1688708536651_56116623
Open/Free Access
۹۶
نارسائی
ایک مدت گزر گئی
گھر والوں سے کوئی فرمائش نہیں کی
ایک عرصے سے آئینہ نہیں دیکھا
دیکھوں بھی کیا ؟
خود کا چہرہ تو یاد نہیں
مجھ پر کونسا رنگ اچھا لگتا ہے؟
معلوم نہیں
میں بال بنائوں تو کیسا لگتا ہوں؟
میں مسکرائوں تو کیسا لگتا ہوں ؟
میرا آئینہ بھی میرے اندر کی طرح لکیروں سے اٹا ہوا ہے
میں ایسے لمحوں میں جیتا ہوں
جو میرے بس میں نہیں رہے
خوشبوئوں سے گھبراتا ہوں
رنگوں سے ڈرتا ہوں
دکھوں سے کھیلتا ہوں
ماضی کے خوابوں سے ڈرتا ،آنکھیں بند نہیں کرتا
چارسو پھیلے اندھیرے میں روشنی تلاشتا ہوں
امروزو فردا کی الجھنوں میں رونے لگتا ہوں
یادوں کے در پہ دستک دیتاہوں
مگر دروازہ نہیں کھلتا
آنکھوں کے ساحلوں پہ اترتے ہوئے ،غموں کے سفینے
میرے ضبط کے ساحل کو ڈبو دیتے ہیں
میں رنجور صبح سے نکل کر ،حزیں دوپہر سے رینگتا ہوا
شام کی آزردہ پگڈنڈیوں پر جا پہنچتا ہوں
جہاں محرومیوں کا اندھیرا میرا منتظر ہے
وہی ’’لا‘‘کی لامتناہی رات
یقین سے کوسوں دور ،گماں کے جنگلوں میں بھٹکتا ہوا
اپنی ہستی کو ڈھونڈتا ہوں
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |