1688708536651_56116614
Open/Free Access
۸۲
ہوٹل میں ایک شام
جونہی نرم ہوا ہوٹل کے پردوں سے ٹکرائی
ایک لذت بھری صدا نے میرے کانوں کی لوئوں کو چوما
’’دال، بھنڈی، ٹنڈے، آلو قیمہ، چکن کڑاہی‘‘
’’جی صاحب۔۔۔۔!‘‘
’’کیا کھائیں گے آپ‘‘
میں نے دال کا کہا اور باہر دیکھنے لگا
تندور پہ ہنگامہ آرائی کا منظر
جیسے کسی محاذ پر شورِ قیامت
نان بائی لبوں پہ مسکراہٹ سجائے
آنکھیں دھوئیں کے مرغولوں میں بند کیے
مست و بے خود
اپنی دھن میں روٹیاں لگا رہا ہے
کبھی کبھی محاذ آرائوں کو دیکھتا ہے، مسکراتا ہے
’’بھیا ۔۔۔ اب میری باری ہے‘‘
ہال میں ارد گرد کی میزوں پر بیٹھے
مسافرت ، مزدوری اور بیزاری کے مارے ہوئے
ایک دوسرے سے دشتِ معیشت کا احوال بیان کرتے ہوئے
’’یار اس دفعہ بل بہت زیادہ آئے ہیں‘‘
’’ہاں یار مہنگائی کی حد ہو گئی ہے‘‘
’’ دو وقت کام کر کے بھی دو وقت کی روٹی نہیں پوری ہوتی‘‘
برتنوں کی کھنکھناہٹ اور مکھیوں کی بھنبھناہٹ
ان سب میں ابھرتی ہوئی آواز
’’ایک دال فرائی۔۔۔ ہاف چھوٹا گوشت‘‘
’’اوئے چھوٹے ۔۔ ایک کپ گرما گرم چائے‘‘
میں آوازوں کے ہجوم کو دیکھتا رہا
میری طرف نہ دال آئی نہ روٹی
نظم سے اپنی بھوک مٹائی اور چل دیا
کانوں میں ایک آواز گونج رہی تھی
’’بھیا ۔۔! بھیا۔۔! آپ کی دال فرائی‘‘
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |