Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > گردشِ خاک > بابِ تاثیر سے انجیلِ کربلا تک

گردشِ خاک |
حسنِ ادب
گردشِ خاک

بابِ تاثیر سے انجیلِ کربلا تک
ARI Id

1688708536651_56116582

Access

Open/Free Access

Pages

۰۹

بابِ تاثیر سے انجیلِ کربلا تک

                کائنات میں موسموں کی موجودگی سے طرز تکلم کے درجاتی دائروں کی دنیا ہو یا جذباتی سولات سے یقین کے منظروں میں شرطوں کی بحث ،یہ کبھی بھی لذتِ تاثیر سے خالی نہیں ہوتی ۔اس میں آرادھنا ،سادھنا کے معنوی تجربات بھی شامل ہو کر ،فکر کے داخلی رجحان کے ساتھ پھولوں کے رنگوں کی گرہ کھولتے ہیں ۔یہ جواز احساس کی خارجی خصوصیات کو جب آرادھنا کے سبز پتوں میں لپیٹ کر الہامیہ نفسیات کے زاویوں میں سمو کر ،ماضی کے تخلیقی اور موجودہ دور کے تحقیقی دروازے کھولتے ہیں تو سوچوں کے رویوں پر اثر انداز نہیں ہوتے کیونکہ لذتِ تاثیر اور تحقیق’’اپنے عہد کی زندگی کا سامنا کرنے اور اسے تمام امکانات و خطرات کے ساتھ برتنے کا ہنر سکھاتی ہے ۔جسے جدت کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے ۔ہر عہد میں جدیدت ہم عصر زندگی کو سمجھنے اور برتنے کے مسلسل عمل سے عبارت ہوتی ہے ۔اس لحاظ سے جدیدیت ایک مستقل عمل ہے ۔جو ہمیشہ جاری رہتا ہے ۔‘‘(جدیدت اور ادب ،وحید اختر)

                ادبی کائنات میں جو تحیر اور طلسم سے سلسلہ شروع ہوتا ہے وہ آرادھنا ،سادھنا کے ساتھ مناجاتوں تک چلا آتا ہے ۔پھر کیفیاتی اسرار شروع ہوتے ہیں ۔جن کی وجہ سے عکس فسوں اسرار آگہی کی کرنوں میں ڈوبے سبز پتوں کا صحیفہ کھلنے لگتا ہے ۔جس کی وجہ سے فکری سوچ کی وادیوں میں نفسیاتی مقامِ مقدسہ نظر آنے لگتے ہیں ۔کبھی خود سپردگی کی ہئیت تو کہیں اسیر خواب و من الشباب کی جلی، خفی جذبات کی بارشوں میں بھیگی صورتیں نظر آنے لگتی ہیں ۔

                اس سارے منظر نامے میں بکھری اساطیری رمزوں اور جدید اشاروں کو علمی دائروں میں پرکھنے کے ساتھ مختلف مفاہیم اخذکیے جا سکتے ہیں لیکن آوارگی کے استعارے کے لیے مختلف راہوں کا ،خیالوں کی شرطوں سے جنم لیتی فکری سوچوں کا ،گردشِ ایام سے بدلتے ذہنوں کا ہونا ضروری ہے ۔یہ تکون مضبوط ہو گی تو آوارگان ِ خاک کے نظریات و تجربات سے خاک میں موجود عناصر کی توڑ پھوڑ سے پیدا ہو نے والی اس توانائی کا بخوبی پتہ چل جائے گا جو سورج کی شعاعوں سے فیض یاب ہو کر چاندنی راتوں میں چمکتے ذروں کی طرح نظر آتے ہیں ۔کچھ احباب ِ مقدس ان کو سنگریزے کہیں گے لیکن ذاکرین وفا انہی کو سوچتے ہوئے بابِ تاثیر سے انجیل کربلا تک سبز شہر کا صحیفہ پڑھتے ہوئے چلے آتے ہیں ۔ایسے صالحین کا مطالعہ کرنے والوں کی تخلیقی سوچ تنقید برائے مخالفت سے متصادم ہو کر تنہائی پر کاری ضرب لگاتی ہے ۔جس کی وجہ سے دو راستے جنم لیتے ہیں ۔ایک بہار کی جانب نکل جاتا ہے دوسرا خزاں کی طرف ۔جو ذہن ان دونوں راستوں سے کترا کر نکلنے کی کوشش کرتا ہے ۔وہ رہبانیت ،تیاگ ،خانہ بدوشی جیسے اعزاز سے بھی محروم ہو جاتا ہے ۔وہ تنہائی کے تشدد سے زمین برد ہو جا تا ہے ۔

                آوارگانِ عصر ہوں یا آوارگانِ خاک یہ معاشرتی شعور سے حقیقی فلسفے کی رہبانیت کی طرف چلتے رہتے ہیں ۔جو انسانی سوچ کی اہمیت کو پرکھتے ہوئے پرندوں کی نثری نظمیں سنتے ہیں ۔پھر معانیوں کی تشریح و تفسیر میں حقیقت و مجاز کے زائچوں میں پھولوں جیسا رنگ بھرتے ہوئے ،تنہائی سے سرگوشیاں کرتے ہیں حالانکہ یقین و گمان کی تشکیلی روایت کے افاعیلی نظریات کے لاتعداد صحیفے موجود ہوتے ہیں لیکن پھر بھی ستاروں کی سن کر دل کی باتوں پر بحث نہیں کرتے کیونکہ ان کے نزدیک تنقید سے اکثر سبز شاخوں کی رگیں کٹ جاتی ہیں ۔یوں نثری نظم کی خوبصورتی کو بگاڑنے والے کی دھڑکنوں کا بھی پتہ چل جاتاہے ۔شمسی چمک اور علامتی تعجب کے نظمیہ معانی ریڑھ کی ہڈی جیسے ہوتے ہیں جن کو تنقید میں شامل کرنا ضروری ہوتا ہے لیکن نتیجہ نظمیہ سوچ کے برعکس بھی ہو سکتا ہے مگر اس سے انکار ممکن نہیں ۔قدیم حیثیت سے آنے والی صنف میں وقت کی پیش گوئیاں بھی موجود ہیں ،جن سے یقین کی راہیں ہموار ہوئیں لیکن اس کو جھٹلانے والا راندۂ ادب ہو جاتا ہے ۔جو پھر ’’جنات والناس ‘‘ہو کر روزِ ازل سے روزِ ابد تک اپنی فطرت اور خصلت کا اظہار کرتا رہتا ہے کیونکہ اسے’’ کیفیتِ کن‘‘اور’’ حقیقتِ کن‘‘سے فیض یاب ہو نے کا شرف حاصل نہیں ہوتا ۔وہ صرف اپنی مطالعاتی طاقت اور معنویاتی توڑ پھوڑ میں مشغول رہتا ہے۔ ایسے لوگ لفظ ’’نثر‘‘کے مفہوم کو کبھی فاعلاتی سوچ کے تشبیہاتی شعور سے ملاتے ہیں ۔کبھی سرخ سبز خیموں کو جلاتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔یہ لوگ معانی و روانی کی چادر کو نیزوں میں پرو کر باغی باغی کا نعرہ لگاتے ہیں ۔نثری نظم کو بازاروں میں سنگسار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔

                گردشِ ایام سے ’’گردشِ خاک ‘‘تک نثری نظم حقیقت بن کر موجود رہی ۔لسانی تعبیرات کے منظروں میں یقین و جذبات بدلتے رہے ڈر ،خوف کی حقیقت بھی مختلف شکلوں میں واضح ہوتی رہی لیکن یہ انسانی جذبات کو اپنے حصار میں لے کر رقصِ وحشت سے رقصِ جمال تک زعفرانی فسوں کے ساتھ محوِ سفر رہی ۔یونانی خانقاہوں سے عجمی غاروں تک کی دیواریں گواہ ہیں کہ نثری نظم کسی نہ کسی شکل میں اپنے وجود کا احساس دلاتی رہی ۔

                یہی نثری نظم وینس کی پجارنوں کے لبوں پر ،آتش کدوں میں مختلف پھل لے کر جانے والیوں کی دھڑکنوں میں سما کر سناٹوں میں گونجتی رہی ۔سب سے پہلے کس نے خط لکھا اس کی کھوج میں ریشمی رومال کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ۔نثری نظم کے حوالے سے میں ان تمام باتوں سے متفق ہوں ۔’’گردشِ خاک ‘‘ کو سامنے رکھتے ہوئے صدیوں سے فکری استعاروں اور جذباتی تلازموں کے ساتھ سوچ اور لفظوں کی معنوی روانی کا انداز بدلتا رہا ۔جس کی بنا پر شعوری لوح پر، نفسیاتی قلم کی روانی پر ناقدین نے تنقیدی بازار گرم رکھے۔عصر رواں کے شہروں میں کئی مجدد اور مفسر لال پیلے ہوتے رہے اور سحر کے زاویوں میں گلابی شاموں تک کا سفر جاری رہا ۔سرد ہوائوں سے گلے ملتی خوشبو داخلی اور خارجی راستوں پر سفر کرنے والے حرف و معانی کے طرزِ حجاب اور شعورِ گلاب جیسی تسبیح پڑھنے والے چہرے بھی سامنے آتے رہتے ہیں ۔انھی چہروں کی وجہ سے مہاجر پرندوں کا تنکا تنکا چن کر لانا پھر چاندنی راتوں میں درویشوں کے مکاشفوں پر بحث کرتے ہوئے ،ایجاب و قبول کرتے ہوئے ،ارضی امانتوں میں نثری نظم کی شکل میں جذبات کو سمونے کی روایت بہت پرانی ہے ۔جس سے پروفیسر فرینکلن بھی متفق ہیں ۔بقول شمس الرحمن فاروقی ’’نثر سے نثری نظم بہتر ہے ‘‘اس جیسے اور بھی اقوالَ زریں مجدد اور امام تابوتِ سکینہ میں حفاظت سے محفوظ کرتے رہے تاکہ آئندہ نسلیں ان سے مستفید ہو سکیں ۔سبز کلیمی رہبر کی پیش گوئیوں میں ان پودوں اور شاخوں کی باتیں بھی ہوتی رہتی تھیں جن کے زائیلم اور فلوئیم کے راستوں میں قلم آسودہ حال ہو کر سبز پتوں میں کھلنے والے پھولوں کی گواہی سے عیاں ہو کر ،صفحوں کے سینے پر احوالِ بقا لکھتا تھا ۔

                عام طور پر واقعاتی سیلاب ،نظریاتی طوفان کچھ لوگوں کی سوچوں کو مفلوج کر دیتے ہیں اور کئی جملوں سے منسلک معانی کو سامنے رکھتے ہوئے ،نظریاتی اور تجرباتی سلسلوں میں تمیز کر نے کی صلاحیت سے محروم سوچوں کو اجسامِ مکانی کے رشتوں کے ساتھ کائناتی کشش میں الجھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔اس مقام پر شعوری سیاق و سباق کام نہیں کرتا بلکہ کسی سیلانی ،آواراہ سے رجوع کرنا ضروری ہوتا ہے ،جو سیاح یا آواراہ گرد کی گرہیں کھول سکے ۔اس سلسلے میں شاعرانہ تکلم طبیعاتی موسم کے تابع نہیں ہوتا یہاں تو صرف دو قانون ہیں نظریاتی سلسلہ یا تجرباتی اصرار ،جو عارفانہ روانی کو اعترافی کیفیت سے ہمکنار کرتے ہیں ۔کلاسیکی روایتوں کی باتیں زیرِ بحث آ جاتی ہیں لیکن جبریت کا رجحان ،سیاسی اور سماجی استعاروں کے حوالے ،نظمیہ اور نثمیہ کے مقام کے ساتھ طرزِ استدلالی کو جوڑ دیتا ہے ۔اسی وجہ سے بعض دفعہ وارثانِ ادب سے رشتہ ٹوٹ جاتا ہے ۔

                میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ نثری نظم امکانی فطرت کے سلسلے کو جذباتی فکر پر تقسیم نہیں کرتی ۔بہار کے آنے جانے کے اسرار کو سامنے لاتی ہے ۔یقین کو برباد نہیں کرتی ۔آوارگانِ عصر ہوں یا ’’گردشِ خاک‘‘ کے مارے ہوئے سب یقین کو سامنے رکھتے ہوئے گمان کو ختم کر دیتے ہیں ۔ادبی سرمائے میں بہت کچھ موجود ہے مگر ہر کوئی اس سے فیض یاب نہیں ہو پایا ۔منان لطیفؔ ایک حوالے سے تاریخی شعور کی تہیں کھولتے ہوئے زمانوں کے ترتیبی عناصر سے پردہ اٹھاتے ہیں ۔’’گردشِ خاک‘‘کی اکثر نظموں میں موضوعاتی چنائو تخلیقی ابلاغ کے ساتھ کیفیاتی اظہار میں ڈھلتا ہو ا ،اعتباری تسکین کو تشکیل دیتا نظر آتا ہے ۔منان کی نظمیں اساطیری تصوف کے ساتھ جذباتی احساس اور عصری روایات کو خوبصورتی سے پیش کرتی نظر آتی ہیں ۔وہ مزاجِ قدیم سے جدید تک آتے ہوئے تصوراتِ عشق کے سبز و سرخ مقامات کی بے حرمتی کرتے ہوئے نظر نہیں آتے بلکہ لفظی بنت کاری اور معنوی روانی کے ساتھ دعائے عفت اور عالمِ تاثیر کے صندلیں جنگلوں میں نثری نظم کی داخلی اور خارجی کیفیات کی تکمیل کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ان کی نظموں کا علامتی رنگ فکر اور احساس کے جنگلوں سے گزرتا ہوا شہروں کی وحشت میں داخل ہوتا ہے اور مشاہداتی اشاروں کے ساتھ عہدبہ عہد شدت جذبات پر محیط ہوتا دکھائی دیتا ہے ۔

                                                                                                                                منصف ؔہاشمی ، فیصل آباد

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...