1688708536651_56116604
Open/Free Access
۵۹
ریزۂ ریگ
میں ریگ ِ رواں کا اک مضطرب ذرا
دشت کی پہنائی میں بھٹکتا ہوا
آندھیوں کی غلامی میں اڑتا ہو
جس کا وجود دوسرے ریگ ریزوںکے سوا کچھ نہیں
جس کی اندھی قسمت میںدشت کی اذیتوں کے سوا کچھ نہیں
اپنے وجود سے روز جدا ہوتا ہوا
اپنے خشک آنسو نگلتا ہوا
کبھی ریت کے بھاری ٹیلوں میں دب گیا
کبھی سطحِ ریگ پر حدت سے جل گیا
سر بریدہ ،بے دست و پا لڑھکتا ہوا
وسعتِ دشت میں خود کو ڈھونڈتا ہوا
امروز سے ڈرا ہوا فردا سے نا امید
جسے اک ذرا گوشۂ تنہائی نصیب نہیں
میں صحرا نورد تشنگی کا مارا ہوا
بادِ صر صر کی سفاکیوں سے تھک چکا ہوں
زیست کی چالاکیوں سے تھک چکا ہوں
ریت کے منتشر قافلوں میں سفر کرتے تھک چکا ہوں
میری تقدیر میں لالے کا رنگ کہاں
کلی کا تبسم کہاں
نارستہ نا منزل کا نشاں
تعبیر تو کیا خواب بھی نہیں
جلتے ریگ زار میں دشت کی بیداد گری کا تنہا گواہ
مغموم صبحوں ،ملول شاموں کی بھٹیوں میں تپتا ہوا
سورج کی کرنوں کے نیزے سہتا ہوا
تیز آندھیوں اور طوفانوں کا مارا ہوا
جو شاید کسی روز
مجھے جلتے ریگ زار کی وسعتوں سے اڑا کر
کسی گلزار کی نرم و گداز فضا میں لے جائیں
جہاں خوشبوئوں کے قافلے
پرندوں کی چہکار
پانیوں کے جھرنے ہوں
اس مٹی میں شامل ہو جائوں
میری پیاس مٹ جائے
میرا بدن کسی گل لالہ کو جنم دیتے ہوئے مر جائے
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |