Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > گردشِ خاک > ۱۹۔ کتاب اور محبت

گردشِ خاک |
حسنِ ادب
گردشِ خاک

۱۹۔ کتاب اور محبت
ARI Id

1688708536651_56116605

Access

Open/Free Access

Pages

۶۲

کتاب اور محبت

اچانک بند دروازہ کھلا

تاریکی میں ٹھوکریں کھاتی دو آنکھیں داخل ہوئیں

تاریکی کو ہٹاتے ہوئے دو ہاتھ کھڑکی تک پہنچے

زنگ آلود کھڑکی وا ہوئی تو اندھیرا باہر بھاگنے لگا

قدم پڑتے ہی فرش نے انگڑائی لی

مدھر چاپ سنتے ہی مکڑیاں جھرجھری لے کر جاگیں

پائوں سے لپٹتی دھول نے استقبال کیا

پراگندہ کمرے میں عجیب سراسیمگی طاری تھی

تمام الماریاں کتابوں سمیت سجدہ ریز تھیں

ایک کونے میں دیمک زدہ کتابوں کے انبار

جن کی سحر آگیں سسکیاں پیراہن سے لپٹ رہی تھیں

اوندھے منہ پڑی کتابیں آنے والے کوحیرت سے تک رہی تھیں

’’یہ انسان ہے یا فرشتہ‘‘

’’کیا اب ہمیں فرشتے پڑھا کریں گے‘‘

’’ یہ حقیقت ہے یا کوئی فریبِ دنیا‘‘

’’یہ کون بھولا ہوا شخص ادھر آ نکلا‘‘

ایک ادھیڑ عمر کتاب آنکھوں سے مٹی صاف کرتے ہوئے بولی

’’یقینا کوئی کباڑی ہو گا‘‘

ایک کونے سے ’’ گمان کا ممکن‘‘ کانپتی آواز میں گویا ہوئی

’’کیا۔۔۔ ؟ میرا ’’اندھا کباڑی ‘‘ آ گیا‘‘

’’نہیں بہن ہمارے ایسے نصیب کہاں‘‘

’’یہ تو کوئی عقلی و بصری نابینا کباڑی لگتاہے

جو شاید ہمیں فی النار کرنے چلا آیا ہے‘‘

اوندھے منہ پڑی الماری سے ایک بوڑھی کتاب تھکی ہوئی آواز میں بولی

’’چلو کتابو! اپنے وجود کو تار تار ہوتے دیکھنے کے لیے تیار ہو جائو

کسی آتش دان میں جلنے کے لیے تیار ہو جائو

تمہارے ورق جلیں گے

تمھارا پیراہن پگھل جائے گا

تمھاری چمڑی اتار دی جائے گی‘‘

کلیاتِ آتش نے بلند آواز میں قہقہہ لگایا

’’کبھی آتش جلا تھا ۔۔ اب ہم جلیں گے‘‘

فلسفہ کی ایک کتاب خوابیدہ لہجے میں گویا ہوئی

’’جلنے سے ہماری بوسیدگی میں قید الفاظ تو آزاد ہو جائیں گے ناں‘‘

اچانک ایک آواز نے سب کو خاموش کرا دیا

’’جہاں پڑی ہو،چپ چاپ پڑی رہو، ورنہ ماری جائو گی

تمھارا جسم ادھیڑا جائے گا

گلیوں گلیوں رسوائی ہو گی‘‘

ایک کونے سے ممتاز حسین کی ’’ترقی پسند ادب نے نعرہ لگایا

’’گویا ہم علم ِ بغاوت بلند کریں گے‘‘

’’یہ ناانصافی ہے‘‘

ایک کونے سے ’’انگارے‘‘کی آواز چمکی

’’ممکن ہے ہمیں اس سے بہتر زندان میسر آ جائے‘‘

بڑھتے ہوئے ہاتھ کی انگلیاں الیکٹرک بورڈ تک پہنچیں

بلب میں ایک مدت سے قید روشنی نے آخری ہچکی لی

چھت سے لٹکتا زنگ خوردہ پنکھا ترنم سے جھومنے لگا

اس کے پروں سے اڑتی ہوئی گرد

 معاشرے کی بے حسی پرنوحہ کناں تھی

کتابوں نے چہرے سے گرد جھاڑتے ہوئے آنکھیں کھولیں

اچانک سب پر حیرانی طاری ہو گئی ، آخر یہ کون ہے؟

’’باغ و بہار ‘‘ نے طلسمی سکوتِ دیرینہ کو توڑا

’’کہیں بصرے کی شہزادی تو نہیں آ گئی‘‘

’’الف لیلیٰ ‘‘انتہائی پُر مسرت انداز میں کہنے لگی

’’مجھے تو ’’شہر زاد‘‘ معلوم ہوتی ہے‘‘

’’گلزارِ نسیم ‘‘ نے دونوں کی آواز کاٹی

’’ارے یہ تو میری ’’بدرِ منیر ہے‘‘ ہے‘‘

’’داستانِ امیر حمزہ‘‘طلسماتی صدا میں گویا ہوئی

’’یہ تو کوہِ قاف کی پری ہے جسے انسان نے قید کر لیا تھا

یا پھر یہ راجہ اندر کی کوئی اُپسرا ہے

اس کی جھیل جیسی نیلی شفاف آنکھوں میں جھانکو

جیسے یہ کسی لامتناہی جستجو میںمحوِ سفر ہیں

روشن جبیں، یاقوت ہونٹ، رخساروں پہ سرسوں

یہ تو کوئی مصر کی دوشیزہ لگتی ہے

مگر یہ کچھ بولتی کیوں نہیں؟‘‘

اچانک بنارسی ساڑھی میں ملبوس’’رات کی دہلیز پر‘‘ آگے بڑھی

’’بس بہن ہمیں پڑھنے والے ذرا کم گو ہوتے ہیں‘‘

اُپسرا نے تمام کتابوں کو انتہائی غور سے دیکھا

پھر ایک کتاب کھولی جس کا نام ’’محبت ‘‘ تھا

اس کے ہاتھوں کا لمس پاتے ہی ’’ محبت‘‘ مہک اٹھی

لفظ کاغذ کی سفیدی پر ابھرتے چلے گئے

اس نے سوچا

یہ کتاب گاہ ہے یا لفظوں کا قبرستان

محبت کو تھپکی دی، سینے سے لگایا اور رخصت ہوئی

محبت نے اسے اپنے سحر میں گرفتار کر لیا

کبھی اس سے لفظوں کے گلاب چنتی

کبھی معانی و مفاہیم کی خوشبوئیں چراتی

کبھی مفاہیم کی آبشاروں میں نہاتی

کبھی پڑھتے پڑھتے چہرے پہ رکھ کر سو جاتی

محبت کا حرف حرف اس کے چہرے کا نور جذب کرتا

مہ و مہر کی گردش لفظوں کو نیا پیراہن دیتی

ہر رات حرف و معنی کا کھیل ہوتا

محبت کا دوسرا باب شروع ہوا

جب اسے دشت کی وسعتوں میں اکیلے چلنا پڑا

تنہائی کے پہاڑوںکو کاٹنا پڑا

سسکتی یادوں کو آنسو پلانے پڑے

صبح کے زخموں پر ضبط کا مرہم لگانا پڑا

شام کی دہلیز پر انتظار کے دیے جلانے پڑے

مہجور راتوں کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں

در و دیوار پہ چھائی اداسی کے بین سننے پڑے

تو تنہائی سے لڑتی، اندھیرے کو کاٹتی، زخموں کو کریدتی

جب نیم شبی میں آہ و فغاں کے سوا کچھ نہ رہا

نیلی روشن آنکھوں میں انتظار کے سوا کچھ نہ رہا

دلِ دریدہ میں یادوں کی غنیمت کے سوا کچھ نہ رہا

زندگی کی سب حلاوتیں کڑواہٹوں میں بدل گئیں

زندگی کی سب آوازیں ،آہٹوں میں بدل گئیں

تو اس نے باب کو مکمل کیے بغیر

ایک کاغذ کا کونا موڑ کر دل الماری میں رکھ دیا

وہاں ’’ محبت ‘‘ کے سوا اور بھی کتابیں تھیں

جنھیں کونا موڑ کر رکھ دیا گیا تھا

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...