Search from the table of contents of 2.5 million books
Advanced Search (Beta)
Home > گردشِ خاک > ۳۸۔ عیدی

گردشِ خاک |
حسنِ ادب
گردشِ خاک

۳۸۔ عیدی
ARI Id

1688708536651_56116624

Access

Open/Free Access

Pages

۹۸

عیدی

جب لوگ آسمان کی وسعتوں میں

ایک خم دار دھندلی سی لکیر تلاش کر رہے تھے

جو سب کے لیے باعث ِ مسرت تھی

مگر کسے خبر تھی

وہ شام میرے لیے غموں کے طوفان لانے والی ہے

اس لکیر کو دیکھتے ہوئے

میرے تصور میں بھی ایک نقطہ سا پھیلنے لگا

جو ایک مانوس صورت کا روپ دھار رہا تھا

چند قیمتی اذیت دہ لمحات میں ڈھلتی صورت

آخر یہ کس کی صورت  ہے؟

اُس شخص کی جو مجھے ادھورا چھوڑ گیا؟

اُس مصور کی طرح

جو منزل کو چھونے کی لگن میں

اپنی تخلیق ادھوری چھوڑ کر چل دے

میں ایک نامکمل تصویر ہوں

میرا مصور کہاں چلا گیا؟

جو مجھے نامکمل چھوڑ گیا،میرے کھلونے توڑ گیا

یہ کھلونے کب مزدوری کے اوزار بن گئے پتا نہیں چلا

میرے خیالات کی دنیا کیوں بکھیر دی گئی

شامِ الم شبِ ملول میں کیوں بدلتی چلی گئی

میں آزردگی کے عالم میں سرِ فلک ابھرتی ہوئی خمیدہ لکیر کو دیکھ رہا ہوں

مجھے بھی اس شخص کو عیدی بھیجنی ہے

سنا ہے اس پار بادِ صبا کے قافلے جاتے ہیں

محرومیوں کی ٹوکری میں دریدہ صبحوں کی کلیاں

محزون شاموں کی تنہا کونپلیں

رنجور راتوں کے سرمئی خواب

غمزدہ لمحوں کے زردانے

یادوں کے تازہ گلاب سجائے منتظر ہوں

اے بادِ صبا میری عیدی اس تک پہنچا دینا

اسے یہ بھی بتا دینا

اب میں کسی سے ضد نہیں کرتا

اب میں کھلونے ٹوٹنے پر روتا نہیں ہوں

اب میں خود کھلونا ہو گیا ہوں

میرے آنسو پلکوں کی دیواروں کے سائے میںبیٹھے رہتے ہیں

میرا ضبط انھیں باہر نہیں آ نے دیتا

 

Loading...
Table of Contents of Book
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
ID Chapters/Headings Author(s) Pages Info
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...