Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > گردشِ خاک > ۴۔ زہر رگوں میں اتارنا پڑتا ہے

گردشِ خاک |
حسنِ ادب
گردشِ خاک

۴۔ زہر رگوں میں اتارنا پڑتا ہے
ARI Id

1688708536651_56116590

Access

Open/Free Access

Pages

۲۴

زہر رگوں میںاتارنا پڑتا ہے

تپتے سورج کی کرنوں کے نوکیلے پتھر

فگار دن کے برہنہ سر پر برس رہے تھے

ریل کی پٹری کو کاٹتی ہوئی کہنہ سڑک پر

انبوہِ آدم رواں دواں

قریب ہی پُل کے نیچے بیٹھے دھوئیں میں پریشاں حال

اپنے وجود کو تلاشتے چند انسان

موت کی آغوش میں پلتے ہوئے

دشت نما چہروں پر بے خوابی کی جھریاں

بد قسمتی کی دھول میں اٹے ہوئے بال

بوسیدہ پیراہن سے جھانکتا استخواں

آنکھوں میں خمارِ آشفتگی

جس میں ٹھکرائے جانے کا غمِ جاوداں پنہاں

 اس ہجومِ آشفتگاں سے ایک ژولیدہ مو

اپنی رگوں میں زہر اتارنے لگتا ہے

 زندگی بے اختیار چیخنے لگتی ہے

اے دشمنِ جاں یہ کیا۔۔۔؟

آشفتہ نوا گویا ہوا

سن اے زندگی!

’’خدا نے فقط تجھے عطا کر کے

بدلے میں مجھ سے کیا کچھ نہیں چھینا

اُس کے بے اماں جہان میں

رشتے بکتے ہیں

جذبات کا بیوپار ہوتا ہے

محبت بھیک مانگتی، تلوے چاٹتی ہے

جھوٹ مسکراتا ہے

سچ دریوزہ گر ہے

ہر کوئی نفرت کا خریدار ہے

اپنے بیگانے ہیں

یہ سب دیکھنے اور سہنے کے لیے

زہر رگوں میں اتارنا پڑتا ہے‘‘

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...