1688708536651_56116609
Open/Free Access
۷۴
گلِ امید
الفاظ کے نشتر میری سماعتوں کو چیرتے ہوئے
میرے دل میں پیوست ہو رہے تھے
یوں لگ رہا تھا جیسے
میرے احساسات کسی راہِ پُر خار سے گزر رہے ہوں
میری تھر تھراتی ہوئی زبان کچھ بھی کہنے سے قاصر تھی
نجانے کتنے ہی جملے زباں کی نوک تک آتے آتے دم توڑ گئے
میں حواس باختہ یوں بیٹھا تھا
جیسے کوئی بہرا…صدائوں سے بہت دور
خیالات نے ہر چیز کو ’’لا‘‘ کے پیمانے پر رکھ دیا تھا
میرا یقیں مجھ پہ خندہ زن تھا
گماں کے مسافر آہِ سرد کے ساتھ مجھے تک رہے تھے
پر انہیں کیا معلوم ……؟
کون جانتا تھا …؟
یہ فصل ِ بہاراتنی جلدی خزاں کی چادر اوڑھ لے گی
مگر وہ گماں کے مسافرجو اپنی عادت کے ہاتھوں مجبورہیں
کچھ حاسد نگاہیں اُس خزاں کی مثل ہوتی ہیں
جن کے دیکھتے ہر پھول بکھر جاتا ہے
شاخیں سوکھ جاتی ہیں
پتوں پر سکوتِ جاں کنی طاری ہوجاتا ہے
یہی بس دل کا عالم تھا
جیسے کسی َمر گھٹ سے راکھ اُڑ رہی ہو
اب سوختہ صبحوں اور بد نصیب راتوں کے سوا کچھ نہیں بچا
لیکن! پت جھڑ کاموسم کب سدا رہتا ہے
پھر سے آشا کی کونپلیں پھوٹیں گی
گلِ امید کو کھلنے سے کون روک سکتا ہے
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |