1688708536651_56116629
Open/Free Access
۱۱۱
تاشی تصویر گر
میں اذیت ناک لمحوں کی گود میں سر رکھے رو رہا ہوں
بچپن کی یادوں کے کچے رنگ
تصویر کے کینوس پر پکے رنگوں میں ڈھلتے جا رہے ہیں
یہ رنگ میرا قیمتی اثاثہ ہیں
دھنک تتلیوں کے دیس سے یہ رنگ چرانے آتی ہے
یہ سب میرے تصور کی پیدا وار ہیں
کسی تصویر میں امن کہلاتے ہیں
کسی میں محبت کے دکھ بن جاتے ہیں
چند تصویریں مجھے آزردہ کر دیتی ہیں
جن کے رنگ کچے ہیں
رخساروں پر جھریاں نمایاں ہیں
کبھی کبھی دل کر تا ہے
ان کو جمع کر کے یادوں کے آتش دان میں جھونک دوں
اور پھر نئے اذیت پاروں کی نمائش لگائوں
مگر یہ دکھ اپنی جگہ سلامت رہتا ہے
میری اذیت تصویر کیسے ہو سکتی ہے
کوئی صاحبِ نظر ہو
جو ان تصویروں سے باتیں کرنے کا ہنر جانتا ہو
میرے رنگوں سے مکالمہ کرے
میری تصویروں کے دکھ بانٹے
مگر میں تو خود بھی ان تصویروں کی مانند ہوں
جو بے رنگ کینوس پر ساکت کھڑی ہیں
میں ان گنت صورتوں کا خالق،اپنی پہچان سے نا آشنا
کوئی تو ہو جو مجھے تصویر کرے
مجھ میں زندگی کے رنگ بھرے
نمائش میں ہی سہی لوگ مجھ سے باتیں کریں
میں اپنی بے جان مخلوق کا دیوتا
ان تصویروں سے ہم کلام ہوتا ہوں
جو میری کم مائیگی پر آنسو بہاتی ہیں
سارا کینوس رنگین آنسوئوں سے بھر جاتا ہے
میری تخلیق پر انگلی اٹھانے والے یہ ذہنی مفلوج
روشن چہروں والے بے بصر
شوخ لباسوں والے پتھر دل
احساس سے عاری دولت گر
ریا اور مکاری کے کچے رنگوں سے چمکتی مخلوق
میرے پکے رنگوں کی اہمیت کیا سمجھے گی
یہ نو بلوغیت کے دائرے میں قید عفونت زدہ تنگ ذہن
ان رنگوں کی وسعت کا اندازہ کیا کریں گے
جن کی خوشبو تک پہنچتے زندگی کا سورج ڈھل جاتا ہے
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |