Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > گردشِ خاک > ۱۲۔ حزیں حرف گر

گردشِ خاک |
حسنِ ادب
گردشِ خاک

۱۲۔ حزیں حرف گر
ARI Id

1688708536651_56116598

Access

Open/Free Access

Pages

۴۳

حزیں حرف گر

جہاں گر!

فقط ایک تمنا مجھے بے قرار رکھتی ہے

میں تم سے ہم کلا م ہو جائوں

میرے کم مایہ الفاظ تیری سماعت کے منتظر ہیں

مجھے لگتا ہے ،میں تیرا حصہ ہوں

تجھ سے جدا ہوا ہوں

کسی دن پھر آ ملوں گا

تو کتنا بے نیاز ہے

رات تیرے ایک اشارے پر دن کواپنے بطن سے جنم دیتی ہے

موسم اپنی کوکھ چیر کر نئے موسم کو زندگی عطا کرتا ہے

اے آدم گر!

میری فریاد بھی سن

میں زمیں زاد ، غم گزیدہ، تشنہ کام، آشفتہ نوا، تہی دست،برہنہ پا

سنسار کے ساگر میں غوطہ زن ہوتا ہوں

چند پراگندہ موتی پاتا ہوں

جو پتھر بن کر میرے سر پہ برستے ہیں

زندگی وحشت زدہ بچے کی طرح گھبراتی ہے

دن رات اور موسموں کا پھیر، سب فریب لگتا ہے

ایسا فریب جس میں ہر شخص خود کو دھوکا دے کر خوش نظر آتا ہے

میں خاک زاد مدت سے ان پتھروں کے بوجھ تلے جی رہا ہوں

میں نے زندگی کو لہو آلود دیکھا ہے

میں نے زندگی کی سسکیاں برداشت کی ہیں

سمندر کے کنارے پر

موجوں سے تنگ آئی خواہشوں کے مدفن دیکھے ہیں

اے عرش نشیں!

یہ کیسی ناآسودہ خواہشیں ہیںکہ انساں

کبھی یزداں نظر آتا ہے، کبھی انسان دکھائی دیتا ہے

ساحل پہ رینگتی ہوئی موجیں اس کے قدموں سے لپٹتی ہیں

سیپیاں اپنے موتی اس کی آغوش میں بھر دیتی ہیں

وہ سمجھتا ہے ساگر نے اپنا سارا خزانہ اس کے سپرد کر دیا ہے

اے جہاں ساز!

میں حزیں شبد گر

جب بھی اس پری پیکر کو لفظوں میں ڈھالنے لگتا ہوں

میرے الفاظ کی صورت بگڑتی چلی جاتی ہے

غربت و افلاس کے مارے ہوئے نحیف چہرے

آنکھوں میں گھومنے لگتے ہیں

سسکتے جسموں کی آہیں ، بھوک سے بلکتے شیر خواروں کی چیخیں

میرے الفاظ کا بدن نوچتی ہیں

اس کی زلفوں کو ذکر کروں تو دھوپ سے بھرے آنگن یاد آتے ہیں

افلاس کی دھول میں اٹی گلیاں دکھائی دیتی ہیں

میرے یہ آزردہ لفظ تخیل کی پیدا وار نہیں

یہ احساس کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں

غموں کے ڈھیر پہ پلنے والے لفظوں میں گلابوں کی مہک کیسے آئے

ایک ناچار ماں کی طرح لفظوں کو پالتا ہوں

روشنائی کا کفن پہنا کر گورِ قرطاس میں رکھ دیتا ہوں

اے جہاں باز!

میں نے روشن محلوں میں ٹھوکریں کھاتی اندھی زندگی کو دیکھا ہے

جو کبھی کبھی غلیظ اندھیرے جھونپڑوں میں مسکراتی ہے

میں اس حد تک غموں کا خوگر ہو گیا ہوں

اب زندگی کی مسرتیں بے سود نظر آتی ہیں

دل پتھر کا شہر لگتا ہے

جذبات سے عاری، احساس سے عاری

اے آدم گر!

کیا یہ فریب اور لفظوں کا ہیر پھیر سرشت ِ آدم ہے؟

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...