Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > گردشِ خاک > ۳۷۔ نارسائی

گردشِ خاک |
حسنِ ادب
گردشِ خاک

۳۷۔ نارسائی
ARI Id

1688708536651_56116623

Access

Open/Free Access

Pages

۹۶

نارسائی

 ایک مدت گزر گئی

گھر والوں سے کوئی فرمائش نہیں کی

ایک عرصے سے آئینہ نہیں دیکھا

دیکھوں بھی کیا ؟

خود کا چہرہ تو یاد نہیں

مجھ پر کونسا رنگ اچھا لگتا ہے؟

 معلوم نہیں

میں بال بنائوں تو کیسا لگتا ہوں؟

میں مسکرائوں تو کیسا لگتا ہوں ؟

میرا آئینہ بھی میرے اندر کی طرح لکیروں سے اٹا ہوا ہے

میں ایسے لمحوں میں جیتا ہوں

جو میرے بس میں نہیں رہے

خوشبوئوں سے گھبراتا ہوں

رنگوں سے ڈرتا ہوں

دکھوں سے کھیلتا ہوں

ماضی کے خوابوں سے ڈرتا ،آنکھیں بند نہیں کرتا

چارسو پھیلے اندھیرے میں روشنی تلاشتا ہوں

امروزو فردا کی الجھنوں میں رونے لگتا ہوں

یادوں کے در پہ دستک دیتاہوں

مگر دروازہ نہیں کھلتا

آنکھوں کے ساحلوں پہ اترتے ہوئے ،غموں کے سفینے

میرے ضبط کے ساحل کو ڈبو دیتے ہیں

میں رنجور صبح سے نکل کر ،حزیں دوپہر سے رینگتا ہوا

شام کی آزردہ پگڈنڈیوں پر جا پہنچتا ہوں

جہاں محرومیوں کا اندھیرا میرا منتظر ہے

وہی ’’لا‘‘کی لامتناہی رات

یقین سے کوسوں دور ،گماں کے جنگلوں میں بھٹکتا ہوا

اپنی ہستی کو ڈھونڈتا ہوں

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...