1688708536651_56116630
Open/Free Access
۱۱۴
نجانے کس لیے
سحرِ حزیں،مسائے الم،شبِ ملُول،دلِ غمگیں
حسرتِ مسکیں،ادا س راہیں ،کھوئی کھوئی نگاہیں
بنا ہم سفر،نگر نگر دربدر
سانسیں بے قرار ،پا فگار
بے رنگ آسماں ،دھواں ہی دھواں
آرزئوں کے جال میں
حسرتِ وصال میں،گم کسی خیال میں،کسی کے ملال میں
بھیگی ہے آستیں، یارم نہیں قریں
ذاتی ملکیت میں کچھ آنسو،اس کا وجود نہیں جس کی جستجو
دلِ منتظر اداس ہے ،کوئی آس نہیں پھر بھی آس ہے
بے کیف سی زندگی،لبوں پہ آثارِ تشنگی
چہرے سے چھلکتی آشفتگی
عجب سے بے دلی،نہ غم ہے نہ خوشی
ہونٹوں پہ بے نام سی مسکراہٹ سجائے
بس ہیں اپنے کام چلائے
آنکھوں میں بھٹکتے ہوئے خواب
محرومیوں کے مہکتے ہوئے گلاب
رباب غم پہ رقص کرتی حیات
آنکھوں میں دم توڑتی رات
ہر سو ہیں مہیب سائے،جو اپنے تھے ہوئے پرائے
اذیتوں کی ردا اوڑھے ہوئے
مصیبتوں سے رشتہ جوڑے ہوئے
یادوں کی نہر کے کنارے
جذبات کے ٹوٹتے ستارے
برائے نام محبتیں ،رسمی سی الفتیں
محبت ہوئی بے سرور ،وفا کے ہاتھوں مجبور
خواہشوں کا ڈھلتا آفتاب،زیست ہوئی اِک سراب
بجھے بجھے چراغ،خالی خالی ایاغ،سینے میں جلتے داغ
گنگ صدائیں،گرم ہوائیں
قسمت کے انوکھے راگ ،ضرورتوں کے کالے ناگ
دل دکھاتی بہاریں،آنکھوں سے گرتی آبشاریں
جذبات بھی ٹھہرے ٹھہرے،الفاظ بھی تھکے تھکے
نفرت کی پھوٹتی کرن ،چاہت کا جلتا پیر ہن
زندگی کی کچی راہ پہ اڑتی غبار میں
میں بھی کچھ غبار اڑا رہا ہوں نجانے کس لیے؟
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |
ID | Chapters/Headings | Author(s) | Pages | Info |