1688708536651_56116600
Open/Free Access
۴۹
آوارگانِ خاک
کائنات خاموشی کی ردا اوڑھے محوِ عبودیت تھی
نورِ ابد نے خلقتِ نور کو جمع کیا،اور فرمایا
’’میں چاکِ زماں پر ایک سفال زاد بھیجنے لگا ہوں
جسے زمامِ اختیار دوں گا‘‘
ایوانِ فلک میں موجود نوری مخلوق نے سرِ تسلیم اٹھایااور گویا ہوئی
یعنی وہ جو فسادو خوں ریزی کریں گے
’’جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے‘‘
نورِ ازل کا لمس پا کر مہرۂ خاک میں روح در آئی
اسمائے با برکت پکارے گئے
نوری مخلوق سجدے میں جھک گئی
تکبر نے ’’ناری‘‘کو لعین قرار دے کردھتکار دیا
یہ خاک و آتش کا پہلا معرکہ تھا
جس میں خاک برتر اور آتش ابتر ٹھہری
ابتری نے خاک زاد کو بہلایا
یوں خاکِ مطلق الاختیار سر تا پا برہنہ چاکِ زمان پر آ گئی
فلک سے زمین پر آتے اختیار آدھا رہ گیا
اس پر بھی دو دفترِ اعمال کندھوں پر لاد دیا
یوں آغازِ سلسلۂ آوارگانِ خاک ہوا
تنہائی اور ہجر کی ستائی یہ خاک
وصل کو ترستی ہوئی سری لنکا کے جنگلوں سے
جدے کے صحرائوں میں بھٹکتی ہوئی
مکہ کی وادیٔ غیر ذی زرعۃ میں وصل پذیر ہوئی
ابھی وصل کا نشہ بھی نا اترا تھا
’’کابیل ‘‘نے خاکِ متلون کا رنگ اپنا لیا
نسلِ خاک مصر و روم تک پہنچ گئی
موجدِ خامہ بن کر اپنی تقدیر لکھنے لگی
فلک سے دھتکاری گئی آتشیں سوچ بھی ساتھ ساتھ پلتی رہی
جو ود،سواع،یغوث،یعوق اور نسر کی صورت بہکاتی رہی
ضلالت و گمراہی کے سیلاب سے نبرد آزما ہو نے کے لیے
سفینہ ٔ نجات بنایا گیا
دہکتے تندور سے نکلنے والا سیلاب
فرعونیت کو غرق کرتا ہوا طور پہ کلیم بن گیا
یہ صدیوں کا سفر
کہیں زندگی اور کہیں قحط
کبھی من و سلویٰ کی عنائیتیں
کبھی بادِ صموم کے تھپیڑے
خاکِ متلون کی ترنگِ ابد سے نظر اندازی
بہارِ حیات کی رنگینیاں چھوڑ کر خزاں میں رنگ بھرنے کی کوشش کر نے لگے
نورِ ابد کے پیغام بر نے کہا
’’اپنے گھر کے دروازوں سے ہو کر گزرو جن کی چوکھٹوں کو گہن لگ رہا ہے‘‘
مگر وہ اجداد کی محروم العقلی کے وارث
تمنائے عذاب کر نے لگے
یوں شہرِ سدوم کا وجودِ ناگوار سرائے خاک سے معدوم ہو گیا
مگر یہ نارِ بد بخت خاکِ سیاہ کو بہکاتی رہی
انسان فطرت سے کھیلتا رہااور آوازآتی رہی
’’قسم ہے زمانے کی بے شک انسان خسارے میں ہے‘‘
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |