Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > گردشِ خاک > ۸۔ صبر کا کفن

گردشِ خاک |
حسنِ ادب
گردشِ خاک

۸۔ صبر کا کفن
ARI Id

1688708536651_56116594

Access

Open/Free Access

Pages

۳۲

صبر کا کفن

بخت میاں !ہم نے ایسا تغیر تو نہ چاہا تھا

ان گنجان راستوںپر

کو ئی بھی صدائے غریب پر کان بھی نہ دھرے

جو اپنی زندگی کو گروی رکھے

قسمت کی ریڑھی لگائے

سیہ بختی کی صدائیں دیتا ہے

کبھی کبھی تنگ آ کر موت کو صدا دے بیٹھتا ہے

تو اچانک آواز آتی ہے

بخت میاں۔۔۔! ابھی خود کو آزمائو

شام کے دھندلکے میں

جب وہ ژولیدہ مو، چاک داماں

خستہ حال و وا ماندہ

قسمت کے ٹھیلے کو دھکا لگائے گھر لوٹتا ہے

تو گھر کا بوسیدہ، دروازہ اسے دیکھ کر منہ بسورتا ہے

جس کے تختوں پر نحوست چمکتی ہے

ذر اسا ہاتھ لگانے سے چیخنے لگتا ہے

ایک ایک پاٹ ،نشے میں ڈوبے شرابی کی طرح جھولتا ہے

داخل ہوتے ہی حوا زادی کی بے زار آواز کانوں میں چبھتی ہے

’’شام کو رات نہ کیا کرو بخت!‘‘

’’اندھیرے میں چور ہوتے ہیں‘‘

اے نصیب جلی تجھے کیا معلوم!

اب تو دن میں بھی کئی قسم کے معزز چور ہوتے ہیں

وردیاں پہنے ہوئے اکڑ کر چلنے والے چور

نوٹوں کی مالش سے منہ چمکائے ہوئے چور

کالے چشموں کے پیچھے کالے کرتوت چھپانے والے چور

بند کمروں میں عزتوں سے کھیلنے والے چور

ہمارے پاس ہے ہی کیا جو چوری ہو گا

سونے کو بستر تک تو ہے نہیں

ایک چھت ہے وہ بھی بارش کے بعد دیر تک آنسو بہاتی ہے

ایک زمین ہے جو ہمیں سہارا دیے ہوئے ہے

یہ بھی پائوں تلے سے نکل جائے تو کیا کریں گے

کمرے کی ادھڑے پلستر کی دیواروں سے بیٹی کی یادیں چپکی ہیں

جو سفید لباس میں رخصت ہوئی تھی

ہمیں قرض کے بوجھ تلے دبا کر خود منوں مٹی تلے جا سوئی

’’ارے بخت !یہ تو بتا‘‘

’’امیری غریبی اس مٹی میں تھی ،جس سے آدم بنایا گیا‘‘

’’یا زمین کی قسمت میں تھی جس پر اسے اتارا گیا‘‘

’’یا صرف ہماری قسمت ہی ایسی ہے‘‘

’’اس قدر سردی میں بھی ہمیں لحاف میسر نہیں‘‘

اری بد بخت!!

ہمارا خون گرم رکھنے کو غربت ہی کافی ہے

یہ بوسیدگی ہمارے لحاف ہیں

گرم آہیں ہمارا بستر ہیں

منہ دھونے کے لیے گرم آنسو ہیں

ہم ضرورتوںکے اسیر ہیں

ہم تو خواب بناتے ہیں اور بیچتے ہیں

خود غربت کی دھوپ میں جھلستے، چھتریاں فروخت کرتے ہیں

ہمارے سیاہ طاقچوں میں رکھے دیے

ہماری غربت کی سیاہی اوڑھ کر سو جاتے ہیں

ہم بھوکے بھکاری

قسمت کا کشکول تھامے

خوابوں کی بھیک میں سرگرداں

عزت کی بخشیش کو ترستے ہوئے ہم دریوزہ گر

اس غریب پرور نے ہمیں کیسا غربت کے پھولوں کا ہار عطا کیا ہے

جو ہمارے لیے طوق سے بھی بد ترہے

سانس لیتے ہوئے رگیں دبتی ہیں

زندگی دھندلی دکھائی دیتی ہے

موت بھی واضح نہیں ہو رہی

آخر کب تک ان برہنہ محرومیوں کا تن ڈھانپنے کے لیے

ہم زندہ رہیں گے

کب ہم صبر کا کفن پہنیں گے

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...