Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > فرخندہ رضوی (شاعری اور شخصیت) > فرخندہ رضوی کی شاعری میں سماجی پہلو

فرخندہ رضوی (شاعری اور شخصیت) |
حسنِ ادب
فرخندہ رضوی (شاعری اور شخصیت)

فرخندہ رضوی کی شاعری میں سماجی پہلو
ARI Id

1688708425998_56116526

Access

Open/Free Access

Pages

۸۳

فرخندہ رضوی کی شاعری میں سماجی پہلو
فکر اور تخیل تخلیق کی بنیاد مانے جاتے ہیں۔ درحقیقت تخلیق کی عمارت جس بنیاد پر تعمیر کی جاتی ہے۔اسے فکر اور سوچ کا نام دیا جاتا ہے۔ عمارت کی بنیاد جس قدر مضبوط اور پختہ ہوگی ، یقینا عمارت بھی اتنی ہی مضبوط ہو گی اور دیرپا قائم رہے گی۔یہی حیثیت کسی بھی فن پارے میں فکر کو حاصل ہے۔ معیاری سوچ کی گہرائی اور وسعت دونوں مل کر ہی فن پارے کو شاہکار بناتے ہیں۔ تخلیقی عمل تو بہت بعد میں آتا ہے۔ پہلے ایک فکری سوچ انسانی دماغ میں پیدا ہوتی ہے اور ہر تخلیق کار اپنے الفاظ کے ذخیرہ کو بروئے کار لاتے ہوئے اظہار کے پیرائے میں سجاتا ہے۔ چنانچہ یہ بات روز اول کی طرح روشن ہے کہ کسی بھی فن پارے کا آغاز فکر، سوچ اور خیال سے ہوتا ہے۔
شاعری انسانی جذبات و احساسات اور تصورات کون سی شکل دینے کا نام ہے۔ یہ ایک ایسی ساحرہ ہے جو ماضی، حال اور مستقبل کو بھی ایک جگہ یکجا کر سکتی ہے۔ شاعری کی کئی صورتیں ہیں کبھی یہ خود سپردگی کا جذبہ ہے تو کبھی یہ باغیانہ رویہ ہے۔ کبھی یہ گھٹی ہوئی چیخ ہے تو کبھی انا الحق کا نعرہ ہے۔ کبھی یہ عشق و محبت کا پرچار ہے تو کبھی مقصد زندگی کا اظہار ہے۔ کسی بھی شاعر کی زندگی اس کی شاعری پر کسی نہ کسی حوالے سے اثرات ضرور مرتب کرتی ہے۔شاعر اردگرد کے ماحول سے جو کچھ حاصل کرتا ہے یا اردگرد کا ماحول اسے جن سوچوں سے نوازتا ہے۔ وہی سوچیں شاعری کی بنیاد بنتی ہیں۔ شاعر کے خیال اور اس کی سوچ پر معاشرہ، رہن سہن، گریلو حالات اور کسی بھی طرح کے محرومی اثرات ضرور مرتب کرتی ہے۔ محقق شاعر کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اس طرح اجاگر کرتا ہے کہ شاعر کی شاعری اور زندگی کا آپسی تعلق پوری طرح واضح ہو جاتا ہے اس لئے شاعر سے وابستہ لوگوں سے معلومات حاصل کی جاتی ہیں۔ جہاں تک غزل کے معیار کی بات ہے تو اسلوب اور تخیل یکساں اہمیت کے حامل ہیں۔ کوئی بھی شاعر اپنے ہم عصروں سے الگ اور منفرد مقام رکھتا ہے تو اس میں جتنا شاعرانہ اسلوب کا ہاتھ ہوتا ہے اس اسی قدر اس کی سوچ اور خیال کا بھی حصہ ہوتا ہے
اردو ادب کی دو اصناف ہیں۔ نثر اور نظم، اصناف نظم میں غزل کو خاص اہمیت حاصل ہے۔عموما غزل کی تعریف یوں کی جاتی ہے کہ"عورتوں سے اور عورتوں کے متعلق باتیں کرنا" لیکن یہ اس کی جامع تعریف نہیں ہے۔ غزل تو ہر موضوع کو اپنے اندر سمو لیتی ہے۔ اس لیے کسی خاص موضوع کے ساتھ اسے مخصوص کرنا بے جا ہو گا۔ بقول مولانا الطاف حسین حالی:
"غزل کی اصلاح تمام اصنافِ سخن میں سب سے زیادہ اہم اور ضروری ہے۔ قوم کے لکھے ، پڑھے اور ان پڑھ سب غزل سے مانوس ہیں۔ بچے، جوان اور بوڑھے سب تھوڑا بہت اس کا چٹخارا رکھتے ہیں۔ وہ بیاہ شادی کی محفلوں میں، وجد و سماع کی مجلسوں میں، لہو و لب کی محبتوں میں تکیوں میں اور رمنوں میں برابر گائی جاتی ہے"(1)
تمام اصناف سخن میں غزل قدیم ترین صنف ہے مگر اس کی تروتازگی ہمیشہ سے قائم ہے اور رہے گی۔ آج کی غزل میں موضوعات بہت زیادہ ہیں۔ کیونکہ نئے نئے اور اچھوتے موضوعات کو غزل یا نظم میں سمونا ہی شاعر کو دوسرے شعرا سے منفرد بناتا ہے۔ فکر اور تخیل کا ندرت پن ہی شاعری کو وسعت اور جلا بخشتا ہے۔ غزل کے اندر نئے نئے موضوعات نے اپنی جگہ بنا لی ہے اور بناتے ہی جا رہے ہیں جو کبھی فقط نظم کا خاصہ تھے مگر گزرتے وقت نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ شائد ہی کوئی موضوع ہے جس پر غزل نے بات نہ کی ہو۔ اگر کسی شاعر کے کلام میں بے ساختگی، رنگارنگی اور تنوع مضامین موجود ہوں تو ایسا شاعر بجا طور پر داد تحسین کا مستحق ہوتا ہے۔ بقول ڈاکٹر ممتاز الحق
"غزل کے نظریات کے سلسلے میں ہمیں تین نظریات ملتے ہیں۔ ایک نظریہ ہے کہ غزل کا کوئی موضوع نہیں ہوتا۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو غزل کا موضوع صرف عشق و محبت کو مانتے ہیں۔ اس میں دو طرح کے لوگ ہیں۔ ایک محض جنسی محبت کو محبت مانتے ہیں دوسرے لوگوں کے لیے اس کا دائرہ کافی وسیع ہے اور وہ لوگ عشق حقیقی کو بھی اس میں شامل کرتے ہیں۔ تیسرا نظریہ یہ ہے کہ غزل کو کچھ خاص موضوعات کے حصار میں محدود نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس میں ہر طرح کے مضامین شامل کیے جا سکتے ہیں "(2)
ادب میں ان گنت نگینوں کی نشاندہی ملتی ہے۔ جن کو منظر عام پر لانے کی ضرورت ہے۔ میرے مقالے کا موضوع بھی اس سلسلے کی کڑی ہے اور میں جس نگینے کو منظر عام پر لانے اور اردو ادب میں ان کے مقام و مرتبے کے تعین کے لیے کوشاں ہوں وہ خوبصورت شخصیت "فرخندہ رضوی " ہیں۔ جو اردو شاعری میں منفرد ،ممتاز اور جدید لہجے کی شاعرات کی صف میں نمایاں نظر آتی ہیں۔ فرخندہ رضوی کی صورت میں جو ستارہ اردو ادب کے افق پر روشن ہوا ہے۔ ہماری دعا ہے کہ وہ تا قیامت ایسے ہی روشن اور جگمگاتا رہے۔آمین۔
سنو خموشی کی داستان
فرخندہ رضوی جو آج کے دور کی شاعرہ ہیں۔ ان کے شعری مجموعے "سنو خموشی کی داستان" اور" فاصلے ستا رہے ہیں" آزاد شاعری اور پیرایۂ غزل میں ایک نیا منفرد کلام ہے۔ جو پر تاثیر ہونے کی وجہ سے اردو شاعری میں قیمتی اضافہ کی سی حیثیت سے متعارف ہوا ہے۔ بنیادی طور پر وہ آزاد نظموں کی شاعرہ ہیں۔ ان کی شاعری اسلوب بیان کی تازگی اور سادگی و سلاست کا مرقع ہے۔ بقول سلیم احمد:
"آزاد غزل کی خوش آئند بات یہ ہے کہ اس نے روایتی غزل کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ روایتی غزل کی طرح ہر آزاد غزل اپنی اپنی وجہ بحر میں لکھی گئی ہے۔۔۔ہر شعر میں علیحدہ علیحدہ قافیہ و ردیف ہے۔ کہیں کہیں مطلع اور مقطع بھی نظر آجاتے ہیں۔۔۔۔ تبدیلی صرف اتنی کی ہے کہ۔۔۔۔ دونوں آمروں ( قافیہ، ردیف) سے ان کی وہ کرسیاں چھین لی گئی ہیں۔ جن پر بیٹھ کر وہ شاعری کے۔۔۔ باغ کے پکے ہوئے پھلوں کو بے جا کاٹنا اپنا حق سمجھتے تھے‘‘(3)
اپنے احساسات وجذبات کو یوں بیان کرنا کہ وہ گزرے ہوئے لمحوں کی ترجمانی کرنے لگیںانتہائی خوشیوں اور غموں کو اس طرح سے بیان کرنا کہ وہ دل کو چھو جائے بہت کم شعرامیں یک جا ملتے ہیں مگر فرخندہ رضوی کی شاعری میں یہ سب کچھ اکٹھا ملتا ہے۔ اس "خموشی کی داستاں" میں کبھی تو انہوں نے لہروں سے شکایت کی اور کبھی سمندر کی ہلچل کو شدت سے محسوس کیا۔ بہت سی تحریریں صاف گوئی سے آسمان پر ستاروں کی مانند بکھرائی گئی ہیں اور کچھ کو ہونٹوں سے سانسوں تک چھوتے ہوئے محسوس کیا ہے۔ جنہیں لفظوں میں سمیٹنا ناممکن ہے۔
اس کتاب کے عنوان سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاعرہ فرخندہ رضوی نے بنی نوع انسان کے احساسات، جذبات، خواہشات کو قلم کے ذریعے دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ یہ فطری بات ہے کہ معاشرے میں رہتے ہوئے ہم سب ان عام باتوں کو محسوس تو کرتے ہیں مگر بیان کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں مگراس کام کو فرخندہ رضوی نہایت خوبصورتی سے بیان کرتی ہیں تو یوں لگتا ہے کہ یہ سب ہمارے ہی احساسات و محسوسات ہیں اور ہمارے ساتھ ہی ہو رہا ہے اور یہ ان کی انسانی نفسیات پرعبور حاصل کرنے کی دلیل ہے ۔ جس میں و ہ پوری طرح جلوہ فرما ہوتی ہیں اور قاری کے دل پر انمٹ نقوش ثبت کرتی جاتی ہیں۔بقول ڈاکٹر نائلہ بٹ:
"اپنے احساسات و جذبات کو یوں بیان کرنا کہ وہ گزرے ہوئے لمحوں کی ترجمانی کرنے لگیں۔ انتہائی خوشیوں اور غموں کو اس طرح بیان کرنا کہ وہ دل کو چھو جائے بہت کم شعرا میں یک جاملتے ہیں۔ فرخندہ کی تحریروں میں یہ سب کچھ اکٹھا ملا۔ محبت وجنون میں بسی ان خوبصورت تحریروں کا مجھے تو ایک ہی رنگ دکھائی رہتا ہے محبت۔۔۔۔ جس میں محبت کی تلاش میں ہر کوئی سرگرداں رہتا ہے"(4)
اللہ تعالی کے اپنے بندوں کو پیدا کرنے کے بہت سے مقاصد ہیں کیونکہ دنیا میں کوئی بھی ذی روح ایسا نہیں جو فالتو ہو۔ ہر چیز کو پیدا کرنے کا کوئی نہ کوئی مقصد ہے ، جن میں ایک مقصدتو یہ ہے کہ وہ شرکی اس سرزمین پر "خیر" کے دیے جلائیں اور شر کا خاتمہ کر کے شر کے اندھیروں کو دور کر کے خیر کی روشنی پھیلائیں۔
اس دھرتی پر اللہ پاک کے جس بندے نے بھی قلم اٹھایا اور اپنے دکھ سکھ کا اظہار اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں سہی، معاشرے میں بسنے والے لوگوں تک پہنچایا اپنے رب کے گن گائے۔اسکی نعمتوں کا شکر ادا کیا۔ اپنے گلے شکوؤں کو اظہار کی زبان دی،سماج کی اچھائیوں برائیوں پر اظہار خیال کیا۔ رشتوں کے تقدس کو پامال کرنے والے لوگوں کو بے نقاب کیا۔ غربت و افلاس ، سیاست ، اداسی، تنہائی ، موسم ، عشق و محبت کے جولانی جذبے اور جدائی اور بیوفائی وغیرہ کا ذکر کیا تو گویا اپنے اس علم کا حق کسی حد تک تو ادا کیا ، جو اللہ پاک نے بندے کی توفیق واستطاعت کے مطابق اسے عطاکیا ہے۔
ایسے گنے چنے لوگوں میں فرخندہ رضوی کا بھی نام آتا ہے۔ان کی نظمیں اور غزلیں داخلی واردات قلبی سے جنم لیتی ہیں جو گردو پیش میں ہونے والے واقعات کی عکاسی بھی کرتے ہیںاور عالمی سطح پر نمودار ہونے والی سیاسی،سماجی، معاشی اور معاشرتی تبدیلیوں کی آئینہ دار ہیں وہ زندگی کے بدلتے ہوئے رجحانات پر نظر رکھتی ہیں اور عہد حاضر میں ہونے والے واقعات سے بھی باخبرہیں۔شہزاد احمد فرخندہ رضوی کے شعری مجموعوں کا تجزیاتی مطالعہ کرتے ہوئے کہتے ہیں :
"سنو خموشی کی داستان، فرخندہ رضوی کی ابتدائی "آزاد شاعری " کا پہلا ترجمان ہے۔190 صفحات کے اس مجموعہ کلام کو بہت قرینے سے شائع کیا گیا ہے۔ دوسرا مجموعہ کلام "فاصلے ستارہے ہیں"۔ فرخندہ رضوی کے سفر شاعری کا دوسرا معتبر حوالہ ہے۔ فرخندہ رضوی کی آزاد شاعری ابھی ارتقاء پذیر ہے اس میں تحریک وتفکردونوں کارفرما ہیں۔ فرخندہ رضوی شعری راہوں پر اپنے پیرجمانے کی کوششوں میں مصروف ہے اس کا کوئی استاد نہیں۔ وقت نے اسے اجازت نہیں دی کہ ہجوم دانشوراں میں کوئی سچا اور کھرا استاد تلاش کر سکے"(5)
جدید اردو نظم گوئی کا وہ پوداجو مولانا آزادؔ اور مولا ناالطاف حسین حالیؔنے لگاکر نئی نظم کی بنیاد ڈالی تھی۔اس بنیاد کو لے کر اکبر الہ آبادی ،اسماعیل میرٹھی، علامہ اقبال جیسے عظیم لوگوں نے مل کر اس پودے کی آبیاری کی۔ اس سفر میں آگے چل میرا جی اور ن۔ م۔ راشد بھی اس قافلے میں شامل ہو گئے یوں اس کارواں نے اس پودے کو تناور مضبوط درخت بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بعد آنے والے شعرا نے آزاد نظم کو ہی اپنے احساسات و جذبات کے اظہار کا ذریعہ بنایا اور پابند نظموں کو لکھنے سے گریز کرتے ہوئے اردو شاعری میں وسیع پیمانے پر آزاد نظمیں لکھیں۔ کچھ شعرا نے صرف نظم کے میدان میں قسمت آزمائی کی مگر کچھ ایسے بھی سخن دلنواز تھے جنہوں نے نظم اور غزل دونوں میدانوں کو سر کرنے کی ٹھانی اور اپنے فن کے جوہر دکھائے۔
دور ابتدا میںشاعرات میں سب سے پہلے مہ لقاہ چندہ پہلی شاعرہ کے روپ میں سامنے آتی ہیں۔ اس کے بعد بحیثیت شاعرہ زہرہ نگاہ شعر و سخن میں اپنی دھاک بٹھانے آئیں۔ عصر حاضر میں خواتین فن شعر و سخن کی جانب کچھ زیادہ ہی مائل نظر آتی ہیں۔ پاکستان میں پروین شاکر،کشور ناہید، فہمیدہ ریاض،ادا جعفری اور شاہینہ فلک جیسی بلند مرتبہ شاعرات کا بول بالا رہا ہے
فرخندہ رضوی کا شماربھی ایسی شاعرات میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی شاعری کی ابتدا آزاد نظم سے کی۔ زیر نظر کتاب "سنو خموشی کی داستان" ایک آزاد شعری مجموعہ کلام ہے۔ جس میں انسان سے متعلقہ موضوعات کو آزاد نظم کے پیرائے میں سجا کر پیش کیا گیا ہے۔
فاصلے ستارہے ہیں
فرخندہ رضوی کی دوسری کتاب ’’ فاصلے ستارہے ہیں، نظموں اور غزلوں پر مشتمل کلام ہے۔ اپنے ان شعری مجموعوں میں انھوں نے اپنے اسلوب ، فن اور فکر کی وجہ سے ہم عصروں میں اپنا منفرد مقام بنانے کی بھر پور کاوش کی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ شاعری کرنا ایک مشکل فن ہے۔ کیونکہ کسی بھی موضوع کو لے کر ا سے شعری صورت میں بیان کرنا کمال فن ہے اور یہ کمال فرخندہ کی شاعری میں جا بجا نظر آتا ہے۔
فرخندہ رضوی چونکہ طویل عرصہ سے پردیس میں رہ رہی ہیں اور سماج میں رہتے ہوئے وطن سے دور رہنے والے پردیسیوںکی محسوسات کوسمجھتی ہیں اس لیے پردیس میں رہنے والے لوگوں کی کیفیت کو اپنے شعری مجموعے ’’ فاصلے ستار ہے ہیں ، میں یوں بیان کرتی ہیں :
"تتلیاں اداس اداس
سی پھرتی رہیں
پھول کملائے کملائے سے
ساحل سے سمندر کی لہریں
دور میں کتنی …….
آسمان و زمین سے گلے
ملتا نہ دکھائی دے
چاند کی چاندنی اندھیرے
میں چھپنے لگی ایسے۔۔۔۔
اس وقت کی یہ سب اداسی
ہے شائد ؟
آج فاصلے ستارہے ہیں مجھے "(6)
اس قلم میں شاعر کی فکر اور فن دونوں کا اظہار ہورہا ہے۔ پردیسیوں کی اپنے پردیس اور اپنے پیاروں کی جدائی کا غم اور سوچ کو ہماری شاعرہ فرخندہ رضوی نے فکراور فن کے امتزاج کو بڑی خوبصورتی اور ندرت بیان سے پیش کیا ہے۔ معاشرتی مسائل کی عکاسی ان کی شاعری کا خاصہ ہے۔ فرخندہ رضوی بنیادی طور پر نظم گوشاعرہ ہیں۔ انھوں نے زیادہ تر آزاد نظمیں لکھی ہیں۔ انھوں نے زندگی کے عمومی پہلوؤں کو لے کر ان میں فکر کا رنگ بھر کر ان کو آفاقی کر دیا ہے۔
فرخندہ رضوی کی شاعری میں نئے تشبیہات واستعارات اور علامات کا استعمال ملتا ہے۔ ان کا کام ادب کے قیمتی شہ پاروں میں ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے زندگی و موت کے درمیان تمام موضوعات کواپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے۔ ان کے ہاں خلوص اور صداقت کی جھلک نظر آتی ہے جو ان کے سچے شعری اظہار سے ظاہر ہے۔
فرخندہ رضوی نے آزادنظم اور غزل دونوں میں طبع آزمائی کی ہے۔ انھوں نے آزاد نظم اور غزل کو ایک نئی سوچ اور نئے لب ولہجے کے پہناوے سے آشنا کیا۔ کائنات کی وسعتوں میں سے موضوعات کو جس جدت سے پیش کیا وہ انہی کا خاصہ ہے۔ان کی شاعری میں فکر اور جذبے کی گہرائی نظر آتی ہے۔ان کے خیالات و احساسات میں فکری پہلو ہے۔ ان کے تجربات مانگے تا نگے کے نہیں ہیں۔ ان کے مشاہدات دوسروں کے مرہون منت نہیں ، فکر و خیال ادھار لیے ہوئے نہیں۔ یہ سب ان کے اپنے جذبہ و احساس کی پیداوار ہیں۔ فرخندہ رضوی کے دونوں شعری مجموعوں میں حمد ونعت کی کمی کو محسوس کرتے ہوئے شہزاد احمد، مدیر "حمد ونعت" کراچی کہتے ہیں :
" میں نے محترمہ کے دونوں مجموعہ ہائے کلام دیکھے ہیں۔مجھے ذاتی طور پر دونوں میں حمد ونعت کی کمی محسوس ہوئی ہے۔ مجھے امید ہے کہ محترمہ فرخندہ رضوی صاحبہ اپنے تیسرے مجموعہ کلام میں اس تشنگی" حمدونعت‘‘کودور کریں گی، آپ کے پاس قلم کی طاقت ہے۔ سچے جذبات میں بات کہنے کے سے واقف ہیں آپ کی یونہی مشق سخن جاری رہی تو وہ دن دور نہیں کہ آپ کا بھی شمار عصر حاضرکی قابل ذکر اور مستند و معتبر شاعرات میں ہونے لگے گا "(7)
فرخندہ رضوی چونکہ سماج فہم ہیں اس لیے ان کی شاعری معاشرتی صداقتوں کو سامنے لاتی ہے۔ ان کے ہاں تخلیق کا محرک ارد گرد کے حالات ، رنگ بدلتے مزاج دور کے منافق لوگ، اقتدار کی ہوس زدہ سیاست ، سماجی نا انصافی و ناہمواری، غربت وافلاس میں پسے لوگ ،مفاد پرستی حاکموں کی ستم ظریفی، عشق و محبت ، وطن دوستی ، عظمت انسان، احساس فنا ، ظلم و جبر، تنہائی، بے وفائی ، اور عہد حاضر کے المیے سمیت تمام موضوعات شامل ہیں۔خصوصا ماں کے حوالے سے فرخندہ بہت حساس ہے اور جابجا اپنی ماں سے محبت اور عقیدت کا اظہار کرتی نظر آتی ہیں۔ ان کی آرزو کہیں بلند آہنگ اختیار کرتی ہے تو کہیں رب کریم سے التجا کرتی نظر آتی ہے۔
سماج میں رہتے ہوئے ہر مسلمان کا اللہ سے محبت اور عقیدت کا رشتہ ہوتا ہے اور وہ التجا و دعا کے ذریعے اپنے رب سے رشتہ جوڑتا ہے۔ التجا اور دعا در حقیقت عبادت کا مغز ہے۔ التجا و دعاکسی بھی عبادت کا ثمر تصور کی جاتی ہے۔ خواہشات کے حصول کے لیے التجا ذریعہ بنتی ہے۔ انسان التجا کے ذریعے اپنے رب سے مخفی ظاہر خواہشات اور نا آسودہ حسرتوں کا برملہ اظہار کرسکتا ہے۔ شاعری چونکہ نام ہی احساسات و جذبات کا اظہار ہے تو شاعر اپنی شاعری میںالتجاودعا کے ذریعے کبھی معاشرے کی بد اعمالیوں کے خاتمے کے لیے اور کہیں اپنی ذات کے ادھورے پن اور خواہشات کی تکمیل کے لیے التجا کرتا ہے۔دونوں صورتوں میں شاعر مثبت تبدیلی کی خواہش رکھتا ہے۔ دہ حالات کو بہتری کی جانب لے جانے کے لیے التجاؤں میں مصروف رہتا ہے۔ دراصل فن اور فنکار کا آپس میں گہرا تعلق ہوتا ہے۔
فنکار کا فن اس کی ذات کی عکاسی کرتا ہے۔آسودگی کی خواہش مجبور کرتی ہے تو ہاتھ خود بخود اٹھ جاتے ہیں۔ مومن انسان کا اپنے رب پر یقین اسے التجا پر مجبور کرتا ہے۔ کیونکہ فنکار کی یہ تمنا ہوتی ہے کہ اس کے کام کو،فن کو دائمی زندگی نصیب ہو مگر اس مقصد کے لیے فنکار کو فن کے لیے خون جگر دینا پڑتا ہے۔ سبط حسن اس سلسلہ میں لکھتے ہیں :
"فنکار کی خوبی تو یہی ہے کہ فنکار کی وابستگی سطح آب پر نہ تیرے ، ورنہ آرٹ نہیں بلکہ خالص پروپیگنڈہ بن جائے گا۔ اس کے برعکس فن کا کمال یہ ہے کہ فن کار کی وابستگی کی لہریں تہ آب گہرائیوں میں آہستہ آستہ بہیں"( 8)
فرخندہ رضوی اپنے اشعار میں اللہ تعالی کے حضور التجا کے ذریعے خواہشات کی تکمیل کی خواہاں ہیں کہ ہر انسان بالخصوص مومن اپنی حاجات کی تکمیل کے لیے اپنے رب سے التجا اور مناجات کرتا ہے۔ یہ دعا و التجا کا سلسلہ ساری زندگی انسان اور رب کے درمیان جاری و ساری رہتا ہے۔
بلا شبہ دعا بڑی اہمیت کی حامل ہے ایسے بڑے بڑے کام جو پورے ہوتے کسی بھی صورت ممکن نہیں لگ رہے ہوتے، اکثر والدین، بزرگوں، دوستوں اور نیک لوگوں کی دعاؤں کے طفیل ایسے حل ہوجاتے ہیں کہ پتہ ہی نہیں چلتا۔ دراصل کوئی بھی کام اللہ کے حکم اور رضا کے بغیر نہیں ہوسکتا تو یہ دعاؤں کا کمال ہی ہوتا ہے کہ اللہ پاک کی ذات کسی کی التجا و دعا کو قبولیت کا شرف بخش کر تمام مسائل کو حل کر دیتی ہے اور انسان کو اپنی منزل مقصود مل جاتی ہے۔فرخندہ رضوی بھی دعائیہ انداز میں اپنی آسودہ خواہشات کو مکمل کرنے کی دعاو التجا کرتی نظر آتی ہیں۔ اپنے نبی سے عشق کی صورت کو یوں بیان کرتی ہیں:
مدینے کی گلیوں میں حسرت لیے آؤں
بس میرا دامن رحمت سے بھر دے
(9)
بلا شبہ دعا و التجا میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔ ذات باری تعالی "کن" کہنے پر آئے تو بڑے بڑے اور ناممکن کام بھی منٹوں میں ممکن ہو جاتے ہیں۔ دراصل کوئی کام اللہ کی رضا کے بغیرممکن ہی نہیں۔ لیکن مومن کا پختہ یقین اور ایمان کی فراوانی اور سچے دل کی التجا کو اللہ تبارک و تعالی قبول فرما کرتمام مسائل کو حل کر دیتا ہے۔ فرخندہ رضوی کو یقین ہے کہ وہ اس کی دعاؤں اور التجاؤں کو ضرور سنے گا۔ عقیدت کا انداز ملاحظہ ہو:
چومتی پھروں تیرے ہر در کو
اپنی محبتوں سے میرا دامن بھر دے
(10)
تصوف کو قرآنی اصطلاح میں تزکیہ نفس کہتے ہیں۔ تصوف فقط روحانی، باطنی کیفیات اور روحانی اقدار کا مجموعہ ہی نہیں بلکہ علمی و فکری، عملی، معاشرتی و تہذیبی اور عمرانی جہتوں میں اخلاق و احسان کا نام ہے۔ جس شخص نے اپنے اخلاق اور معاملات کو مہذب بنایا اور اپنی طبیعت کو بغض و کدورتوں سے پاک کر لیا اور اسلام یعنی اللہ کی سچی عبدیت کا وصف اپنے اندر پیدا کر لیا تو وہ صوفی یا ولی بن جاتا ہے اور اہل تصوف میں شامل ہو جاتا ہے۔
تصوف ایسی بے غرض اور بے لوث دوستی کا نام ہے۔ جو نہ صرف دنیاوی لالچ سے پاک ہو بلکہ اخروی طمع سے بھی پاک و صاف ہو۔ صوفیوں کی تعریف میں کہا جاتا ہے کہ صوفی جمع نہیں کرتا، طمع نہیں کرتا اور ضائع نہیں کرتا۔ صوفی بزرگ بھی مسلمان سماج کا حصہ ہے۔ سماج میں رہ کر جو انسان خود کو تزکیہ نفس جیسی خصوصیات کا حامل بنا لیتا ہے۔ تو وہ صوفی یا ولی کے درجہ پر پہنچ جاتا ہے۔
فرخندہ رضوی کوئی صوفی ہستی تو نہیں ہیں مگر اللہ کی ذات اقدس پر جان و دل سے توکل رکھنے والی خاتون ہیں۔برطانیہ میں مکین مگر صوم و صلوۃ کی پابند اور گھریلو ماحول کو بھی دینی روایات سے استوار کیے ہوئے ہیں۔انداز سخن ملاحظہ ہو:
اے رب میری راہ کو منور کر دے
ہر گھڑی تو اپنا کرم کر دے
سجدے ہو شکرانے کے
ذہن و دل کو روشن کر دے
(11)
محبت لافانی جذبہ ہے۔د نیا درحقیقت محبت کے جذبے سے ہی قائم ودائم ہے۔ محبت نہ ہوتی تو شائد دنیا کا وجودہی نہ ہوتا۔ اللہ تبارک و تعالی نے جب اپنے محبوب حضرت محمدﷺ سے محبت کی اور ان کی محبت کے صدقے دنیا تخلیق کی۔ حضرت آدم کو جب دنیا پرا تارا گیا تو ساتھ ہی محبت کا جذبہ بھیجا۔ اگر جذ بہ محبت نہ ہوتا تو یقینا ہر طرف جنگل کا قانون ہوتا۔ دنیاپر ہرطرف و یرانی کا راج ہوتا۔ خود غرضی اور ظلم کا دور دورہ ہوتا۔ رشتوں میں محبت نہ ہوتی ماں باپ اپنے بچوں پر اس جذبہ محبت کی خاطر نہ صرف اپنا سب کچھ قربان کردیتے ہیں بلکہ وقت آنے پر اپنی جان کی بازی لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ بھائی بہنوں اور بہنیں اپنے بھائیوں پر صدقے واری نہ ہو تیں ۔ اور ماں کی محبت کا تو کوئی نعم البدل ہی نہیں ہے۔ یہی وجہ کہ کائنات کا نظام جس قوت کے تحت آپس میں مربوط ہے۔وہ عشق و محبت کا جذبہ ہے۔ دنیا میں کوئی بھی روایتی داستان محبت و عشق کے ذکر کے بغیر نامکمل اور ادھوری ہے۔ آج کے سائنسی دور اورٹیکنالوجی کے جدید عصرحاضر میں بھی محبت و عشق کے شواہد جا بجا ملتے ہیں۔ محبت بھلے کم ہو جائے مگر ختم نہیں ہوسکتی اور اگر ایسا وقت کبھی آ گیا تو سمجھیے گا کہ دنیا کے ختم ہونے کا وقت آ گیا ہے کیونکہ محبت کے بغیر کائنات کا نظام مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ سماج میں انسانوںکا ایک دوسرے کے ساتھ محبت و تعاون سے اکٹھا رہنا محبت کی راہوں میں سے ایک راہ ہے۔محبت کے دم سے انسان دوسرے انسان سے کسی باہمی رشتے کے حوالے سے جڑا ہوا ہے۔ محبت کے جذبات نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
فرخندہ رضوی کی نظموں اور غزلوں میں بھی محبت کے جذبے کے اظہار کی بھرمار ہے۔ ان کی نظم اور غزل میں محبت کا رنگ خوب نکھر کر اپنی جھلک دکھاتا ہے اور اپنے ہونے کااحساس پیدا کرتا ہے۔یہ محبت کا رنگ بعض جگہوں پرانفرادی طور پر واضح نظر آتا ہے جو ان کو اپنی ماں سے خصوصی طور پر ہے اور کہیں انسانیت سے محبت کا اظہار ملتا ہے۔ ان کی شاعری میں کہیں تو روایتی محبت کارنگ نظر آتا ہے۔ اور کہیں عہد جدید کا اندازِ محبت شعروں میں ڈھلتا نظر آتا ہے۔ سماج میں رہتے ہوئے انسانی فطرت میں رقیب پسندیدہ شخصیت نہیں ہوتا۔ کیونکہ محبت میں تقسیم کسی بھی محبوب کو گوارہ نہیں ہوتی۔ عاشق محبوب کو صرف اپنے لئے وقف کرنا چاہتا ہے۔ایسی عاشقی کو فرخندہ رضوی خوبصورت پیرائے میں یوں بیان کرتی ہیں۔فرخندہ رضوی کی خوبصورت نظم " برا لگتا ہے" ملاحظہ ہو:
" میری چاہت کا تقاضا ہے میرے ساتھ رہو۔۔۔
کسی اور کو چاہتے ہوتو برا لگتا ہے۔۔
میں ہی تمھارا پیار ہوں وفا کرد مجھ سے
کسی اور کا تھامتے ہو ہاتھ تو برالگتا ہے۔
مجھ میں خوشبو ہے پیار کی محسوس تو کرو
گلے کسی اور کے لگتے ہو تو برا لگتا ہے "( 12)
سچی محبت اور ہوس زدہ محبت میں فرق ہوتا ہے۔ سستی اور ہوس شدہ محبت جس کامقصد جسموں کے ملاپ کا حصول ہے۔ سچی محبتوں کاراستہ تو صرف دل کی نگری تک جاتا ہے اسے جسم سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔کہ جسم کی بات نہیں مجھے تیرے دل تک جانا ہے۔
فرخندہ کی شاعری سستی اور بازار ی نہیں بلکہ پاکیزہ محبت کا پرچار کرتی نظر آتی ہے۔دراصل محبت ایسا جذبہ ہے جس سے ہو جائے اسے بھلانا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہوتا ہے۔ انسان جس سے سچی محبت کر تا ہے۔ اس کی ہر چیز سے لگاؤ ہو جاتا ہے حتی کہ اس کے در و دیوار اور گلی کوچوں سے بھی پیار ہو جاتا ہے۔ محبوب کی ہرہرادا سے پیار ہوتا ہے۔ اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے انسان سوسو جتن کرتا ہے۔ فرخندہ رضوی "اک سچ " میں یوں کہتی ہیں:
سمیٹ کر یہ پل کچھ دنوں کے لیے
تمہارے بہت قریب جانا ہے مجھے
(13)
محبت زندگی کا وہ خوبصورت جذبہ ہے۔جس کے سہارے ساری زندگی گزاری جاسکتی ہے۔ کیونکہ فرخندہ رضوی کے خیال میں محبت کا صرف ایک نام نہیں ہے بلکہ محبت کے بے شمار نام ہے۔کائنات کی ہر چیز محبت کے راگ الا پنے میں مصروف ہے محبت جب اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہیں توا سے عشق کانام دے دیا جاتا ہے۔
عشق عربی زبان میں گہری چاہت کو کہتے ہیں۔ جب کہ عقل اس جذبے کی تو جیہہ پیش کرتی ہے کہ عشق ایسی بے لگام تڑپ کا نام ہے۔ جو کسی قاعدے اور قانون کی پابند نہیں ہے۔ یہ تمام قید و قیود سے مبرا ہوتی ہے۔یہ عشق کا سفربقا سے فنا کا سفر ہے۔ جس میں محبت درجہ بہ درجہ ترقی کرتے ہوئے عشق اور جنون کی کیفیت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔بقول ڈاکٹر یوسف :
" غزل گو شاعر کے نزدیک پوری زندگی پر حاوی ہے ۔جہاں تعلق ہوگاوہاں جذبہ ہو گا۔ وہاں کسی پر کسی قسم کا تعلق ضرور ہوگا۔جس طرح فطرت کے مظاہر اور ان کی قوتیں علائق کی زنجیروں میں بندھی ہوتی ہیں۔اسی طرح زندگی بھی تعلقات کی سنہری ڈوریوں سے جکڑی ہوتی ہے۔ یہ تعلق فطری بھی ہے اور معاشرتی بھی "(14)
فرخندہ رضوی کی محبت میں ماں کی محبت کی چاشنی خصوصاًدکھائی دیتی ہے۔ ویسے تو ہر شخص کو اور خصوصاً بیٹیوں کو ان کی ماؤں سے عقیدت اور عشق کی آخری حدوں تک پیار ہوتا ہے۔ لیکن فرخندہ رضوی کی طرح ہر بیٹی اپنی ماں سے محبت کے اظہار کے لیے شاعرہ نہیں بن سکتی۔
فرخندہ رضوی نے اپنی محبت کو اظہارکا پہناوا پہنا کر پیش کیا ہے اور وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب بھی نظر آتی ہیں۔کیونکہ ان کے اپنی ماں سے محبت کے اظہار سے قاری کو اور خصوصا بیٹیوں کو لگتا ہے کہ وہ فرخندہ کے الفاظ سے اپنی ماں کو خراج تحسین پیش کر رہی ہیں اور یہ دلیل اور ثبوت ہے فرخندہ کی جاندار شاعری کا۔جس سے انکار ممکن نہیں ہے۔ ان کی شاعری فکری وفنی لحاظ سے بہترین مانی جاتی ہے۔ ماں کالفظ زبان پر آتے ہی جیسے مٹھاس سی منہ میں بھر جاتی ہے۔ ماں جیسی بے غرض ہستی پر عقیدتوں کے خزانے لٹاتے ہوئے کہتی ہیں:
"اک ماں
سمندر سا وسیع سینہ
کہکشاں کے جھرمٹ میں چاند کی طرح
بادلوں کے بعد دھنک رنگ اس میں
شاعر کی غزل…
وہ مصنف کے تخیل کی طرح
کون ہے وہ جس میں
ساری نعمتیں ملتی ہیں
وہ اک ماں ہے۔۔۔
وہ کہیں بھی ملتی ہے اور
قسمت سے ملتی ہے"( 15)
محبت کے رنگ ڈھنگ بڑے نرالے ہیں۔ انسان کا مقصد ازل سے ابد تک محبت اور عشق کے دائرے میں ہی گھومتا رہا ہے اور تاحیات گھومتار ہے گا۔
عشق تو بذات خود ایک منزل ہے اس کے آگے کوئی منزل نہیں ہے۔ محبت اور چاہتوں کی آخری منزل عشق پر جا کر رکتی ہے۔ یہ ضروری نہیںہے کہ ایک شاعر کو پہلے عشق ہو پھروہ عشقیہ شاعری کرے اور عشق کے لیے یہ بھی ضروری نہیں کہ عشق صرف مرد کو عورت سے ہو اور عورت کو مرد سے ہی ہو۔ دنیا میں بڑے پیارے پیارے رشتے ہیں جن سے عشق ہوسکتا ہے۔
عشق غالباً دو قسم کا ہوتا ہے۔عشق مجازی اورعشق حقیقی۔ عشق مجازی دراصل ایک انسان کے مکمل وجود یا کسی ایک حصے سے شدت سے پیار اور اپنی طلب کو وجود محبوب کے دائرے تک محدود رکھنا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کسی ایک فرد کے لیے یاخواہشات کو محبوب کی خواہشات کے تابع کر لینا یا اس کی مرضی کے مطابق خود کو ڈھال لینا ، بدل لینا عشق بازی میں آتا ہے۔عشق کی انتہا ملاحظہ ہوبقول انور مسعود :
جیسے تو حکم کرے دل مرا ویسے دھڑکے
یہ گھڑی تیرے اشاروں سے ملا رکھی ہے
(16)
جبکہ عشق حقیقی میں محبوب کے وجود سے ماورا ہو کر اس کی ذات کا طالب بن جانا۔ ایسی صورت میں محبوب کا وجود ہونا لازم نہیں ہے کیونکہ یہاں وجود کی حقیقت ہی باقی نہیں رہتی۔ اللہ تبارک و تعالی در حقیقت وہ ذات جوعشق حقیقی کے مترادف ہے۔ جبکہ عشق مجازی میں کوئی بھی شمار کیا جا سکتا ہے۔ سجدہ انسان کو کروتو وہ عشق کی معراج کہلاتا ہے اور اگر سجدہ رب کے عشق میں ہو تو انسان ولی ہو جاتا ہے۔ عشق حقیقی اور مجازی دونوں صورتوں میں محبوب کو اہم اور بنیادی مقام ومرتبہ حاصل ہے۔ فرخندہ رضوی کی غزل میں عشق حقیقی کا رنگ ملاحظہ ہو :
نا اٹھوں قیامت تک اس در سے
یارب مجھے اپنی رحمتوں کا گداگر کر دے
(17)
عشق مجازی کی صورت یوں واضح ہوتی ہے۔ بقول فاخرہ بتول
"کوئی کتنا جتن کرلے محبت کم نہیں ہوتی
محبت ڈر نہیں سکتی ڈرانے سے
نہیں مٹتی بنانے سے
محبت کی بنتی نہیں زمانے سے
یہ اپنی جان دے کر بھی کبھی بے دم نہیں ہوتی
کبھی یہ ہیر کاجوبن، کبھی رانجھا کی ونجلی ہے
کبھی شیریں کی بے تابی ، کبھی فرہاد کا تیشہ
جنون ہے قیس کا، لیلیٰ کی یہ وارفتگی بھی ہے
خودی کا بھید اس میں ہے
محبت بے خودی بھی ہے
محبت ہے خدا جیسی، خدائی اس میں شامل ہے
ستارہ مت کہو، اس کی محبت ماہ کامل ہے
کوئی کتنا جتن کر لے محبت کم نہیں ہوتی "( 18)
جہاں محبت ہوتی ہے وہاں ادب اور پاکیزگی بھی ہوتی ہے۔ انسان جب کسی سے عشق کرتا ہے تو اسے دنیا کا خوبصورت ترین انسان سمجھتا ہے۔ وہ جدھر دیکھتا ہے اسے اپنا محبوب نظرآتا ہے یہ عشق کی انتہا ہوتی ہے۔ عاشق اپنے محبوب کے لیے ہر حد سے گزر جاتا ہے درحقیقت عشق اسی کو کہتے ہیں۔بقول مرزاغالب:
عشق پر زور نہیں، ہے یہ وہ آتش غالبؔ
کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بجھے
(19)
عشق و محبت کا فلسفہ بڑا عجیب ہے۔ اسے آج تک کوئی سمجھ نہیں پایا ہے۔ عشق نام ہے جدائی کا ، عشق کو اگر امر کرنا ہو تو اس شخص سے بچھڑ جاؤ ،جس کی عاشقی نے بے حال کیا ہے۔ عشق اگر پانے کا نام ہوتاتو سب سے پہلے لیلی مجنوں کی بنتی، سسی پنوں سے ملتی اور ہیرا پنے را نجھے کے ساتھ زندگی گزارتی مگر عشق قربانی مانگتا ہے عشق جان مانگتا ہے اور سچے دیوانے جان دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ کہتے ہیں کہ عشق عاشقوں کا امتحان لیتا ہے اورسچے عاشق اس امتحان میں اپنی جان کا نذرانہ دے کر کامیاب و کامران ہوتے ہیں۔بقول فرخندہ رضوی :
انا و تکبر تو چور چور کیا
بتا تیری محبت میں کیا اور کروں
سنا تھا نہیں عشق سچا بنا مرے
نہ مروں تو پھر کیا کروں
(20)
سماج افراد کے گروہ کا نام ہے سماج میں خوشی، غم، ملن، تنہائی اور جدائی سب ساتھ ساتھ چلتے ہیں اس کا نام شائد زندگی ہے۔ فرخندہ رضوی کی شاعری میں جابجا تنہائی کا ذکر ملتا ہے۔ ان کی نظموں اور غزلوں میں تنہائی کے موضوع پر بے شمار اشعار منفرد انداز لیے ہوئے نظر آتے ہیں۔ تنہائی ایک ایسا المیہ ہے جو یا تو انسان کو نفسیاتی مریض بنا دیتا ہے۔یا اگراسے لفظوں کی بنت آتی ہوتو وہ اظہار کے پیرائے میں بیان کر دیتا ہے اور یہ فکر اور فن صرف کسی شاعر کو ہی نصیب ہوتی ہے۔ شاعری چونکہ خدائے بزرگ و برتر کا ودیعت کردہ تحفہ ہے۔ جو مخصوص لوگوں کو عطا ہوتا ہے۔ فرخندہ رضوی کی شاعری اس کی ذات کا حسین مرقع بن گئی ہے جس میں اس نے قلبی واردات کو انتہائی خوش اسلوبی سے بیان کیا ہے۔ترک رفاقت کے حوالے سے فرخندہ کہتی ہیں:
" میں بکھرا بکھرا تنہا تنہا اداس کتنارہا
آنکھیں بھیگتی رہیں آنسوؤں کو چھپا تارہا
کبھی تجھے کبھی خود کو ڈھونڈتا رہا
بھولنے کی لاکھ کوشش میں اک ہی
طرز مخاطب تم کو
ہر تحریر میں چہرہ بن کر دیکھتا رہا"( 21)
سماج کا افسوسناک المیہ جو سماج کے ہر دوسرے فرد کی جڑوں میں اس طرح پیوست ہو چکا ہے کہ اس سے جان چھڑانا بہت مشکل ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ شاعری جذبات واحساسات اور داخلی و خارجی کیفیت کے اظہار کا نام ہے۔ ہرشاعراپنی سوچ اور بساط کے مطابق اپنے اپنے مشاہدات کو شاعری کے پیرائے میں اپنے اپنے انداز سے بیان کرتا ہے۔ فرخندہ رضوی اپنے پیاروں کے ڈنگ سے ڈسی ہوئی ہیں انہوں نے ہر رشتے کو مان دیا۔ ہر رشتے سے پیار کیا ہر رشتے کو نبھانے کے لیے آخری حد تک بھی گئیں مگرا نہیں محبتوں کا وہ صلہ نہ ملا جس کی وہ حقدار تھیں۔ فرخندہ رضوی کہتی ہیں:
" میںنے اپنے اردگردبسنے والے ہر شخص سے محبت کی ہے۔ بے غرض وبے لوث ، کبھی کبھی سوچتی ہوں بے غرض کی کی گئی محبتوں کا انجام کیا ایسے ہی ہوتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ چاہے جانے والوں کے مفادات کا پلڑا اتنا بھاری ہوا کہ ان کی اڑان پر لگائے اور میرا سفر چیونٹی سا ہو کر رہ گیا۔۔۔ مگر میں نے ایسے رشتوں سے دھوکا کھایا۔جنہیں لوگ سوتیلاکہتے ہیں لوگ کہتے ہیں کہ یہ بے اعتبار رشتے ہوتے ہیں۔زندگی کے اس تلخ تجربے نے مجھے بہت کمزور کر دیا"(22)
فر خندہ رضوی کہتی ہیں کہ جن رشتوں کے ساتھ دنوں کی نہیں، مہینوں کی نہیںبلکہ سالوں کی مسافت طے کی ہودہ اپنا مفاد پورا ہونے کے بعد جب راستہ بدل لیں تو بے لوث محبت کرنے والے کی سوچ چکی میں پستی رہ جاتی ہے۔ پھر وہ سب لمحے کتنے تکلیف دینے لگتے ہیں۔ یہ وہی جانتا ہے۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ کبھی کبھی مجھے خیال آتا ہے کہ ایسا کرنے والوں کو کیا ملتا ہے ؟کیاانہیں اس بات کا کبھی ملال ہوتا ہے ؟ اور اگر ملال ہوتو اس کا مداوا کیا ہے ؟
ایک بات زندگی بھر یاد رہے گی کہ دھوکے میں بڑی جان ہوتی ہے۔ یہ کبھی نہیں مرتا بلکہ گھوم پھر کرواپس ایک دن آپ کے پاس لوٹ کر آتا ہے۔ اسے اپنے ٹھکانے سے بڑی محبت ہوتی ہے۔ میں نے بے غرض ہو کر تقریبا بیس سال اپنو ں کے ساتھ مل کر حو صلہ پایا، اس کے بعد مان لینا پڑا کہ لوگ ٹھیک ہی کہتے تھے۔ بزرگوں کی کئی کہاوتیں جوسنی تھیں وہ سچ ثابت ہوئیں ، دل ٹوٹ گیا ،مان ٹوٹ گیا، ایک شعر جو خصوصی طور پر اپنے رشتے داروں کے لیے لکھا :
بند آنکھوں میں یہ خواب سجائے تو نہیں تھے
آنسو میری پلکوں میں سمائے تو نہیں تھے
پہلو میں پلتے رہے ڈستے رہے جو
اپنے تھے وہ سب سانپ پرائے تو نہیں تھے
(23)
سیانے کہتے ہیں کہ کبھی وقت اور موقع آئے تواپنے خونی رشتے پھینکتے ہیں توچھاؤں میں پھینکتے ہیں تاکہ اذیت زیادہ نہ ہواس کے برعکس غیر جب دھتکارتے ہیں لادھوپ میں پھینکتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ تکلیف ہو۔ اگر ایسی بات ہے تو اب اپنوں کو کیا ہو گیا ہے ؟ کیاوقت بدل گیا ہے ؟ کیا اب وقت نے بے حسی اوڑھ لی ہے؟اور یہ بے حسی اور بے رحمی کا سایہ بدقسمتی سے اپنے سگے خونی رشتوں پر آگیا ہے۔ بھائی بھائی کے خون کا پیاسا ہے۔ حسد کی آگ ہرانسان کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے اور یہ ہمارے اپنے سماج میں ہونے والی روداد ہے۔کہاوت ہے کہ کھاتے پیتے کو کوئی دیکھ نہیں سکتا اور بھوکے کو کوئی دیتا نہیں۔
یہ کیسا وقت اور کیسا دور آ گیاہے۔فرخندہ رضوی حساس دل کی مالک ہونے کی وجہ سے معاشرے کی ان برائیوں کو دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ شدت سے محسوس کرتی ہیں اور کچھ اپنے رشتے داروںکے ناروا سلوک سے دل برداشتہ ہو کر اپنے دکھ کو اپنے شعروں میں ڈھال کراپنے دکھوں کا مداوا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔اظہار غم کا خوبصورت انداز سخن ملاحظہ ہو:
"ایک ہی پل میں اعتبار و اعتماد کی
دیواریں زمین بوس ہوئیں
صحرا میں ریت کے ذرے اڑنے لگے
سمندر کی گہرائی میں گہری ہلچل سی مچی
دل کی دھڑکنیں سینے سے ٹکرائیں کچھ اس طرح
آنکھوں کا غبار موتی تو بنا، پلکوں پہ ٹھہر ساگیا
بس اک آگ سی لگی تھی دل میں
یہ کیسی محبت تھی میری ، جس کا یہ صلہ ملا
یہ بے بسی کبھی پہلے نہ دیکھی تھی " (24)
ا میری غریبی اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کی آزمائش کے لیے آتی ہے۔ امیر بنا کر رب کریم کچھ لوگوں کو آزمائش کی کسوٹی پر کھڑا کر دیتا ہے۔ اسی طرح غربت کے ذریعے لوگوں کو آزماتا ہے کہ رتبہ تو میں نے اسے اشرف المخلوقات ہونے کا دیا ہے۔ تو کیا اس ابن آدم ، کے اندر صبر کا مادہ موجود ہے یا نہیں ،وہ اس غریبی کے حالات میں ہی میرا شکر گزار بنتا ہے یا نہیں ، ہر دونوں صورتوں میں امیری اور غریبی صرف انسان کی آزمائش کے لیے ہے۔کیونکہ وہ رب ذوالجلال انسان کو دونوں طریقوں سے آزماتا ہے۔
٭ مال و دولت دے کر بھی آزماتا ہے۔
٭ رو یپہ پیسہ چھین کر یا قلت دے کر بھی آزماتاہے۔
موجودہ زمانے میں سب سے بڑا المیہ دکھ اور غربت و افلاس ہے۔غربت و افلاس نے معاشرے کی سوچ و فکر اور عمل پر سنگین نتائج مرتب کئے ہیں۔غربت کی وجہ سے معاشرے کی بنیادیں کھوکھلی ہو گئی ہیں۔ غربت وافلاس نے لوگوں کے ذہنوں سے بے حسی ، خود غرضی ، بے ایمانی ، حرص ولا لج ، طمع ، اور پیٹ کی بھوک کو بھرنے کے لیے حرام اور حلال کا امتیاز بھلا دیا ہے۔ لوگ پیٹ کا ایندھن بھرنے کے لیے حلال کو بھول کر حرام کے ذریعے ہی اپنی اور اپنے خاندان کی کفالت کو پورا کرنے کی کوششوں میں سرگرداں ہیں۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کو چاہنے کے باوجود معاشرے سے نکالا نہیں جا سکتا۔ پیٹ کی بھوک نے سماج کے لوگوں کو اندر سے کھوکھلا اور بے ضمیر بنا دیا ہے۔ وہ شاعر ہی کیا جو درد دل نہ رکھتا ہو اور اسے سماج کے لوگوں کے دکھ درد سے آگاہی نہ ہو، لیکن فرخندہ رضوی ایک انسان دوست شاعرہ ہیں وہ معاشرے کے دکھی لوگوں کو دیکھ کر کڑھتی ہیں اور ان کے لیے دل میں بے پناہ ہمدردی اور پیار کا جذبہ رکھتی ہیں اور یہی درد دل کا احساس انہیں دوسرے شعرا سے انفراد یت بخشتا ہے :
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کر و بیاں
اور ایسا ہی درد دل ہماری پیاری شاعرہ فرخندہ رضوی کی رکھتی ہیں۔ درد دل رکھنے والی فرخندہ رضوی کی آزاد نظم "انسانیت" میں دلوں کو موہ لینے کا انداز ملاحظہ ہو۔ بقول فرخندہ رضوی:
"سچائی کے برش سے محبت کے
رنگوں کی آمیزش کی
کبھی نہ اترنے والا
اخلاق کارنگ بکھیرا
پھر خلوص کی چاشنی
محبت ، اخلاق اور درد دل
کے ملانے سے
خوبصورت تصویر مکمل ہوئی
میں نے دل کے نہاں خانے میں
چھپی۔۔۔۔۔۔۔۔
اس تخلیق کا نام
انسانیت رکھ دیا "( 25)
زندگی اللہ تبارک وتعالی کا خوبصورت تحفہ ہے۔ ہر ادیب اور شاعرشاعری کرتے ہوئے اپنے اپنے نقطہ نظر سے معاشرے کی عکاسی کو اپنی بساط کے مطابق پیش کرنے کی سعی کرتا ہے۔ انسان اور انسانیت اور خصوصا معاشرے کا تجزیہ کر کے اپنی اپنی آرا قائم کر کے اپنی شاعری میں خوش اسلوبی کا پہناوا پہنا کر بیان کرتے ہیں۔ زندگی کا فلسفہ بڑا عجیب ہے۔ کچھ کے نزدیک نعمت او ر رحمت ہے اور کچھ کے نزدیک عذاب و زحمت کے مشابہ ہے۔ کچھ لوگوں نے اسے امتحان قرار دیا ہے اور کچھ لوگوں کے خیال میں یہ غم کا پیش خیمہ ہے۔ جو لوگ زندگی کی رعنائیوں و آسائشوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں ان کے لیے یہ دنیا جنت کے مشابہ ہے اور جو لوگ زندگی کو غربت وافلاس ، بھوک اور معاشرے کی ناہمواری کی چکی میں پس کر گزار رہے ہیں ان کے لیے یہ عذاب اور عقوبت خانہ کی مانند ہے۔ یہ زندگی ہے یہاں کچھ لوگ سبق دے جاتے ہیں اور کچھ سبق حاصل کر لیتے ہیں اور اس حقیقت سے کسی بھی طور انکار ممکن نہیں ہے۔بقول ڈاکٹر یوسف حسین خان:
" جدید زمانے کا انسان آج اپنی انفرادی اور اجتمای زندگی کی جس منزل میں ہے وہاں وہ سوچ رہا ہے کہ آیا زندگی اس قابل ہے کہ زندہ رہا جائے اس میں ایک عجیب جھنجھلاہٹ، الجھن اور بے زاری کی کیفیت پائی جاتی ہے فرد اپنی شناخت کھو چکا ہے۔ قدروں کا احترام اٹھ گیا ہے"( 26 )
غربت و افلاس انسان کو بڑے بڑے سبق دیتے ہیں۔ اپنے پرائے کی پہچان کرواتی ہے۔ اچھے برے رویوں کی سمجھ آجاتی ہے۔ انسان اپنی قدر و قیمت کھو دیتا ہے۔ امیراپنے غریب رشتے داروں سے میل ملاپ نہیں رکھتے کہ کہیں غریب ہم سے کچھ مانگ نہ لیں ۔ لوگوں کی بے حسی اور خود غرضی کو فرخندہ رضوی اس طرح بیان کرتی ہیں۔ بقول احمد ساقی:
اک لقمہ حیات پر بہنے لگا لہو
انسان اپنے عہد کے سفاک ہو گئے
(27)
اچھے شاعر کی کامیابی کا راز ہی یہی ہے کہ اپنے محسوسات و احساسات کو منفرد طریقے سے دنیا میں متعارف کروائے۔ شاعری دنیا کو ایک نئے طریقے سے دیکھتی ہے۔ہر لکھا جانے والا لفظ جو ہمیں زندگی کی حقیقتوں اور سچائیوں سے آشنا کرتا ہے۔ہر شاعر کا اپنا انداز فکر ہوتا ہے۔ جس کا استعمال وہ اپنی شاعری میں کرتا ہے۔
فرخندہ رضوی بھی ایک با ضمیر اور حساس طبعیت کی مالک خوبصورت شکل و صورت ، انسانیت کا درد محسوس کرنے والی شخصیت ہیں۔وہ معاشرے کے ہرفردکے مسائل کے حوالے سے دلی ہمدردی رکھتی ہیں۔ یہ ان کی انسانی نفسیات پرمکمل عبورکی دلیل ہے۔ بقول فر خندہ رضوی:
اس شہر کی بلند عمارات کے قرین
ہر جھونپڑی میں درد کی ماری ہے زندگی
(28)
فرخندہ رضوی نے زوال پذیر معاشرے کی عکاسی اور زندگی کے مصائب ومسائل سے آگہی، غربت کے مارے لوگوں بھوک ، ضروریات پورا نہ ہونا اورذلالت بھری زندگی کا مشاہدہ اتنا قریب سے کیا ہے کہ وہ غریبوں کی حرکات وسکنات کودیکھ کرفوری ان کے دل کی بات سمجھ جاتی ہیں اور یہ ہر شاعر کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ وہ نہایت سہل لہجے میں گہری بات دوسروں تک پہنچانے کا فن بخوبی جانتی ہیں جیسے یہ شعر :
اکڑ کر دیکھتی تھی میں گلی میں جس بھکارن کو
ترستی آنکھ سے وہ دیکھ کر تڑپا گئی مجھ کو
(29)
یاد سماج کا ایک اہم پہلو ہے۔ سماج میں رہنے والے انسان خوشی اور غمی کے مواقع کو یاد بنا کر ساری زندگی گزرے ہوئے لمحات کو یاد کے سہارے گزار تے ہیں۔ یاد ان کی زندگی کا قیمتی سرمایہ ہوتی ہے۔ خصوصاً خوشی کے مواقع پر اور عاشق کا اپنے محبوب کی یادوں میں کھوئے رہنا۔
یادکو شاعری کا اہم ترین موضوع سمجھا جاتا ہے۔ انسانی زندگی کے اتار چڑھاؤ، تلخ وشیریں حقائق ،محبت میں ناکامی، محبوب کی بیوفائی، اولاد کاغم وغیرہ وغیرہ ایسی یادوں کی برات کاساتھ انسان چاہتے ہوئے بھی بھلا نہیں سکتا ہے۔ یادیں انسان کی تنہائی کا ایسا سہارا ہیں کہ تنہائی میں بھی محفل کاسماں برپا ہوجاتا ہے۔ انسان تخیل وتصور میں ماضی میں پہنچ کر اسی یاد کے مطابق وہ نہیں سوچ رہا ہوتاہے مجسم صورت میں رول کرنے لگتاہے۔ رات کو چونکہ انسان ہرکام سے فارغ ہو جاتا ہے۔ ماحول پرسکون ہوتا ہے تو یاد بھی یادوں کی برات کے سا تھ آن وارد ہوتی ہے۔یادیں رلاتی بھی ہیں اور ہنساتی بھی ، یادیں خوشی بھی دیتی ہیں پرانے غموں کو ہوا بھی دیتی ہیں۔ گزرے وقت کے مناظرتخلیق کر کے آنکھوں کے سامنے آجاتی ہیں۔
یادیں بڑی حسین ہوتی ہیں۔ یہ زندگی کا اہم سرمایہ ہوتی ہیں۔ یہ جس قدرپرانی ہوتی جاتی ہیں۔ انسان کے لیے ان کی اہمیت وافادیت بڑھتی جاتی ہے۔ شاعر وہ شخصیت ہوتا ہے جو ان یادوں کو شعری تسبیح میں پرو کر محفوظ کرلیتا ہے۔ یادیں وہ سرمایہ ہیں جن سے کسی صورت بھی پیچھا نہیں چھڑا یا جا سکتا۔ فرخندہ رضوی اپنی نظم "یاد" کے آئینے میں۔ فرخندہ رضوی اپنے ماضی کی یادوں کو کیسے یاد کرتی ہیں۔ ملاحظہ ہوا:
"آئی تھی اس خیال سے۔
سوؤں گی تجھ سے چھپ کر مگر
ہرسلوٹ پر یادیں تھیں تیری
ہر کروٹ میں محسوس ہوا تیرا پہلو۔۔۔
رات بھر سوئی ہی کہاں
اس اندھیرے سے صبح کے اجالے تک
ہر سلوٹ میں تجھے
ڈھونڈتی ہی رہی میں( 30)
یادیں فرخندہ رضوی کے نزدیک قیمتی خزانے سے کم نہیں ہیں۔انھوں نے زیر نظردونوں شعری مجموعوں " سنو خموشی کی داستان "اور" فاصلے ستارے ہیں" میں بہت زیادہ شاعری یادوں کی سنگت میں کی ہے۔ انھوں نے تخیلاتی اور فکری طور پر کافی جہتوں میں اشعار کہے ہیں۔جس میں ایک طرز فکر یاد ماضی ہے۔ بعض اوقات کسی کی یاد دل میں اس قدر بسیرا کر لیتی ہے کہ انسان یادوں کے سہارے ملاقات کا سرور حاصل کر لیتا ہے۔فرخندہ رضوی سماجی تناظر میں ’’ یاد ‘‘ کے موضوع کو شعروں میں اس طرح پیش کرتی ہیں :
روزہی روز سینے سے لگائے پھرتی ہوں یادوں کو
بچھڑ گئی تجھ سے اک بار تو پھر جاؤں گی کہاں
(30)
فرخندہ رضوی یادوں کی برات سے را ہ فرار چاہتی ہیں مگر یادیںہیں کہ پیچھا ہی نہیں چھوڑتی اس اذیت و کرب کے لمحوں میں فرخندہ بے اختیار پکار اٹھتی ہیں:
میں سلگنا نہیں چاہتی آتش محبت میں
کہو دل ذرا ٹھہرے کہیں یادیں نہ جلا دیں مجھ کو
(31)
سماج کے جہاں اور کئی پہلو ہیں ، وہاں ظلم وستم بھی سماج ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ کسی کو اس کے حقیقی حق سے محروم کرنا ظلم وستم کے زمرے میں آتا ہے۔ ظلم کی حد تو یہ ہے کہ نہ صرف حق سے محروم کیا جاتا ہے۔ بلکہ الٹا مجرم بھی ثابت کردیا جاتا ہے۔ اکثر اوقات ظلم کی ابتداکسی چھوٹی سی ناانصافی سے شروع ہو کر حقوق کی پامالی تک جا پہنچتی ہے۔ ہر بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ صاحب اختیار لوگ ہمیشہ ہی غربیوں اور مجبوروں پر ظلم اور نا انصانی کے پہاڑ ڈھاتے ہیں۔ انہیں اذیت و تکلیف دینے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے۔زندگی کا دستور ہے کہ زیست کے تمام شعبوں میں غریب اور مجبور ظلم سہتا ہے۔ صنعت کارہو یا زمیندار، سرمایہ دار ہو یا سیاست دان سب اپنے طریقوں سے غریبوں کو استعمال کرتے ہیں۔ دن رات ان سے کام لیا جاتا ہے۔ مگر ان کے کام کا معاوضہ اور اجرت برائے نام دی جاتی ہے۔ نتیجہ امیر اور امیر ہوتا جاتا ہے اور غریب بعض اوقات ظلم وستم کی بدولت اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور یہ سب کچھ ہمارے سماج میں روز اول سے ہو رہا ہے اور شاید ہمارا سماج ظلم و ستم کی اس وبا سے آخری وقت تک بھی چھٹکارہ نہ پا سکے۔
معاشرے کے اکثر لوگ ایسے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں اور یہ مصائب ومسائل اس قدرپیچیدہ ہو گئے ہیں کہ لوگ اپنے حق کے لیے آواز اٹھا نا بھول گئے ہیں۔کیونکہ وہ نہ صرف جسمانی طور پر ان کے غلام ہوتے ہیں بلکہ ذہنی طور پر بھی اس طبقے کے تابع ہوتے ہیں اور یہ سماج کا ادنی ترین طبقہ ہوتا ہے۔
فرخندہ رضوی چونکہ معاشرے کی سچی تصویر پیش کرتی ہیں۔ اس لحاظ سے وہ معاشرے کی سچی عکاسی کرتے ہوئے جو کچھ معاشرے کی ناہمواریوں کو دیکھتی ہیں۔ اسے اپنے فن و فکر کے ذریعے بے چون وچرا پیش کر دیتی ہیں۔ بقول شہزادا حمد :.
’’ فرخندہ رضوی صاحبہ جدید، مؤثر اور تازہ و توانا لہجے کی شاعرہ ہیں۔ اچھا شعر کہنے کا جذبہ رکھتی ہیں مگر طبعیت کا زیادہ تر میلان " آزاد شاعری" کی جانب ہے۔اپنی بات نہایت سلیقہ سے کہتی ہیں انداز بے شک دھیما ہے مگر اپنے ماضی الضمیر کوپوری توانائی سے منتقل کرنے کے فن سے بخوبی واقف ہیں‘‘(32)
معاشرے کے مسائل کو دوسرے لوگ آنکھیں بند کر کے گزر جاتے ہیں۔ مگر شاعر اس مقام پر خاموش نہیں رہتا بلکہ اس اجتماعی دکھ کو اپنی شاعری کے ذریعے بیان کرنا اپنا اولین فرض سمجھتا ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس کا ضمیر اسے ملامت کرتا رہتا ہے۔ شاعر یہاں اپنی بات کو منطق یا دلائل کے ذریعے نہیں کرتا بلک وہ جذبات کا سہارالیتا ہے۔یہ جذباتیت شاعری کو اثر پذیری عطا کرتی ہے جس سے اشعار ذہن کی بجائے سیدھا دل پر اثر کرتا ہے۔آرزوؤں کا ناکام رہنا بھی پریشانی کاباعت بنتا ہے جب پوری توجہ خواہشات کے ادھورے پن کا شکار ہوجائے تو یہ دکھ اجتماعی دکھ کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔بقول احمد ساقی:
وہ ظالم میری کمزوری پہ رکھتا ہے نظر اپنی
جہاں پر زخم ہوتا ہے وہیں پر وار کرتا ہے
(33)
ظالم جتنا مرضی ظلم وستم کا بازار گرم کرلے، بالآخر ایک دن اس کو پکڑا جانا ہے۔ ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔۔ ظالم کی رسی جتنی مرضی ڈھیلی کردی جائے مگر جب مکافات عمل شروع ہوتا ہے تو وہی ڈھیلی رسی اس کے گلے کا پھندا بن جاتی ہے۔ انہی تکلیف دہ حالات و مصائب میں بھی فرخندہ یہ کہتی نظر آتی ہیں :
اہل ذر سے بھی رابطہ رکھنا
درمیاں میں مگر انا رکھنا
وقت کیسا بھی آپڑے تم پر
زندگی سے نہ تم گلہ رکھنا
(34)
سماج میں لوگوں کے ہجوم میں بہت سے لوگ مختلف شعبوں سے وابستہ ہوتے ہیں۔ کوئی ڈاکٹر، کوئی وکیل، کوئی استاد کوئی شاعر و ادیب۔ یہاں ہم بات شاعری کے حوالے سے کر رہے ہیں تو ہمارا معاشرہ اچھے شاعروں اور شاعرات سے بھرا پڑا ہے۔ شاعر لوگ ملک اور سماج کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔شاعر ہونا کوئی معمولی بات نہیں ہے شاعری ایک پیچیدہ کام ہے۔ بہترین خیالات کو بہترین الفاظ سے مزین کر کے بہترین انداز سے ہی کرنا بڑے فن کی بات ہے۔ در حقیقت شاعری نے بڑے بڑے کام سرانجام دیے ہیں۔ اور شاعری سے بڑے بڑے کام لیے بھی جاتے ہیں اور لیے بھی جارہے ہیں۔شاعر دلوں اور روحوں کا ترجمان ہوتا ہے۔ شاعر کی شاعری کا معیار جس قدر بلند ہوگا۔ اسی قدر و ہ مقاصدبھی بڑے رکھے گا۔ بقول احمد ساقی:
" آج کل شاعروں کا جمعہ بازار لگا ہے۔ہر کوئی شاعری کر رہا ہے اور اپنے آپ کو بڑا شاعر ثابت کرتا پھرتا ہے جب کہ کسی کے شاعر ہونے یا نہ ہونے، کسی شاعر کا معیار کیا ہے ؟ اس کافیصلہ تو وقت ہی کرتا ہے"( 35)
فرخندہ رضوی کے نزدیک شاعری کافن پیچیدہ اور مشکل ترین کام ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ شاعری دل کی کیفیت ہے جو دل پر اثر کرتی ہے۔ اگر شعر لوگوں کے دلوں میں تاثیر نہ چھوڑے ایسی شاعری کا کیا فائدہ۔بقول فرخندہ رضوی:
"کہتے ہیں کہ تحریرادب اس وقت بنتی ہے۔جب خوبصورت احساس شامل ہوں۔اس میں لکھنے والا اپنی تحریر کو خون جگر سے سجاتا ہے۔ اس کی خوش قسمتی یا بد قسمتی اس وقت سامنے آتی ہے کہ پڑھنے والا کہاں تک سمجھ پا یا"(36)
ہجرت کے لغوی معنی ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی کے ہیں۔ اصطلاحی طور پر اللہ کی رضا کی خاطر اپنے گھر بار اور وطن کو چھوڑ کر کسی دوسری جگہ چلے جانا ہجرت کہلاتا ہے۔ قیام پاکستان کے وقت بھی تاریخ کی بہت بڑی ہجرت ہوئی۔
فرخندہ رضوی چونکہ عرصہ دراز سے بیرون ملک رہ رہی ہیں۔ اس لیے ان کے کلام میں جابجا ہجرت کا موضوع ملتا ہے۔ فرخندہ رضوی اپنے ملک سے دوسرے ملک جانے کو اپنے لیے مفید سمجھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہجرت انسان کو بہت فوائد سے نوازتی ہے۔ اگر چہ آسان مرحلہ نہیں بلکہ بہت مشکل کا م ہے۔ ہجرت بہت سے مسائل پیدا کرتی ہے۔ مگر جب انسان ہجرت کرتا ہے تو اس کے فوائد بھی ہوتے ہیں اور اکثر ہجرت کرنے والے لوگ کامیاب و کامران ہوتے ہیں۔پردیس میں اپنے دیس کی باتیں اور یادیں انسان کے ساتھ ہمیشہ رہتی ہیں۔ ہجرت کا دکھ کبھی ہنساتا اور کبھی رلاتا ہے۔ انسان کبھی شہرت، کبھی عزت اور کبھی مال و دولت حاصل کرنے کے لئے بھی یہ دکھ اٹھاتا ہے۔ یہ بھی سماج کا ایک اہم پہلو ہے۔ بقول فرخندہ رضوی:
"مجھے نہیں لگتا کہ میں اپنے شہر میں ہوتی تو شاید اتنی شہرت نہ ملتی۔۔۔۔ اور دوسری بات یہ کہ جہاں عزت ملنی ہوتی ہے وہاں مل کررہتی ہے۔۔۔ جب وہاں تھی لکھتی تھی مگر کوئی جانتا نہیں تھا۔ یہاں آئی تو قلم کی طاقت جب بڑھی۔ مجھے راستے ملتے گئے میری اپنی ایک پہچان بنتی گئی"( 37)
فرخندہ رضوی پردیس کو عارضی ٹھکانہ تصور کرتی ہیں اور اپنے وطن کو حقیقی پناہ گاہ سمجھتی ہیں۔ پردیس کی زندگی انتہائی کرب آمیز اور تنہائی پسند ہوتی ہے۔نہ اپنے خونی رشتے اور نہ دوست احباب ہوتے ہیں۔ جن سے زندگی کے دکھ سکھ کو بانٹا جاسکے۔ مذہبی اقدار کی پاسداری کرنا نہایت مشکل ہو جاتا ہے۔ مذہبی آزادی سلب ہو جاتی ہے۔ مغرب کے ننگ تڑنگ ماحول میں خود کو بچا کر پاکیزہ زندگی گزارنی مشکل ترین ہو جاتی ہے۔ اس ضمن میں فرخندہ شعروں میں یوں کہتی ہیں :
میری خواہشیں مجھ کو یہ کہاں پر لے آئیں
ہے برہنگی ہر سو ، ہرسو بے لباسی ہے
(38)
اپنے آپ کی خود تعریف کرنا یعنی اپنے منہ میاں مٹھو بننا۔ دوسروں کے منہ سے اپنی تعریف سننا اور خوش ہونا خود پسندی کے زمرے میں آتا ہے۔ داد تحسین سب کو بھاتی ہے۔ جو ایک مرض کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ کسی نہ کسی بہانے ، وسیلے سے موقع تلاش کرنا کہ کوئی تعریف کرے اور پھر دوسروں کی تعریف پر پھولے نہ سمانا خود پسندی ہے۔ اکثر اوقات خود پسندی انا پرستی میں بدل جاتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اناپنی اور خود پسندی ہرانسان میں موجود ہوتی ہے۔ یہ مختلف لوگوں میں مختلف طرح سے ہوسکتی ہے۔ مثلا دولت مند اور امیر طبقہ میں دولت کی فراوانی ہمیں خود پسند بنادیتی ہے۔ اسی طرح علماء و فضلاء حضرات میں اپنے علم کی وجہ سے خود پسندی پیدا ہو جاتی ہے۔
بڑے بڑے شاعر نئے آنے والے شعرا کے کلام کو قابل اعتنا نہیں سمجھتے اور خود پسندی کے زعم میں نئے شعرا کے کلام کی اصلاح سازی سیگریز کرنے نظر آتے ہیں۔خود پسندی کا زعم بھی ہمارے معاشرے کا ایک افسوسناک پہلو ہے۔ فرخندہ رضوی اپنے شعری مجموعے’’ خوشبوئے خندہ‘‘کی اصلاح سازی کے لیے معروف شاعر کی خو دپسندی کے ضمن میں لکھتی ہیں :
" کچھ ناموں میں ایک نام غلام ماجدی صاحب کا جو ادب کی دنیا میں شاعرکی حیثیت سے جانے جاتے ہیں مری کتاب پر لکھنے کوفخر سمجھا،کتاب کاکچھ مسودہ قبول کیا پھر تین ماہ کی خاموشی کے بعد جواب آیا، میں نیا شاعر نہیں ہوں( مگر دیکھا جائے تو مشاعرے۔۔۔۔ میں پائے جاتے ہیں ) میں تعریفی مضمون نہیں لکھ سکتا۔ مگر بخدا میں نے کبھی نہیں چاہا کہ کوئی۔۔۔۔ تعریف لکھے"( 39)
خود پسندی کا نشہ جب حدسے بڑھ جاتاہے تو پھر یہ تباہی کی طرف لے جاتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب انسان خود کو افضل و اعلیٰ سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔ تو اپنی برتری و بڑائی قائم رکھنے کے لیے جائز و ناجائز طریقے استعمال کرنا شروع کر دیتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ لوگوں کی جان ومال اور عزت و آبرو سے کھیلنے سے بھی گریز نہیں کرنا۔ مقبوضہ کشمیر اس خود پسندی کی زندہ مثال ہے۔ بڑے بڑے ممالک اپنے مفاد اور سواد کی خاطر چھوٹے ملکوں میں جنگ کا بازار گرم رکھتے ہیں جس کی وجہ سے بے گناہ لاکھوں کروڑوں لوگ متاثر ہوکر تباہ و برباد ہو جاتے ہیں۔ جب انا پرستی اور خود پرستی حد سے بڑھتی ہے تو یہ ہوس و حرص کی شکل اختیار کرلیتی ہے اور یہ سب کچھ ہمارے سماج کا سنگین پہلو ہے اور اس حقیقت سے انکار نہ میں کر سکتی ہوں اور نہ کوئی سماج کا ٹھیکیدار کر سکتا ہے۔ فرخندہ رضوی شدت پسندی کو کچھ یوں بیان کرتی ہیں :
غمزدہ ہوں کہ میری آنکھوں نے
باغ امید جلتے دیکھا ہے
ہم نے اہل ہو س کو اے خندہ
کیسے کلیاں مسلتے دیکھا ہے
(40)
زندگی اللہ تعالی کا ایک حسین تحفہ عظیم ہے۔ ہر شاعر، ادیب نے زندگی کو اپنے اپنے نقطہ نظر سے دیکھ کر اپنی آراء قائم کی ہیں۔ زندگی کچھ لوگوں کے لیے باعث نعمت اور رحمت ہے۔ بعض لوگ ا سے امتحان قرار دیتے ہیں تو کچھ زندگی کو غموں کا پیش خیمہ سمجھتے ہیں۔ دنیامیںہر طرح کے لوگ موجودہیں۔ اچھے بھی برے بھی۔کچھ لوگ زندگی سے سبق سیکھتے ہیں اور نیک عمل سے زندگی کو خوشگوار بنالیتے ہیں اور کچھ زندگی کی رعنائیوں میں کھو کر گناہوں کے عمیق گڑھووں میں دھنس کر تباہ و برباد ہو جاتے ہیں۔یہ حقیقت ہے زندگی اور اس کی حقیقت سے انکار ممکن نہیں۔ زندگی اور شاعری کا آپس میں بہت گہرا تعلق ہے۔ کیونکہ شاعر کی شاعری میں زندگی کے ان تمام رویوں کی بازگشت سنائی دیتی ہے جن کا بنیادی تعلق انسانی زندگی سے ہے۔اور یہ وہ انسان ہے جو سماج کا ایک اہم حصہ ہے۔یہ زندگی ہے صاحب الجھے گی نہیں توسلجھے گی کیسے ؟بکھرے گی نہیں تونکھرے گی کیسے ؟
زندگی دراصل ایک امتحان گاہ ہے اور انسان تمام زندگی مختلف طرح کے امتحانات دیتا رہتا ہے۔ زندگی ایک سراب ہے۔ انسان ساری زندگی اس کے پیچھے بھاگتا رہتا ہے۔ زندگی کبھی آنسوؤں سے نہلاتی ہے تو کبھی شبنم سی ہنساتی ہے۔ کہیں نرم کبھی گرم کہیں خوشی کبھی غم ، کبھی ملن کبھی جدائی، کبھی صنم کبھی ہرجائی،یہ سارے نام زندگی کے ہیں مگر ایک عاشق کے لیے زندگی صرف اس کا محبوب ہوتا ہے:
"زندگی کا ہر لمحہ تمہارے نام
ہر اس راہ سے گزری ہوں
جو تیری راہ سے گزری ہے
تیرے ہونٹوں کو چھو کر
دل میں اتری ہوں ہر دھڑکن میں
بس گئی ہوں
ان فاصلوں سے بھاگتی ہوں جو ہر پل
درمیان میں آ بستے ہیں
سمیٹ لو مجھے بانہوں میں
یہ فاصلے تباہی ہیں ’’(41)
شاعری ایک پیچیدہ اور منفرد عمل کی حامل ہے۔جس کی تعمیر و تشکیل میں بہت سے عناصر کارفرما نظر آتے ہیں۔ جو ایک مربوط طریقہ سے آپس میں جڑے ہوتے ہیں در حقیقت شعر کی خوبصورتی اور اچھوتا پن یہی اکائی اور وحدت ہے۔ شاعری کے دو عناصر تراکیبی ہیں۔پہلا عنصر فکری اوردوسرا عنصر فنی ہے۔فکر میں تخیل اور تشکیل کے نام ذرائع ( جذبہ، تعمل، مشاہدہ، تجربہ ) شامل ہوتے ہیں۔ جب کہ فنی میں شعر کی تکنیک ، ہئیت اور آہنگ شامل ہوتے ہیں۔
شاعری محض مختلف الفاظ و خیالات کو ایک جگہ جمع کرنا نہیں ہے بلکہ ان کو اس طرح پیش کرنا ہے کہ ابلاغ کے ساتھ ساتھ زبان و بیان کی خوبی کے ذریعے قاری کو لطف و آفرین کا احساس ہو۔ بلندی خیال کے ساتھ ساتھ اظہار بیان کی اہمیت بھی مسلم ہے۔ کیونکہ جب تک اظہار بیان کا سلیقہ نہ ہو تواظہار بیان میںشائستگی، سلاست تازگی، چستی بندش،بے ساختگی اورلطف بیان جیسی خصوصیات شامل نہیں ہوسکتیں اور کلام سخن پرتاثیر نہیں بن سکتا۔
ہر شاعر کی فطری خواہش ہوتی ہے کہ اپنے طرز بیان کے حوالے سے وہ اپنی کاوش کو منفرد اور جداگانہ انداز بیان کی بدولت اس کی شناخت قائم کروائے اور یہی کشش شاعر کے کلام میں فنی پختگی لانے کا سبب بنتی ہے۔ ہر فنی پختگی جہد مسلسل کے سبب کسی بھی شاعر کے کلام کا خاصہ بن جاتی ہے۔
شاعر اپنی شاعری کو پر اثر اور قابل تو جہ بنانے کے لیے نئے نئے تجربات کرتا ہے۔یہ تجربات و کاوش بھی اسلوب کی انفرادیت قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ بہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ نقاد حضرات کسی بھی شاعر کے تخیل اور تصور کے ساتھ ساتھ انداز بیان اور اسلوب کی بنا پر منفرد درجہ دیتے ہیں۔ دراصل کوئی بھی ادبی فن پارہ اس وقت تک پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا جب تک بلند تخیل کے ساتھ زبان و بیان کی چاشنی کارنگ شامل کلام نہ ہو۔شاعر قافیہ ردیف کی انفرادیت، استفیامیہ لہجہ۔ بحروں کا استعما ل اور ترنم و غنائیت سے اپنے کلام کو سنوارے سجائے۔ادبی شہ پارے کے حوالے سے لو نجائنس در ج ذیل خصوصیات کو لازم قرار دیے ہیں:
"عظمت خیال( Grandeur of Thought) شدید قومی جذبہ تاثیر(Regarour and Spirited ) منائع بدائع (لفظی و معنوی)کا استعمال ،پرو قارزبان کا استعمال یا انتخاب الفاظ یعنی مناسب الفاظ کا انتخاب ، موزوں اور بر محل استعاروں کا استعمال، موثر اور پراثر شوکت ترتیب اور ہیتی ساخت (Majesty and Elevation of Structure) " (42)
فرخندہ رضوی کی غزل فنی کاجائزہ لیا جائے تو ان کی غزل میں زبان و بیان کی تمام خوبیاں موجودہیں۔ انہوں نے منفرد اسلوب کے ذریعے اپنی انفرادیت اور خوشنمائی کو برقرار رکھنے کی پوری کوشش کی ہے۔ ان کی غزل میں قافیہ ردیف کی انفرادیت ، بحروں کا استعمال ، علم عروض اور مروجہ اردو بحور کا استعمال اپنی شاعری میں دکھانے کی پوری کاوش کی ہے۔بقول سلطانہ مہر:
" فرخندہ رضوی بھی سفری راہوں پر اسی طرح اپنے پیر جمانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔اسکاکوئی استادنہیں۔ ان لڑکیوں اور خواتین کی حوصلہ افزائی کی جو قلم کی شیدائی تھیں۔ اردو زبان وادب کی دلدادہ تھیں۔ مجھے فخر ہے کہ ان میں کئی آج کی جانی پہچانی اور معتبر شاعرہ اوراد یبہ ہیں۔ فرخندہ رضوی بھی انہی میں سے ایک ہیں، آج وہ ایک نو آموز بچے کی طرح چلنا سیکھ رہی ہے "( 43)
کسی بھی شاعر کے کلام میں زبان و بیان کی چاشنی بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ زبان وبیان کے خوبصورت استعمال سے کلام پرکشش اور دلفریب معلوم ہوتا ہے۔فصاحت وبلاغت کی پاسداری ، روز مرہ اور محاورہ کا بر محل استعمال ، کلام میں زبان و بیان کے حوالے سے چاشنی کاسبب بنتے ہیں۔ فرخندہ رضوی کی زبان و بیان کی چاشنی ملاحظہ ہو:
نغموں کا ترنم، جھرنوں سی خموشی
ایسے دل میں اتر آیا کرو یوں
فاصلے سمیٹ کر پلکوں پر انتظار سجائے
روز گلے لگایا کرو یوں
(44)
مشہورشاعر دا نتے زبان کے مسئلہ پر اپنی رائے کچھ یوں دیتے ہیں۔
" زبان کا مسئلہ ہر شاعر کے لیے خواہ اطالوی ہو یافرانسیسی۔ یونانی ہو یا انگریزی، بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ ادب میں ایک مخصوص زبان استعمال ہونی چاہیے اور یہ زبان روز مرہ سے قریب ہونی چاہیے لیکن اکھڑ، ناتراشیدہ اور دیہاتی زبان استعمال نہیں کرنی چائے یعنی گنواروں کی زبان سے پرہیز کرو"( 45)
پاکیزگی خیال کے ساتھ ساتھ زبان کی صفائی بھی لازمی امر ہے فرخندہ رضوی زبان و بیان کی چاشنی روزمرہ اور محاورے کی تمام خوبیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہیں۔ان کا کمال خاص یہ ہے کہ وہ سماج میں بولی جانے والی زبان کا استعمال کرتی ہیں نہ کہ انگریزی زبان کے الفاظ کیونکہ وہ گوروں کے شہر میں رہ کر اردو زبان کی آبیاری کر رہی ہیں۔کلام سخن ملاحظہ ہو:
ہوائیں آج بھی گنگناتی ہیں چھو کر
اپنی آنکھوں سے نفرت کی چادر ہٹا کر تو دیکھو
سحر کی دھوپ میں ٹھنڈک سی ملے گی
اک بار کھلے آسمان کے نیچے آ کر تو دیکھو
(46)
انسان سماجی حیوان ہے کسی بھی ترقی اور کامیاب منزل تک پہنچنے کے لیے وہ سماج کا محتاج ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اگر انسان ترقی کرنا چاہتا ہے تو اسے سماج میں آپس میں باہم مل جل کر رہنا ہو گا۔ کیونکہ سب سے اہم رشتہ انسانیت کا ہوتا ہے اگر انسان اس دھرتی کو امن اور خوشحالی کا گہوارہ بنانا چاہتا ہے تو اس کے لیے اسے تمام تعصبات سے بالاتر ہو کر سوچنا پڑے گا۔ ایسی سوچ کی حمایت اور حوصلہ افزائی کرنا ہوگی۔ جو انسان کو انسان کے قریب لانے میں معاون و مددگار ثابت ہو۔
اچھی اور مثبت سوچ معاشرے کے باسیوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ سماج میں امن، یگانگت اور بھائی چارے کو فروغ دینے کے لیے ایسی ہی مثبت سوچ کی فرصت ہے۔ جو انسانوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے محبت پیدا کرے۔ فرخندہ رضوی انسانیت کی قائل شاعرہ ہیں وہ طبقہ بازی کے خلاف ہیں ان کی سوچ کے مطابق انسان کو قدر و منزلت محض دولت کی بنا پر نہ ملے بلکہ اس کی صلاحیتوں کے بل بوتے پر ملے۔ انسان انسان کی قدر کرے ایک دوسرے کو احترام و محبت کی نگاہ سے دیکھے۔بقول شہزاد احمد
" فرخندہ رضوی صاحبہ کی یہ تمام کوشش دیار غیر ( انگلینڈ) میں بیٹھ کر قابل رشک اور قابل حد ستائش ہیں۔ وہ اس مشینی ملک میں رہتے ہیں جہاں کا ہر انسان ایک مشین بن چکا ہے۔ مگر وہ اس کے باوجود انسان اور انسان دوستی کی علمبردار ہیں"( 47)
فرخندہ رضوی ایک انسان دوست شاعرہ ہیں جو معاشرے کے بے یارو مدد گار لوگوں کے دکھوں اور تکلیفوں پر نہ صرف کڑھتی ہیں بلکہ اپنے اشعار کے ذریعے ان کے دکھ درد کی تصویر کشی بھی کرتی ہیں۔ دور حاضر میں غربت و افلاس نے سماج کی سوچ و عمل میں سنگین نتائج پیدا کرکے انسان کی زندگی کو مشکلات سے دوچار کیا ہے۔ فاقہ کشی عروج پر ہے بھائی بھائی کے خون کا پیاسا ہے۔ غریب آدمی کا اچھے انداز میں زندگی گزارنا محال ہے۔ بقول فرخندہ رضوی:
"روک لو اس گھڑی کو
یہ لمحے اس طرح ٹھہر جائیں
نہ ٹھہرے تو۔۔۔۔۔۔
غضب ہو جائے گا
ہر طرف لاشے ہی لاشے بکھرے ہونگے"( 48)
اگر کوئی سماج امن و سکون کا گہوارہ ہو تو وہاں خوف بھی پیدا نہیں ہوتا۔ البتہ اگر ہر طرف دہشت گردی، ڈاکہ زنی، قتل و غارت اور لوٹ مار کا بازار گرم ہو تو اس سماج کے لوگوں میں خوف و ہراس کا پیدا ہونا یقینی ہوتا ہے۔ خوف کی سب سے بڑی وجہ سے سماج میں بدامنی کی فضا ہے۔ لوگ ڈرے اور سہمے رہتے ہیں۔ جبکہ امن دلوں کو سکون اور اطمینان بخشتا ہے۔ لوگوں کے اندر اعتماد بحال کرتا ہے۔ خوف اور ڈر جب کہیں سماج میں بسیرا کر لیتا ہے تو وہاں مسکراہٹیں اور قہقہے کے رخصت ہو جاتے ہیں۔ شہنائیاں روٹھ جاتی ہیں حتی کہ ڈھولک کی تھاپ بھی نوحہ خوانی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ جب خوف و ہراس سماج کے لوگوں کے دلوں میں بیٹھ جاتا ہے تو یہ خوف ان کی صلاحیتوں کو دیمک کی طرح چاٹ جاتا ہے۔
جنوبی ایشیا میں مقبوضہ کشمیر اور مشرقِ وسطیٰ میں فلسطین، شام، یمن، ایران اور عراق اس خوف کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں جس کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ دراصل خوف زدہ سماج کے اندر انسانوں کی صلاحیتیں دم توڑ جاتی ہیں۔ جہاں دوسرے تمام شعبہ ہائے زندگی کے علاوہ شاعر اور ادیب جو سماج کے عکاس ہوتے ہیں۔ ان کی تخلیقی صلاحیتیں جو صحت مند معاشرے کی مرہون منت ہوتی ہیں زنگ آلود ہو جاتی ہیں اس سلسلے میں میں ڈاکٹر عبادت بریلوی لکھتے ہیں:
" ادب، فن اور اس کی تخلیق ایک صحت مندانہ ماحول کا تقاضا کرتی ہے۔ وہ زندگی کی مثبت قدروں کی علمبردار ہوتی ہے۔ اس کا پودا صرف آزادی اور محبت کی فضا میں پنپتا اور پروان چڑھتا ہے۔ منافقت کا ماحول اس کے لیے زہر ہے۔ بے عملی کی فضا اس کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ بے عقلی اور جہالت اس کے لئے ایک ایسی بیماری ہے جس کا علاج ممکن نہیں"( 49)
خوف انسان کی نس نس میں رچ بس جائے تو احساسات بڑی حد تک مفلوج ہو جاتے ہیں۔ خوف انسان سے سکھ چھین لیتا ہے۔ انسان کو سانس لینا دشوار ہو جاتا ہے۔ سماج میں پائی جانے والی بے یقینی کی صورتحال لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کرتی ہے۔
آج کے سیاسی دور نے جہاں انسان کو بے شمار سہولیات سے نوازا ہے وہیں اس کی زندگی میں اندیشوں اور وہموں نے بھی جگہ بنا لی ہے۔ آج کی سائنسی دور نے اس انجانے حادثوں کی خبر دی ہے اور انسانی جان کو کو ارزاں بنا دیا ہے۔ دور حاضر کے انسان کو جہاں سہولیات، آسائشات اور خوشحالی کا سکھ ملا ہے۔ وہاں جنگوں، دھماکوں اور حادثوں کا تحفہ بھی ملا ہے۔ شاعر جو سماج کا حساس دن انسان ہے۔ یہ خوف و ہراس شاعر حضرات کی زندگی پر اثر انداز ہو کر اس کے فن پارے کے ذریعے سماج پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ایسی صورتحال کی تصویر کشی فرخندہ رضوی یوں کرتی ہیں:
"روک لوں اس گھڑی کو
کیوں نہیں روک لیتے
کوئی تو سمجھائے دشمن مسلمان کو
کیوں اپنے مفادوں میں
استانوں کا ہاتھوں۔۔۔۔۔۔
انسانوں کا خون کرواتے ہیں
ایسے میں کاش
کوئی مسیحا آ جائے
سر اٹھیں سجدوں سے تو اک
معجزہ ہو جائے۔۔
کاش!
یہ گھڑی رک سی جائے۔۔"( 50)
جدائی کو شاعری کا اہم ترین موضوع تصور کیا جاتا ہے۔ انسان چونکہ حیوان ناطق ہے۔ اس کا ہر قول وفعل، زندگی کے نشیب و فراز، تلخ و شیریں حقائق، محبت، یادیں، ملن، جدائی سب سماج کی مرہون منت ہے۔ سماج کا باسی ہونے کے ناطے وہ محبت بھی کرتا ہے نفرت کا بھی اسے حق ہوتا ہے۔ ملن کے بعد جدائی بھی اس کی زندگی میں آ سکتی ہے۔ تمام لوگ تو نہیں مگر شاعر حضرات زندگی کے وہ تمام معاملات انسان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان تعلقات کو موضوع بنا کر اپنے محسوسات و احساسات کو شعری پہناوا پہنا کر دنیا کے سامنے پیش کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ وہ عموماً عشقِ و محبت، ملن و جدائی، یاد و تنہائی، محبت و نفرت، وفا و بے وفائی یہ سارے موضوع محبوب کے حوالے سے شعروں میں پیش کرتے ہیں۔
" جدائی" محبوب سے بھی ہوسکتی ہے، والدین سے بھی، بہن بھائیوں اور رشتہ داروں سے بھی ہو سکتی ہے۔محبوب سے لے کر رشتہ دار سب سماج کا حصہ ہیں۔ فرخندہ رضوی نے جہاں سماجی بہت سے موضوعات کو اپنی شاعری میں سمویا ہے۔ وہاں جدائی کو اپنی شاعری کا موضوع بنا کر کی نظمیں اس پر لکھی ہیں۔ان کی نظم "جدائی" میں نمونہ کلام ملاحظہ ہو:
" اس پیار کی خاطر
جدائی کے بعد۔۔۔۔
جانتے ہو کیسے۔۔۔۔۔؟
گزری ہے فرقت میں راتیں
ہجر کی جدائی کیا ہوتی ہے۔۔۔
کروٹ کروٹ یاد کیا ہے تجھکو۔۔
اس جدائی نے بے شک
مجھے تڑپایا ہے۔۔۔۔
بدر میں پھر ایک بار۔۔۔ جدا ہونا چاہوں گا
اس پیار کو ساتھ رکھنے کی خاطر۔۔۔"( 51)
فرخندہ رضوی نے بطور سماجی شاعرہ بہت سی غزلیں اور نظمیں جدائی کے موضوع پر لکھی ہیں۔ وہ سماج کی خیرخواہ شہری ہونے کے ناطے محبوب سے کچھ گلہ کرتی ہیں:
فضاؤں میں رچنے لگی ہے جدائی کی مہک پھر
کیوں ہو جاتے ہو جدا پھر مل لے اک بار
(52)
سادگی اور منفرد انداز بیان سے مراد کلام سخن سادہ زبان اور شعرانفرادیت کے حامل ہونا ہے۔ فرخندہ رضوی نہایت سادہ زبان کااستعمال کرتیہیں اور شاعری میں مقامی زبان کے استعمال سے اپنے اسلوب کو منفرد اور جاندار بناتی ہیں۔ اپنے ہم عصر شعرا میں نمایاں حیثیت سے ابھر کر سامنے آئیں ہیں۔وہ فلسفیانہ افکار کا پرچار نہیں کرتیں۔ وہ بحیثیت سماجی شاعرہ اپنی شاعری کو سادہ اور مقامی الفاظ کے پہناوے میں پیش کرتی ہیں۔بقول فرخندہ رضوی:
" کہتے ہیں تحریر ادب اس وقت بنتی ہے جب خوبصورت احساس شامل ہوں اس میں کوئی بھی لکھنے والا تحریر کوخون جگر سے سجاتا ہے۔ میںنے ایک بار اپنی تحریر کے لیے مشکل، بھاری بھر کم الفاظ کا چناؤ نہیں کیا "(53)
فرخندہ رضوی کی شاعری سادگی و سلامت کا مرقع ہے۔ وہ بھاری بھر کم الفاظ استعمال نہیں کرتیں بلکہ روزمرہ کے عام الفاظ کا استعمال کر کے انہیں مقامی رنگ عطا کرتی ہیں۔ جو عام سے عام قاری کو بھی سمجھ آجائے۔ جس طرح ہر انسان کے جذبات و احساسات دوسروں سے مختلف ہوتے ہیں بالکل اسی طرح ہر شاعرکی شخصیت اس کا کلام ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ جب کسی شاعر کی شخصیت کا عکس اس کی تحریروں میں دکھائی د ینے لگتا ہے تو ناقدین انفرادیت کی بنا پرا سے صاحب اسلوب ماننے لگتے ہیں۔ یعنی الفاظ کا چناؤ شاعر کے قد کاٹھ اور معیار کوپرکھنے کا سبب بنتے ہیں۔بقول مظہر سیفی:
" آسان اور عام فہم لفظوں اور لہجے میں بڑی بات کہہ جانے کا فن شعر کی خوبیوں میں سرفہرست ٹھہرتا ہے۔کچھ شعر بڑی آسانی کے ساتھ چندسادہ لفظوں میں ایسی بڑی باتیں دو مصروں میں کہہ جاتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے"( 54)
سادگی کلام کا نمونہ ملاحظہ ہو:
سحر کی دھوپ میں ٹھنڈک سی ملے گی
اک بار کھلے آسمان کے نیچے آکر دیکھو
(55)
چاند ازل سے دھرتی دھرتی، نگری نگری گھوم رہا ہے۔ ہر سماج نے چاند کو کئی ناموں سے نسبت دے رکھی ہے۔ سماج کی ہر ماں اپنے کالے کلوٹے، موٹے چھوٹے، نیلے پیلے بیٹے کو چاند کہہ کر پکارتی ہے۔ ہر عاشق اپنے محبوب کو چاند جیسا سمجھتا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ"دل آیا گدھی پہ، پری کیا چیز ہے"
اپنے اپنے دل کی بات ہوتی ہے کیونکہ خوبصورتی تو دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتی ہے۔ تبھی بے شک سماج کی نظر میں عشق کا محبوب خوب صورت نہ ہو مگر عاشق کے لیے وہ حور سے بھی زیادہ حسین ہوتا ہے۔ ازل سے شاعروں اور ادیبوں نے چاند کو خوبصورتی کی علامت کے طور پر استعمال کیا ہے۔ فرخندہ رضوی بھی سماجی رکن ہونے کی حیثیت سے اپنے محبوب کو چاند کا درجہ دیتی ہے۔ اپنی نظم " چاند تمہی تو ہو" میں محبوب سے یوں مخاطب ہیں:
" اپنی اک دنیا بسا لی ہے میں نے
اس دنیا میں تم سے ملتی ہوں
میری دنیا کے ایک چاند تمہی تو ہو
بس یہ کہتی ہوں پھر۔۔۔
کبھی دل سے نکل کر سامنے آؤ تو۔۔۔۔"( 56)
ایک اور جگہ فرخندہ رضوی محبوب سے گلہ زاری کرتی ہوئی کہتی ہیں :
چاند خوبصورت ہے ایک داغ کے ساتھ
تم بھی پیاری ہو بے وفائی کے ساتھ
( 57)
دنیا کے ہر سماج کے غریب اور نادار لوگوں کا قیمتی گہنا( زیور) آنسو ہے۔ جب دل چاہا رو لیا اور غموں کو ہلکا کرلیا۔ آنسو سے سماج کی یاری پرانی ہے۔ کبھی کبھار سماج کا اعلی طبقہ بھی اس کے گہنے سے مستفید ہو جاتا ہے۔ فرخندہ رضوی کی اکثر شاعری آنسوؤں سے لبریز نظر آتی ہے۔ " آنسو" ان کی شاعری کا واقعی گہنا ہے۔ جس کا استعمال وہ شعروں میں بکثرت کرتی رہتی ہیں۔فرخندہ رضوی نے اپنی نظم " آنسو" میں اپنے جذبات کا اظہار کچھ یوں کیا ہے:
"بارش برستی ہی گئی آنکھوں سے
اک موتی کو مٹھی میں سمیٹ لیا
میں نے
اس بوند میں ندامت تھی
خوشی سے خالی خالی
میرے ہاتھ کی ہتھیلی پر
پھر سے مچل رہا تھا
آنکھ میں سمانے کو "(58)
خواہشات ان آرزوؤں کا نام ہے جو سماج میں رہنے والے ہر فرد کے دل میں پیدا ہوتی ہیں۔ خواہشوں کے محل تعمیر کرنے کا حق صرف امیر طبقہ ہی کو نہیں ہے بلکہ یہ ہر طبقہ اور ہر سماج کے مکینوں کا حقیقی حق ہے۔ چاہے اس حق کو تعبیر ملے یا نہ ملے۔خواہشات پر کوئی لگام نہیں لگ سکتی۔ محبوب سے ملنے کی تڑپ خواہش رکتی نہیں، وفا ملتی نہیں کے مترداف، نمونہ کلام ملاحظہ ہو!
"کبھی یوں بھی تو ہو۔۔
آسمان کی گود میں ستارے جیسے
تمہاری آغوش میں میرا سر ہو
بادل گلے ملیں تو
میرے آنسوؤں کی طرح برسیں
بارش کے قطروں کو زمین اور
میرے آنسوؤں کے لیے دامن تمھارا ہو "(59)
یہ وہ سمندر ہے جس کا کوئی پل نہیں ہوتا۔ یہ میلوں دور ٹھاٹھیں مارتا وہ سمندر ہے۔۔ جس کا کوئی کنارہ نہیں ہوتا۔ فرخندہ رضوی معاشرے کے مسائل و مصائب کو عنوان دے کر شعروں کے ذریعے سامنے لانے کا اہم فریضہ ادا کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭

حوالہ جات
1-مولانا الطاف حسین حالیؔ، مقدمہ شعر و شاعری ،علم وعرفان پبلی پبلشرز، ، لاہور، ۵۱۰۲، ص: 93
2-ممتازالحق، ڈاکٹر، اردو غزل کی روایت اور ترقی پسند غزل ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس، دہلی، ۷۹۹۱ ص : ۸۳
3-سلیم احمد، سنو خموشی کی داستان، آئیڈیل پبلی پبلشرز اردو بازار کراچی، 2002، ص: 4
4- نائلہ بٹ ،ڈاکٹر، سنو خموشی کی داستان،ص 5
5- شہزاد احمد ، مدیر حمد ونعت کراچی،فاصلے ستارہے ہیں ،یونائٹیڈ صابری پبلی کیشنز، کراچی ، 2006، ص: 11
6- فرخندہ رضوی ناساستار بر : ۳۲ شہزاد اما ما در مردانت گرانی :8
7- شہزاد احمد ، مدیر، حمد ونعت، کراچی، ص :8
8-سبط حسن، سخن در سخن ، مکتبہ دانیال، کراچی، 1987ئ، ص: 24
9 – فرخندہ رضوی ، فاصلے ستا رہے ہیں، ص :15
10 - ایضا، ص: 14
11- ایضا، ص: 14
12-فرخندہ رضوی ، فاصلے ستا رہے ہیں ، ص : 73
13- فرخندہ رضوی ، سنوخموشی کی داستان، ص : 13
14-یوسف حسین، ڈاکٹر، اردوغزل، زاہد بشیر یزنٹرز ، اردو بازار، لاہور ،طبع اول ، ۲۵۹۱ ء ص: ۸۸۲
15-فرخند? رضوی، فاصلے ستا رہے ہیں، ص: 41
16-انور مسعود، اک دریچہ اک چراغ ، دوست پبلی کیشنز، 2008، ص :26
17- فرخند? رضوی، فاصلے ستا رہے ہیں، ص: 16
18-فاخرہ بتول، گلاب خو شبو بنا گیا، فن پبلی کیشرز، لاہور، 2004، ص:54
19-مرزا اسد اللہ خان، غالب، دیوان غالب، نیئرا سد پرنٹرز لاہور، 2001، ص :111
20- فرخند? رضوی، فاصلے ستا رہے ہیں، ص: 76
21-ایضا، ص: 56
22-فرخندہ رضوی، رابطہ ٹیلی فونک، یکم ستمبر 2021ء پاکستانی وقت، شام، 7:00 بجے
23- ایضاً
24- فرخندہ رضوی ، سنوخموشی کی داستان، ص : 4
25- ایضا، ص: 175
26- یوسف حسین، ڈاکٹر، اردوغزل، ص : 307
27- احمدساقی، دروازہ، مکتبہ قدسیہ لاہور، جون، 2018، ص : 135
28- فرخندہ رضوی ، سنوخموشی کی داستان، ص : 12
29- فرخندہ رضوی ، زیر لب خندہ بزم تخلیق ادب کراچی پاکستان، 2012،، ص : 25
30- فرخند? رضوی، فاصلے ستا رہے ہیں، ص: 17
31- ایضا، ص: 65
32- شہزاد احمد ، فاصلے ستا رہے ہیں،یونا ئٹیڈ صابری پبلی کیشزر ، مدیر، حمد و نعت، کراچی، جنوری 2006، ص:37
33- احمدساقی، دروازہ، ص: 58
34- فرخندہ رضوی ، زیر لب خندہ بزم تخلیق ادب کراچی پاکستان، 2012،، ص :25
35- احمدساقی، دروازہ، ص: 135
36- فرخندہ رضوی، قلم خندہ، ورلڈ پنجابی فورم، پاکستان، 2015، ص : 238
37- فرخندہ رضوی، رابطہ ٹیلی فونک، 10 ستمبر 2021ء پاکستانی وقت، شام، 6:00 بجے
38- فرخندہ رضوی، خوشبوئے خندہ، ص: 59
39-پیش لفظ، ص : 13
40- فرخندہ رضوی ، زیر لب خندہ بزم تخلیق ادب کراچی پاکستان، 2012،، ص : 96
41- فرخندہ رضوی ، سنوخموشی کی داستان، ص : 31
42-لان جائنس، ارسطو سے الیٹ تک، مشمولہ، ڈاکٹر جمیل جالبی، نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد، 1997، ص: 118
43-سلطانہ مہر، فاصلے ستا رہے ہیں، ص: 7
44- فرخند? رضوی، فاصلے ستا رہے ہیں، ص: 23
45- جمیل جالبی، ڈاکٹر، ارسطو سے الیٹ تک، ص: 152
46- فرخند? رضوی، فاصلے ستا رہے ہیں، ص: 84
47- ایضا، ص:12
48- ایضا، ص: 81
49-عبادت بریلوی، ڈاکٹر، اردو تنقید و حقیقت نگاری، از رضیہ غفور، بک پیپر ہاؤس لاہور، 2012ئ￿ ، ص 96
50- فرخندہ رضوی، فاصلے ستا رہے ہیں، ص: 33 تا 34
51- ایضا، ص: 111 تا 112
52- ایضا، ص: 119
53- فرخندہ رضوی، فاصلے ستا رہے ہیں، ص: 5
54- مظہر سیفی، ریاض مدحت، از ریاض حسین زیدی، ساہیوال، 2000، ص 35
55- فرخندہ رضوی، فاصلے ستا رہے ہیں، ص: 84
56- فرخندہ رضوی، خوشبوئے خندہ، ص:143
57- فرخند? رضوی، سنو خموشی کی داستان، ص:81
58- ایضا، ص: 115
59- فرخندہ رضوی، خوشبوئے خندہ، ص: 47
٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...