Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > فرخندہ رضوی (شاعری اور شخصیت) > فرخندہ رضوی کا اختصاص

فرخندہ رضوی (شاعری اور شخصیت) |
حسنِ ادب
فرخندہ رضوی (شاعری اور شخصیت)

فرخندہ رضوی کا اختصاص
ARI Id

1688708425998_56116532

Access

Open/Free Access

Pages

۱۷۵

فرخندہ رضوی کا اختصاص
شاعری کسی کی ذاتی جاگیر اور میراث نہیںیہ اللہ تبارک و تعا لیٰ کا تحفہ عظیم ہے۔یہ امیری غریبی کو دیکھ کر نہیں ہوتی بلکہ یہ عطائے رحیمی ہے۔فیضان الٰہی ہے۔ اردو شاعری کا کارواں جس نے اپنا سفر بارہویں صدی سے شروع کیا تھا اب اکیسویں صدی میں داخل ہونے والا ہے، اور شاعری کے اس سفر میں کئی اصناف شاعری مثلاً حمد،نعت،قطعہ،مرثیہ، رباعی، مخمس،مسدس،مثنوی، گیت، نظم، آزاد نظم ،نظم مصریٰ اور غزل شامل ہو چکی ہیں۔ ان تمام اصناف شاعری میں سے کوئی صنف بھی ایسی نہیں جو اردو زبان ادب کی اپنی پیداوار ہو۔ یہ تمام اصناف فارسی، عربی اور انگریزی زبان و ادب سے ہئیت اور موضو ع سمیت مستعار لی گئی ہیں۔ ایک ادیب کی تشنگی چاہے وہ شاعر ہو یا افسانہ نگار قلم میں چھپی ہوتی ہے۔ لفظوں کے یہ خزانے ان لکھاریوں کے لیے اتنی ہی اہمیت کے حامل ہیںجتنے انسانوں کے لیے رشتے ، کہتے ہیں کہ رشتے ٹوٹتے ہیں مگر گزرے وقت کے پل پھر بھی ساتھ ہی رہتے ہیں ، پھر لکھنے والوں کا جو وقت لفظوں کی مالا بننے میں صرف ہوتا ہے وہ کہاں بھولتا ہے پھر یہ شاعری شاعروں کا سرمایہ اور ادب کا حصہ بن جاتی ہے۔عہد حاضر کی اردو شاعری میں ایک جانا پہچانا نام فرخندہ رضوی کا ہے۔
ہمارے یہاں باقاعدہ طور پر شاعری کی عمر بڑی طویل ہے جو تقریبا تین سو سال ہے شاعری ہر دور میں مقبول عام رہی ہے تاریخ ادب میں مرد شعرا کی تو فہرست بڑی طویل ہے۔ لیکن شاعرات میں سے سب سے پہلے مہ لقاہ چندہ پہلی شاعرہ کے روپ میں سامنے آتی ہیں اس کے بحیثیت شاعرہ زہرہ نگاہ شعر و سخن میں اپنی دھاک بٹھانے آئیں۔
عصر حاضر میں خواتین فن شعروسخن کی جانب کچھ زیادہ ہی مائل نظر آتی ہیں۔ پاکستان میں شاعری کی اس روایت کو برقرار رکھتے ہوئے پروین شاکر کشور ناہید فہمیدہ ریاض ادا جعفری اور شاہینہ فلک وغیرہ جیسی بلند مرتبہ شاعرات نے نام کمایا۔ ہندوستان میں بھی اس روایت میں پروفیسر عالیہ عنوان، ڈاکٹر زاہدہ زیدی، ڈاکٹرراحت سلطانہ، ترنم ریاض، رضیہ شبنم عابدی، بانو سراج اور بہت سی شاعرات کا درخشاں نظر آتا ہے۔ان کے علاوہ یورپ امریکہ اور برطانیہ میں مقیم اردو بستیوں میں بھی مردوں کے دوش بدوش خواتین بھی شعر و سخن کی محفلوں اور انجمنوں میں جلوہ افروز نظر آتی ہیں۔ جن میں پروین شیر، سلطانہ مہر، سفینہ صدیقی، صوفیہ انجم تاج، سمیہ عابدی، رخصتی، ڈاکٹر نیہاں، نجم شاہین، ڈاکٹر نگہت نسیم، نرگس جمال سحر، فرزانہ فرحت، عظمی صدیق اور ان جیسی بہت سی شاعرات کو بین الاقوامی سطح پر قدرومنزلت کے ساتھ مانا گیا ہے۔ ان شاعرات میں فرخندہ رضوی ایسی نوخیز اور نو بہار شاعرہ ہے۔ جن کی موسم بہار جیسی تازہ شگفتہ، نازک و لطیف، گل رنگ اور عطربیز شاعری و وجدانیت کے طلسماتی کیفیت سے سرشار ہوتی ہے جو نہ صرف دل کو بلکہ دماغ کو بھی شدت سے متاثر کرتی ہیں۔
فرخندہ رضوی اردو شاعری میں منفرد اور جدید لہجے کی شاعرات کی صنف میں کھڑی نمایاں نظر آتی ہیں۔ بطور شاعرہ فرخندہ رضوی نے انسانی رشتوں کے جذبات ،پردیس کی تنہائی کاکرب اپنائیت و غیریت، دوستی ،جدائی، وفا اور بے وفائی، آنسو،بے قراری،بے حسی،خود غرضی،غرضیکہ ہرقسم کے موضوعات پر لکھا ہے جو ہر جیتے جاگتے انسان کی زندگی کا اہم ترین حصہ ہیں جن کے بغیر زندگی ادھوری ہی نہیں نامکمل بھی ہے۔شاعری کا مستقبل بہت شاندار اور وسیع ہے جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا بنی نوع انسان کو شاعری پر زیادہ سے زیادہ اعتماد حاصل ہوتا جائے گا۔ظاہر ہے کہ بڑا شاعر ہوناآسان نہیں ہے اگر آسان ہوتا تو اب تک بہت سے لوگ بڑے شاعر بن چکے ہوتے تاریخ کے ہر دور میں ایسے لوگ موجود رہے ہیں، جنہوں نے بڑا شاعر بننے کے لیے پر خلوص طریقے سے کوشش کی ہے۔جن کو ہم بڑا شاعر کہتے ہیں ان کی الگ صلاحیتیں ہوتی ہیں ان میں انفرادیت اورنیا پن ہوتا ہے۔
قادر مطلق نے اس ویرانہ آبادی نما یعنی کارخانہ دنیا کی رونق اور انتظام کے لیے انسانوں کے مختلف گروہوں میں مختلف قابلیتیں پیدا کی ہیں تا کہ سب گروہ اپنے اپنے مذاق و استعداد کے موافق جدا جدا کاموں میں مصروف رہیں اور ایک دوسرے کی کوشش سے سب کی ضرورتیں پوری ہوں اور کسی کا کام اٹکا نہ رہے ۔ اگرچہ ان میں بعض جماعتوں کے کام ایسے بھی ہیںجو سوسائٹی کے حق میں چند اں سود مند معلوم نہیں ہوتے۔ مگر چونکہ قسام ازل سے ان کو یہی حصہ پہنچا ہے اس لیے وہ اپنی قسمت پر قانع اور اپنی کوشش میں سر گرم ہیں۔ جو کام ان کی کوشش سے انجام ہوتا ہے۔گو تمام عالم میں اس کی وقعت نہ ہو مگر ان کی نظروں میں وہ ویسا ہی ضروری اور ناگزیر ہے جیسے دیگر گروہوں کے مفید اور عظیم الشان کام تمام عالم کی نظر میں ضروری اور ناگزیر ہیں۔ کسان اپنی کوشش سے عالم کی پرورش کرتا ہے اور معمار کی کوشش سے لوگ سردی ،گرمی ،مینہ اور آندھی سے بچتے ہیں اس لیے سب کے نزدیک دونوں کے کام عزت اور قدر کے قابل ہیں لیکن ایک بانسری بجانے والا جو کسی سنسان ٹیکرے پر تن تنہا بیٹھا بانسری کی لے سے اپنا دل بہلاتا اور شائد کبھی کبھی سننے والوں کے دل بھی اپنی طرف کھینچتا ہے۔ گو اس کی ذات سے بنی نوع کے فائدہ کی چنداں توقع نہیں مگر وہ اپنے دلچسپ مشغلہ کو کسان اور معمار کے کام سے کچھ کم نہیں سمجھتا اور اس خیال سے اپنے دل میں اس خوش فہمی میں ہے کہ اگر ا س کام کو سلسلہ تمدن میں کچھ دخل خیال نہ ہوتا تو خالق کائنات انسان کی طبیعت میں ان کا ذوق ہر گز پیدا نہ کرتا۔ شعر کی تاثیر سے کوئی انسان انکار نہیں کرسکتا۔ سامعین کو اکثر اس سے حزن ، نشاط ، جوش یاافسردگی کم یا زیادہ ضرور پیدا ہوتی ہے ۔ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ اگر اس سے کچھ کام لیا جائے تو وہ کہاں تک فائدہ پہنچاسکتا ہے۔
شاعری اکتساب سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ جس میں شاعری کا مادہ ودیعت ہوتا ہے وہی شاعر بنتا ہے شاعری کی سب سے پہلی علامت موزونی طبع سمجھی جاتی ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ جو اشعار بعض فاضلوں سے موزوں نہیں پڑھے جاتے ان کو بعض ان پڑھ، صغیر سن بلا تکلف موزوں پڑھ دیتے ہیں۔اس سے ظاہر ہے کہ شاعری اکتساب سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ بعض طبیعتوں میں اس کی استعداد خداداد ہوتی ہے۔ بس جو شخص اس عطیہ الٰہی کو مقتضائے فطرت کے موافق کام میں لائے گا ممکن نہیں کہ اس سے سو سائٹی کو کچھ نفع نہ پہنچے
ماضی حال اور مستقبل کو ہر بڑ ا شاعر ایک ہی لڑی میں پرو کر دیکھتا ہے۔وہ حال میں رہتے ہوئے ماضی میں سانس لیتا ہے اور مستقبل تک رسائی رکھتا ہے۔ شاعر کے لیے زمانے سمٹتے سکڑتے رہتے ہیںاوراسے زمانوں کی کلیت پردسترس ہوتی ہے۔ماضی کے تجربات، حال کا حسی ادراک دلاتے ہیں اور مستقبل کے امکانات کی گرہ کشائی کرتے ہیں۔ ماضی کے دریچوں سے جھانکنا اور اس کے نقش دل پر تازہ کرتے رہنا ایک دلچسپ مشغلہ ہے فرخندہ رضوی کی غزل میں ماضی کی بازیافت،ہجرت کے سانچے اور وطن سے دوری کی داستانیں جڑی ہوئی ہیں۔
اردو ادب کو قدیم کے ساتھ ساتھ جدید تحقیق کاروںکی خدمات نے سجایا اور سنوارا ہوا ہے ہر تخلیق کار کو کسی ایک کام پر یا ایک صنف پر عبور حاصل ہے۔ جس کی واضع اور بڑی مثال میر انیس کی ہے جس کی وجہ شہرت ان کا "مرثیہ" ہے۔نظیر اکبر آبادی کی وجہ شہرت" نظم "ہے۔ اس طرح "غالبؔو میرؔ" غزل کے حوالے سے جانے جاتے ہیں " آزاد نظم" کا سہرا محمد حسین آزادؔ ،الطاف حسین حالیؔ اور میراں جی ون۔ م راشدؔکے سرپر ہے۔ "قصیدہ" پر مرزا سودا براجمان نظر آتے ہیں۔اس کے علاوہ بھی بہت سی مثالیں موجود ہیں یہ اپنے وقت کے نامور شاعر ہیں جن کی عظمتوںکو آج بھی سلام کیا جاتا ہے اور جب تک اردو ادب کا وجود ہے شاعری ہوتی رہے گی۔ ایسے ناموں کو تازگی و تابندگی ملتی رہے گی۔انہی نامور شعراء کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ایسے ہی تخلیق کاروں میں فرخندہ رضوی روشن صبح کی مانند جلوہ گر ہوتی ہیں۔ جنہوں نے اردو ادب کی کئی اصناف پر طبع آزمائی کی اور ہر صنف کو بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ پیش کیا۔ وہ نثر لکھتی ہیں۔ تو لاجواب، وہ شاعری کرتی ہیں تو بے مثال اور وہ گفتگو کرتی ہیں تو با کمال۔انہوں نے ہمیشہ محنت کا دامن پکڑا ہے اور ہر صنف کے ساتھ مکمل طور پر انصاف کیا ۔تحقیق کی تو کمال کی اور شاعری کی تو لاجواب کی اور اپنے فن اور قلم کو منوایا۔ فرخندہ رضوی ہر فن میں ماہر دکھائی دیتی ہیں۔
فرخندہ رضوی کی تخلیقی جہتوں میں کچھ الگ بات ہے۔ اس کی بڑی وجہ کثرت مطالعہ ہے جس نے ان کے شعور کے در وا کئے۔ ایک شاعر کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے خیالات ،احساسات اور جذبات کو الفاظ کے سانچے میں ڈالنے کی صلاحیت کا حامل ہو، سوچ کی پختگی اس کی شاعری سے چھلکتی ہو اور بلا شبہ یہ ساری خوبیاں بدرجہ اتم فرخندہ رضوی میں موجود ہیں ۔ انہوں نے اپنی ان صلاحیتوں کو اپنے کلام کے اظہار کا ذریعہ بنا کر اپنا لوہا اہل قلم سے منوایا ہے۔ ان کی شاعری میں کہیں بھی مصنوعی پن کا احساس نہیں ہوتا۔ان کو بچپن ہی سے شاعری سے خاص لگاؤ تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لکھنے کے شوق نے دیوانگی کی سی کیفیت پیدا کر دی تھی۔ انہوں نے اپنی زندگی کا مقصد ہی شاعرہ اور ادبیہ کی حیثیت سے متعارف ہونا بنا لیا۔ اس لیے اردو ادب کی محبت و خدمت ان کا اولین مقصد بن گیا۔ اس لگن اور شوق کا یہ نتیجہ نکلاکہ ان کی پہلی کاوش"تصویر"میں اخبار خواتین میں شائع ہوئی۔
فرخندی رضوی کو جو چیز شاعری کے قریب لائی ہے وہ ان کا ذاتی ذوق و شوق ہے اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جس کا م میں انسان کا ذوق و شوق اور ادبی وابستگی شامل ہو جائے تو وہ کام بہترین طریقے سے سر انجام پاتا ہے۔ وہ اعلیٰ ذوق کی حامل شخصیت ہیں۔ اچھے اشعار پڑھنا اور دوسروں کے کلام پر دل کھول کر تحسین پیش کرنا ان کی اچھی عادات میں سے ایک ہے۔ ان کی خوبی یہ ہے کہ وہ مطالعہ کو بہت ترجیح دیتی ہیں اس لیے کہ کثیر مطالعہ غور و فکر اور آگہی کا شعور دیتا ہے۔
فرخندہ رضوی نے اردو ادب کے سبھی نامور شعراء کی غزلوں،نظموں اور دیگر اصناف کابے حد عمیق نظری سے مطالعہ کیا ہے اور ان کے انداز بیان پر بھی گہرا غور و خوض کیا ہے۔انہوں نے بذریعہ مطالعہ اپنا ربط قدیم اور جدید دونوں قسم کے شعراء سے رکھا ہے۔ ایک اور خوبی یہ ہے کہ ان کا عصر حاضر کے شاعروں ادیبوںسے رابطہ سے دو پہلوؤں کی نشاندہی ہوتی ہے۔ ایک تو ان کی شعری دلچسپی کے بارے میں معلوم ہوتا ہے، اور دوسرا ان کی احباب نوازی کا پہلو بھی سامنے آتا ہے۔ وہ ایک سچی اور کھری شخصیت کی مالک خاتون ہیں۔ جس کا اندازہ ان کی تخلیقات سے بھی ہوتا ہے، اور ان کے قول و فعل سے بھی۔ یہ وہ اسباب ہیں جنہوں نے فرخندہ رضوی کو پختہ اور مثبت سوچ کی حامل شخصیت بنا دیا ہے۔ جو اردو ادب کے لیے حسین و بیش بہا سرمایہ ہیں۔
فرخندہ رضوی صرف اور صرف محبت کرنا جانتی ہیں اور محبت کا ہی درس دیتی ہیں۔وہ سامنے والے کا مقام و مرتبہ اس کے علم سے طے کرتی ہیں نہ کہ دنیاوی عہدے اور مال و دولت سے۔ ان کی شاعری سے اردو ادب کو ایسی شاعری میسر آئی ہے جو حقیقت کو آشکار کرتی ہے۔ جس میں ذوق و شوق بھی ہے اور روایات کی پاسداری کا پر تو بھی برقرار رہتا ہے۔ یہ سب ان کی بے انتہا محنت کا نتیجہ ہے۔
فرخندہ رضوی ایک اعلیٰ درجہ کی شاعرہ ہیں۔ان کی شاعری محض الفاظ کا تانا بانا نہیں اور نہ ہی انہوں نے شہرت کے حصول کے لیے شاعری کو ذریعہ بنایا۔ شاعری تو جذبات و احساسات کا اظہار ہے۔ محبت و شوق کا اظہار ہے۔ دکھ درد بیان کرنے کا وسیلہ اور غم و الم بانٹنے کا ذریعہ ہے۔ ایک اچھا شاعر معاشرتی مسائل کو شعری پہناوے میں ڈھال کر پیش کرتا ہے اور اچھے شاعر میں ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کے درد کو خود میں سمو کر اپنے جذبا ت کو لفظوں کے سانچے میں معاشرے کے سامنے نہایت خوبصورت انداز میں بیان کرتا ہے۔ ان کی شاعری روایات،تہذیب اور جدت تینوں کا حسین امتزاج ہے۔ ان کی شاعری میں ایک انفرادیت ہے، جس کا اظہار اچھوتے انداز میں کیا گیا ہے۔ وہ غزل کی روایت کی منکر ہر گز نہیں لیکن غزل کی روایت کے ساتھ ساتھ نئے تجربات اور نظم میں نئے موضوعات کو اپنی شاعری میں خوب جگہ دیتی ہے ۔ وہ شاعری میں اجتہاد کی قائل ہیں۔وہ فرسودہ خیالات کو ایسے بیان کرتی ہیں کہ بالکل نیا اور تازہ محسوس ہونے لگتا ہے۔
فرخندہ رضوی کی شاعری کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ ا س میں معاشرے کی تصویرکشی کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔اپنے مسائل کے متعلق جاننا اور اس کے حل کے لیے تگ و دو کرنا آغاز ہی سے انسان میں یہ جذبہ کسی نہ کسی صورت میں کار فرما رہا ہے۔ اس لیے خصوصاً وہ شعراء جنہوں نے معاشرتی مسائل اور معاشرے کا ذکر کسی انداز میں کیا ہے۔ ہر دور کے نقاد نے اسے سراہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ معاشرے میں رہتے ہوئے کئی طرح کے مسائل کا سامنا ہر دور کے انسان کو رہا ہے۔ان کی شاعری میں بھی یہ تمام عناصر عیاں ہیں۔ جن کا تعلق معاشرے یاسماج سے ہے۔ ان کے اشعار سے معاشرتی سوچ کا اندازہ ہوتا ہے، اور اس کرب کا احساس بھی جو ان کے ہر مصرعے ہر لفظ میں چھپا ہے۔
فرخندہ رضوی کی غزلیں اور نظمیں دور حاضر کے سیاسی ،معاشرتی، اخلاقی،ثقافتی اور فکری مسائل کو بھر پور طریقے سے اجاگر کرتی ہیں۔ ان کے فکر و فن کا سفر عروج پر ہے۔ وہ انسانی جذبات و تجربات کو بڑے احسن انداز میں بیان کرتی ہیں۔ ان کی شاعری عصری صداقتوں کو سامنے لاتی ہے۔ ان کی شاعری انسانی مسائل و مصائب کو بہت خوبصورتی سے پیش کرتی ہے۔ وہ اپنا ایک الگ اور منفرد اسلوب رکھتی ہیں۔
فرخندہ رضوی جدید غزل اور نظم کی نمائندہ شاعرہ ہیں۔ ان کے ہاں معتدل لہجہ پروان چڑھتا نظر آتا ہے۔ ان کے ہاں معاشرے کے بدلتے ہوئے حالات کا گہرا شعور ہے۔ سادہ الفاظ میں گہری اور احساس سے بھری ہوئی باتیں کہنا ان کا خاصہ ہے۔ فرخندہ کی شاعری دل پر اثر کرتی ہے۔ ان کی شاعری پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ شاعری قاری ہی کہ لیے ہے۔وہ ادب برائے ادب کے بجائے ادب برائے زندگی کی قائل ہیں۔ ان کی شاعری مقصد کی شاعری ہے۔ وہ شعروں کو محض تفریح و محبت و عشق تک ہی محدود نہیں رہنے دیتیںبلکہ شاعری کو زندگی کے اہم ترین مقاصد کے لیے بروئے کار لاتی ہیں۔ فرخندہ کی شاعری فکر کی شاعری ہے۔
فرخندہ رضوی غزل کی ساخت و پرداخت سے خوب واقف ہیں انہوں نے غزل اور نظم کی جھولی کو مختلف انواع و اقسام کے پھولوں اور رنگوں سے بھرنے کی سعی و کوشش کی ہے۔ ان کی شاعری کی تخلیق کے محرکات،ارد گرد کے حالات،رنگ بدلتے مزاج،منافق لوگ،اپنوں کے دیئے زخم اور خود غرضی ،سیاست دانوں کی بے حسی ،امیروں کے ظلم و جبر اور منافقت، سماجی نا انصافی ، غربت کے مارے لوگوں کے حالات اور حاکموں کی ستم ظریفی جیسے موضوعات ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی غزل عشق و محبت ،وطن پرستی،انسان دوستی، احساس دین و دنیا ،واعظ و نصیحت ،ظلم و جبر اور عصر حاضر کے تمام تقاضوں سے بھی مزین ہے۔
فرخندہ رضوی کی شاعری کی خصوصیات میں سے ایک خوبی یہ ہے کہ وہ بیحد آسان اردو کا استعمال کرتی ہیں۔اگرچہ وہ برطانیہ کے شہر ریڈنگ میں رہائش پذیر ہیں اور وہاں انگریزی زبان کا بول بالا ہے مگر باوجود اس کے انہوں نے اردو کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا اور اردو ادب کی محبت کو سینے سے لگائے آج بھی اردو کی آبیاری کرنے میں پوری تندہی سے کوشاں ہیں۔ عام طور پر دیکھنے میں آتا ہے کہ جو خواتین یورپی ممالک میں جا بسیرا کرتی ہیں ۔ ان میں ڈالر اکٹھا کرنے اور دنیاوی آسائشوں کے حصول کے علاوہ کوئی خاص مقصد نہیں ہوتا۔ کچھ بیچاری گھریلو مسائل میں اس قدر الجھ جاتی ہیں کہ انہیں ادبی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا ہوش ہی نہیں رہتا۔
فرخندہ رضوی اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ انہیں گھر اور گھر سے باہر ایسا ماحول میسر آیا جس میں وہ اپنی بہترین صلاحیتوںکا اظہار کر سکتی ہیں۔ ان کا ذہن بہت متحرک ہے۔ وہ اپنے احساسات،جذبات،خیالات اور تجربات کو پوری ایمانداری سے صفحہ قرطاس پر بکھیرتی چلی جاتی ہیں۔ ان کے شعور کی کئی پرتیں ہیں۔ جو ان کی روح کو مضطرب رکھتی ہیں۔ کہیں وہ افسانہ لکھ کر تسکین دیتی ہیں،کہیں غزل لکھ کر اپنے اندرونی کرب و ملال کا اظہار کرتی ہیں۔ کہیں نظم لکھ کر انہیں سکون ملتا ہے اور کہیں کالم لکھ کر اپنے موجودگی کا احساس دلاتی ہیں۔ان کی سوچ کا سمندر ساکن نہیں بلکہ اس میں بہاؤ کی سی کیفیت ہے۔ وہ اس بہاؤ میں چھلانگ لگا دیتی ہیںاور ہلچل مچا کر باہرنکل آ تی ہیں۔ ان کے ذہن کے پردوں پر جو الفاظ نمودار ہوتے ہیں۔وہ انہیں نوک قلم سے کاغذپر نقش کرتی جاتی ہیں۔ وہ عام شعرا کی طرح مشکل الفاظ کو استعمال کر کے قاری کو اپنی شاعری سے دور نہیں کر تی ہیں اگر آج کل لوگ شاعری سے دور ہیں تو اس کے ذمہ دار بھی خود شاعر حضرات ہیں۔ وہ اس طرح کہ انہوں نے شاعری کو اتنا پیچیدہ کر دیا ہے کہ قاری نے شاعری میں دلچسپی لینا چھوڑ دی ہے۔ہماریہاں جو اردو بولی جاتی ہے۔ شاعری اردو سے نہ صرف ہٹی ہوتی ہے بلکہ اس کیخلاف نظر آتی ہے۔ اب یہ لازم تو نہیں ہے کہ شاعری پڑھنے والااردو دان ہی ہو ،اس طرح عام فہم والا آدمی سوچتا ہے کہ شاعری وغیرہ وقت کا ضیاع ہے۔اس لیے عام آدمی شاعری سے دور ہوتا جارہاہے۔مگر فرخندہ رضوی یہ بات جانتی ہیں کہ لوگ آسان شاعری کو سمجھ کر داد دینے کا ہنر جانتے ہیں۔
انہوں نے الفاظ کے قبیل میں سے ایسے الفاظ کاچناؤ کیا جو عام بول چال کے الفاظ ہیں۔ جن کو لوگ آسانی سے بول اور سمجھ سکتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ دیگر شعراء سے منفرد نظر آتی ہیں اور ہم عصر شاعرات میں اپنا نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ فرخندہ رضوی کی شاعری میں ایک کمال یہ بھی ہے کہ روایات کی پاسداری کرتے ہوئے صرف ان کا لہجہ ہی جدید نہیں بلکہ ان کی سوچ و فکر جدید ہے۔وہ بدلتی ہوئی سائنسی، جغرافیائی ،معاشرتی اور تہذیبی صورتحال کو قریب سے دیکھتی ہیں اور پھر سوچ و فکر کو اس طرف لگا دیتی ہیں اور پھر گوہر نایاب کی صورت میں ان کو پیش کر دیتی ہیں۔انہوں نے اپنی شاعری میں جدید رویوں کا خاص خیال رکھا ہے۔اگرچہ روایات کی پابند ہیں۔ مگر ترقی کی مخالف بھی نہیں ہیں۔ وہ اس سوچ کی حامل شخصیت ہیں کہ اردو ادب کو اپنی رفتار تیز کرنی چاہیے۔ وقت کے ساتھ ہر چیز بدلتی ہے اور یہی تبدیلی دراصل جدت کہلاتی ہے۔ فرخندہ رضوی نے اپنی شاعری میں جدید رویوں کو روشناس کروایا ہے۔ان کی شاعری میں روایات کی پاسداری بھی ہے اور جدید رویوں کی عکاسی بھی ہے۔ اور یہ ایک ایسا ہنر ہے۔جس نے ان کی شاعری کو اردو ادب میں اعلیٰ مقام و مرتبہ فراہم کیا ہے۔
شاعری میں بہت کچھ کہہ کر بھی کچھ نہ کہنے کا رجحان عام ہے۔یعنی اپنا مقصد بیان بھی کرنا مگر ڈھکے چھپے الفاظ میں۔ اسی طرح معاشرتی نا انصافیوں کو دیکھ کرشاعر کا حساس دل دکھتا ہے۔ اور پھر وہ ایسا کچھ کہہ جاتا ہے جو اس ناانصافی کے خلاف ہوتا ہے۔ فرخندہ رضوی نے بھی معاشرے میں موجود نا انصافیوں پر آواز اٹھائی ہے۔ انہوں نے اپنی توانائیوں کا استعمال غلط سمت میں نہیں کیا بلکہ درست سمت کا تعین کر کے درست راستہ اختیار کیا اور معاشرتی مسائل کو اپنے اشعار میں ڈھالنے کی عمدہ کوشش کی ہے۔
فرخندہ رضوی کی شاعری میں بیک وقت مصنوعی شکوہ جذبات کی فراوانی اور تازہ کاری قاری کے دل کو موہ لیتی ہے۔انہوں نے اظہار فن کے لیے نئے نئے گوشے نکالے ہیں۔ ان کی شاعری ابہام سے پاک ہے۔ ان کی ہر غزل ان کے اپنے تجربات کی صداقت کا ثبوت ہے۔ دور حاضر میں جب اکثر شعرا اپنی عوامی مقبولیت کے لیے ہزاروں قسم کے جتن کرتے ہیں اور اپنی شاعری میں اجنبی قسم کے الفاظ اور ردیف و قوافی میں ذہن کو منتشر کرنے والے الفاظ لاتے ہیں۔ فرخندہ رضوی کے ہاں غیرمانوس قسم کے الفاظ نظر نہیں آتے۔یہی وجہ ہے کہ ان کاکلام پڑھ کر دلی سکون محسوس ہوتا ہے۔
ہر عہد میں بہت سی سماجی و سیاسی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔بڑے بڑے سانحے رونما ہوتے ہیں۔ ایک ادیب اور شاعر ان پر گہری نظر رکھتا ہے اور منفرد انداز میں بیان کرتا ہے۔ چونکہ شاعر بہت حساس دل کا مالک ہوتا ہے۔ وہ دوسروں کے غم بھی اپنے اندر سمو لیتا ہے۔پھر اس غم کو لفظوں کے سانچے میں ڈھال کر اپنی شاعری میں بیان کرتا ہے۔ فرخندہ رضوی نے اپنے عہد کے سب سے بڑے مسئلے دہشت گردی کا نہایت عمیق نظری سے مشاہدہ کیا ہے اور پھر اپنی نظموں اور غزلوں میں بڑے احسن طریقے سے بیان کیا ہے۔ شاعری میں کوئی پیغام نہ ہو تو رنگ اور ذائقہ پھیکا پڑنے لگتا ہے لیکن فرخندی رضوی نے اپنی شاعری میں اس کڑواہٹ کو شامل نہیں ہونے دیا۔ ان کی شاعری میں انسانیت کا احترام بھی ہے اور حرکت و عمل کا پیغام بھی ہے اور یہ کہ ان کی شاعری میں اصلاحی پیغام بھی موجزن ہے۔
فرخندہ رضوی کی شعری خصوصیت میں اخلاقی قدروں کی بھر پور عکاسی ہمارے سامنے آتی ہے۔ انہوں نے ایسی شاعری کی جو اخلاقی قدروں سے ہم آہنگ ہے۔ آج کل نوجوان اخلاقیات سے انجان ہیں اور اخلاقی اقدار کی پاسداری کو ضروری نہیں سمجھتے حالانکہ اخلاقیات کا کسی بھی معاشرے کے قیام کے لیے ہونا بے حد ضروری ہوتا ہے۔ اس لیے ہر دور کے شاعر اور ادیب کا فرض ہے کہ وہ اس دور میں موجود تمام بری عادات کے خلاف اور اچھی اقدار کے لیے آواز بلند کرے۔
فرخندہ رضوی نے بھی اسے اپنا فریضہ سمجھتے ہوئے بخوبی سر انجام دیا ہے۔ ان کی شاعری سے اخلاقیات کی تعلیم ملتی ہے۔حقیقی شاعرپیدا تو ماں کے پیٹ سے ہوتاہے۔ لیکن اس کی پرداخت اور شعری تہذیب اسی ماحول میں ہوتی ہے جس میں وہ رہتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ شعری تخلیق کے لیے خیال ہی بنیاد ہے اور اسی حوالے سے شعر لکھنے نہیں بلکہ شعر کہنے کے لیے خیالات کی فراوانی اہم ترین عنصر ہے۔جس کے بعد طبیعت کی موزو نیت، علم کی ضرورت،مطالعہ اور مسلسل مشق شاعر کو شعر کہنے کے قابل بناتے ہیں۔
فرخندہ رضوی شعر کہنے میں کوئی منصوبہ بندی نہیں کرتیں بلکہ خیال جس قالب میں خود ڈھلنا چاہتا ہے اسی میںڈھال دیتی ہیںجو ایک خداد صلاحیت ہے۔فرخندہ رضوی کی شعری انفرادیت کا اندازہ اس وقت یقین میں بدل جاتا ہے۔ جب ان کے شعری نسخوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ ان کی شاعری آنکھوں کے راستے دل میں اترتی ہے۔ انہوں نے محبت کے ایسے انداز بیان کیے ہیں جو عشق کو چھوتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ ان کی شاعری میں اخلاق کی خوشبو کا احساس بھی ہے۔ رونق کے سامان بھی، احترام بھی ہے اورجذبوں کی بے باکی اور ہیجانی کیفیت بھی ہے۔ جوانی کی کروٹیں او رمحبوب سے شکوہ و شکایت بھی ہے مگر مایوسی کی جگہ امید کا دامن تھامے نظر آتی ہے۔ بلا شبہ اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ فرخندہ رضوی ایک منفرد لہجے کی شاعرہ ہیں اور وہ اردو ادب میں اپنا ایک الگ مقام رکھتی ہیں۔
مذہب انسان کی زندگی میں بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ہر مسلمان کو اپنے مذہب سے بے حد لگاؤ ہوتا ہے۔ جس کا اظہار احکام شریعت کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ مگر شاعر یہساری صورتحال اپنی شاعری کے ذریعے اپنے مخصوص انداز میں پیش کرتا ہے۔ وہ اپنی محبت و شوق اور عقیدت کے اظہار کے لیے مختلف پیرائے وضع کرتا ہے۔ ہر مسلمان کے لیے حضرت محمدﷺ کی شان اقدس ایسی ہے۔ جس سے وہ سب سے زیادہ محبت و احترام کرتا ہے۔فرخندہ رضوی نے بھی اسی بات کا ثبوت دیا ہے۔ اور انہوں نے نہایت عمدہ انداز میں اپنی شاعری کے ذریعے آپﷺ کی شان اقدس میں نذرانہ عقیدت پیش کیا ہے جو کہ ان کا ااسلام کے ساتھ لگاؤ کا غماز ہے۔ہم ایک ایسے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جہاں نفرتوں کی ہواؤں کا زور روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔محبت کے چراغ گل ہو رہے ہیں۔ انسان اپنے مقام و مرتبے سے بے حد نیچے گرتا جا رہا ہے۔کسی کو سراہنا،اس کے کام کی تعریف کرنا ہمارے بس کی بات نہیں رہی اور نہ ہی اتنا ظرف ہے کہ خوش دلی سے کسی چیز کی تعریف کر سکیں۔ مگر اس کے برعکس کسی کام میں نقص اور عیب نکالنا آسان ترین لگتا ہے۔ اس عمل نے جہاں معاشرے میں بد اعمالیوں کو جگہ دی ہے۔ وہاں ادب کو بھی بہت بری طرح متاثر کیا ہے۔ اس لیے ادب میں اب ادیب اور شاعر بھی سیاسی سوچ کے حامل ہو گئے ہیں۔منہ پہ تعریفوں کے پل باندھتے جاتے ہیں اور پیٹھ پیچھے سو سو عیب نکالتے جاتے ہیں۔ فن کی پرورش دراصل ان تمام نظریات کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے زمینی رشتوںکے آئنے میں ہی ممکن ہے۔لوگوں کے مفادات کو گننے لگیں تو ادب زندہ نہیں رہ سکتا۔ لیکن دور حاضر میں لوگوں کے رویوں نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ اب ادب تعلقات عامہ کا محتاج ہو گیا ہے۔
فرخندہ رضوی نے اس روایت کو ختم کرنے کی بھر پور عملی کوشش کی ہے۔وہ ہم عصر لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی بھی کرتی ہیں اور کھلے دل سے سراہتی بھی ہیں اور پچھلے شعرا اور ادبا کے کام کی مداح بھی ہیں۔ یہ خوبی ان کی ذات میں رچی ہوئی ہے۔ وہ ان تخلیق کاروں کو خراج عقیدت پیش کرتی ہیں جنہوں نے اردو ادب کے لیے اپنی خدمات کسی نہ کسی حوالے سے پیش کیں۔فرخندہ رضوی نے جن شخصیات کے فن کی تعریف کی ہے ان میں علامہ اقبالؔ،غالبؔ،ناصر ؔکاظمی،منیرؔ نیازی،فیض احمد فیضؔ، پروین شاکر وغیرہ شامل ہیں۔ فرخندہ رضوی نے غزل سے پہلے نظم میں عمدہ طبع آزمائی کی ہے۔ انہوں نے نظم کو ایک نئے روپ میں پیش کر کے اردو ادب کی اس صنف کو اہمیت دلانے کی کوشش کی ہے۔ نظم پر غزل کی نسبت کم کام ہوا ہے۔ہر دور میں غزل کو زیادہ فوقیت حاصل رہی ہے۔ لیکن فرخندہ رضوی نے اپنی شاعری کی ابتدا ہی نظم "تصویر" سے کی جو انسانیت کے نام پر لکھی اور انسانیت کے درد میں لکھی۔ اس طرح نظموں کا لا متناہی سلسلہ شروع ہو گیا اور انہوں نے متنوع موضوعات نظم میں سموکر پیش کیے۔ان کے شعری مجموعے" سنو خموشی کی داستان""فاصلے ستا رے میں " میں شامل نظمیں عید کیوں چلی آئی، رشتوں کی برسات، اک سچ، جدائی پیار کا نام ہیعید،تحفہ، پہلی سی محبت کہاں ہے، آنسو،سفر،لوٹ آؤ، آؤ سالگرہ منائیں، یہ کیسی محبت ہے، دعا، محبت، چاند تمہی تو ہو، تصویر، یادیں، بے وفا سے وفا، حسرتیں،برا لگتا ہے،بکھرا سمندر،ماہ محرم، اک ماں، التجا، دھوپ کا نام جو سایہ ہے، محبت جوگی ہے، سانحہ پشاور، آج کی عوورت،وطن، سال نور، مٹی کا ڈھیر،(ماں کی برسی) تجدید عشق، خالی ہاتھ، نہیں محبت اب تم سے، یادیں، محبت کیا ہے آخر؟، فریبی وغیرہ وغیرہ ہیں۔انہوں نے محنت اور لگن سے شعراء میں اپنا ایک الگ مقام بنا رکھا ہے۔انہیں ادب کی تمام اصناف سے دلچسپی ہے۔ انہوں نے ماحول،حالات ، معاشرتی مسائل ،تلخ حقیقتوں اور معاشرے میں نا انصافیوں کی ترجمانی کی عکاسی کی ہے۔
برطانیہ میں اردو زوال پذیر نہیں بلکہ پوری توانائی کیساتھ زندہ ہے۔ا س کا مستقبل تابنا ک ہے۔ دیا ر غیر میں گوروں کے دیس میں اردو آج بھی مقبول و معروف ہے اور اردو سے محبت کرنے والے تخلیق کار ادیب اور شاعر کی حیثیت سے اپنے خون سے اس کی آبیاری کرنے میں تن،من، دھن سے سر گرداں ہیں اور فرخندہ رضوی اس کار خیر میں سر فہرست شامل ہیں۔نظموں کے تمام موضوعات بے حد منفرد اور معاشرتی مسائل پر مبنی ہیں۔ جنہوں نے فرخندہ رضوی کو عوامی اور معاشرتی شاعر بنا دیا ہے۔اس کی بہت سی وجوہات ہوں گی مگر فرخندہ رضوی درد دل رکھنے والی شاعرہ ہیں اوراس کی سب سے بڑی وجہ یقیناً ان کا لوگوں سے ربط ،معاشرتی حالات سے واقفیت، اور معاشرے میں بسنے والے لوگوں کا درد ہے۔ جب تخلیق میں اس قسم کی سچائی مل جائے، تو وہ اور جاذب نظر اور دلکش ہو جاتی ہے۔
فرخندہ رضوی نے بھی ایسے ہی ،صاف اور پاک جذبات و احساسات سے کام لیا ہے۔ انہوں نے نظموں کے موضوعات کا انتخاب اور چناؤ بے حد سوچ سمجھ کر کیا ہے۔ انہوں نے اپنے جدید خیالات کو بڑے احسن انداز میں نظم کے ذریعے بیان کیا ہے۔ان کی نظموں میں محض الفاظی نہیں ہے بلکہ ہر خیال کو عمدگی سے پیش کرنافرخندہ کا کمال ہے۔شعر کسی بھی زبان کا ہو اس میں سب سے زیادہ عمل دخل زبان کا ہوتا ہے اگر زبان پر عبور و مہارت ہو تو کہنے والے کا قد شعرا میں بلند ہو جاتا ہے۔ شعر میں اسلوب زبان کا کردار اتنا ہی اہم ہے جتنا ہماری زندگی میں آکسیجن کا ہے۔جس طرح آکسیجن کے بغیر زندگی کے آثار ختم ہونے کا خدشہ ہوتا ہے ایسے ہی اگر شعر میں زبان کا درست استعمال نہ ہو تو شعر کے بھی مرنے کاخطرہ ہوتا ہے۔قدیم شعرا میں یہ روایت اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔لیکن فرخندہ رضوی نے زبان کا حلیہ بگڑنے نہیں دیا بلکہ اسے ہر طرح سے قائم و دائم رکھا اور اشعار کو اصل شعری رنگ میں تخلیق کیا۔ انگریزوں کے درمیان رہتے ہوئے بھی خالصتاً اردو کی تخلیق کی اور اس میں انگریزی زبان کی ملاوٹ بالکل نہ کی حالانکہ گوروں کے دیس میں ان کی زبان بولنی پڑتی ہے۔ اگرچہ فرخندہ رضوی نے " جیسا دیس ویسا بھیس " والا صول بھی اپنایا مگر اپنے وطن کی محبت اور اردو ادب سے لگاؤ کے سبق کو کبھی نہ بھول پائیں۔ اسی بنا پر اردو زبان سے محبت کر کے اسے اس انگریزی زدہ دور میں زندہ و تابندہ رکھنے میں بے حد اہم کردار ادا کیا ہے۔
یہ عجیب بات ہے کہ جو اسلوب ان کے لہجہ کی بنیاد ہے وہ نہایت لطیف اور سادہ انداز سے ان کے شعری تجربے میں ڈھل گیا ہے۔ اسی سے ان کے باطنی جذبے کو تحریک دینے والے اشعار نمودار ہوتے ہیں۔جن میں سچائی نظر آتی ہے۔ جو کسی بھی تصنع اور بناوٹ سے پاک ہے۔ فرخندہ رضوی بلا شبہ ایک بہترین شاعرہ ہیں۔ جو شعری اسلوب اور اردو زبان سے آگاہی و واقفیت کا شعور رکھتی ہیں۔ ان کی شاعری ایسے عمدہ رنگوں میں ڈھلی ہوئی ہے کہ ہر رنگ پختہ پائیدار ،اعلیٰ اور مضبوط تر نظر آتا ہے۔ اگر ان کی شاعری کا موازنہ عہد حاضر کے شعرا کے ساتھ کیا جائے تو ان کا قد کاٹھ عصر حاضر کے شعرا میں نمایاں نظر آتا ہے۔
فرخندہ رضوی سچے جذبات اور رشتوں کی ترجمانی کرنے کے لیے اپنی دلی کیفیت کو آرائش لفظی میں ڈال کر بیان نہیں کرتیں بلکہ سادہ سے لہجے میں اپنی بات کہہ جاتی ہیں۔ افسانہ ،شاعری، دونوں ایسے کام ہیں۔جو ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ہے کیونکہ ان دونوں کاموں کے لیے مطالعے، علم، تجربے اور تجزیہ پیدا کرنے کی صلاحیت کے علاوہ ایک حساس دل ،وسیع النظری ، باریک بینی، روشن ذہن اور تازہ اور پاکیزہ سوچ کا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ اگر کسی میں یہ سب اوصاف موجود ہوں گے تب ہی وہ ایک اچھا شاعر اور اچھاا فسانہ نگار بن سکتا ہے اور فرخندہ رضوی میں یہ خوبیاں موجود ہیں۔
دورحاضر میں مسئلہ یہ ہے کہ ہر وہ شخص جسے فکشن یا شاعری لکھنا آ گئی وہ اپنے آپ کو افسانہ نگار یا شاعرسمجھنے لگتا ہے۔اس لیے ہر طرح کی تحریر چاہے وہ کسی واقعہ کی رپورٹ ہو یا کسی واقعہ پر اظہار خیال ہو یا کوئی شعری قطعہ ہواسے زبردستی شاعری یا مقالے کا نام دے کر چھاپ دیتے ہیں۔ ایسے دور میں اگر کوئی تخلیق کاراچھی شاعری یا افسانہ لکھے تو اس کی انفرادیت اور سچائی خود ہی سب کو اپنی طرف کھینچ لینے کی مقناطیسی صلاحیت رکھتی ہے۔ فرخندہ رضوی کی شاعری میں ان کا علم،فہم،تجربہ و ادراک،سماجی شعور انداز تصوف اور جدید خیالات کا منطقی بہاؤ،شاعرات کے اس ہجوم بیکراں میں ان کی الگ اور جداگانہ شناخت کرانے کے لیے کافی ہے۔
فرخندہ رضوی کی حمد و نعت میںجو وجود ملتا ہے۔اس میں تصوف بھی ہے اور ذکر میں اکثر اپنے خدا سے ہم کلام ہوتی ہوئی جس منزل اور معرفت پر نظر آتی ہیں۔ وہ ایک اکمل شخصیت میں ہی ہو سکتاہے ۔حمد یا نعتیہ اوردعائیہ نظمیں ان کے دل کے سچے اور کامل مذہبی جذبوں کی عکاس اور امیں ہیں۔ ان کو پڑھو تو ایسا لگتا ہے کہ ان کے سر پر جبرئیل کا سایہ ہے۔لیکن سچ پوچھیں تو یہ بھی بہت بڑی خوبی ہے کہ کوئی دنیادار ہونے کے ساتھ ساتھ دین دار بھی ہو۔فرخندہ رضوی شاید راہ رب میںشب بیداری کے کنویں سے پانی حاصل کرنے والی سیدھی سادھی خانم،ایک گھریلو زندگی، سعادت مند بیٹی،خدمت گزار بیوی،شفیق ماں ،مخلص دوست ہونے کے ساتھ ساتھ افسانہ نگار ، مقالہ نگار، کالم نگار، اور شاعرہ بھی کمال کی ہیں۔وہ حمد و نعت کے ذریعے سماجی شعور دیتی ہیں کہ اپنے مسائل کے لئے خدا اور اس کے رسولﷺ سے قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کے ذریعے رہنمائی حاصل کریں۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اپنی دینی اور دنیاوی ذمہ داریاں پوری کرنے کے بعداپنی تخلیقی صلاحیتوں کے لیے وقت کہاں سے نکالتی ہیں۔جب ان کی طبیعت کسی بات سے متاثر ہوتی ہے ، اور کوئی خیال ،پیکر کا وجود پانے کے لیے ان کے ذہن میں نظر آتا ہے تو وہ اسے صفحہ قرطاس کے سپرد کرنے میں دیر نہیں کرتی ہیں۔ ان کی شاعری کا مطالعہ کرنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ فرخندہ رضوی عصر حاضر کی وہ شاعرہ ہیں جن کے من میں لفظوں کا ایک طوفان موجود ہے جو اپنے چاروں طرف پھیلی ہوئی تاریکیوں اور مایوسیوں کی بصیرت رکھتی ہیں۔ آپ گو غزل کی شاعرہ ہیں مگر نظم بھی نہایت خوبصورت لکھتی ہیں۔
فرخندہ رضوی ایسی ہمہ جہت اور ہمہ رنگ شاعرہ ہیں۔ جو شعر و ادب کے گو نا گوں مراحل کی تسخیر میں مصروف عمل نظر آتی ہیں۔ وہ حمد و نعت،نظم و غزل اور قطعات میں اپنا زور سخن صر ف کرتی ہیں وہ خوبصورتی کی منہ بولتی تصویر ہیں اور اس سے بھی زیادہ حسن ان کی ذات کے بطون میں پوشیدہ ہے۔ جو اپنی نمو دو ظہور کے لیے انہیں تخلیق کے عمل پر اکساتا رہتاہے۔ شاعری سے ان کی ہم رثتگی کی وجہ بھی اصل میں یہی ہے یہ مذکورہ حسن ان کی ذات خاص سے منتقل ہو کر ہمیں ان کی تخلیقات کے ساغر سے چھلکتا اور دعوت مطالعہ دیتا نظر آتا ہے۔فرخندہ رضوی لکھنے والوں کے اس قبیل سے تعلق رکھتی ہیں۔ جن کے کشکول سخن میں اپنے بزرگوں ،خاندانوں، اور ہم سفر سے ملنے والی کوئی نعمت شامل نہیں۔ گویا سخن گوئی کا یہ بیج بویا بھی خو د اس کی آبیاری بھی خود کی ۔اس کی نگہداشت بھی خود کی اور پروان بھی خود ہی چڑھایا اور آپ ایک رخ سے اس کا پھل بھی خود ہی کھا رہی ہیں۔
شاعری فرخندہ رضوی کے نزدیک شہرت کاا شتہار ہے اورنہ تعلقات قائم کرنے کا زینہ ہے۔ وہ صرف اس لیے لکھتی ہیں کہ قلم کے خالق نے یہ لکھنے کا فریضہ ان کے سپرد کر رکھا ہے ورنہ تو ان کے خاندان میں پہلے کسی نے لکھا اور نہ ہی آگے ایسا کوئی امکان نظر آتا ہے۔ما سوائے اس کے کہ معجزہ کبھی اورکہیں بھی رونماہو سکتا ہے۔فرخندہ رضوی نے شعر لکھتے ہوئے نناوے فیصد بناوٹ سے کام نہیں لیا اس فطری طرز عمل میں شاعری کے کچھ فن محاسن قربان ہی کیوں نہ کرنے پڑے ہوں شجرکاری کی دنیا میں جن پودوں کو کیکٹس کے نام سے پہچاناجاتاہے۔ وہ سو فیصد خودرو ہوتے ہیں۔ ماہرین شجر کاری کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ روئے زمین پر یہ کیکٹس ریگستان میں کھلتا ہے جہاں پانی نایاب اور شدت آفتاب سوا نیزیپر ہوتی ہے۔ فرخندہ رضوی کی شاعری میں ایک عنصر اچھوتا اور منفرد لگتا ہے کہ کانٹوں کے باوجود اس میں کیکٹس کے پھولوں کا تناسب زیادہ ہے۔
شاعری کی قدر وقیمت کا فیصلہ وقت کرتا ہے۔ یعنی تاریخ اور قارئین کرتے ہیں۔ اتنا بحرحال طے ہے کہ فرخندہ رضوی اپنی انسان دوستی وطن پرستی اور دیار غیر میں بیٹھ کر اردو کی آبیاری کرنے پر اور پاکستان کے لوگوں کی درد مند کے لیے یاد رکھی جائیں گی۔ کسی بھی چیز کا مقام و مرتبہ اس کی خوبیوں اور انفرادیت کی بنیاد پر رکھا جاتا ہے۔ یہ تو طے ہے کہ ہر شے اپنے اندر کوئی نہ کوئی خوبی سمیٹے ہوتی ہے۔چیز کی صلاحیتوں کا اظہار ان کی خصوصیات کی بنا پر ہوتا ہے۔ شعر وادب کی بات کریں تو شعر و ادب اگر اپنے اصلی رنگ میں ہوں تو اس سے بہتر شے ہی نہیں ہوتی اس لیے کہ جذبات احساسات، کا اظہار جس ترتیب اور خوبصورتی سے شعری ا دب میں کیا جاتا ہے کسی اور میں نہیں کیا جا سکتا۔ فرخندہ رضوی کی شعری جہتوں کا مطالعہ کریں تو یہ بات رو ز روشن کی طرح سامنے آتی ہے کہ انہوں نے جذبات و احساسات کو بڑے خوبصورتی سے شعری پہناوے پہنا کر پیش کیا ہے ان کے اس منفرد انداز نے قارئین کے دل موہ لیے ہیں فرخندہ رضوی کی شاعری بلا شبہ بلند پایہ کی شاعرہ ہیں۔ ان کی شاعری سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ وہ شعری ادب کی ماہر کاریگر ہیں۔انہوں نے ہر مقام پر اس مہارت کو احسن انداز میں بیان کیا ہے۔ انہوں نے شعری اسلوب کو زندہ رکھ کر اور ساتھ ہی عروض اور بحر ووزن کا خیال رکھتے ہوئے نہایت عمدہ شاعری تخلیق کی ہے اور عروض کی بنیادی معلومات کو ہی اساس بناکر بیشتر شعرا کی طرح اپنی شاعری کا تاج محل کھڑا کیا ہے۔
فرخندہ رضوی جنہیں اکبر حیدر آبادی،خالد یوسف (مرحوم) صفدر ہمدانی، ڈاکٹر مختار الدین احمد بانو ارشد، مہر سلطانہ اور راحت زاہد جیسے اکابرین وصالحین کی سرپرستانہ حمایت اور حوصلہ افزائی حاصل ہے۔ جو بڑی بات ہے۔ نیک باطن، عجز و انکساری کی مجسمہ خوش مزاج اور شیریں سخن فرخندہ کی شاعری اول تا آخر مہر و محبت، مروت و شفقت، اعانت و الفت، سماجی مسائل کی عکاسی اور عشق و عاشقی کے عالمگیر و ہمہ گیر موضوعات کو احاطہ کرتی ہے۔
دل کا یہ ازلی ابدلی فطری اور سدا بہار جذبہ ہر ہمدرد شاعر کے دل میں موجزن پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ موضوع ہر ایک کا ترجمان ہونے کے اسباب سبھی کے دل موہ لیتا ہے۔ فرخندہ نے بھی قلبی واردات، جذبات و احساسات، مشاہدات اور تجربات کو نچوڑ نچوڑ کر شاعری کی ہے۔ بلاشبہ وہ ایک عظیم شاعرہ ہیں۔ ایسے شاعر ہمارا فخر ہیں جن کا قلم خاموشی سے چلتا رہتا ہے۔ اور فرخندہ رضوی صاحبہ کی شعروں سے بھری کے کیاریاں ہر موسم میں گلہائے رنگا رنگ کی بہاروں سے ادب کو سجاتی رہیں گی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭

کتابیات
بنیادی ماخذ:
٭ فرخندہ رضوی،سنو خموشی کی داستان، آئیڈیل پبلی پبلشرز اردو بازار کراچی، 2002ء
٭ فاخرہ بتول، گلاب خو شبو بنا گیا، فن پبلی کیشرز، لاہور، 2004،
٭ فرخندہ رضوی، فاصلے ستا رہے ہیں، یونائیٹڈ صابری پبلی کیشنز اردو بازار کراچی، جنوری
2006ء
٭ فرخندہ رضوی، زیر لب، بزم تخلیق ادب پاکستان، کراچی، 2012ء
٭ فرخندہ رضوی، خوشبوئے خندہ، بزم تخلیق ادب پاکستان کراچی 2018ء
ثانوی ماخذ:
٭ القرآن
٭ احتشام حسین، سید، تنقید جدید، علی گڑھ یونیورسٹی پبلی کیشنز، 1987ء
٭ احمدساقی، دروازہ، مکتبہ قدسیہ لاہور، 2018ء
٭ اسد اللہ خان، مرزا، غالب، دیوان غالب، نیئرا سد پرنٹرز لاہور، 2001ء
٭ الطاف حسین حالی ، مولانا ،مقدمہ شعر و شاعری، سیونتھ سکائی پبلیکیشنز لاہور، اکتوبر 2015ء
٭ امجد مرزا امجد، تخلیق خندہ، اردو سخن پاکستان، اردو بازار چوک اعظم لیہ، 2021
٭ انور جمال، پروفیسر، ادبی اصطلاحات، نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد، اشاعت مارچ،
2017،
٭ انور سدید، ڈاکٹر، اردو ادب کی مختصر، عزیز بک ڈپو لاہور ، 1998ء
٭ انور مسعود، اک دریچہ اک چراغ ، دوست پبلی کیشنز، 2008ء
٭ تسلیم الہی زلفی، ڈاکٹر، تخلیق خندہ، اردو سخن لاہور، 2021ء
٭ جمیل جالبی، ڈاکٹر، ارسطو سے الیٹ تک، نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد، 1997ء
٭ سبط حسن، سخن در سخن ، مکتبہ دانیال، کراچی، 1987ء
٭ شان الحق حقی،فرہنگ تلفظ(طبع چہارم) احباب پبلشرزلکھنودہلی، 1954ء
٭ شبلی نعمانی شعر العجم (حصہ پنجم) الفیصل ناشران و تاجران کتب اردو بازار لاہور، جون 1999ء
٭ شکیل الرحمان، ڈاکٹر، امیر خسرو کی جمالیات، نئی دلی ماڈرن پبلکیشنز ہاؤس، 1996ء
٭ شمس الحق (مرتب)،مرزا غالب اردو کی ضرب المثال اشعار ( تحقیق کی روشنی میں) فکشن
ہاؤس لاہور,2013ء
٭ عابد علی عابد،سید، البیان، مجلس ترقی ادب لاہور، 1998ء
٭ عبدالضیم عزیزی، ڈاکٹر، اردو لغت گوئی اور فاضل بریلوی، ادارہ تحقیقات امام رضاانٹر نیشنل کراچی
٭ کلیم الدین احمد، اردو شاعری پر ایک نظر، لاہور رحمانی پرنٹنگ پریس، 1985ء
٭ گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر، اردو افسانہ روایت اور مسائل، سنگ میل پبلی کیشنز لاہور، 2002ء
٭ لان جائنس، ارسطو سے الیٹ تک، مشمولہ، ڈاکٹر جمیل جالبی، نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد،
1997ء
٭ ممتازالحق، ڈاکٹر، اردو غزل کی روایت اور ترقی پسند غزل ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی،
۷۹۹۱ء
٭ ممتاز بنگلوری، مرتب، طیف غزل، لیکچرار از ڈاکٹر سید عبداللہ لاہور اکیڈمی لاہور، 1984ء
٭ مینر سیفی، ریاض مدحت، از ریاض حسین زیدی، ساہیوال، 2000ء
٭ ناصر کاظمی، انتخاب انشائ، فضل حق اینڈ سنز پبلشرز اینڈ پرنٹر دربار مارکیٹ لاہور، دسمبر
1991ء
٭ نظیر اکبر آبادی،جواہر کلیات نظیر، حصہ اول، مکتبہ اول ابراہیمہ اور ادباہمی حیدر آباد ، 1985ء
٭ یوسف حسین، ڈاکٹر، اردوغزل، زاہد بشیر یزنٹرز ، اردو بازار، لاہور ،طبع اول ، 1952ء
٭٭٭٭٭٭٭

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...