1688708536651_56116583
Open/Free Access
۱۳
حرفِ خاک
اردو شاعری قدیم روایت کی حامل ہے ۔جس میں ہر شاعر نے اپنا حصہ ڈالا ہے ۔شاعری کی حساسیت اسے مجبور کرتی ہے کہ معاشرتی جبر کو بیان کرے ۔اس کے لیے تشبیہات و استعارات ایسے مورچے ہیں جس کی آڑ میں وہ جبر ،بربریت کو بآسانی بیان کر سکتا ہے ۔
جب ہم منان لطیف ؔ کی نظموں کا مطالعہ کرتے ہیں تو کائنات اور اس کے باسیوں کی حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے ۔آوارگانِ خاک تب سے اب تک اور اب سے نجانے کب تک گردشِ ایام کی دبیز تہوں میں غوطہ زن ہو تا رہے گا اور چار پہیوں کی تلاش میں مقامِ انسانیت کھوتا رہے گا ۔احساسِ برتری ایک ایسا زہر ہے جسے انسان ناز پرور ہونٹوں سے اپنے رگ و پے میں اتارتا چلا جاتا ہے۔
’’گردشِ خاک‘‘میں انسانیت سسکتی بلکتی نظر آتی ہے ۔جیسے یہ جہان تندور کی مانند ہے جو اس میں داخل ہوتا ہے وہ اس میں جلتا دکھائی دیتا ہے ۔شکاری جال پھیلائے ہر لمحہ شکار کے منتظر ہیں ۔انسان آزاد و خود مختار ہو کر بھی پابہ زنجیر نظر آتا ہے ۔چھپکلیوں کی طرح حرص ،ہوس ،لالچ ،بغض اور کینہ پروری کی دیواریں چاٹتا نظر آتا ہے ۔
ایک طرف انسان قیاس آرائیوں میں چپ چاپ صبر کا کفن اوڑھ لیتا ہے ۔کئی سنتو رانیاں پریمی کے انتظار میں زندگی کے دن گن گن کر اپنی لٹیں اداس اور چھاتیاں خشک کر لیتی ہیں ۔منان لطیفؔ کی نظموں میں یہ احساس خاصاگہرا ہے ،جودراصل حالات و واقعات کی تصویر کاری ہے ۔
ڈاکٹرمحمد یسین رازؔ
شعبہ اردو
ہزارہ یونیورسٹی ، مانسہرہ
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |