1688708536651_56116590
Open/Free Access
۲۴
زہر رگوں میںاتارنا پڑتا ہے
تپتے سورج کی کرنوں کے نوکیلے پتھر
فگار دن کے برہنہ سر پر برس رہے تھے
ریل کی پٹری کو کاٹتی ہوئی کہنہ سڑک پر
انبوہِ آدم رواں دواں
قریب ہی پُل کے نیچے بیٹھے دھوئیں میں پریشاں حال
اپنے وجود کو تلاشتے چند انسان
موت کی آغوش میں پلتے ہوئے
دشت نما چہروں پر بے خوابی کی جھریاں
بد قسمتی کی دھول میں اٹے ہوئے بال
بوسیدہ پیراہن سے جھانکتا استخواں
آنکھوں میں خمارِ آشفتگی
جس میں ٹھکرائے جانے کا غمِ جاوداں پنہاں
اس ہجومِ آشفتگاں سے ایک ژولیدہ مو
اپنی رگوں میں زہر اتارنے لگتا ہے
زندگی بے اختیار چیخنے لگتی ہے
اے دشمنِ جاں یہ کیا۔۔۔؟
آشفتہ نوا گویا ہوا
سن اے زندگی!
’’خدا نے فقط تجھے عطا کر کے
بدلے میں مجھ سے کیا کچھ نہیں چھینا
اُس کے بے اماں جہان میں
رشتے بکتے ہیں
جذبات کا بیوپار ہوتا ہے
محبت بھیک مانگتی، تلوے چاٹتی ہے
جھوٹ مسکراتا ہے
سچ دریوزہ گر ہے
ہر کوئی نفرت کا خریدار ہے
اپنے بیگانے ہیں
یہ سب دیکھنے اور سہنے کے لیے
زہر رگوں میں اتارنا پڑتا ہے‘‘
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |