Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > گردشِ خاک > چاک سے اتری خاک

گردشِ خاک |
حسنِ ادب
گردشِ خاک

چاک سے اتری خاک
ARI Id

1688708536651_56116586

Access

Open/Free Access

Pages

۱۶

چاک سے اُتری خاک

                ابھی آنکھوں کے دریچے کم سن اور عقل کے جگنوئوں کی روشنی مدھم تھی ،جب دل کی تاریک گلیوں سے یہ خیال اکثر کسی انجان مسافرکی طرح گزرتا کہ یہ بھٹکے ہوئے لفظوں کے سوداگریونہی کہنہ کتابوں کا بوجھ اٹھائے پھرتے ہیں ۔ان کی سطریں طلسمی افسانوں کے سوا کچھ نہیں ۔ان کی باتیں فریب کی واضح دلیلوں کے سوا کچھ نہیں ۔بھلا لفظوں کے لمس سے کسے شفا ملی ہے ؟بھلا جملوں کی تپش سے کب پتھر پگھلے ہیں ؟مگر اک روز میں اداس شام کے غمزدہ حجرے میںجونؔ کے صحیفہ’’شاید‘‘ میں موجودغزل(نیا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم) کے ابتدائی اشعار کی قرأت میں منہمک تھا تو مقدس پردوں میں لپٹی ، پہلی معصوم آیت نے مجھ پر کھلتے ہوئے گواہی دی’’یہ خدا کے چنیدہ لوگ ہیں‘‘۔

                دوستی جو کبھی محبت کے مہکتے پھولوں کا جزیرہ ہوتی تھی ۔ا ب د لکش مگر آتشی سانپوں کا جنگل بن چکی ہے ۔میں چاہتا تو لفظوں کی بین کے زور پر منتروں سے جکڑی پٹاری میں انھیں قید کر سکتا تھا لیکن دانستاً ایسا نہیں کیا۔یہ یونہی چاہت کا ملاوٹی دودھ پی کرنیلی رگوں میں زہر اتارتے رہیں۔میں نہیں چاہتا تھا یہ سانپ جن کی مفادی آستینوں میں پل رہے ہیں وہ میرے چاکِ گریباںکو اور تار تار کریں ۔

                میں اکثر سوچتا اگر خدا نے یہ جدید حرف گر(ن۔م راشدؔ ،مجید امجدؔ،میرؔا جی )نہ بھیجے ہوتے،تو میرے لیے بھٹکنا کتنا آسان تھا۔میرے بہت سے ژولیدہ خیالات اور کومل جذبات الفاظ کا پیراہن زیب تن کیے بنا غزل کی روایتی گلیوں میں سراسیمگی اوڑھے دربدر کی ٹھوکریں کھاتے یا پھر کسی روز دل و دماغ کی کسی کنج میں لاوارث لاش کی طرح پائے جاتے۔

                اگر میں دیکھوں توگھومتے چاک سے جز چندخاکی چہرے اتارنے کے کچھ نہیں کیا۔ان محرومیوں کے پژمردہ چہرے جو ازل سے بنی آدم کے دل میں سسک رہی ہیں ۔ان حسرتوں کے آشفتہ چہرے جو ابد تک بلکتی رہیں گی ۔زمانے کے تلخ حقائق کے چہرے جس میں کوئی بھیگی بلی تو کوئی وحشی بھیڑیا بناہے۔اس بوڑھی تاریخ کا چہرہ جو دن بہ دن وقت کی جھریوں سے ڈھلک رہا ہے۔اپنے اس غم نہاں کا چہرہ جس میں دھنسی مغموم آنکھیں کسی کا غم دیکھتے ہی بھیگ جاتی ہیں ۔

                یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں کہ وہ غریب کی کٹیاکو نگلتا اندھیرہ قرطاسِ ابیض پر پھیلا سکے۔محلوں کی تیز روشنی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال سکے ۔غموں کی تمازت سے تپتے آنگنوں کوآسودگی کے چھتنار درختوں کا سایہ فراہم کر سکے۔ویران مکانوں میں سوئی مکڑیاں جگا سکے ۔ معاشرے کے بگڑتے چہرے کو جملوں کے غازے سے نکھار سکے، خواہشوں کی ماری دوشیزہ کے لیے آسمان سے تارے توڑ کر لا سکے۔کسی خاموش منظر کو سچے رنگوں سے ابھار سکے ۔لطیف احساسات کو شیریں زبان عطا کر سکے۔کسی کے حسین خدو خال کو لفظوں کے قلمِ ناقلہ سے تراش سکے ۔یہ تو خدا کی دین ہے جسے چاہے دان کر دے۔

                رفتگاں کے شکستہ کھنڈرات سے گزرتی تباہ شدہ لمحوں سے بنی یادوں کی کچی سڑک کوپہلی بارش کی ننھی بوندوں کے چومنے سے جو بھینی بھینی مہک اٹھتی ہے ،ایسی ہی احساس سے لبریز خوشبو مجھے دو اساتذہ سیف الرحمن خاں بلوچ اور ڈاکٹر عارف حسین عارفؔ صاحب کی صورت میں عنایت ہوئی،جس سے برسوںسے مرجھائی روح میں رعنائی در آئی ،جسم کے غنودہ مسام جاگ اٹھے۔ میں لوحِ شکر پہ محبت کے روشن قلم سے لکھی تمام سنہری تحریریں ان کے نام کرتا ہوں ۔

                میںیوں تو نہیں کہوں گاکہ میری ہر سطر میں ایک بحرِ بیکراں چھپا ہے مگر اتنا ضرور ہے کہ ہر سطر میں ایک قطرہ ٔ  متلون ضرور پنہاں ہے ۔جو خاک کے تشنہ ذروں میں ضم ہو جانے کا منتظر ہے ۔اگر آپ کواس خاک کی گردش سے بنتے ہوئے چہروں میں اپنا چہرہ نظر آئے تو اس خاکسار کو اپنی دعائوں میں یاد کر لیجیے گا  کیونکہ ہر چہرے کے پیچھے کئی چہرے چھپے ہوتے ہیں ۔

                                                                                                منان لطیفؔ

                                                                                                شعبہ اردو

                                                                                                گورنمنٹ میونسپل گریجوایٹ کالج، فیصل آباد

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...