ہے۔ جدید معاشرے میں معاشرتی زندگی کے بے شمار ادارے پائے جاتے ہیں۔جیسے معیشت میں کاروبار، زراعت، درآمدات، برآمدات اور بنک وغیرہ۔ اچھے ذرائع روزگار کی وجہ سے افرادکی آمدنی کے ذرائع بھی وسیع ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کا معیار زندگی بلند ہوتا ہے۔جدید معاشرے میں لوگوں کو روزگار اور ملازمت کے مواقع عام دستیاب ہوتے ہیںاور معاشرتی زندگی کی تمام سہولیات آسانی سے میسر ہوتی ہیں۔ خاص طور پر صحت، تعلیم،ذرائع آمدو رفت اور رسل و رسائل کے ساتھ ساتھ سیر و تفریح کے مواقع بھی عام میسر آتے ہیں۔ یہ معاشرہ ہر نئی پالیسی، نئے فیشن اور نئے رسم و رواج کو خوش آمدید کہتا ہے۔نئی اقدا کو پرانی اقدار کے مقابلے میں نہ صرف پسند کرتا ہے بلکہ اقدا ر کو اپنانے میں فخر محسوس کرتا ہے اور برملا پرانی اقدار سے اظہار نا پسندیدگی کرتا ہے۔ شادی بیاہ اور دیگر رسومات کے معاملہ میں بھی اس معاشرے میں آزادی ہوتی ہے۔ ذات پات کا امتیاز نہیں رکھا جاتا۔ بلکہ جہا ں چاہے رشتہ داری طے کر لیتے ہیں۔ جدید معاشرے کے افراد کو معاملات کے تمام جدید ذرائع میسر ہوتے ہیں جن کے استعمال سے نہ صرف لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ زندگی کی آسائشوں کا بھر پور فائدہ بھی اٹھا تے ہیں۔
جدید معاشرہ میں بڑی تیزی سے حرکت پذیری پائی جاتی ہے۔جدید سفری سہولتوں کی بدولت لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ بڑی تیزی سے پہنچ جاتے ہیں۔ اس معاشرے کے افرادکا دیگر ممالک کے ساتھ بڑ ا گہرا رابطہ اور تعلق ہوتا ہے۔یہ رابطہ اور تعلق سیاسی اور کاروباری ہوتا ہے۔ جیسے پاک چائنہ تعلقات، اسلامی ممالک کی تنظیم ، سارک تنظیم اور یورپی یونین وغیرہ وغیرہ۔جدید معاشروں میں چوری ، ڈاکا،قبضہ ،زناء اور اغواء برائے تاوان جیسے جرائم کی شرح بہت زیادہ ہوتی ہے۔اس معاشرے میں عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں اور انہیں معاشروں کی نسبت زیادہ آزادی حاصل ہوتی ہے۔
جدید معاشرہ کی عورتیں تعلیم یافتہ اور باشعور ہونے کے ساتھ سا تھ آزاد خیال بھی ہوتی ہیں۔بعض گھروں میں یہ آزاد خیالی اس قدرزیادہ ہوتی ہے کہ لڑکیاں اور عورتیںمارڈنزم (Modernism) کے نام پر فحاشی کا پرچار کرتی نظر آتی ہیں باریک اور تنگ کپڑے پہن کر دوپٹے سروں سے اتار کر نمائش کا دعوت نظارہ پیش کرتی نظر آتی ہیں چادر جو عورت کی عزت کے ساتھ موسوم کی جاتی ہے عورت نے اتار پھینکی ہے۔گھریلو معاملات میں عورت کے عمل دخل کے بغیر کوئی بات حتمی اور مکمل نہیں ہوتی۔ بچے اللہ کی نعمت سمجھے جاتے ہیں مگر آج کے جدید دور میں اس رحمت اور نعمت کو بھی منصوبہ بندی کر کے"چھوٹا خاندان ،خوشحال گھرانہ"کا اصول اپنا لیا گیا ہے۔
طبقہ اور معاشرہ میں فرق
طبقہ اور معاشرہ دونوں ہی اگرچہ افراد کا گروہ ہیں۔ مگر دونوں میں مماثلت کے ساتھ ساتھ کچھ اختلافات بھی پائے جاتے ہیں۔ جہاں تک مماثلت کی بات ہے دونوں میں افراد پائے جاتے ہیں اور دونوں میں معاشرتی زندگی کے ادارے ہوتے ہیں۔ طبقہ اور معاشرے کے لوگ آپس میں پیارو محبت کے بندھن سے بندھے ہوتے ہیں دونوں کی قومی اقدار ایک جیسی ہوتی ہیں۔ باوجود اس کے بعض معاملات میں اختلافات بھی پائے جاتے ہیں۔ طبقہ چھوٹے سے چھوٹا بھی ہوتا ہے۔ جیسے ایک محلہ ایک بستی یا ایک گاؤں وغیرہ اور بڑے سے بڑا بھی ہوتا ہے۔جیسے ایک معاشرہ یا دنیا کے سارے معاشرے مل کر ایک طبقہ بنتے ہیں۔معاشرہ ایک خاص جغرافیائی حدود میں رہتا ہے جیسے پاکستانی معاشرہ ،سعودی معاشرہ، ایرانی معاشرہ،افغانی معاشرہ وغیرہ جبکہ طبقہ افراد کا ایسا گروہ ہے جو ایک مقام پر رہتے ہوں۔
٭ معاشرہ کے افراد کے مابین نہ جان پہچان اور نہ ہی باہمی میل جول کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
٭ طبقہ کے افراد ایک دوسرے سے جان پہچان بھی رکھتے ہیں اور ایک دوسرے سے خوب روابط رکھتے ہیں۔
٭ معاشرے کے مسائل ملک گیر ہوتے ہیں۔
٭ طبقہ کے مسائل مقامی ہوتے ہیں۔
٭ معاشرے میں قومی اقدار پائی جاتی ہیں۔
٭ طبقہ کے افراد میں قومی اور مقامی دونوں اقدار پائی جاتی ہیں
٭ معاشرے کی ضروریات بہت وسیع ہوتی ہیں۔جو دوسرے معاشروں کی مدد کے بغیر پوری ہونی ناممکن ہوتی ہیں۔
٭ طبقہ عام طور پر اپنی ضروریات میں خود کفیل ہوتا ہے۔
٭ معاشرہ مختلف ذیلی ثقافتوں سے مل کر بنتا ہے۔جیسے سندھی،پنجابی،پختون اوربلوچی ثقافتیں مل کر پاکستانی معاشرہ کی ثقافت تشکیل دیتی ہیں۔
٭ طبقہ ایک خاص ثقافت کا گہوارہ ہوتا ہے۔
٭ معاشرے میں رسمی ذرائع سے سماجی ضبط اور معاشرے میں توازن رکھا جاتا ہے۔
٭ طبقہ میں معاشرتی یا سماجی ضبط غیر رسمی ہوتا ہے۔
باوجود ان اختلافات کے معاشرہ اور طبقہ کا ایک دوسرے کے ساتھ چولی دامن کا تعلق ہے۔
سماجی طبقات کا معاشی حوالہ
معاشرے میں کچھ لوگوں کا مقام و مرتبہ دوسروں سے بلند و اعلیٰ ہوتا ہے اور کچھ پیشہ ور لوگ دوسرے پیشہ ور لوگوں سے زیادہ معتبر اور معزز سمجھے جا تے ہیں اسی طرح کچھ ذاتیں دوسری ذاتوں کے مقابلے میں زیادہ قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔ اس مقام و مرتبے میں اونچ نیچ جو لوگوں کو معاشرے میں حاصل ہے اس درجہ بندی کی بنیاد بنتی ہے۔جس پر معاشرے کو مختلف گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ عام طور پر معاشرے کو تین بڑے گروہوں یا درجوں میں تقسیم کیا جاتاہے۔ جنہیں اعلیٰ، متوسط اور ادنیٰ درجہ کہتے ہیں۔ہر درجہ کے فر د تقریباً یکساںمعاشی رتبہ رکھتے ہیں۔ جیسے ہمارے معاشرے کے اعلیٰ درجے میں بڑے زمیندار ، کارخانہ دار، اعلیٰ درجہ کے ملازمین، علماء اور دینی بزرگ وغیرہ شامل ہیں۔درمیانے درجے میں چھوٹے زمیندار ، چھوٹے تاجر و دکاندار، متوسط طبقہ کے ملازمین ،فنی و نیم فنی مزدوروغیرہ شامل ہیں۔جبکہ ادنیٰ درجے میں معمولی دوکاندار ، مزارع، غیر فنی مزدور، بے روزگار اور ادنیٰ درجے کے ملازمین وغیرہ شامل ہیں۔
سماج کے اعلیٰ درجے میں شامل بڑے بڑے جاگیر داراور زمیندار،کارخانہ دار ،فیکٹری مالکان، اعلیٰ عہدوں پرفائز سول اور فوجی افسران بالاشامل ہیں انہیں زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے میں کسی قسم کی مشکل نہیں ہوتی۔ ان کے بچے تعلیم حاصل کرنے بیرون ملک جاتے ہیںجو اپنے بچوں کو بیرون ملک نہیں بھیجنا چاہتے ان کے پاس وافر وسائل کی موجودگی ان کے بچوں کو اپنے ملک کے مہنگے ترین اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم مہیا کرواتی ہے۔ ایسے لوگ اپنے علاج و معالجے کے لئے پرائیویٹ اور مہنگے ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔جہاں ہسپتال تمام تر سہولیات سے مزین ہوتے ہیں۔اس درجے کے لوگوں نے اتنی دولت اکٹھی کر رکھی ہے کہ اکثرنے بیرون ملک میں اپنے کاروبار اور کمپنیاںبنائی ہوئی ہیں۔ ان کا مقصداپنی تجوریاں بھرنا اور پر آسائش زندگی گزارنا ہے۔بڑے بڑے ہوٹلوں میں دعوتیں اور تقریبات کا انعقاد کر کے یہ لوگ اپنی امارت کا حساس دلاتے ہیںمگر ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے۔اگر یہ کہا جائے کہ یہ ملک کے وسائل پر قابض ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔
سماج کے درمیانے طبقے میں چھوٹے زمیندار ، چھوٹے دوکاندار ، تاجر،متوسط طبقے کے لوگ، فنی اور نیم فنی مزدور حضرات شامل ہیں۔یہ لوگ اگرچہ پر تعیش زندگی تو نہیں گزارتے مگر خوشحال زندگی ضرور گزارتے ہیں۔بچوں کے لیے بیرون ممالک کی یونیورسٹیا ں نہ سہی مگر اچھی شہرت کے حامل تعلیمی ادار وں میں متبادل تلاش کر لیتے ہیں۔ علاج و معالجہ بھی اچھے اور معیاری ہسپتالوں میں کروا سکتے ہیں۔ملازمت پیشہ لوگ رشوت لینے کے عادی ہو جاتے ہیں اور پیسے کی خاطر قومی فریضہ بھول جاتے ہیں۔ درمیانے درجے کے لوگوں کو معاشرے میں اپنا مقام و مرتبہ بنانے کے لیے سخت محنت اور جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ ملک کی آبادی کے لحاظ سے ان کی تعداد اعلیٰ درجے کے مقابلے میں کافی زیادہ ہوتی ہے۔
ادنی درجے میں مزارع ، معمولی دوکاندار ،غیر فنی مزدور، بیروزگار اورادنیٰ درجے کے ملازمین وغیرہ شامل ہیں۔ ملکی آبادی کا زیادہ تر حصہ ایسے لوگوں پر مشتمل ہے۔ جنہیں نہ تو اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کے مواقع میسر آتے ہیں اور نہ صحت کی سہولیات میسر ہوتی ہیں ۔ جاگیر دار اپنی برتری قائم رہنے کے لیے اپنے علاقوں میں سکول قائم نہیں ہونے دیتے کہ غریب کے بچے پڑھ لکھ کر ان کے مد مقابل نہ آ جائیں۔بے روز گاری اور غربت کے مارے یہ لوگ چوری اور ڈاکے ڈالنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس طرح معاشرے میں برائیوں کی شرح بڑھتی جاتی ہے۔
کئی خاندانوں میں جہیز نہ ہونے کی وجہ سے بیٹیوں کی شادی نہیں ہو پاتی اور وہ والدین کی دہلیز پر پڑی رہتی ہیں۔ سیاستدان ووٹ ملنے کے دنوں میں ان کی زندگیاں بدلنے کے لیے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں مگر ووٹ لینے کے بعد وہ اپنے وعدوں کو عملی جامہ نہیں پہناتے اور وعدے صرف زبان تک ہی رہ جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ادنیٰ درجے کے لوگوں کے مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے جاتے ہیں اور وہ لوگ زندگی کی راہوں میں پستے رہتے ہیں۔
پاکستانی سماج میںمعاشی امتیاز:
سماج کی پیداواری سرگرمیوں میں وہ تمام عوامل شامل ہیں جن کے نتیجے میں مال اور خدمات پیدا کی جاتی ہیں۔ہر علاقے کے ماحول اور حالات کے مطابق پیداواری سرگرمیاں وجود میں آتی ہیں۔دیہی زندگی کی پیداوای سرگرمیاں شہری زندگی کی سرگرمیوں سے مختلف ہیں ۔ صرف زراعت ہی وہ پیشہ نہیں ہے جس میں معاشی سرگرمیاں پائی جاتی ہیںبلکہ زراعت سے متعلق اور بھی پیشے ہیں جیسے لوہار ، ترکھان، موچی، نائی، کمہار، زرعی مزدور وغیرہ جو تمام کسی نہ کسی صورت میںکسان کے معاون ہوتے ہیں اور اس کے لیے خدمات سر انجام دیتے ہیں۔ اس کی ضروریات زندگی پوری کرتے ہیںاور وہ عام طور پر فصل کے موقع پر کچھ حصہ دے کر ان کا معاوضہ ادا کرتا ہے۔اسی طرح سرکاری ملازمین کا ایک گروہ بھی کاشتکاری کی خدمات کے لیے مقرر ہوتا ہے۔جیسے سکول کا استاد، نہری ومالی پٹواری، زراعت انسپکٹر اور ڈنگر ڈاکٹر وغیرہ وہ سرکاری ملازمین ہیں جن کے بغیر کاشتکای کا نظام نہیں چل سکتا۔ نمبردار بھی کاشتکاری سے معاملہ وصول کر کے سرکاری خزانے میں جمع کرواتا ہے اور ان کے جھگڑے وغیرہ طے کرنے میں معاون ثابت ہوتاہے۔گاؤں کا دوکاندار کاشتکار کے لئے نہایت اہم ہوتا ہے۔ کیونکہ عام ضرورت کی چھوٹی چھوٹی اشیاء اسے وہیں سے دستیاب ہو جاتی ہیں۔معمولی چیزوں کے لیے اسے شہر نہیں جانا پڑتاہے۔اس طرح یہ سب لوگ مل کر کاشتکاری کی ضرورت وہاں پر ہی پوری کر دیتے ہیں ، جس سے مطمئن ہو کر وہ اپنا کام کر تارہتا ہے۔دیہی معاشرہ میں پیشے سادہ اور محدودہیں کیونکہ دیہی معیشت سادہ اور ایک ہی قسم کی ہے۔
شہری زندگی میں پیشے پیچیدہ اور بے شمارہیں ۔دیہی ماحول میں پیشے کے چناؤ میں مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ عام طور پر لوگ جدی پیشہ اختیار کر تے ہیں۔پیشے تبدیل بھی کیے جا سکتے ہیں مگر اس کے لیے زیادہ محنت درکار ہوتی ہے۔ تعلیم حاصل کر کے ایک مراسی کا بیٹا ڈاکٹر ، پروفیسر، انجینئر، جج، وکیل، یا بڑا کاروباری آدمی بن سکتا ہے۔ زرعی و دیہی سماج اور صنعتی و کاروباری سماج ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔
فرد اور سماج
فر د اور سماج ایک دوسرے کے لیے نا گزیر ہیں۔ نہ توسماج کا تصور فرد کے بغیر ممکن ہے اور نہ فردسماج کے بغیر اپنی ضروریات اور خواہشات کو پورا کر سکتا ہے۔ اس لحاظ سے فرد اورسماج کا دو رخی تعلق ہوتا ہے اور اگر ہم فرد اور سماج کی اہمیت کو ایک دوسرے کے بغیر سمجھنے کی کوش کریں گے تو وہ صریحاً غلط ہو گا۔ فرد سماج میں رہ کر ہی " انسان"کہلا سکتا ہے۔ یہ ضرور ہے کہ انسان میں مخفی صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ لیکن ان مخفی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں سماج زبردست محرک ثابت ہوتا ہے۔
ہم ایسے تجربے کا خیال بھی نہیں کر سکتے کہ انسان کے بچوں کو سماج کے ماحول سے جدا کر کے ان کی جسمانی، ذہنی اورنفسیاتی نشو و نما کا مشاہدہ کر سکیں۔ شعوری طور پر اس قسم کا تجربہ تو ممکن نہیں لیکن البتہ بعض حادثات اور واقعات ایسے ضرور پیش آئے ہیں کہ جب چند انسانی بچوں کی نشوونما غیر صحت مندانہ اور غیر انسانی ماحول میں ہوئی۔اکثر سماجیات کی کتابوں میں ان بچوں کی مثالیں بکثرت دی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک لڑکا تو سیاسی حادثے کا شکار ہوا۔ دوسرا کیس ان دو بچیوں کا ہے جو بھیڑیے کی گود میں پائی گئیں اور تیسرا کیس اس لڑکی کا ہے جس کی پیدائش نا جائز تھی 1828ء میں شہر نیو ریمبرگجرمنی میں ایک سترہ سال کے لڑکے کا پتہ چلا تھا جو بمشکل کھڑا ہو سکتا تھا اور جس کی دماغی صلاحیت بچوںکی طرح تھی۔یہ لڑکا سیاسی حادثات کا شکار تھا۔ بچپن سے اسے ایک کسان کے گھر رکھا گیا تھااور کسان کو سختی سے تاکید کی گئی تھی کہ اس لڑکے کی پرورش ایک مقفل کمرے میں کی جائے۔ اسی کمرے میں کاسپر ہاؤزر(Kasper Houser)کی زندگی کے سترہ سال بیت گئے۔ جب اسے رہا کیا گیا۔ تو وہ صرف پانچ سال زندہ رہ سکا۔ مرنے کے بعد اس کے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ سے ظاہر ہوا کہ اس کا دماغ سب نارمل ( normal sub) تھا۔ اس لحاظ سے اس لڑکے جس کا نام کاسپر ہاؤزر(Kasper Houser) تھاکو سماجی تعلقات سے محروم کر کے اس کی جسمانی ، نفسی اور ذہنی نشوونما کو کچل دیا گیا تھا۔
1920ء میں دو لڑکیوں املا اور کملا کا ایک بھیڑ کی گود میں ہونے کا پتہ چلا۔املا دوسال کی اور کملا آٹھ سال کی۔ املا تو بہت جلد مر گئی لیکن کملا نوسال زندہ رہی۔جانوروں کے ساتھ ربط کی وجہ سے کملا کے طور طریقے بالکل غیر انسانی تھے۔ وہ چوپایوں کی طرح چلتی اور بھیڑیوں کی طرح چیختی تھی اور انسانوں سے اس طرح گھبراتی تھی جس طرح جانور گھبراتے ہیں ۔ اسے پکی ہوئی غذا کے مقابل میں ہڈیاں اور کچا گوشت زیادہ پسند تھا۔ غذا کو منہ تک پہنچانے میں وہ ہا تھ کاا ستعمال نہیں کرتی تھی۔بلکہ جانوروں کی طرح منہ سے چاٹ لیتی تھی۔لیکن جب اسے انسانوں کے ساتھ رکھا گیا اور آہستہ آہستہ اسے انسانی سماج کے طور طریقوں سے واقف کروایا گیا تو کھانے پینے، پہننے، رہنے سہنے اور میل ملاپ کے طریقوں میں تبدیلی آنے لگی۔ وہ مرنے سے پہلے کچھ بات بھی کرنے لگی تھی۔
1838ء میں سماجیات اور نفسیات کے ماہرین کو ایک 5 سالہ لڑکی "اینا(Anna)"کا پتہ چلاجو ناجائز تعلقات کا نتیجہ تھی۔ جس کی بنا پر اس کی ماں نے اسے ایک کمرے میں مقفل کر دیا تھا۔ لہٰذا اینا کا ربط اپنی ماں سے جو رہا جو اسے دودھ پلانے کی غرض سے کمرے میں جاتی تھی۔ اس ظالمانہ سماجی علیحدگی کی بنا پر اینا نہ تو بات کرنے کے قابل تھی اورنہ ہی چل پھر سکتی تھی اور انسانوں سے بہت گھبراتی تھی۔ان تمام کیسوں سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ سماج سے علیحدگی کا نتیجہ انسان کو ان تمام صلاحیتوں سے محروم کر دیتا ہے جوسماج میں زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہیں۔وہ جسمانی طور پر آدمی کی اولاد ہوتے ہوئے بھی نہ تو بات چیت کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں اور نہ اپنا جسم ڈھانپنے کا انہیںاحساس ہوتا ہے۔نہ کھانے پینے کا ڈھنگ اورنہ زندگی گزارنے کا کوئی اندازہنہ تو ان لوگوں کی صحیح جسمانی نشوونما ممکن ہے اور نہ نفسی اور ذہنی۔ یہ سماجیت اور اکتساب کے طریق کا اثر ہے کہ ایک حیاتیاتی عضو کو یہ سماجی عضو میں تبدیل کیا جاتا ہے۔جس کی بدولت شخصیت کی نشونما ہوتی ہے۔جسے یہ فضا ء یا سماجی ماحول میسر نہیں آتا تو وہ جانور وں کی طرح زندگی گزار تا ہے۔ غرض ہماری بول چال، رہن سہن، میل جول کے طریقے ، انداز فکر سب ہی سماجی بین عمل اور سماجی ربط کا نتیجہ ہیں۔
فرد بذات خود نہ تو ابتدا ہے اور نا انتہا بلکہ اس کی حیثیت سماج کی کڑی میں پروئے ہوئے دانوں کی ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے ہمارا تعلق سماج سے صرف اتنا نہیں ہوتا جتنا بیج کا زمین سے ہوتا ہے اور جب پودا اگ جاتا ہے۔ اور اسے دوسری طرف آسانی سے منتقل کر دیا جاتا ہے۔ لہٰذا انسان کی نشوونما کے لیے سماج کا وجود ضروری ہے اور وہ سماجی ورثہ اہم ہے۔جو برس ہا برس کے تجربوں کا نچوڑ ہوتا ہے اور وہ تمام افراد اور ذرائع جو قدم قدم پر شخصیت کو ڈھالنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔غرض انسان کی نشوونما جس حد تک سماجی ورثے پر منحصر ہے اس سے ارسطو کے قول کی تائید ہوتی ہے کہ"انسان سماجی حیوان ہے"
سماجی زندگی کی خواہش ایک جبلت ہے جو قدرت نے انسانی فطرت میں داخل کر دی ہے اور وہ شخص جو سماجی زندگی پسند نہ کرے اور جسے حاجت نہ ہو وہ دیو ہے یا دیوتا ہے۔انسان جب تک سماج میں نہیں رہتا ۔ اس وقت تک اس کی سرشت میں جو قوتیں مضمر ہیں وہ پوری طرح ظہور میں نہیں آ سکتیں اور نہ اس کی زندگی مکمل ہو سکتی ہے۔ سماجی زندگی کی جبلی خواہش شہد کی مکھیوں اور غول میں رہنے والے جانوروں میں بھی ہوتی ہے مگر وہ سماجی حیوان اس لیے نہیں کہلا سکتے کہ ان میں " ہم شعور(conscious of kind)" نہیں پایا جاتا جو سماجی زندگی کی بنیاد رکھتا ہے۔ انسان زندگی کی تشکیل کے لیے سماج اور سماجی زندگی کا ہونا ضروری ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ تعلق دو رخی ہوتا ہے بلکہ جس طرح افرا سماج سے اثر قبول کرتے ہیںاسی طرح افراد کا انداز فکر ، ان کی جدوجہد ، ان کے کارنامے سماج کے رخ کو پلٹا دیتے ہیں افراد کے بغیر کوئی سماجی قوت کام نہیں کر سکتی۔
افراد کی دلچسپیاں ،ان کے رجحانات اور ملانات ،ان کی امیدو بیم سماج کے افعال اور ،قاصد کا یقین کرتے ہیں۔افراد اپنی مختلف صلاحیتوں کی بنا پر سماجی ورثے میں اضافہ کرتے ہیں۔ مثلاً ادیب ،ڈاکٹر ،،انجینئر،فن دان، سائنسدان،مصور،موسیقار غرض سب ہی اپنی نجی صلاحیتوں کی بنا پر سماجی زندگی کے معیار کواونچا کرتے ہیںاور آنے والی نسلوں کے لیے ایسا سماجی ورثہ چھوڑ جاتے ہیں، جس سے وہ مستفید ہوتے ہوئے اس میں مزید اضافہ کرسکتے ہیں۔ کبھی کبھی افراد اور سماج میں تصادم بھی ہوتا ہے۔ خصوصاً جب انفرادیت کے حامی سماج کے مروجہ طور طریقوں کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں جس کی وجہ سے سماج کے معیاروں اور قدروں میں رد و بدل ہوتا رہتا ہے۔
سماج کے نظریے( Society of Theories)
سماج کی ابتدا کے بارے میں جو نظریے پیش کیے گئے ہیں ان میں تین نظریے بہت اہم ہیں۔
1- نظیریہ معاہدہ(Contract Theory)
2- نظریہ عضویت(Organismic Theory)
3- نظریہ اجتماعی شعور(Group-mind Theory)
1۔نظریہ معاہدہ(Contract Theory)
نظریہ معاہد ہ سماج کی ابتداء کے بارے میں جونظریہ معاہدہ پیش کیا گیا ہے۔اس سلسلے میں تھامس ہابس(Thomas Hobbes 1588-1673)جان لاک(John Lock 1632-1704)اور ڑان ڑاک روسوک(Jean Jacques Rousseau 1712-1778)کے خیالات غور طلب ہیں۔ہابس کی مشہور تصنیف"LAVIATHAM" ہے، جس کا لفظی معنی "بڑا کبری جہاز"ہیں۔ مگر ہابس کی مراد ایک عظیم الشان ہستی ہے،جو بہت سی ہستیوں کے ایک میں ملنے سے بنی ہو۔ یہ کتاب جس میں قانون فطرت اور سماجی معاہدے کے نظریے سے بحث کی گئی ہے۔1651ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں ہابس نے انسانی سرشت کی عام خصوصیتیں بیان کی ہیں۔
ہابس کا کہنا ہے کہ فطرت نے تمام انسانوں کو ذہنی اور جسمانی قوت کے لحاظ سے یکساں بنایا ہے۔ چونکہ سب کے استعداد کم و بیش برابر ہوتی ہے۔ اس لیے سب کی خواہشیں اور انہیں پورا کرنے کی امید بھی برابر ہوتی ہے۔ لیکن انسان کی سرشت ایسی ہے کہ یہ مساوات ہی دائمی فساد کا باعث ہوتی ہے۔ کوئی شخص اپنے آپ کو کمتر ماننے پر راضی نہیں ہو سکتا۔ بلکہ وہ چاہتا ہے کہ اس کی برتری تسلیم کر لی جائے۔ کیونکہ ہر ایک کو بڑابننے کا شوق ہوتا ہے۔ لیکن ساری امیدوں اور آرزوؤں کا اانحصار ہر شخص کی اپنی قوت پر ہوتا ہے۔کوئی کسی پر بھروسہ نہیں کرتا بلکہ ہر ایک کو ہر وقت یہ اندیشہ رہتا ہے کہ اس کی جان نہ چلی جائے یا اس کی سب سے عزیز ملکیت چھن جائے گی۔یہ ایسی صورتحال ہوتی ہے جس میں ہر شخص دوسرے کا دشمن ہوتا ہے۔کیونکہ جنگ صرف اسی حالت کو نہیں کہتے جب لڑائی ہور ہی ہو اصل میں جب تک یہ طے نہ ہو جائے کہ امن قائم ہو گیا ہے اور اسے قائم رکھنے کا کوئی ذمہ دار ہے تب تک جنگ کی حالت رہتی ہے اور اس حالت میں انسان علم، فن، آسائش اور زندگی کی ہر قابل قدر نعمت سے محروم رہتا ہے۔یہ نعمتیں اسی وقت حاصل ہو سکتی ہیں جب تک انسان کو جان مال کا خطرہ نہ ہو۔جنگ کی حالت میں انسان کی زندگی بے مایہ ، تلخ ، بہیمانہ اورمختصر ہو جاتی ہے۔ لہٰذا ہر شخص اپنی قوتوں کو جس طرح چاہے اپنی جان کی حفاظت کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اس حالت کو مد نظررکھتے ہوئے ہابس نے "فطرت کے قانون(Nature right)" کا اصول پیش کیا ہے۔
قانون فطرت وہ اصول یا عام قاعدہ ہے۔ جسے عقل نے دریافت کیا اور جس کے مطابق انسان کے لیے ایسا رویہ ممنوع قرار دیا جاتا ہے جو اس کی زندگی کے لیے مہلک ہو یا جس میں اس کی حفاظت کے بہترین ذریعے نظر انداز کر دیئے جائیں۔انسان کی سرشت کی ایک نمایاں خصوصیت جسے ہابس نے پہلے فنی طور پر اور بعد میں بڑے شدو مد کے ساتھ بیان کیا ہے۔ وہ خوف ہے۔ اگر خوف نہ ہوتا تو مستقل جنگ کی حالت انسان کو ناگوارہی نہ ہوتی۔ وہ سماج اور سیاسی زندگی کی پابندیوں کو کسی طرح برداشت کرنے پر آمادہ نہ ہوتا۔ان جذبات میں سے جو انسان کو امن کی طرف مائل کرتے ہیں ۔ ایک توموت کا ڈر ہے، دوسرے ان چیزوں کی خواہش جو آسودہ زندگی کے لیے ضروری ہیں اور تیسرے اس کی یہ توقعات کہ یہ چیزیں محنت کے ذریعے حاصل ہو جائیں گی۔ عقل امن و امان کی مناسب شرطیں پیش کرتی ہے جن کو ماننے کے لیے لوگ آمادہ کیے جا سکتے ہیں۔
یہی ہابس کے نزدیک سماجی معاہدے کی اصلیت ہے۔ لہٰذا انسان اپنی سلامتی کی نیت سے جو عہد یا وعدہ کرے اس کی پابندی لازمی ہے۔ چاہے اس کا سبب دباؤ اور خوف ہی کیوں نہ ہو۔مثلاً اگر کوئی قیدی اپنی جان بچانے کے لیے پیسہ دینے یا کسی اور چیز کا وعدہ کرتا ہے تو یہ باقاعدہ معاہدہ اسے ضرور پورا کرنا چاہئے۔ اس سلسلے میں ہابس معاہدے کی تعریف بھی کرتا ہے۔ معاہدے کے معنی ہیں دو یا دو سے زیادہ اشخاص کے درمیان حقوق کا مبادلہ جس کی ایک صورت یہ ہے کہ بہت سے لوگ کسی ایک بات کا عہد و پیما ںکر لیں اور اس کی پابندی کریں۔جان لاک نے ہابس کے جواب میں فطری زندگی کا نقشہ بالکل مختلف رنگ میں کھینچا ہے اور قانون فطرت کی جدا گانہ طرز پر تعریف کی ہے۔ اس کے نزدیک فطری زندگی میں ہر طرح کا اطمینان ، آسودگی اور آزادی میسر تھی۔
قانون فطرت جس کا قانون یہ ہے کہ انسان دوسرے انسان کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرے جیسا کہ وہ چاہتا ہے کہ دوسرے اس کے ساتھ کریں۔ لوگوں کو فساد سے محفوط رکھتا ہے۔ہر شخص کے دل میں اس قانون کی قدر ہوتی ہے اور صرف وہ ہی اس پر عمل نہیں کرتا بلکہ دوسروں سے بھی جہاں تک ممکن ہو سکے اس کی پیروی کراتا ہے۔خالص نقطہ نظرسے فطری زندگی کی دو خصوصیات سب سے زیادہ نمایاں ہوتی ہیں۔ انفرادی آزادی اور ملکیت کا حق جسے سب یکساں تسلیم کرتے ہیں۔ جب سماج قائم کیا جاتا ہے تو فطری زندگی کی یہی دو خصوصیات ہیں جن کا باقی رکھنا مقدم سمجھا جاتا ہے اور اجتماعی معاہدے طے کرتے وقت لوگوں کوانہی کی سب سے زیادہ فکر ہوتی ہے۔ سماج قائم کرنے کی ضرورت اس وجہ سے نہیں ہوتی کہ لوگ فطری زندگی سے بیزار ہو جاتے ہیںبلکہ صرف اس غرض سے کہ آپس میں انصاف کرنے کا بہترنظام قائم ہو جائے۔ہر شخص کا ضمیر اسے قانون فطرت کی پابندی کرنے پر مجبور کرتا رہتا ہے۔ لیکن ضمیر خواہ کتنا ہی بیدار ہو اس کے لیے اپنے معاملات میں خود انصاف کرنا بہت دشوار ہو جاتا ہے۔ یہ بھی نہ ممکن ہے کہ عام انسانی سرشت اتنی نیک ہو جائے کہ دنیا میں مفسد باقی نہ رہیں۔اس لیے فطری زندگی میں بھی ہر شخص اپنی جگہ منصف اور محافظ امن کے فرائض انجام نہیں دے سکتااور اس کی ضرورت پڑتی ہے کہ عدل و انصاف کے قیام اور جان و مال کی حفاظت کے لیے کوئی انتظام ہو۔اس لیے انسان اپنی فطری حقوق کے تحفظ کے لیے سماجی معاہدے میں داخل ہوتا ہے۔ حکومت اور قانون سازی کے ادارے قائم کرتا ہے۔
لاک نے اجتمائی معاہدے کی شرطیں بیان نہیں کی ہیں۔اس وجہ سے لاک کی نظر میں معاہدے اور اس کی شرطوں سے زیادہ اہم حاکموں کے درمیان حقوق اور اختیارات کی تقسیم ہے۔ ان کا کام جان، مال اور انفرادی آزادی کا تحفظ وغیرہ کا انتظام اور ایسے قانون وضع کرنا ہے۔ جن میں قانون فطرت ایک معین حاکم کی حیثیت ایک اعلیٰ خادم کی سی ہے۔ اسے اپنے اقتدار کو اپنی رعایا کی دین سمجھ کر ان کا احسان ماننا چاہئے۔ حاکم ہر طرح سے پابند ہوتا ہے۔رعایا کسی اعتبار سے پابند نہیں ہوتی اور اسے ہر وقت اس کا حق حاصل ہے کہ حاکم کو معزول کر دے۔
ہابس نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی تھی کہ اگر حکومت کی اقتدار میں کمی ہو جائے یا رعایا نے اس کی باقاعدہ مخالفت شروع کر دی تو سماج اور ریاست دونوں تباہ ہو جائیں گے۔ لاک کا عقیدہ تھا کہ حاکم بدلنے سے سماج منتشر نہیں ہو جا تا۔ بس ایک شخص یا چند اشخاص کی بجائے حکومت کے فرائض کی انجام دہی دوسرے لوگوں کے سپرد کر دی جاتی ہے۔ حکومت کو قائم رکھنے کے لیے رعایا کا کسی قسم کے ایثار کا مطالبہ کرنا بے جا ہے۔حاکم کو کسی حالت میں رعایا کی جان تو بڑی بات ہے۔ اس کے مال تک کوئی اختیار نہیں ہو سکتا۔ افراد کی خواہشوں اور ان کے حقوق کا لحاظ کرنا ہر صورت میں ان کا فرض ہوتا ہے۔ اگر فطری زندگی کا وہ خاکہ جو لاک نے پیش کیا ہے۔ صحیح مان لیا جائے اور فرض کر لیا جائے کہ انسان بغیر کسی خارجی دباؤ کے آسودگی سے زندگی گزار سکتے ہیں اس لیے ان کی سرشت میں فطرت نے صلاحیت رکھی ہے اور قدرت نے اس کے قوانین کو جن پر ایسی زندگی کا دارومدار ہوتا ہے۔ پیدائش کے ساتھ ہی انسان کے ذہن میں ودیعت کر دی ہے تو پھر یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ سماجی معاہدے اور سیاسی ادارے کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے۔
لاک نے اس کا سبب بتایا ہے کہ راست روی کی عام خواہش کے باوجودآپس کے تعلقات میں ایسی پیچیدگیاں پیدا ہو جایا کرتی ہیںکہ عدالتی فیصلے کی ضرورت ہوتی ہے اور انسا ن خواہ دوسروں کے معاملات طے کرنے میں کتنا ہی موقع شناس اور راست باز ہو۔ذاتی مفاد ات اور معاملات میں اسے اپنی غیر جانبداری پر یقین نہیں رہتااور وہ چاہتا ہے کہ اپنے معاملات میں کسی غیر شخص سے فیصلہ کرائے۔
لاک کا کہنا ہے کہ سماج میں خواہ وہ مفسدوں سے کتنا ہی پاک ہو۔چند ایسے لوگ پیدا ہو جاتے ہیں جو عام معیار کی پابندی نہیں کرتے۔ ایسے لوگ فطری دور میں بھی تھے۔ بجائے اس کے کہ ہر شخص اپنی قوت بازو سے اپنے حقوق کا تحفظ کرے اور دوسرے لوگوں کی بھی مدد کرے۔یہ زیادہ مناسب سمجھا گیا کہ سب مل کر ایک معاہدہ کر لیں جس سے سب کو یکساں فائدہ پہنچے۔
روسو کی آرزو تھی کہ تہذیب ان امراض سے پاک کر دی جائے۔جو اس میں پیدا ہو گئے ہیں۔ وہ زنجیریں توڑ دی جائیں جنہوں نے انسان کو اور اس کی طبیعت کو بالکل جکڑ دیا ہے۔ ایسی نیت سے پہلے تہذیب پر حملہ کیا۔ روسو اور اس کے مداحوں کے نزدیک فطری حالت کی طرف واپس جانے کے معنی یہ تھے کہ زندگی کے لیے نئے اور بہتر اصول اختیارکیے جائیں۔ انسانوں کی تقسیم خواص اور عوام میں نہ کی جائے۔ شہریوں کی حیثیت سے سب کا مرتبہ برابر ہو اور سیاسی زندگی کے معنی شرفا اور درباریوں کی خوشامد اور حاکموں کی زیادتیوں کو برداشت کرنانہ ہو بلکہ ایک اجتماعی جدوجہد میں شریک ہونا اور فرائض عامہ کو انجام دینا ہو۔
روسو کہتا ہے کہ ہمیں ہابس کی طرح یہ نہ طے کر لینا چاہئے کہ نیکی کا کوئی تصور نہ ہونے کی وجہ سے انسان لازمی طور پر برا ہو گا۔ انسان آزاد تھا، بے پرواہ تھا، نہ دکھ سہتا تھا، نہ دکھ پہنچاتا تھا، اس کی ضرورتیں اور ضرورتوں کو پورا کرنے کے طریقے دونوں محدود تھے لیکن وہ اس حالت میں قائم نہیں رہ سکتا تھا۔ انسان اور حیوان میں بنیادی فرق یہ ہے کہ انسان صاحب اختیار ہوتا ہے۔ جبلی خواہشوں کے علاوہ اس میں اپنا ارادہ ہوتا ہے۔ انفرادی اور اجتماعی حیثیت سے ترقی کرنے اور درجہ کمال تک پہنچنے کی استعداد ، آب و ہوا اور دوسرے نظری محرک انسانوں کو اپنے قوت ایجاد کو کام میں لانے اور اپنی زندگی کو بہتر بنانے پر مجبور کرتے ہیں۔ رفتہ رفتہ وہ باہمی امداد کی قدر کو پہچاننے لگتے ہیں۔
سماجی معاہدے سے متعلق ہابس ،لاک اور روسو کے جو خیالات پیش کیے گئے ہیں۔ ان میں بنیادی عنصر یہی ہے کہ سماج کے وجود میں آنے کی وجہ سے زندگی میں نظم و تربیت پیدا ہوتی ہے۔سماج کی نشوونما اور اس کی ترقی میں انسا نی سعی کا بڑا دخل ہے۔ انسان کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ انصاف، امن اور آزادی کے پیش نظر سماج کے ارکان کے درمیان مساوات اور ہم آہنگی کو برقرار رکھے۔
2۔نظریہ عضویت( Organism of Theory )
عضویت کا نظریہ بہت پراناہے۔ زمانہ قدیم سے مغرب اور مشرق کے مفکرین اس نظریے سے متعلق غور و حوض کرتے رہے ہیں۔ جن میں افلاطون،ا رسطو، روسو اور کوٹلیا بہت مشہور ہیں۔ ان تمام مفکرین نے ریاست کو ایک عضویہ قرار دیا ہے۔
اسپنسر 1820ئ-1930ء نے اس نظریہ کا اطلاق وسیع پیمانے پر کیا ہے۔ اس کا خیال تھا کہ ریاست ہی نہیں بلکہ سماج ایک مثل جاندار شے کے ہے۔ جس طرح ایک حیاتیاتی عضویے کی بقاء کا دارومدار تمام اعضا کی موجودگی اور صحت پر مبنی ہوتا ہے اس طرح سماج کا وجود تمدن کے دوسرے اجزا کے وجود کا مرہون منت ہے۔اسپنسراپنی بحث اس مفروضے سے شروع کرتا ہے کہ سماج اور حیاتیاتی عضویہ ہے۔ اس مفروضے کی وہ منطقی توجیہہ بھی کرتا ہے۔ جسے بعد کے مفکرین ایک سائنسی غلطی قرار دیتے ہیں۔
اسپنسر سماج اور حیاتیاتی عضویے میں جن مشابہتوں کا ذکر کرتا ہے وہ یہ ہیں:
1- انسان سماج اور حیاتیاتی عضویوں میں بتدریج نشوونما ہوتا ہے۔
2- انسانی سماج اور عضویوںمیں یہ خصوصیت مشترک ہے کہ دونوں کا اجزا ایک دوسرے پر منحصر ہوتے ہیں۔
3- انسانی سماج اور حیاتیاتی عضویوں کے مختلف اجزا آزادانہ طور پر اپنا فعل بھی انجام دیتے ہیں اور ایک دوسرے سے مدد بھی لیتے ہیں۔ نظریہ عضویت کی تشریح کرتے ہوئے اسپنسر صرف مشابہتوں کا ذکر نہیں کرتا بلکہ ان دونوں میں جو برہمی فرق پایا جاتا ہے ان کی بھی وضاحت کرتا ہے۔
1- سماج کی کوئی مخصوص اور واضح شکل نہیں ہوتی۔
2- سماج کی اکائیاں کوئی خاص مقام پر نہیں پائی جاتیں اور نہ وہ ایک دوسرے سے پیوست رہتی ہیں۔
3- سماج کے اجزا میں نسبتاً زیادہ حرکت پذیری پائی جاتی ہے۔
سماج کا ہر فرد احساسات اور فراست کا ایک مرکز ہوتا ہے۔ اسپنسر کا خیال تھا کہ مشابہتوں سے زیادہ سماج اورحیاتیاتی عضویوں میں جو فرق پایا جاتا ہے وہ بہت زیادہ نمایاں ہے اور اہم بھی۔ اس لحاظ سے سماج کومحض عضویہ ہی نہیںبلکہ اگرہم اسے فوق عضویہ(Super Organism)قرار دیں تو کوئی غیر معقول بات نہیں ہو گی۔
اسپنسر اپنے مفروضے کی تشریح کرتا ہے۔ اس کا خیال تھا کہ ہر سماج کا ایک طاقت بخشنے والا نظام ہوتا ہے، دوسرا تقسیمی اور تیسرا تنظیمی نظام جس کی مشابہت ہم کو حیاتیاتی عضویوں میں تفذیہ ، دوران خون اور عصبی نظام میں دکھائی دیتی ہے۔ سماج کے طاقت بخش نظام میں اسپنسر ان تمام پیدا وار صنعتوں کو داخل کرتا ہے۔ جو سماج کی زندگی کی بقا کے لیے مادی دولت پیدا کرتے ہیں۔ تقسیمی نظام میں حمل و نقل اور رسل و رسائل کے ذریعوں کا شمار کرتا ہے اور تنظیمی نظام میں گورنمنٹ کے تمام آرگن شامل ہیں جو تمام افراد کی جان اور مال کی حفاظت کرتے ہیں۔ ملک میں امن و امان قائم رکھتے اور افراد کو استحصال سے محفوظ رکھتے ہیں ۔
سماجیت کے وہ مفکر کونت (Cemte) اور اسپنسر کے پیرو کار تھے۔ انہوں نے ان خیالوں کو بڑے شد و مد سے تائید کی جن کی وجہ سے بعد میں بہت اعتراضات ہوئے۔
حیاتیاتی عضویوں کی مدت معین ہوتی ہے۔ پرانے زمانے سے یہ خیال چلا آ رہا ہے کہ انسان کا دور حیا ت ستر سالہ‘‘Three Score and Ten’’ہے۔ انسان کی جسمانی نشوونما اور دماغی پختگی کا بھی تعین ہو چکا ہے۔جس طرح سے کہ اس کی اوسط عمر کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ اس کے برخلاف سماجی عضویہ کے دور حیات کا تعین نہیں کیا جا سکتا۔اس کی نہ تو اوسط عمر ہوتی ہے اور نہ انتہائی عمر۔
مثال کے طور پر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں تعلیمی ادارے کی عمر یہ ہو گی اور اس کی انتہا ئی عمر یہ ہو سکتی ہے۔ برس ہا برس سے روئے زمین پر قدیم ترین تعلیمی ادارے موجود ہیں۔یہی حال مختلف مذاہب کا ہے۔ مختلف حکومتوں کا ہے۔ مختلف علوم و فنون کا ہے۔اس لحاظ سے سماجی اداروں کی مدت حیات معین ہوتی ہے۔
حیاتیاتی عضویوں میں خلیے(Cells) مستقل طور پر ایک جگہ رہتے ہیں جب کہ سماج کے افراد مسلسل حرکت کرتے رہتے ہیں۔ وہ ایک گروہ سے دوسرے گروہ میں داخل ہوتے ہیں۔ ایک سوسائٹی کو چھوڑ کر دوسری سوسائٹی میں شامل ہوتے ہیں۔ جس طرح جسم میں تمام اعضاء کے لیے مختلف جگہ مقرر ہے۔ سماجی اداروں میں اس طرح جگہ کا تعین ممکن نہیں۔ سماج کے مختلف ادارے مختلف جگہوں پر اپنا فعل انجام دیتے رہتے ہیں۔
3۔اجتمائی شعور کا نظریہ( theory Group mid)
اس نظریہ کا سہرا مائکل درکائم(Emile Durkheim 1858-1917) کے سر ہے۔جو ایک فرانسیسی ماہر سماجیت تھا۔ درکائم کا نظریہ اجتماعی نیابت (Collective Representation)انفرادی نفسیات کی نفی کرتا ہے۔اس نظریہ کی رو سے یہ خیال ہی غلط ہے کہ فرد سوچتا ہے۔ دراصل فرد نہیں سوچتا بلکہ اس کے خیالات ، رائے، عقیدے ،قدریں سب کچھ سماجی گروہ کی پیدا وار ہیں۔ جس میں وہ اپنی زندگی گزارتا ہے۔ اسی طرح درکائم کا سسٹم سماجی جبریت( Determinism Social) کا سسٹم ہے۔ جس میں فرد کی تخلیق کے لیے بالکل یا تھوڑی سی گنجائش ہے۔
اس خیال کااظہاربڑے عمدہ طریقے سے درکائم نے اپنے مشہور مقالے "The Elementary forms of the religious life"میں کیا ہے۔ مذہب کو درکائم انفرادی نہیں بلکہ سماجی پیداوار قرار دیتا ہے۔مذہب کی اساس گروہ کے تجربے ہیں اور مذہبی تصورات سماجی قدروں کی علامت سے زیادہ نہیں اس لحاظ سے مذہب کا سب سے اہم فعل سماجی ہم آہنگی یا سماج و مدت کی تخلیق اور بقا ہے۔ افراد کو ایک دوسرے کے اعتبار سے انسانی سماج میں مذہب کا بہت اہم رول رہا ہے۔
اس طرح درکائم کے خیالات جو مذہب کی ابتدا اور نشوونما سے متعلق ہیں وہ بالکل سماجی ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ مذہبی زندگی ہماری سماجی زندگی کی غمازی کرتی ہے۔ وہ ہماری سماجی زندگی کے تمام پہلوؤں کی عکاسی کرتی ہے۔جس میں انتہائی نا خوشگوار پہلو بھی ابھرتے ہیں۔سماجی روایتیں انسان کی سوچ و بچار کے دائرہ کو محدود کر دیتی ہیں۔اس لحاظ سے درکائم کے نظریہ اجتمائی، حیاتیاتی عوامل اور انفرادی نفسیاتی عوامل کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔
سماجیت میں درکائم کا سب سے بڑا کارنامہ اس کا نظریہ" اجتماعی نیابت" ہے۔ درکائم کا کہنا ہے کہ گروہی فکرکے مابین عمل سے علامتیں بنتی ہیں اور ان اجتماعی علامتوں میںبڑی زبردست قوت ہوتی ہے۔کیونکہ ان کی تخلیق اور نشوونما اجتماعی فکر کا نتیجہ ہے۔مثال کے طور پر کسی ملک کا جھنڈا وہا ں کے سیاسی، رجحانوں اور مسلکوں کی ترجمانی کرتا ہے۔ مقدس تحریریں اور علامتیں مذہبی رجحانات کی عکاسی کرتی ہیں۔ سور ماؤں سے جو معجزاتی قوتیں وابستہ کی جاتی ہیں وہ اجتماعی غور و فکر کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ اس اجتماعی نیابت میں زبردست سماجی تاثیر ہوتی ہے۔ یہ اتحاد اور تعاون کے جذبوں کو ابھارتی ، تصادم اور نزاعوں کو روکتی ہیں ۔ غرض درکائم کا نظریہ اجتماعی نیابت سماجی قدروں کی نشاندہی کرتا ہے۔سماجی قدریں اجتماعی عمل کا نتیجہ ہوتی ہیں ، نہ کہ انفرادی عمل کا اس لیے افراد انہیں غیر ارادی طور پر قبول کرتے جاتے ہیں۔
مختصر یہ کہ درکائم کا نظریہ نیابت دراصل فرد کے ان خیالوں اور رجحانوں کو ظاہر کرنا ہے۔ جس کے لحاظ سے وہ اپنے آپ کو سماجی نمونوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس نظریہ کا لب لباب یہ ہے کہ خیالات کا وہ مجموعہ افعال و اعمال کے وہ نمونے ، رجحانات ا ور قدریں جو کسی گروہ میں قابل قبول ہوں اور جنہیں گروہ کی تائید حاصل ہو۔ انہیں فر داس طرح اپناتا ہے کہ وہ اس کی سماجی زندگی کا جزو بن جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے شخصیت کی تشکیل میں سماجی دباؤ کا زبردست رول ہوتا ہے۔ غرض درکائم دوسرے یورپی ماہر سماجیت کی طرح اس خیال پر زور دیتا ہے کہ"The individual soul but a microscopic reflection at the social world"یعنی "انفرادی روح سماجی دنیا کا ایک خوردبینی عکس ہے۔ " درکائم کے اس نظریے پر انفرادی نفسیات کے حامی مفکرین نے کافی تنقید کی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس نظریے میں یہ خامی پائی جاتی ہے کہ وہ انفرادی قوتوںاور انفرادی فکر اور سوچ و بچارکی نوعیت پانی کے قطروں یا بادلوں کی طرح نہیں ہوتی جو ایک دوسرے میں خم ہو جاتے ہیں۔
اگر افراد واقعی سماجی دنیا کا عکس ہے تو ہم سب کو ایک دوسرے کی کاپی ہونا چاہیے اور موجودہ نسل کو گذشتہ نسلوں کی ہوبہو عکاسی کرنی چاہیے۔ ان میں کوئی تبدیلی،کوئی ترقی نظر نہیں آنی چاہیے۔ اس لحاظ سے ہمارے سماجی ادارے بالکل آدمی باسیوں کی طرح ہونا چاہیے۔چونکہ افراد میں انفرادی طور پر سوچنے ، سمجھنے اور محسوس کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔اس لیے سماجی اداروں کا تقابلی مطالعہ اس امر کی شہادت دیتا ہے کہ وقفہ وقفہ سے ان اداروں کی ساخت اور فعل سے تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔
جدید اردو شاعری اور سماجی کشمکش:
انسانوں کے ابتدائی شعور سے لے کر اس وقت تک ان کے احساس ، وجدان، ذوق اور نقطہ نظر میں جو تبدیلیاں ہوئی ہیں۔وہ اس جدو جہد کی کہانی ہیں جو سماج کی بڑھتی ہوئی اور پھیلتی ہوئی ضرورتوں میں توازن پیدا کرنے کے لیے انسانوں نے کی ہیں۔یہ کوئی مابعد الطبیعاتی یا خیالی بات نہیں ہے۔ بلکہ مادی کشمکش نے جس طرح اس کے شعور کو تشکیل دیا ہے یاسماجی حالات پیدا کیے ہیں اس کی تاریخ ہے۔
انسان اپنی ترقی کی رفتار میںجس جگہ ایک دفعہ پہنچ جاتا ہے ،ٹھیک اس جگہ پھر نہیں پہنچتا۔ جو نظریے عزیز ہوتے ہیں،وہ بدل جاتے ہیں۔جو باتیں ایک وقت میںتسکین کا باعث ہوتی ہیں دوسرے وقت میں وہی تکلیف دہ بن جاتی ہیں۔سائنس ،آرٹ، مذہبی تصورات اور جنسی تعلقات سب میں پیداوار کی تقسیم کے بدلتے ہوئے تناسب نے فرق ڈال دیا ہے۔ سوسائٹی طبقوں میں تقسیم ہوتی رہی اور ان کی معرکہ آرائیوں میں ادب اور علم زیادہ تر طاقت ور طبقوں کی ملکیت بنے رہے۔ انھیں کے جذبات کی ترجمانی کرتے رہے اور انھیں کی حمایت۔یہ بات بھی کسی قدر یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ ایسا کسی سازش کے تحت نہیں ہوا بلکہ بادشاہوں اور امیروں نے آرٹ کی سرپرستی کر کے تقریباً غیر شعوری طور پر اپنے طبقے میں آرٹ پیدا کرنے میں مدد دی مگر اس کے ساتھ ساتھ ادب اور دوسرے فنون لطیفہ کا اچھا خاصا ذخیرہ بھی آنے والی نسلوں کے لیے مہیا ہو گیا۔ جس میں آسانی سے مختلف ادوار کے فلسفہ حیات کی جھلکیا ں دیکھی جا سکتی ہیں۔
اردو شاعروں کی پیدائش اور ترقی کا زمانہ شاہی نظام کے زوال، صوفیانہ خیالات کے عروج کا زمانہ تھا۔ اس لیے اس کے اندر وہ سب باتیں آ گئیں جن میں زندگی سے مقابلہ اور کسی نصب العین کے لیے اٹھ کھڑے ہونے اور جدوجہد کرنے کی تاب نہیں ہے۔ آج البتہ اردو ادب بڑی بڑی تبدیلیوں سے ہم آغوش ہے۔ زندگی کی وہ ساری معاشی، معاشرتی اور جنسی کشمکش جو غیر ملکی حکومت اور طبقاتی تاراجی کی وجہ سے پیدا ہو سکتی ہے۔اس سے اردو شاعری مقابلہ کر رہی ہے اور صحیح راستہ دکھا رہی ہے جس میں ادب کو آسانی سے بڑھنے اور سانس لینے کا موقع مل سکے۔گو قدیم روایات اور اخلاقی قدروں کے اثرات اب بھی تمدن کا اہم جزو بنے ہوئے ہیں۔ اس لیے کہ "حال" میں "ماضی" بھی موجود ہے۔یہ تبدیلیاں کیسے ہوئیں، قوموں کی تاریخ اقتصادی کشمکش کی وجہ سے ایسی جگہ پہنچ جاتی ہے۔ جہاں اس میں نئے نشانات دکھائی دینے لگتے ہیں۔ ایک تصور حیات کچھ دنوں تک نیا رہنے کے بعد پرانا ہو جاتا ہے اور بار بار کے تصادم سے اس میں نئے زاویے پیدا ہو جاتے ہیں۔ یہ موقعے تو ہر وقت آتے رہتے ہیں۔جن میں تبدیلی ہو سکے لیکن جب کوئی نظام اپنے پھیلنے اور بڑھنے کی طاقت کھو دیتا ہے اور مخالف عناصر رکھنے والوں کو اپنے یہاں جگہ نہیں دے سکتا،اس وقت تاریخ انقلاب کے دور سے گزرتی ہے اور نئی قدریں بہت واضح ہوجاتی ہیں اب تک کوئی نظام ایسا نہیں بن سکا اور نہ ہی موجودہ حالات میں بن سکتا ہے۔جس میں ایک طبقے کو دوسرے طبقے کی لوٹ سے روکا جائے۔ اس لئے لوٹے جانے والے طبقے کی زندگی نظام معاشرت کی ٹھیک طور سے چلنے میں روڑے کا کام کرتی ہے جو حقیقت شروع میں آہستہ آہستہ چنگاری کی طرح سلگتی رہتی ہے،وہ کچھ دنوں کے بعد تنظیم کی مدد سے طاقت پیدا کر کے ایک زبردست شعلہ بن جاتی ہے، جس میں پرانی چیزیں اور قدریں اس طرح جل جاتی ہیںکہ کام کی چیزیں تپ کر اور نکھر آتی ہیں اور اس راکھ کے ڈھیر سے نئی زندگی پیدا ہو جاتی ہے یہ سب کچھ اس طرح ہوتا ہے کہ جو لوگ تاریخ کی پر پیچ راہ سے واقف ہیںبتا سکتے ہیں کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ معمولی سوجھ بوجھ کے نقاد تو ادب اورشاعری کی لطافت میںکھو جائیں گے لیکن سماج کے بڑھنے اور پھیلنے کی منطق کو سمجھنے والے ان اصولوںکو سمجھ لیں گے جو ان اصولوں کی تہہ میں ہیں۔
1857ء کے انقلاب کے بعد سے ہندوستان کی معاشی حالت میں بڑی تبدیلیاں پیدا ہوئیں اور ان تبدیلیوں نے لوگوں کے احساسات پر بڑا گہرا اثر ڈالا۔ ہمارے طبقاتی شعور کو بیدار کر کے ہمیں جدوجہد میں حصہ لینے پر مجبور کر دیا۔ جن میں تمام دنیا کے لوگ جو اسی حالت میں ہم شریک اور ہم نفس دکھائی دیے۔ غدر کوئی ارتقائی انقلاب نہ تھا۔پوری اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں ہندوستان کے لوگوں کے دل میں جو شعلہ پھوٹ رہا تھا، وہ پھوٹ گیا۔چنگاری شعلہ بن کر بھڑک اٹھی۔ اگرچہ وہ آگ بجھا دی گئی لیکن اس نے جو گرمی اور روشنی دکھائی تھی۔اس میں بہت سے تصورات اور خیالات کی عمارتیں کھڑی ہوئیںاور ایسا معلوم ہوا کہ انحطاطی دور ہمیں اس احساس اور شعور کے سوا کچھ دے بھی نہ سکتا تھا۔غدر میں جو لوگ بچ گئے انھوں نے بڑے واقعے کو نئی زندگی کا نقطہ آغاز بنا لیا اور اس کے بعد بہت سی تحریکیں سامنے آ گئیں ۔چونکہ ظاہری اورمادی طور پر ہندوستان کو شکست ہوئی تھی ۔ ا سلحے چھین لیے گئے۔ غیر ملکی حکومت کی گرفت مضبوط ہو گئی تھی۔ اس لیے ایک طرح کی مایوس کن ، شکست خوردہ ذہنیت پیدا ہو گئی اور نتیجے کے طور پر اس سے نکلنے کے لیے اصلاح پسندی کی شاہراہ پر لگا دیا اگر کہیں دہلی کی تباہی ، لکھنو کی بربادی اور پرانے حالات کے بدل جانے پر آنسو بہائے گئے ،علامت اور استعارات کی شکل میںتباہی پر تبصرہ کیا گیا یا پھر خاموشی اختیا ر کی گئی۔
غدر کی تاریخی اہمیت کو مان لینا اس لیے ضروری سمجھا گیا کہ وہاںسے ایک سنگ میل مان کر آگے بڑھاجا سکے اور تاریخ کومختلف ٹکڑوں میں تقسیم کیا جا سکے۔کبھی کبھی اس طرح تقسیم کر لینا غلط بھی ہوتا ہے لیکن سوچنے اور جانچنے کے نئے طریقوں نے سکھایا کہ ایسے بڑے واقعات سے کچھ نئی باتیں شروع بھی ہو جاتی ہیں۔ ایسے ایسے معرکوں میں بہت سی پرانی باتیں مٹ جاتی ہیں اور بہت سی نئی روایتیں پیدا ہو جاتی ہیں ۔ اگر کسی ملک کی اقتصادی حالت نہ بدلے تو تبدیلی کوئی معنی ہی نہیں رکھتی۔ اور اقتصادی حالت نہ بدلنے پر پورے سماج کا ڈھانچہ طبقات کے تعلقات کے اور سوچ بچار کے راستے بدل جاتے ہیں۔یہ سب باتیں ایک دوسرے سے اس طرح ملی ہوئی ہیں کہ ایک کو سمجھے بغیر دوسری اچھی طرح سمجھ نہ آ سکے گی۔
نئی ہونے والی باتوں کے اثرات پہلے ہی شروع ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ بھی پرانی ہی باتوں کے پیٹ سے پیدا ہوتی ہیں دو چار سوچ سمجھ رکھنے والے انہیں دیکھتے، سمجھتے ہیں اور ان کے بارے میں لکھتے ہیں مگر اسی زمانے میں ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جو حالات کے بدلنے کا اثر نہیںلیتے اور تغیرات کے بعد بھی اپنے خیالات کو بدلنا نہیں چاہتے۔عذرکے پہلے ہی انگریزی تعلیم ہندوستان کے بعض حصوں میں پھیل چکی تھی۔ اخبار نکل رہے تھے۔نئے علوم سے واقفیت بڑھ رہی تھی۔ اس کے اثر سے فضا میں ہلکی ہلکی لہریں فضائیں اٹھ کر ہندوستان میں کئی طرح کی آوازیں گونج رہی تھیں۔اورپرانے ہندوستان کی آواز دم توڑ رہی تھی۔ شعور بڑھتا جا رہا تھا اور پرانے ہندوستان کی آوازجو نئی طاقتوںسے مقابلہ کرنے پر آمادہ تھی اور اب تک مختلف سماجی اور مذہبی خیالات کی آڑ لے کر مقابلے پر آمادہ نظر آئی تھی گو وہ تنزل کا پرچم بلند کر رہی تھی ۔لیکن ہندوستان کی ترقی کی سست چال کی وجہ سے اب بھی بہت سے لوگوں کے لیے تسکین کا سامان رکھتی تھی۔
انگریزی تعلیم نے چاہے کچھ اور دیا نہ ہوچاہے میکالے کا مقصد اس سے پورا ہو یا نہ ہو لیکن یہ ضرور ہوا ہے کہ مشرق کی داخلیت ، روحانیت ، انفرادیت اور سکون کی تلاش ، تصورات اور مایا جال کے پجاریوںکے چوٹ سی لگی اور سوچنے سمجھنے کا طریقہ بدل گیا۔آنکھیں کھل گئیں اور جاگیر داری کے سوکھتے ہوئے تناور درخت کے سائے میں ایک نئے متوسط طبقے کا پودا پیدا ہو کر پنپتا اور بڑھتا ہوا دکھائی دینے لگا۔ یہ طبقہ ہر بات کو کچھ نئی طرح سے دیکھنا چاہتا تھا۔ کلاسیکل تعلیم کی طر ف سے لوگوں کا دل ہٹنے لگا۔ نئے حالات نے سب سے پہلے بنگال پر اثر کیا تھا۔اس لیے وہا ں ایک طرح کا نشاۃ ثانیہ ہوا جس کے لیڈر یہی انگریزی تعلیم پائے ہوئے لوگ تھے۔ راجہ رام موہن، رائے مہرشی ٹیگور اور کیشپ چندر سبن کے نام اس سلسلے میں ضرور آتے ہیں۔مسلمانوںکے یہاں بھی مذہبی اصلاح کا زور شروع ہو گیا تھا اس کی باگ ڈور بالکل دوسرے قسم کے لوگوں کے ہاتھ میںتھی۔ یہ لوگ نئی تعلیم سے متاثر نہ تھے۔ ان میں مولانا سید احمد بریلوی، شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی، مولانا کرامت علی کے نام قابل ذکر ہیں۔
مسلمانوں کی مذہبی اور معاشرتی اصلاح کا وہ دوسرا دور تھا جس کی رہبری سر سید احمد خاں نے کی اور جو اس نئی کشمکش اور نئی تعلیم کے نتیجے کے طور پر تھی۔یہاں پہنچ کر اصلاحی تحریک کا دائرہ بڑھ جاتا ہے اور اس میں مذہب ، معاشرت ، تعلیم اور ادب وغیرہ سب سما جاتے ہیں۔ پہلی تحریک ادبی حیثیت سے اتنی اہم نہیں جتنی دوسری ہے۔
غدر سے پہلے اورغدر کے بعد بھی یہ طبقاتی سماجی کشمکش کا ترجمان رہا۔ اس میں اردو جاننے والوں اور اردو زبان کے ذریعے اپنے خیال ظاہر کرنے والوں میں سر سید، ذکاء ا اللہ، نذیر احمد ، حالی، آزاد، چراغ علی، محسن الملک، وقار الملک وغیرہ شامل تھے۔ غدر سے پہلے اورغدر کے بعد ہندوستانی سماج میں نئے اثر دکھائی دینے لگے جس کی ترجمانی ادب کو کرنا پڑی۔ فرضی غم عشق نے حقیقی غم راز کو جگہ دے دی اور تصوف میں تسکین کا کوئی پہلو نہ رہا۔پہلے داستانیں جھوٹ معلوم ہوتے ہوئے بھی مزا دیتی تھیں ۔لیکن اب معلوم ہوا کہ انسانی زندگی میں بھی کافی پیچیدگیاں ہیں ۔ انفرادی زندگی، خاندانی زندگی اور پھر معاشرتی زندگی اتنی الجھی ہوئی ہے کہ اس بیان میں بھی مزا آ سکتا ہے۔
شاعری نے آزاد، حالی اور اسمٰعیل پیدا کیے تو کہا نیوں نے نذیر احمد اور سرشار کے یہاں جنم لیا۔شاعروں کے تذکرے جو اس وقت تک تنقید کا سب سے اعلیٰ ذخیرہ سمجھے جاتے تھے آب حیات اور مقدمہ شعر و شاعری میں بدل گئے۔ مذہبی، اخلاقی اور صوفیانہ مضامین جن کی بنیاد عقل سے زیادہ نقل پر اور سوچ سمجھ کر نتیجہ نکالنے سے زیادہ روایت پر ہوتی تھی۔
جہاں تک اردو ادب کا تعلق ہے۔ اس میں اصلاح پسندی کا خیال در حقیقت حالات نے پیدا کیا تھا۔ مگر شاعری کا نیا ڈھنگ زیادہ تر مغرب سے مانگا ہوا تھا۔ نثر میں البتہ صرف نقل نہیں معلوم ہوتی بلکہ جو چیزیں انگریزی سے بھی لی گئی ہیں۔وہ ہندوستانی بنا لی گئیں ۔ آزاد کی آب حیات کا خاکہ چاہے جانسن کی ’’posts Of Living‘‘ سے ملتا جلتا ہو۔لیکن اس کا حرف حرف ہندوستانی انداز بیان ، رنگینی اور ہندوستانی سماج کے نقشوںسے جھلک رہا ہے۔مقدمہ شعر و شاعری چاہے ورڈ زورتھ اور شبلی کے "defense of poetry and Peface of Lyrical Ballads" سے متاثر ہو کر لکھا گیا ہو لیکن اردو شاعری کا بہت اعلیٰ تجزیہ ہے۔
یہ کچھ اتفاق نہ تھا کہ ہر طرح کے مضامین میں ، چاہے وہ نثر کے ہوں یا نظم کے ایک طرح کی یکسانیت ہے بلکہ نئے حالات اور اثرات کام کر رہے تھے اور اس وقت ایسے ہی اصلاحی ادب کا پیدا ہونا ممکن تھا۔ حالات کے ایسے بدل جانے کے بعد بھی بہت سے ایسے شاعر اور ادیب تھے جو نئی زندگی اور نئی بیداری سے متاثر نہ تھے کیونکہ ان کے معاشی تعلقات نہیں بدلے تھے۔ اگر داغؔ اور امیرؔ جلال ؔ اور اسیرؔ پرانے جاگیر دار انہ نظام کے پروردہ تھے۔ تو آزاؔد اور حالیؔ متوسط طبقے کے، جو مغرب کے علوم و فنون سے متاثر ہو رہا تھا۔ 1857ء اور 1880ء کے بیچ میں ہندوستانی ادب ایک انوکھی ترقی کے دور سے گزرا۔ میر انیسؔ( جن کا انتقال 1874 میں ہوا) اور مرزا دبیر(جو 1875ء تک زندہ رہے)مرثیے کے راستے سے اردو میں ایک نئی طرح کی وسعت لائے تھے۔ انہوں نے یکا یک اردو زبان کے سرمائے میں جدید انداز بیان اور نئے تصورات کا اضافہ کر دیا۔ جو مواد اور ترقی دونوں میں ترقی کی راہ دکھاتے تھے۔
دلی میں غالب تھے جن کی غزلوں کے بعض شعر زندگی کے نئے شعور کا پتہ دیتے ہیں۔ جنہوں نے پہلی دفعہ یہ محسوس کیا کہکچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے اور اسی خیال کو پھیلا کر آزادؔ اور حالیؔ نے دبے لفظوں میں غزل کے خلاف جہاد شروع کر دیا۔ اس بات کو اس طرح بھی کہہ سکتے ہیںکہ پہلے بھی ادب اور شاعری کا کچھ مقصد ہوتا تھا۔ مگر وہ خود لکھنے والوں کو اچھی طرح معلوم نہ تھا اور اب بھی لکھنے والوں کے سامنے ان کا مقصد تھا اور وہ اپنے مقصد سے باخبر ہو کر لکھ رہے تھے ۔ اپنے مقصد کا شعور رکھ کر کوئی بات کہنا اس سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ جو صرف نقالی کے طور پر کہی جاتی ہے۔ شعور کی رفتار خط مستقیم میں ہوتی ہے اور نہ ہو سکتی ہے۔ اس لیے یہ بتانا کہ غدر کا کتنا اثر ہے اور نئے نظام کا کتنا، انگریزی تعلیم کا کتنا اور نئے معاشی تعلقات کا کتنا، کسی کے امکان میں نہیں ہے کیونکہ سب کچھ ایک ہی میں گتھا ہوا ہے ۔حالات کے بدل جانے اور ادب میں نئی لہروں کے پیدا ہونے کا سہرا کسی مخصوص تفسیر کے سریقیناً نہیں رکھا جا سکتا۔ لیکن غدر میں جس تخریب اور تعمیر کا پتا چلتا ہے وہ زندگی کے دھارے کو موڑ دینے کے لیے کافی ہے۔
غدر نہ ہوتا تو انگریز ی طاقت کے اقتدار کا اتنا یقینی طور پر مان لینا ممکن نہ ہوتا جتنا کہ اس وقت کے لکھنے والوں کے یہاں دکھائی دیتا ہے۔ ان لوگوں نے جمود اور یکسانیت کے اس قلعے کو توڑ دیا جو مدت سے شعر و ادب کو قید کیے ہوئے تھا اور اردو ادب میں تبدیلی کی ایک نئی روایت شروع ہو گئی جو بدلتے ہوئے حالات کا ساتھ دے رہی تھی۔
حب الوطنی کے جذبات اور قومی ضروریات نے حاکم و محکوم کی کشمکش بڑھا دی تھی اور زندگی کے ہر شعبے میں اس کے اثرات نمایاں ہو گئے تھے۔ بیسویں صدی کے شروع ہوتے ہی ذرائع آمدورفت میں ترقی ہوئی تھی۔ متوسط طبقے نے حکومت کا بوجھ اپنے کندھوں پر کسی قدر اٹھا لیا تھا۔ اور انہیں اس کا احساس ہو رہا تھا کہ ان کی اولاد کو حقوق ملنے چاہیئں۔اکبر الہٰ آبادی، شاد عظیم آبادی اور چکبست ، سب متوسط طبقے کے ترجمان ہیں۔ اکبر کو مغربی تہذیب سے نفرت تھی۔ لیکن جس طرح اکبر نے سیاسی حالات کو سمجھا تھا اس طرح کم لوگ سمجھتے ہیں۔ انہوں نے سماجی مسائل کو اپنی شاعری کا جز وبنا یا۔ اس طرح کوئی شاعر نہ بنا سکا ۔ وہ عوامی شاعر کہلائے۔ انہوں نے عوام کی زبان بولی اور سماجی مسائل پر نظمیں کہیں۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے اردو کے نوجوان شاعروں کی راہ میں بہت سے چراغ جلا دیے۔ انہیں انگریزی شاعری کی روکھی پھیکی تقلید سے نجات دلا کر نئی وسعتوں سے آشنا کیا۔
سماجی کشمکش سے پیدا ہونے والے ادب کا جتنا ذخیرہ اردو ادب میں فراہم ہو گیا ہے۔ اتنا شائد ہندوستان کی کسی دوسری زبان میں نہیں ہے۔ اگر صرف ایسے شاعروں کا نام لیا جائے جو انقلاب کی دھمک اپنے سینے میں محسوس کر رہے تھے تو ان کی تعداد بھی کم نہیں ہے۔جیسے جوشؔ ، احسانؔ ، ساغرؔ،،سیمابؔ ،مجازؔ، الطافؔ،سرداؔر جعفری، جوادؔ زیدی،سلامؔ،اخترؔ،جذبیؔ،مطلبیؔ،شمیمؔ کریانیؔ،کیفیؔ،ن م راشدؔ، مخدومؔ،راشدؔ،ملاؔ،جمالؔ،تاثیرؔ،فیضؔ ،یہ وہ نام ہیں جو جدید اردوشاعری کا ذکر کرتے وقت نظر انداز نہیں کیے جا سکتے ۔ ان لوگوں نے شاعری کو سماجی زندگی کے اظہا رکا ایک ذریعہ قرار دیا ہے اور اسے زندگی کے اور روابط کی مدد سے سمجھا ہے۔
اس وقت جنگ سب سے بڑی حقیقت ہے اس وقت انسانیت ایک خوفناک جنگ میں مبتلا ہے۔جس نے ساری دنیا کے ادیبوں اور شاعروں کے سامنے نئے حقائق پیش کر دیئے ہیں ۔کسی ملک نے خود غرضی سے جنگ میں شرکت کی ہے ۔ کسی کومجبوراً حفاظت خود اختیاری کے طور پر شریک ہونا پڑا اور کسی کو سامراج کی جڑوں کو مضبوط بنانے کی خاطر ہتھیار اٹھانے پڑے۔ وہ شعرا جو زندگی کے تغیرات کے ساتھ ساتھ شاعری میں تغیرات کو نہیںمانتے انہیںجنگ پر غور کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔جو شاعری اس کشمکش کو نہ سمجھے گی اس کا مستقبل بہت اچھا نہیں ہو سکتا ۔اگرچہ شاعری پیغمبری کا جز و ہے اور شاعر میر کارواں بننا چاہتا ہے تو اقبال کی زبان میں اسے یہ یاد رکھنا چاہیے۔
نگہ بلند سخن دل نواز، جاں پر سوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
بغیر اعلیٰ نصب العین ، فنی حسن کاری اور خلوص کے شاعری زندہ نہ رہے تو تعجب نہ کرنا چاہیے۔
سماج فہمی
سماج فہمی سے مراد معاشرتی اور سماجی فہم و ادراک کا شعور رکھنا ہے۔ معاشرتی یا سماجی شعور سے مراد سماجی مسائل سے آگاہی اور اس فہم فراست کا استعمال کرتے ہوئے ان مسائل و مصائب کا بیان ہے جو کسی سماج کو درپیش ہوتی ہیں۔سماج اپنے حصے کے لیے ایک صفت ہے جو معاشرے سے منسلک ہونے کی طر ف اشارہ کرتا ہے۔سماج یا سوسائٹی ایک ایسی جماعت ہے جو ایک دوسرے سے باہمی رابطے کرتی ہے اور جو ایک مشترکہ ثقافت رکھتے ہیں۔
لہٰذا معاشرتی مسائل وہ حالات ہیں ۔ جو کسی برادری یا ا س کے کسی ایک شعبے کی ترقی یا پیش رفت کو روکتے ہیں چونکہ یہ عوامی مسائل ہیں۔ لہٰذا ان مسائل کے حوالے سے ریاست کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ حکومتی اقدامات کے ذریعے ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرے بلکہ اس بات کو یقینی بنائے کہ وہ عوام کے مسائل کا یقیناً حل تلاش کرے تا کہ سماج کے لوگ آسودہ زندگی گزارنے کے متحمل ہو سکیں۔اللہ کے رسولﷺ کی ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
"ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر یہ اس کے والدین ہیں جو اسے یہودی،نصرانی اورمجوسی بنا دیتے ہیں۔(بخاری)"
انسان جب اس دنیا میں آتا ہے تو بہت ساری مثالیں ایسی ہیں جس سے یہ تصدیق ہو جاتی ہے کہ اس کے اندرعقل ،شعور اور ادراک ہوتا ہے۔ بنیادی طور پر انسان کی فطرت محبت ہے۔نفرت باہر سے اس میں آتی ہے۔ انسان جب اندر سے برابر ہوتا ہے تو باہربھی اس کا فوکس برابر ہی ہو جاتا ہے کیونکہ اس تمام کائنات کی بنیاد ہی انسان ہے۔
اگر وہ ہی باصلاحیت نہیں تو وہ اس کائنات کے ساتھ ایڈجسٹ نہیں کر پائے گا اور اگر وہ انسان ،وہی انسان ہے جو فطرت سلیمہ والا ہے۔تب یہ کائنات کا مرکز بن جائے گا۔ جیسے ہی وہ اس کائنات کے ساتھ برابر ہو گا ۔ اس پر راز کھلنا شروع ہو جائیں گے۔ انسان اس کائنات کے ساتھ تبھی برابر ہوتا ہے۔ جب وہ خود اپنی ذات میں برابر ہو جائے گا۔تب کائنات بھی اس کے سامنے کھل جاتی ہے۔
ازل سے لے کر آج تک انسان کا سب سے بڑا مسئلہ وہ سماجی تخلیقات (Social Creates)ہیں۔مثال کے طور پر دریا تو دریا ہے لیکن اگر کوئی اس دریا کوبھگوان کا درجہ دے دے، اسے دیوتا کہے، اسے انسانوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے والا کہے تو کوئی کیاکہہ سکتا ہے لیکن انسان کے اپنے تجرباتی علم نے دریاؤں کی طغیانی کو زیر کر لیا ہوا ہے۔ان کے راستوں پر کنٹرول حاصل کر لیا۔ اب اگر کوئی معاشرہ اس تجرباتی علم سے فائدہ نہیں اٹھاتا تواس کی مرضی یا تو وہ بھگوان ہی سمجھتا رہے۔معاشرے میں کیوں یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ
٭ "ماں" اپنی اولاد کے بغیر دوسرے بچے سے محبت نہیں کر سکتی ؟
٭ چاند گرہن میں کیوںسکون سے نہیں بیٹھ سکتی؟
یہ سب سماجی تخلیقات ہیں جبکہ ہمیں حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے یہی وہ کائنات اور انسان کے درمیان فکری تصادم ہے ۔جس کے باعث شعور ، ادراک اور عقل پر پابندیاںبھی لگا دی جاتی ہیںاور کہیں آزاد کرد یتی ہیں ۔یہیں سے انسان کا تجرباتی علم اسے زندگی کے مسائل سے نبرد آزما ہونے کی راہ دکھاتا ہے اور اسے ’’Out of the box‘‘ سوچنے کی قوت فراہم کرتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان جب تک مادے کے ساتھ اپنے باطن سے نہیں جڑے گاتب تک اسے خود سمجھ میں نہیں آئے گا ۔ انسان نیچر سے جڑتا ہے۔ تو نہ صرف نیچر کو مسخر کر کے اسے کھولتا ہے بلکہ انسان کی اپنی صلاحیتیں بھی اس پر آشکار ہوتی ہیں۔ انسان جیسا ماحول بنائے گا ، اس کا بچہ ویسا ہی پروان چڑھے گا ۔بچہ اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کا شعور لے کرہی پیدا ہوتا ہے۔ہم فطرت سے الگ نہیں ہو سکتے ، انسان مادے سے نیچر تک نبردآزما ہے اور اپنے تجرباتی علم سے کبھی ہواؤں کو مسخر کر رہا ہے تو کبھی پانی کو۔ انسان نے نیچر(nature) سے ہی اپنی بقا کا سامان پیدا کر لیا۔ ضروریات پوری کی،سہولیات لیں، یہاں تک کہ آسائشات سے زندگی گزار رہا ہے۔ شاعری ، عمومی اور تجدیدی انداز میں الفاظ کی علامتوں کے ذریعے اس نامیاتی رشتے کا اظہار کرتی ہے۔ جو انا اور بیرونی حقیقت کے عناصر کے درمیان ہوتا ہے۔یہی تعمیم فی الحقیقت اس کی قابلیت کا مخرج ہے ، جس سے وہ اچھوتی قوت کے ساتھ انسان کے"جبلی جذباتی" عنصر کا اظہار کرتی ہے، یعنی سماج انا کا طبعی حصہ، سماجی مسائل میں غربت و افلاس ، شعبہ صحت، تعلیم، خوراک اور رہائش وغیرہ کے مسائل سر فہرست ہیں۔
اس سلسلے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ معاشرتی مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے۔جب بہت سے لوگ اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے میں نا کام ہو جاتے ہیں ۔آبادی کا ایک شعبہ صحت کی خدمات ، تعلیم خوراک یا رہائش تک رسائی حاصل کرنے سے قاصر ہے۔یہ ایک گھمبیر معاشرتی مسئلہ ہے۔
اگرچہ معاشرتی مسائل کے بغیر کوئی ملک نہیں ہے لیکن قومی حقیقت میں ان کی سب سے چھوٹی تعدادترقی کا اشارہ ہے۔آبادی کی زندگی میں معاشرتی پریشانیوں کے واقعات جتنے کم ہوں گے۔ اتنی ہی ترقی ہو گی اکیسویں صدی کے سب سے زیادہ پریشان کن معاشرتی مسائل میں سر فہرست غربت ہے۔
جو دنیا بھر میں ایک عرب سے زیادہ لوگوں کو متاثر کرتی ہے لیکن یہ بات ضروری نہیں ہے کہ دوسرے وسائل کے علاوہ رہائش ،صحت ،پینے کے پانی اور تعلیم تک رسائی کم از کم ضروری حصول کے بغیر ، زندہ رہنے کے لیے کم سے کم ضروری ہونے کے بغیر ، حد سے زیادہ حد تک محرومیوں کے بارے میں نہیں۔ ہر انسان کی ترقی کے لیے غربت کی ایک وجہ کام کا فقدان ہے۔
غربت اس صدی کی ایک اور انتہائی خطرناک معاشرتی مسائل کے ساتھ کام کر رہی ہے "بھوک " یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ غذائیت کی وجہ سے ہر سال اموات کی سب سے زیادہ تعداد ہوتی ہے جو کہ خاص طور پر دنیا کی آبادی کا 10 فیصد ہے اوریہ کہ بھوک کی وجہ بھی معلومات اور تعلیم کا فقدان ہے جس کی وجہ ثقافتی سطح کم ہے۔دوئم سب سے قدیم معاشرتی مسائل"جنسی اور نسلی امتیاز ہے" جو بالترتیب مرد کے جنس اور بالترتیب عورت پر نام نہاد سفید فام نسل اور دیگر نسلوں سے بالا تر ہونے کا اعلان کرتے ہیں۔ سر گرمی اور عوامی بیداری کے ذریعے ان مسائل کو ختم کرنے کے لیے لاکھوں افراد کی جدوجہد کے باوجود یہ بدستور ہے اور تکلیف، تشدد اور بچوں کے ساتھ بد سلوکی کا ذکر کیے بغیر ہم معاشرتی مسائل کے بارے میں کیسے بات کر سکتے ہیں۔
ایک ایسا ظلم جو صرف ہماری نسلوں میں ہوتا ہے ،متعدد بار اس کا آغازنچلے طبقے کے بچوں کے لیے کام کرنے کی ضرورت کے نتیجے میں ہوتا ہے اور ان کا استعمال کرنے والے ان لوگوں کا استحصال کرتے ہیں جو ان کا استحصال کرتے ہیں۔ جو انتہائی گھٹیا انداز میں تصوراتی ، جیسے بچوں کے جسم فروشی کے لیے استعمال کرتے ہیں ۔
یہ تمام معاشرتی مسائل آپس میں جڑے ہوئے ہیں لہٰذا ان کو الگ تھلگ نہیں رکھا جا سکتا ہے۔مسلمانوں کی آمد سے قبل ہندوستانی سماج اعلیٰ و ادنیٰ اور ذات پات کی تفریق کے سبب مختلف طبقوں میں بٹا ہوا تھا۔ اس سماج میں عز ت و احترام کا معیار دولت تھا ۔کوئی شخص جتنا زیادہ دولت مند ہوتا اسے اتنا ہی محترم سمجھا جاتا اور اس کا شماراعلیٰ طبقے میں ہونے لگتا ۔اس کے برعکس وہ لوگ جو اقتصادی طور پر کمزور تھے ۔خواہ وہ کسی بھی مذہب کے پیرو کار ہوتے انہیں نچلے طبقے کا آدمی سمجھا جاتا۔اس بات کا نتیجہ یہ نکلا کہ اعلیٰ طبقے سے وابستہ لوگ سماج میں اہمیت کے حامل ٹھہرے اور محنت مشقت کر کے روزی پوری کرنے والے مزدوروں ، کسانوں اور غریب غرباء کو نچلے طبقے کا نمائندہ سمجھا جانے لگا اعلیٰ طبقے کے افراد دولت کے بل بوتے پر سماج کے کرتا دھرتا اور چوہدری بنتے گئے۔
اس خود ساختہ سماجی تقسیم کی وجہ سے سماجی ناہمواری نے جنم لیا ۔ چھوت چھات اور اعلیٰ و ادنیٰ کے درمیان خلیج حائل ہو تا گیا مختلف حملہ آوروں کے حملوں کے سبب نسلی امتیازات کا سلسلہ شروع ہوا فاتح اور مفتوح کی صورت ایک نئی گروہ بندی سامنے آئی۔ جونہی وقت گزرتا گیابرصغیر کے باسیوں کے درمیان یہ تقسیم مختلف طبقات کی شکل اختیار کرتی گئی۔ انیسویں صدی کے شروع ہونے تک دو واضح طبقات اونچا طبقہ اشرافیہ کی صورت میں اور کسان مزدورنچلے طبقے کی صورت میں تقسیم ہو کر سامنے آ چکے تھے۔یہ طبقات کبھی راجواڑوں اور رعایاکی شکل میں سامنے آئے تو کبھی باشاہ عوام کی صورت میں ۔کبھی یہ جاگیر داراور کسان کی صورت میں دیکھے گئے تو کبھی سرمایہ داراور مزدور کی صورت میںان کا وجود ظاہر ہوااوران تمام صورتوں میںایک استحصالی رویہ سامنے آیا۔1857ء کی جنگ آزادی کے بعد ایک تیسرا طبقہ متوسط طبقہ کے نام سے متعارف ہوا۔ جو بیسویں صدی کے اوائل تک اپنی تمام اقدار وضع کر چکا تھا۔
یہ طبقہ مشکلات کا سامنا کرتے زندگی کے دن پورے کر لیتے۔ انہیں مندروں میں جانے کی اجازت نہ تھی اور ایسا کرنے پر سخت سزا کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ہندوستانی سماج میں دوسری شادی کو گناہ سمجھا جاتا تھا ۔ خاوند کے مرنے پر بیوی کو بھی اس کے ساتھ جلا دیا جاتا تھا ۔ یہ رسم "ستی" کہلاتی تھی۔اس طرح ہندوستانی معاشرہ تہذیبی جبر کا شکار رہا۔ اس طبقاتی کشمکش اورسماجی اونچ نیچ کے اثرات برصغیر کے ادب پر بھی مرتب ہوئے۔ کبھی شعور ی اور کبھی لا شعوری شکل میں ۔
ادب میں ہونے والی ان تبدیلیوںسے اردو شاعری بھی متاثر ہوئی۔1857ء کی جنگ آزادی کا تعلق بظاہر سماج اور سیاست سے تھا ۔ مگر اس کے اثرات سے تمام شعبہ ہائے زندگی متاثر ہوئے۔ ابد اور سماج کا گہرا تعلق ہے۔ شاعر کو معاشرے کا اچھا عکاس کہا گیا ہے ۔کیونکہ وہ جو دیکھتا ہے محسوس کرتا ہے۔ اسے شاعری کی صورت میں اپنے کلام سخن کے ذریعے پیش کرتا ہے معاشرے کا یہ حساس طبقہ سماج اور اس کے نشیب و فراز سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے اس لیے سماجی اتار چڑھاؤ کی جھلک ادب میں بھی نظر آتی ہے۔
1857ء کے حالات نے ہندوستان کے لوگوں کی سیاسی،سماجی اور تہذیبی زندگی کو بڑا متاثر کیا۔ ادیبوں اور شاعروں نے ان حالات اور مظالم سے متاثر ہو کر قومیت، آزادی ،مساوات اور قومی یکجہتی کا پیغام قوم تک پہنچانے کی ذمہ داری اٹھا لی۔ادب نے برا ہ راست زندگی اور اس کے مسائل سے متاثر ہونے کے بعد ایسی سمت اختیار کر لی جو آگے چل کا سماج کی بہتری اور ترقی کا باعث بنی۔
جنگ آزادی کے بعد رونما ہونے والے حادثات کے نتیجے میں لوگوں میں حب الوطنی کا جذبہ پیدا ہونے لگا۔ اکبر اور اقبال نے بھی اپنے اپنے دور میں اس بنیادی مسئلے کو اپنے فکرو شعر کا موضوع خاص بنایا۔ یہ الگ بات ہے کہ ایک نے قدرے ظرافت کا لبادہ اوڑھا اور دوسرے نے فکر کے لبادے میں اپنے خیالات کو پیش کیا۔
نظیر اکبر آبادی ایک عوامی شاعر تھے۔ ان کا انداز بیان بھی عوامی ہے ۔ وہ سادگی و سلاست کے قائل تھے اور انہوں نے تقریباً ہر عوامی موضوع پر نظم لکھی ہے۔ ان کی نظموں کے نام ملاحظہ ہوں ! شب برات، دیوالی،ہولی،جاڑا،برسات کی بہاریں،بسنت،آٹا دال،روٹی، کوڑی،پیشہ، روپیہ وغیرہ،مذہبی رواداری نظیر کے کلام میں بدرجہ اُتم موجود ہے۔بقول احتشام حسین:
"نظیر نے دربار سے علیحدہ ہو کر عوام سے رشتہ جوڑا اُن سے پہلے یا ان کے بعد کا کوئی شاعر ایسا نہیں ملتا جن سے ہم ان کا مقابلہ کریں۔"(2)
نظیر اکبر آبادی کو حیرت انگیز طور پر طبقاتی شعور کا احساس تھا ۔ اس لیے بعض نقاد انہیں پہلا ترقی پسند شاعر کہتے ہیں۔لیکن نظیر کو اس معنی میں ترقی پسند شاعر نہیں کہا جا سکتا جو آج کل مروج ہے کیونکہ نظیرکے عہدمیںاس کاادراک نہیںتھا۔انہوںنیزر،کوڑی،روپیہ،آٹا ،دال، روٹی، مفلسی، پیسہ، آدمی نامہ جیسی نظمیں لکھیں۔ ان نظموں نے نظیر کے طبقاتی شعور کو اجاگر کیا۔ ہم سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ خوبصورت دوشیزہ عصمت فروشی کی زندگی گزارنے پر کیوں مجبور ہو جاتی ہے؟ غریب طبقے کے لوگ چوری کی طرف کیوں مائل ہو جاتے ہیں؟ بھیک کیوں مانگی جاتی ہے؟
اس سوال کے جواب کے لیے ماہر نفسیات اور علمائِ دین تجزیہ نفس سے لے کر مذہب اور اقتصادیات تک سوچتے ہیں لیکن نظیر نے اس کا وہی جواب دیا ہے جو آج کی دنیا کے بہترین ماہر نفسیات و معاشیات دے سکتے ہیں۔یہ چیز ان کے میل جول کو ظاہر کرتی ہے۔انہوں نے وہی زبان استعمال کی جو عوام کی زبان تھی اور عوام کی زبان نظیر کی زبان تھی۔
زبان کی مہارت اور مطالعہ و مشاہدہ کے لحاظ سے انشاء کے علاوہ کوئی شاعر نظیر کے مد مقابل نہیں ٹھہرتا۔ناقدین ادب کی رائے ہے کہ اس ذخیرہ الفاظ کے اعتبار سے کوئی ان کا ثانی نہیں وہ زندگی کے تمام پہلوؤں پربلا جھجک پردہ اٹھا دیتے ہیں۔ان کی قادر کلامی کایہ حال ہے کہ ارود، فارسی، عربی،پنجابی اور ہندی الفاظ کو بخوبی استعمال میں لاتے ہیں۔
معاشرے کی بدحالی اور سماجی مسائل کو اپنی شاعری کی شکل میں ان تمام خرابیوں اور برائیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کا حل بھی تجویز کرتے ہیں کہ جب کوئی دوسری طاقت آپ پر غالب ہوتی ہے تو طنز و مزاح ہی واحد ذریعہ ہوتا ہے کہ عوام کو بتا بھی دیا جائے اور برا بھی نہ لگے۔کچھ مثالیں ملاحظہ ہوں:
آٹے کے واسطے ہے ہوس ملک و مال کی
آٹا جو پالکی ہے تو ہے دال نالکی

آٹے ہی دال سے ہے دوستی یہ حال کی
اس سے ملی ہے خوبی جو ہے حال تال کی
(3)
دال آٹا کی فلاسفی کے بعد روٹی کا مطالعہ کیا جاتا ہے یعنی جسم ہے تو روح ہے۔ جب جسم کو تسکین ملے گی وہی رحمتوں کی ایک شکل ہے اور چولہے کے نیچے جلتی آگ سب سے خاص نور ہے۔ انداز سخن ملاحظہ ہوں:
کپڑے کسی کے لال ہیں روٹی کے واسطے
لمبے کسی کے بال ہیں روٹی کے واسطے
باندھے کوئی رومال ہیں روٹی کے واسطے
سب کشف اور کمال ہیں روٹی کے واسطے
( 4)
نظیر نے عوام کی عکاسی کی اس لیے وہ عوامی شاعر مانے جاتے ہیں۔انہوں نے عوام کے ہر رنگ اور پہلو کو دیکھا اور آواز بلند کی اور بہت ہی اچھے طریقے سے عوام کے مسائل کی ترجمانی کی ہے۔ اس لیے نظیر اکبر آبادی کے لیے’’عوامی شاعر‘‘کا لقب موزوں ہے۔ کیونکہ وہ لب و رخسار کی شاعری میں نہیں پڑا بلکہ عوامی مسائل کی ترجمانی کر کے حقیقت کو پیش کیا ہے۔حضرت علی ؑ کا قول ہے۔’’جب روٹی انسان کی مزدوری سے مہنگی ہو جائے تو تین چیزیں سستی ہو جاتی ہیں،عورت کی عزت،مرد کی غیرت اور انسان کا خون‘‘۔
نظیر کے کلام کو سراہنے والا ایک انگریز ڈاکٹر فیلن تھا۔ انہوںنے اپنی مشہور کتاب ’’ہندوستانی انگلش ڈکشنری‘‘ میں نظیر کے فن پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔"صرف یہ ایک شاعر ہے جس کی شاعری اہل فرنگ کے نصاب کے مطابق سچی ہے۔" لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اس کے اہل وطن اسے شاعر ماننے کو تیار نہیں۔ کیونکہ شاعری ان کے نزدیک محض گل و بلبل، عشق و عاشقی، فلسفہ و تصوف کا نام ہے۔جب کہ نظیر نے شاعری کا موضوع عوامی چیزوں کو بنایا۔ انہوں نے ایسے موضوعا ت پر شاعری کی جس پر اہل ذوق ناک و بھوں چڑھاتے ہیں۔یعنی آٹا ، دال ،مکھی،مچھر،میلے ٹھیلے،برسات کی بہاریں،ہولی،دیوالی،بیساکھی بسنت وغیرہ وغیرہ ۔یہ حقیقت ہے کہ نظیر اکبر آبادی نے اپنے زمانے کی عوامی تصویروں کو اپنے کلام میں محفوظ کر دیا۔
الطاف حسین حالی ،شبلی نعمانی، محمد حسین آزاد وغیرہ سبھی کے مزاج میں انفرادیت تھی۔نئی فکر و روشن ذہنوں کے ساتھ ادب میں داخل ہوئی تو اردو ادب نئی سوچ ،نئے فکرو فن،نئے متنوع موضوعات اور نئے اسلوب سے باقاعدہ متعارف ہوا۔ ادیبوں اور شاعروں نے مغرب سے آئی ہوئی نئی تہذیب اور ادب سے استفادہ کیااور سماج میں ہونے والی تبدیلیوں کو بھی سامنے رکھ کر ادب تخلیق ہوا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے احساس کی دولت دے کر انسان کو اشر ف المخلوقات بنایا ۔جس کے پاس یہ سرمایہ ہوتا ہے اسے دوسروں کا دکھ درد بھی اپنا لگتا ہے۔ اللہ پاک کو وہی بندا محبوب ہے۔ جو اپنے سوا کسی اور کا درد بھی محسوس کرے اور ممکن حد تک اسے دور کرنے کی بھی کوشش کرے۔یہ دکھ درد و الم کا احساس کرنے والے شاعر حضرات جو اپنی حساس طبیعت کی بنا پر اپنی شاعری کے ذریعے معاشرتی مسائل و مصائب کو اپنے کلام کے ذریعے پیش کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ ان کی تکلیفوں اور مسائل کو تو عملی طور پر ختم کرنے سے قاصر ہیں مگر اپنی شاعری کے پر اثر الفاظ سے ان کے درد کو کم کرنے اور حوصلہ اور آس و امید کے چراغ روشن کر کے ان میں جینے کی تمنا اور زندگی کے مسائل سے نپٹنے کا سلیقہ ضرور سیکھ لیتے ہیں۔
فرخندہ رضوی کی شاعری میں زندگی مختلف صورتوں میں جھلک دکھاتی ہے۔ اس میں ان کے میٹھے اور کڑوے دونوں طرح کے تجربات اور مشاہدات کا عکس نظر آتا ہے۔ وہ پاکستان سے دور برطانیہ کے شہر ریڈنگ میں اگرچہ آرام دہ زندگی کی برکات سمیٹ رہی ہیں۔انہیں ان مشکلات کا سامنا نہیں جو پاکستان کے عوام کا مقدر ہیں۔ لیکن وہ محب وطن ہونے کی بدولت ان کی پریشانیوں سے آگاہ بھی ہیں اور یہ آگہی و شعور انہیں دکھی بھی کرتا ہے۔ وہ اپنے ملک کے باسیوں کے دکھ درد کو محسوس کر کے کڑھتی بھی ہیںاور بے چینی و اضطراب کی کیفیت میں ان کے لیے دعا گو بھی ہوتی ہیں۔
سیالکوٹ کی مٹی سے جنم لینے والی فرخندہ رضوی کادامن درد کی دولت سے مالا مال ہے۔ حزن و الم کی ہمراہی میں وہ کٹھن راستوں پر بہت دیر تک ننگے پاؤں تک چلی ہیں۔ اسی آبلہ پائی نے انہیں درد سے مانو س و آشنا کیا ہے۔ بقول محمد اشفاق ایاز:
"فرخندہ رضوی نے رشتوں کے جذبات،پردیس کی تنہائی، وطن سے دوری کا کرب، اپنائیت وغیریت، دوستی،جدائی، وفا بے وفائی ،آنسو،بے قراری،سالگرہ،بہار،خزاں،تمنا،بے حسی، ویرانی،زخم،تصویر،دعا،غرضیکہ ہر موضوعات پر لکھا ہے۔ جوہر جیتے جاگتے انسان کی زندگی کا اہم ترین حصہ ہیں جن کے بغیر زندگی ادھوری ہی نہیں نا مکمل ہے۔"(5)
فرخندہ رضوی زوال پذیر معاشرے اور زندگی کے مسائل و مصائب سے آگہی کا ثبوت اپنی شاعری میں دیتی نظر آتی ہیں۔ زندگی کے اتار چڑھاؤ کی کشمکش کو یوں بیان کرتی ہیں :
اس شہر کی بلند عمارت کے قرین
ہر جھونپڑی میں درد کی ماری ہے زندگی
(6)
شعر کی تاثیر شاعر کے کلام کے معیاری ہونے کا ثبوت ہوتا ہے۔ اس لیے شعر کی تاثیر سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا۔ سامعین کو اکثر اس سے حزن یا نشاط ، جوش یا افسردگی کم یا زیادہ ضرور پیدا ہوتی ہے اور اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ اگر اس سے کچھ کام لیا جائے تو وہ کہا ں تک فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ بھاپ سے جو حیرت انگیز کرشمے اب ظاہر ہوئے ہیں ان کا سر ا غ اول اس خفیف حرکت میں لگا تھا جو اکثر پکتی ہانڈی پر چینی کو بھاپ کے زور پر ہوا کرتی ہے۔ اس وقت کون جانتا تھا کہ اس نا چیز گیس میں جرار لشکروں اور ذخار دریاؤں کی طاقت چھپی ہوئی ہے۔ بقول الطاف حسین حالی :
"دنیا میں ہزاروں بلکہ لاکھوں آدمی ایسے پیدا ہوئے ہیں۔ جن کو قدرت نے اسی کام کے لیے بنایاتھااور یہ ملکہ ان کی طبیعت میں ودیعت کیا تھا بس ایک عطیہ کو جسے قدرت نے عنایت کیا ہو۔۔۔ عبث اور بیکا ر نہیں کہا جاسکتا۔عقل خدا کی نعمت ہے مگر بہت لوگ ۔۔۔مکرو فریب،شرو فسادمیںاستعمال کرتے ہیں۔ شجاعت ایک عطیہ الہیٰ ہے۔۔۔ مگرقتل و غارت ورہزنی میں صرف کی جاتی ہے۔کیا اس سے عقل کی شرافت اوراس شجاعت کی فضیلت میں کچھ فرق آ سکتا ہے؟ ہر گز نہیں اسی طرح ملکہ شعر کسی برے استعمال سے برا نہیں ٹھہر سکتا۔ "(7)
تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے کہ شعراء نے اپنی جاد و بیانی سے لوگوں کے دلوں پر نمایاں فتح حاصل کی ہے۔ بعض اوقات شاعر کا کلام جمہور کے دل پر ایسا تسلط کرتا ہے کہ شاعر کی ہر اک چیز یہاں تک کہ اس کے عیب بھی خلقت کی نظر میں مستحسن معلوم ہونے لگتے ہیں۔
ایسا کمال صرف ایک شاعر ہی کر سکتا ہے۔تاریخ شاہد رہی ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے مسلمانوں کی دگر گوں حالت اور خواب غفلت سے بیدار کرنے کا سہرا اقبال جیسے مرد مومن کے حصے میں آیااور واقعی ان کی شاعری نے سوئی قوم کو بیدار کرنے میں اہم کردار اد اکیا اور بعد میں اسی روایت کو فیض احمد فیض ؔ،منیر ؔنیازی،مجید امجدؔ،ناصرؔ کاظمی اور ایسے کئی شعراء نے آگے بڑھایا اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا ہے اور جب تک دنیا ہے اور اردو ادب کا وجود ہے شاعر حضرات اپنے کلام سخن کے ذریعے اپنے عہد کی عکاسی کرتے رہیں گے۔ ان کی شاعری اور شعر کا یہ سلسلہ یونہی رواں دواں رہے گا ۔ فرخندہ رضوی نے بھی قلبی واردات ،جذبات و احساسات اور مشاہدات و تجربات نچوڑ نچوڑ کر شعر کہے ہیں جو اپنی سحر انگیزی کے سبب نوک زبان پر آ تے ہیں اور دلوں میں خیمہ زن ہو جاتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر تسلیم الٰہی زلفی:
" فرخندہ رضوی کی شاعری ،کا لموں اور فکاہیوں میں معاشرتی محرومیوں، خواہشوں کی شکست و فتح وقت کی جبریت اور ابدیت اقتصادی اور احتجاجی صعوبتوں کے مراحل انصاف اور محنت کی اقدار کی پامالی جیسے موضوعات موجود ہیں جو تکنیکی اعتبار سے جدت اور تناؤ کے عناصر اور حقیقت کے توازن۔۔۔۔ ملتے ہیں۔بحیثیت آمد پرستی۔۔۔۔ شعور وادراک کا غلبہ اور انصاف و آگہی کا رویہ اپنا اعتبار قائم کرتا دکھائی دیتا ہے۔"(8)
جس طرح انسانی معاشرہ تبدیل ہوتا ہے۔اسی طرح شعری فکر بھی بدلتی رہتی ہے۔جو شاعر وقت کے ساتھ نہیں چلتا وہ پیچھے رہ جاتا ہے۔ شاعر کی جڑیں دراصل اپنے سماج میں پیوست ہوتی ہیں۔ شاعر انہیں کا عکاس ہوتا ہے۔شاعری دراصل ذات کا اظہار اور ارد گرد پھیلی زندگی کا عکس ہوتا ہے۔ ہر دو صورتوں میں سچ شاعری کو معتبر بناتا ہے۔فرضی خیالات جذبات سے عاری ہوتے ہیں۔ تاثیر سے بیگانہ ایسی شاعری جو دلوں پر اثر نہ کرے وہ بیکار ہے۔
فرخندہ رضوی کی شاعری سچی اور کھری شاعری ہے۔ انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو اپنے احساسات اور جذبات کے ذریعے اظہار کر کے اپنے فن کے جوہر دکھائے ہیں۔سماج فہمی کا شعور ان کی اس غزل میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔خوبصورت انداز ملاحظہ ہو:
اہل زر سے بھی رابطہ رکھنا
درمیاں میں مگر انا رکھنا
راہ میں مشکلیں بھی آئیں گی
تم مگر عزم و حوصلہ رکھنا
دوست ہو کوئی یا کہ ہو دشمن
فیصلہ دل سے جڑا رکھنا
وقت کیسا بھی آ پڑے تم پر
زندگی سے نہ تم گلہ رکھنا
(9)
فرخندہ رضوی ایسی تخلیق کار ہیں جنہوں نے اردوادب کی کئی اصنا ف سخن پر طبع آزمائی کی اور ہر صنف کو بڑی خوش اسلوبی کیساتھ پیش کیا۔
فرخندہ رضوی ہر صنف میںماہر دکھائی دیتی ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ محنت کا دامن پکڑا اور اپنے احساسات و جذبات کو الفاظ میں ڈھال کرپیش کیا ان کے کلام میں سادگی او ر سچائی نے جو تاثیر پیدا کی وہ بہت کم شاعروں میں نظر آتی ہے اور یہ فرخندہ رضوی کے کلام کا منہ بولتا ثبوت کی دلیل ہے۔بقول الطاف حسین حالی:
"تعریف اگر سچی ہو اور عشق اصلی تو شاعر کے لیے مٹیریل کی کوئی کمی نہیں جس طرح کائنات میں دو چیزیں یکساں نہیں پائی جاتیں۔ اسی طرح ایک انسان کے محاسن دوسرے کے محاسن اور ایک انسان کی صفات دوسرے کی صفات سے نہیں ملتی۔ لیکن جب تعریف سراسر جھوٹی اور عشق محض تقلیدی ہو تو شعرا کو ہمیشہ وہ باتیں جو اگلے لکھ گئے ہیں دہرانی پڑتی ہیں"(10)
اگرچہ شاعر کو ابتداً سوسائٹی کا مذاق اورفاسد بگاڑتا ہے مگر شاعری جب بگڑ جاتی ہے تو اس کی زہریلی ہوا سوسائٹی کو بھی نہایت سخت نقصان پہنچاتی ہے۔جب جھوٹی شاعری کا رواج پوری قوم میں ہو جاتا ہے تو جھوٹ اور مبالغہ سے سب کے کام مانوس ہو جاتے ہیں جس شاعر کے شعروں میں زیادہ جھوٹ یا زیادہ مبالغہ ہوتا ہے۔اس کو زیادہ داد ملتی ہے وہ مبالغہ میں زیادہ غلو کرتا ہے تا کہ اور زیادہ داد ملے۔
ادھر اس کی طبیعت راستی سے دور ہو جاتی ہے اور ادھر جھوٹی اور بے سرو پا باتیں وزن اور قافیہ کے دلکش پیرایہ میں سنتے سنتے سوسائٹی کے مذاق میں زہر گھلتا جاتا ہے۔حقائق و واقعات سے روز بروز مناسبت کم ہوتی جاتی ہے۔عجیب و غریب باتوں ،سوپر نیچرل کہانیوں اور محال خیالات سے دلوں کو انشراح ہونے لگتا ہے۔ تاریخ کے سیدھے سادھے وقائع سننے سے جی گھبرانے لگتا ہے۔جھوٹے قصے اورافسانے حقائق و واقعہ سے زیادہ دلچسپ معلوم ہوتے ہیں تاریخ،جغرافیہ، ریاضی اور سائنس سے طبیعتیں بیگانہ ہو جاتی ہیںاور چپکے ہی چپکے مگر نہایت استحکام کے ساتھ اخلاق زمیمہ سوسائٹی میں جڑ پکڑتے جاتے ہیں اور جب جھوٹ کے ساتھ ہزل و منحریت بھی شاعری کے قوام میں داخل ہو جاتی ہے۔تو قومی اخلاق کو بالکل گھن لگ جاتا ہے۔
سب سے بڑا نقصان جو شاعری کے بگڑ جانے یا اس کے محدود ہو جانے سے ملک کو پہنچتا ہے وہ اس کے لٹریچر اور زبان کی تباہی و بربادی ہے۔جب جھوٹ اور مبالغہ عام شعراء کا شعار بن جاتا ہے تو اس کا اثر مصنفوں کی تحریر ،فصحاء کی تقریر اور حواص اہل ملک کے روز مرہ اور بول چال تک پہنچتا ہے کیونکہ ہر زبان کا نمایاں اور برگزیدہ حصہ وہی الفاظ و محاورات اور ترکیبیں سمجھی جاتی ہیں۔ جو شعراء کے استعمال میں آ جاتے ہیں پس جو شخص ملکی زبان کی تحریر یا تقریر یا روز مرہ میں امتیاز حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کو بالضرور شعراء کی زبان کا اتبا ع کرنا پڑتا ہے اور اس طرح مبالغہ لٹریچر اور زبان کی رگ و پے میں سرایت کر جاتا ہے۔شعرا ء کی ہزل گوئی سے زبان میںکثرت سے نامہذب اور فحش الفاظ داخل ہو جاتے ہیں کیونکہ لغات میںوہی الفاظ مستند اور ٹکسالی سمجھے جاتے ہیں جن کی توثیق وتصدیق شعراء کے کلام سے کی گئی ہو پس جو شخص ملکی زبان کی ڈکشنری لکھنے بیٹھا ہے۔ اس کو سب سے پہلے شعراء کے دیوان ٹٹولنے پڑتے ہیں پھر جب شاعری چند مضامین میں محدود ہو جاتی ہے اور اس کا مدار محض قوم کی تقلید پر آ رہتا ہے تو زبان بجائے اس کے کہ اس کا دائرہ زیادہ وسیع ہو اپنی قدیم وسعت بھی کھو بیٹھتی ہے۔ زبان کا وہ عقل قلیل حصہ جس کے ذریعے سے شاعراپنے چند معمولی مضامین ادا کرتا ہے۔ زیادہ تر وہی مانوس اور فصیح گنا جاتا ہے اور باقی الفاظ و محاورات غریب اور وحشی خیال کیے جاتے ہیں پس سوا اس کے کہ کچھ ان میں سے اہل زبان کی بول چال میں کام آئیں یا لغت کی کتابوں میں بند پڑیرہیں اور کچھ ایک مدت کے بعد متروک الاستعمال ہو جائیں اور کسی مصرف میں نہیں آتے ۔ مصنفوں کو تحریر میں اور نہ فصحا کو تقریر میں ان سے کچھ مدد پہنچتی ہے۔قدما کی تقلید کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جن لفظوں میں بضرورت شعرا نہوں نے تعریف کیا ہے ان کے سوا کسی لفظ میں کوئی تعریف نہیں کر سکتا جو محاورے جس پہلو پر وہ برت گئے ہیں وہ دوسرے پہلو پر ہرگز نہیں برتے جا سکتے ۔ جو تشبیہیں ان کے کلام میں پائی گئی ہیں ان سے سر مو تجاوز نہیں کیا جا سکتا۔ الغرض کسی زبان کی شاعری کو اس کی زبان سے وہی نسبت ہے جو قلب کو جسد کے ساتھ۔
فرخندہ رضوی ایک اعلیٰ پایہ کی شاعرہ ہیں ان کی شاعری محض الفاظ کا تانابانا نہیں اور نہ ہی انہوں نے جھوٹی شہرت کے لیے شاعری کو اپنایا ہے بلکہ وہ سماج کی سچی عکاس کے طور پر جلوہ گرہوئی ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے معاشرتی مسائل ،دکھ درد ، اور غم و الم بانٹنے اور انہیں اپنے جذبات و احساسات کے اظہارکا ذریعہ بنایا ہے۔ وہ سماج کے مسائل کا فہم و ادراک اور شعور رکھنے والی حساس دل کی مالک شخصیت ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭

حوالہ جات
1. حقی،شان الحق ،فرہنگ تلفظ(طبع چہارم) ،مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد۔2002ء ص: 636
2. سید احتشام حسین، تنقیدی جائزے،(طبع سوم)،احباب پبلیشرز لکھنو ،دہلی،1954ء ،ص:168
3. نظیر اکبر آبادی ،جواہر کلیات نظیر ،حصہ اول،مکتبہ ابراہیمیہ اور ادباہمی اسٹیشن روڈ حیدر آباد 102
دکن،ص:106
4. نظیر اکبر آبادی ،جواہر کلیات نظیر ، حصہ اول،ریختہ،ص: 106
5. محمد اشفاق ایاز، قلم خندہ،ورلڈ پنجابی فورم ،پاکستان،روزن ادبی فورم گجرات،2015ء ،ص:14
6. فرخندہ رضوی ،زیر لب خندہ،بزم تخلیق ادب پاکستان،کراچی،2012ئ،ص: 200
7. مولانا الطاف حسین حالی،مقدمہ شعر و شاعری سیونتھ سکائی پبلی کیشنز ، غزنی سٹریٹ الحمد مارکیٹ 40 ، اردو
بازار لاہور، اکتوبر 2015ء ص:4
8. ڈاکٹر تسلیم الہٰی زلفی،تخلیق خندہ، اردو سخن،آرٹ لینڈ، گرلز کالج روڈ، لاہور، چوک اعظم(لیہ) ڈیوس روڈ لاہور ، نمود اول، 2021ئ،ص:21
9. فرخندہ رضوی ،خوشبوئے خندہ، بزم تخلیق ادب پاکستان،کراچی 2018ء ص: 51
10. مولانا الطاف حسین حالی،مقدمہ شعر و شاعری سیونتھ سکائی پبلیکیشنز ، لاہور، اکتوبر 2015ئ،ص:22
٭٭٭٭٭٭٭

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...